• 5 مئی, 2024

مسیح موعود اپنی جماعت کو طور پر لے جائے گا

صحیح مسلم کی کتاب الفتن و اشراط السَّاعۃ کی روایت جو حضرت نواس بن سمعان ؓ سے مروی مشہور و معروف طویل حدیث ہے جس میں آنے والے مسیح و مہدی کو چار دفعہ نبی اللہ، نبی اللہ کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ اس وقت میرے سامنے ہے۔ اس مکمل روایت میں یاجوج و ماجوج اور دجال کی آمد، اس کی علامات کے ساتھ ساتھ آنے والے مہدی و مسیح کی آمد اور اس کی وجہ سے دنیا و زمین جن برکات سے نہلائے گی کا ذکر بہت تفصیل سے ہے۔ یہ مضمون قدرے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف روایات میں مذکور ہے۔ جن میں یاجوج و ماجوج اور دجال کی تباہ کاریوں کا ذکر ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ مسیح و مہدی کو وحی کرے گا کہ فَحَرِّزْ عِبادِیْ اِلی الطُّوْرِ کہ اپنے نیک بندوں کو طور کی طرف لے جا تا وہ محفوظ رہیں۔

اس کے بعد مسیح ؑ کے طور سے اترنے اور دجالی قوتوں کا قلع قمع ہونے کا ذکر ہے۔ اس طویل حدیث کے تمام سیاق و سباق سے الگ رہتے ہوئے آج صرف اپنے ماننے والوں کو کوہ طور پر لے جانے پر ہی بحث ہو گی۔

جغرافیائی لحاظ سے کوہ طور مصر کےصحرائے سینا میں ان بلند پہاڑوں میں سے ایک ہے جو مصر سے مدین جاتے یا مدین سے مصر آتے راستہ میں پڑتا ہے۔ اسے طور سیناء، جبل طور یا جبل موسیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی بلندی2,285 میٹر ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں وادی کا نام ’’طوٰی‘‘ ہے۔ جسے وادی مقدس اور البقعۃ المبارکہ بھی کہا گیا ہے۔ اسی مقام پر زیتون کے درخت کا ذکر ہے اور اسی مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی اور اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے مسلم کی اس طویل حدیث کے اس حصہ کو بطور خاص اپنی صداقت میں متعدد بار اپنی کتب اور ملفوظات و گفتگو میں پیش فرمایا ہے۔ جیسے مورخہ18؍اکتوبر 1902ء کو دوران سیر مسیح موعود کے اپنی جماعت کو طور پر لے جانے کے ذکر پر فرمایا جسے اخبار الحکم نے یوں نقل کیا کہ
’’اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی قوم کو طہارت اور تقویٰ کی بلند چٹان پر کھڑا کرے گا کیونکہ طور تجلی گاہ کا حق ہے اس لیے مسیح اپنی جماعت کو قرب اور ہیبت کے مقام پر لے جائے گا …….خدا کا خوف اور ہیبت گناہوں سے بچائے گی اور اس کے تقویٰ اور طہارت میں ترقی ہو گی جو قرب حق کا ذریعہ ٹھہرے گی۔ ہیبت حق کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے طاعون (کو) ایک ذریعہ اور سامان ٹھہرا دیا ہے۔ بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو اس بلا اور طوفان میں بھی خدا سے نہیں ڈرتا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ271-272 حاشیہ ایڈیشن2016ء)

• اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی معرکۃ الآ راء تصنیف چشمہ معرفت میں دو دفعہ بیان فرماتے ہیں۔
1۔ ’’احادیث صحیحہ صاف اور صریح لفظوں میں بتلا رہی ہیں کہ یاجوج ماجوج کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب قوم یاجوج ماجوج اپنی قوت اور طاقت کے ساتھ تمام قوموں پر غالب آ جائے گی اور ان کے ساتھ کسی کو تاب مقابلہ نہیں رہے گی۔ تب مسیح موعود کو حکم ہو گا کہ اپنی جماعت کو کوہ ِ طور کی پناہ میں لے آوے یعنی آسمانی نشانوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرے اور خدا کی زبردست اور ہیبت ناک عجائبات سے مدد لے ان نشانوں کی مانند جو بنی اسرائیل کی سر کش قوم کے ڈرانے کے لیے کوہ طور میں دکھلائے گئے تھے جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وَرَفَعۡنَا فَوۡقَکُمُ الطُّوۡرَ (البقرہ: 64) یعنی کوہ طور میں نشان کے طریق پر بڑے بڑے زلزلے آئے اور خدا نے طور کے پہاڑ کو یہود کے سروں پر اس طرح لرزاں کر کے دکھلایا کہ گویا اب وہ ان کے سروں پر پڑتا ہے تب وہ اس ہیبت ناک نشان کو دیکھ کر بہت ڈر گئے۔ اسی طرح مسیح موعود کے زمانہ میں بھی ہوگا۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ88-89)

2۔ ’’ایسا ہی ایک اور حدیث صحیح مسلم میں ہے جو مسیح موعود کے بارے میں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود جنگ نہیں کرے گا۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں اَخْرَجْتُ عِبَادًا لِّیْ لَا یَدَانِ لِقِتَا لِھِمْ لِاَ حَدٍ فَاَحْرِزْ عِبَا دِیْ اِلَی الطُّورِ یعنی اے آخری مسیح! میں نے اپنے ایک بندے ایسی طاقتور زمین پر ظاہر کیے ہیں (یعنی یورپ کی قومیں) کہ کسی کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں ہو گی۔ پس توان سے جنگ نہ کر بلکہ میرے بندوں کو طور کی پناہ میں لے آ یعنی تجلیات آسمانی