• 5 مئی, 2024

حضرت خان بہادر شیخ رحمت اللہؓ

حضرت خان بہادر شیخ رحمت اللہ رضی اللہ عنہ

حضرت خان بہادر شیخ رحمت اللہ رضی اللہ عنہ ولد شیخ امیر اللہ صاحب قوم قریشی اصل میں سونی پت صوبہ ہریانہ (انڈیا) کے رہنے والے تھے۔ آپ 1879ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے آپ کو بچپن میں ہی تعلیمی اغراض کے لیے اپنے بھائی کے پاس جو سیالکوٹ میں رہائش رکھتے تھے، بھیج دیا تھا۔ ابھی آپ مڈل جماعتوں میں ہی پڑھتے تھے کہ کبھی کبھی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ اور سید حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ اور کئی دیگر بزرگان سلسلہ کی مجالس میں شامل ہوا کرتے تھے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے دعاوی کے متعلق ذکر خیر ہوتا رہتا تھا۔ انہی دنوں طالب علمی کے زمانہ میں ہی آپ نے بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور پھر 1905ء میں اپنی بڑی بیوی کے ہمراہ قادیان حاضر ہوکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح صحابہ حضرت اقدس علیہ السلام میں شامل ہوگئے۔

(الفضل 20؍دسمبر 1955ء صفحہ 6)

حصول تعلیم کے بعد انجنیئرنگ کی ملازمت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ ’’تاریخ احمدیت صوبہ سرحد‘‘ میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’موسم گرما 1904ء میں جب حضرت مولانا عبدالکریم صاحب پشاور تشریف لائے تو خاکسار کو فرمایا کہ پشاور صدر بازار میں شیخ رحمت اللہ سب اوورسیر کو تلاش کر کے بلوا لو چنانچہ حسب فرمائش حضرت مولانا خاکسار نے …. حضرت مولوی صاحب کا پیغام دیا کہ وہ تشریف لائے ہیں اور آپ کو حضرت مولانا غلام حسن کے مکان پر شہر میں یاد کیا ہے۔ 1904ء کے بعد تا پنشن اُن سے دوستانہ، برادرانہ اور محبانہ تعلق رہا اور بڑے اخلاص سے پیش آتے رہے۔ بدوران ملازمت ایم ای ایس سب اوورسیر، اوورسیر ایس ڈی او، انجنیئر اور ایجنسی مین رہے۔ خان صاحب اور خان بہادر کا خطاب پایا۔ آپ پشاور، مردان، لنڈی کوتل اور مالا کنڈ اور چکدرہ میں رہے…. سلسلہ احمدیہ کی امداد میں دل کھول کر حصہ لیا کرتے تھے ….. پشاور شہر میں دار الرحمت کا مکان خان بہادر شیخ رحمت اللہ نے اپنے خرچ سے بنا کر رہائش اختیار کی، یہ مکان 1923ء میں تعمیر کیا اور چند سال کے بعد انجمن کو دے دیا ….‘‘

(تاریخ احمدیت صوبہ سرحد از حضرت قاضی محمد یوسف ؓ صفحہ 144 تا 147)

اپنی ملازمت کے سلسلے میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے مختلف علاقوں میں رہے۔ بگٹ گنج پشاور میں آپ کے سکنی مکانات تھے۔ خلافت ثانیہ کے آغاز میں آپ نے محلہ دار العلوم قادیان میں بھی ’’رحمت منزل‘‘ کے نام سے عالی شان اور فراخ کوٹھی بنالی تھی گوکہ یہاں آپ نے قریبًا 1938ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد رہائش اختیار کی۔فہرست صحابہ قادیان مندرجہ تاریخ احمدیت جلد ہفتم میں آپ کا نام 379 نمبر پر موجود ہے۔ تقسیم ملک کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور ماڈل ٹاؤن میں مکان ملا۔ بالآخر یہیں بیمار ہوئے اور 4؍دسمبر 1955ء کو وفات پائی، بوجہ موصی ہونے کے جنازہ ربوہ لایاگیا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ (الفضل 7؍دسمبر 1955ء صفحہ8) حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نے آپ کی تین شادیوں کا ذکر کیا ہے، پہلی بیوی کا ذکر اوپر گزرا ہے جن کو ساتھ لے کر آپ قادیان بیعت کے لیے گئے۔ دوسری شادی 1917ء میں گجرات میں کی، یہ بیوی مرض سل سے فوت ہوگئیں تو تیسری شادی حضرت شیخ فتح محمد صاحب احمدی جموں کی بیٹی محترمہ امۃ الرحمٰن صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ آپ کی نرینہ اولاد میں چار بیٹے تھے۔ آپ کی بیٹی محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ کا نکاح مکرم خلیفہ عبدالمنان صاحب ابن خلیفہ عبدالرحیم صاحب کے ساتھ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ نے پڑھایا۔ (الفضل 26؍ستمبر 1943ء صفحہ5) آپ حضرت میاں غلام حسین صاحب ایس ڈی او ابن حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ آف مردان کے ہم زلف تھے۔ آپ کی وفات پر محترم جمعدار فضل الدین صاحب اوورسیر ربوہ نے آپ کا مختصر ذکر خیر کرتے ہوئے لکھا: ’’یہ تمام واقعات مجھ سے 1910ء میں مردان میں شیخ صاحب نے بیان کیے جبکہ آپ ایم ای ایس میں ایس ڈی او تھے اور میں تبدیل ہوکر ان کے ماتحت لگایا گیا اور وہیں میں نے بھی بیعت کی …. میں شیخ صاحب کی ماتحتی میں صرف ڈیڑھ سال کا عرصہ رہا۔ شیخ صاحب نے میرے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کیا، مجھے اپنے وسیع مکان کے احاطہ میں دو کمرے دیے جن میں میری اور میرے بیوی بچوں کی رہائش ہوتی تھی اور آپ کی مرحومہ بیوی میرے بیوی بچوں سے فیاضانہ سلوک کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم اور مرحومہ کو اپنے قرب میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجات عطا فرمائے۔ آپ نہایت ہی بُرد بار، متحمل مزاج اور خاموش طبیعت رکھتے تھے۔ پنجاب کے فسادات کے دنوں میں آپ کی کوٹھی رحمت منزل قادیان میں ہزاروں لوگوں نے پناہ لی جن میں سے میرے خاندان کے اٹھتالیس کس بھی موضع حمزہ ضلع امرتسر سے آکر پناہ گزیں ہوئے تھے۔ اُس وقت شیخ صاحب اور ان کے بڑے بھائی شیخ اللہ بخش صاحب بار بار لوگوں میں پھر کر ان کی دلجوئی کرتے تھے اور حتی الوسع ان کی خدمت میں ہر وقت کمر بستہ رہتے۔ غرض آپ میں بہت سی خوبیاں تھیں ….‘‘

(الفضل 20؍دسمبر 1955ء صفحہ6)

(آپ کی تصویر آپ کے نواسوں محترم باسط خلیفہ صاحب اور حفیظ خلیفہ صاحب آف ٹورانٹو نے مہیا کی ہے، جزاہم اللّٰہ احسن الجزاء)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

سو سالہ جوبلی منانے پر عصر حاضر میں لجنہ اماءاللہ اور ناصرات کی ذمہ داریاں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2022