• 19 مئی, 2024

’’عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر ایک روایت ہے۔ علی محمد صاحب حضرت مولانا ابوالحسن صاحب کے حالات اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’آپ بڑے پائے کے عالم تھے۔ حضرت اقدس کا نام اور پیغام تمام ڈیرہ غازی خان کے ضلع میں آپ کے ذریعے پہنچا۔ مخالفوں نے آپ کو بہت تکالیف دیں مگر آپ نہایت ثابت قدم رہے‘‘۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیر مطبوعہ۔ جلد12 صفحہ126)

اور مخالفت کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی۔ ہمیشہ تبلیغ کرتے رہے اور تکلیفیں اُٹھاتے رہے۔

حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر آبادی فرماتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ میں بہت گھبرایا ہوا مخالفت کا ستایا ہوا قادیان پہنچا تو حضور نے فرمایا حافظ صاحب! آپ کیوں گھبرائے ہوئے ہیں؟ اُس وقت حضور کے لہجہ کلام سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ حضور کچھ میری مالی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ مگر میں اس خیال پر نہیں آیا تھا، (یعنی کہ میں اس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا تھا،) مقصد تو یہ تھا کہ میرا قلب مطمئن ہو جائے۔ دل مطمئن ہو جائے اور مخالفوں کی مخالفت سے دل نہ گھبرائے۔ (کیونکہ نبی کی صحبت سے بہرحال انسان ایک قوت پاتا ہے۔ اُس کی قوت قدسی سے اللہ تعالیٰ اس وقت سے قوت عطا فرماتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں میں تو اپنے دل کو مضبوط کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر ہوا تھا۔) کہتے ہیں اور نہ مامورین کے پاس اس لئے جانا چاہئے کہ اُن سے مال لیا جائے بلکہ حسبِ توفیق اُن کی خدمت میں کچھ نہ کچھ بطور ہدیہ پیش کیا جائے۔ حضور نے میرے لئے بہت دعا فرمائی اور بڑے تسلی بخش نصائح سے مطمئن کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے دل میں حضور کی نسبت ایک منٹ بھی شک و شبہ صداقت کے متعلق پیدا نہیں ہوا۔‘‘

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد12صفحہ166-167)

حضرت بابو عبدالرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ میری انکساری اور غریب مزاجی کی وجہ سے میرے سب رشتہ دار اور دوست اور محلے والے اور شہر والے میرے سے خوش تھے اور تعریف کیا کرتے تھے مگر اب ایک دَم بیعت کی خبر سن کر سب رشتے دار (علاوہ جدّی رشتہ داروں کے، کیونکہ جدی رشتہ دار بفضلِ خدا سب میرے ساتھ بیعت میں شامل تھے،) اور دوست اور محلہ دار اور رشتے دار درہم برہم ہو گئے اور دشمن ہو گئے۔ (اور یہی انبیاء کی جماعتوں سے سلوک ہوتا ہے۔ جب نبیوں کے ساتھ سلوک ہوتا ہے تو اُن کے ماننے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔ سارے دشمن ہو جاتے ہیں۔ وہی لوگ جو تعریفیں کیا کرتے ہیں بلکہ اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ یہ نیک ہے، بڑا نیک ہے وہی دشمن ہوتے ہیں۔ مَیں پہلے بھی ایک دفعہ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے بارے میں سنا چکا ہوں۔ ایک دفعہ میں فیصل آباد کے ایک گاؤں میں گیا تو وہاں غیر احمدی بیٹھے تھے۔ اُن کی بڑی تعریف کرنے لگے کہ ایسا نیک اور پارسا اور تقویٰ شعار اور صحیح کیس لینے والا اور سچ بولنے والا وکیل ہم نے نہیں دیکھا۔ لیکن ایک نقص اُس میں ہے کہ وہ قادیانی ہے۔ تو یہی پھر انہیں سب سے بڑا نقص نظر آتا ہے۔ بہرحال یہ کہتے ہیں سب میرے دشمن ہوگئے) اور طرح طرح کی تکلیف اور ایذا دہی کے درپے ہوئے۔ کبھی پنچائت کرتے اور حقہ پانی بند کرتے اور کبھی مولویوں کو بلا بلا کر ہمارے خلاف وعظ کراتے اور رشتہ داروں اور دوستوں اور پبلک کو ہمارے خلاف برانگیختہ کرتے۔ ایک دوکاندار شیر فروش ہمارے ساتھ تھا۔ (یعنی دودھ بیچنے والا۔) اُس سے دودھ لینا بند کرا دیا۔ مزدوروں سے مزدوری کرانی بند کرا دی اور ناطہ رشتہ بند کر دئیے اور لوگوں کو نصیحت کرتے کہ اگر کوئی احمدی کے مکان کے نیچے سے گزرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ قدرت خدا کی، (اللہ تعالیٰ بھی کس طرح بدلے لیتا ہے۔ کہتے ہیں) جو مولوی نصیحت کرتے تھے، وہی میرے گھر پہ آ کر کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ (یعنی عمل کچھ اَور اور نصائح کچھ اَور۔ جب مولوی کا یہ عمل دیکھا تو لوگ ان باتوں کو دیکھ کر بہت پشیمان ہوئے۔ پھر کہتے ہیں کہ) بیعت کرنے کے بعد ہم نے نماز باجماعت چونکہ غیر احمدی امام کے پیچھے پڑھنی ترک کر دی تھی، یا تو علیحدہ علیحدہ نماز پڑھ لیتے یا اپنے میں سے کسی کو امام بنا لیتے۔ اس پر محلے والے تنازعہ اور جھگڑے کرنے لگے۔ ہم نے رفعِ شر کے لئے نماز باجماعت مسجد میں اپنے امام کے پیچھے بھی پڑھنی ترک کر دی۔ بلکہ اپنے مکان پر نماز باجماعت پڑھ لیتے۔ کہتے ہیں جو میں نے کرائے پر لیا ہوا تھا۔ یہ مکان بھی (اس بات پر کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں) مالک مکان نے خالی کرا لیا۔ پھر جب میں نے کرائے پر دوسرا مکان لے لیا اور نماز باجماعت وہاں پڑھنی شروع کر دی تو اس عرصہ میں کہتے ہیں کہ ہم نے تعمیر مسجد کے لئے ایک شخص مسمیٰ رمضان سے جو احمدی تھا، تین دوکانات مع کچھ زمین کے خرید لیں اور اس دوران میں ڈاکٹر بشارت صاحب جو ایک احمدی تھے، وہ بھی وہاں پر بطور پروبیشنل اسسٹنٹ سرجن ہو کر آ گئے۔ جماعت کو ڈاکٹر صاحب موصوف کے آنے سے بڑی تقویت ہو گئی۔ وہ بڑے جوشیلے تھے۔ مغرب، عشاء، فجر کی نماز باجماعت دوکان میں پڑھ لیتے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنا امام بنا لیتے۔ دوکانات لبِ سڑک تھیں۔ بلا خوف و خطر دوکان میں آتے اور نماز کی جماعت کراتے۔ ڈاکٹر صاحب ہر وقت تبلیغ میں مصروف رہتے۔ اور جوش میں فرمایا کرتے تھے کہ میرا دل تو یوں چاہتا ہے کہ ایک کپڑے پر موٹے موٹے حروف میں یہ لکھ کر کہ ’’عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں‘‘ اور اپنے سینے پر کوٹ میں لگا کر منادی کرتا پھروں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیر مطبوعہ۔ جلد12 صفحہ246-248)

حضرت شیخ عطاء اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قادیان سے بیعت کی منظوری بذریعہ خطوط پہنچی اور ساتھ ہی کچھ لٹریچر سلسلے کا جن میں اخبار الحکم بھی تھا ہم لوگوں کو بھیجا گیا۔ (یہ اخبار بھی منظوری کے ساتھ بھیجا گیا) جس کی ہم نے اشاعت کی۔ لوگوں میں چرچا ہوا اور چرچے کے بعد مخالفت کا بازار شدید طور پر گرم ہو گیا۔ جابجا جلسے ہونے لگے جن میں ہم لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جبراً کھینچ گھسیٹ کر لے جایا جاتا اور توبہ پر مجبور کیا جاتا۔ (توبہ کرو کہ مرزا صاحب سچے نہیں۔ ہم اب مریدنہیں رہے۔ خیر کہتے ہیں کہ) بعض کمزور لوگ جو تھے پھسلنے لگے، (سختی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اُن میں استقامت نہیں تھی) اور ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت حافظ صوفی تصور حسین صاحبؓ اور شیخ سعد اللہ صاحبؓ جو کہ براہِ راست صوفی صاحب کے مرید تھے اور یہ عاجز باقی رہ گئے اور دوسرے سبھی لوگ دشمنوں کے دباؤ کی برداشت کرنے سے خائف ہو کر پھر گئے۔ (اب تین آدمیوں کے علاوہ باقی سب احمدیت چھوڑ گئے۔ سختیاں برداشت نہ کر سکے۔ لیکن ان لوگوں نے سختیاں برداشت کیں۔ استقامت دکھائی۔ لکھتے ہیں کہ) صوفی صاحب کو اللہ تعالیٰ استقامت بخشے۔ وہ قادیان پہنچ کر نورِ نبوت سے حصہ پاچکے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص حکمت اور مصلحت نے میرے دل کو غیب سے منور فرمایا۔ (صوفی صاحب تو قادیان جا کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ آئے تھے۔ اُن کا ایمان مضبوط تھا، لیکن میں ابھی تک نہیں گیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی فضل فرمایا اور میرے دل کو روشن رکھا۔) اپنی قدرت نمائی سے منور فرمایا۔ مجھ پر مخالفت کا کوئی اثر نہ ہوا۔ نہ میں اُن کے دباؤ سے دبا۔ بلکہ جتنا وہ دباتے اور ڈراتے، میرا ایمان خدا کے فضل اور رحم سے زیادہ مستحکم ہوتا۔ اُن کے مطالبۂ توبہ کو مَیں یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا کرتا کہ توبہ کس بات سے آپ کرواتے ہیں؟‘‘

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد12 صفحہ312-313)

(خطبہ جمعہ 20 ؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اکتوبر 2021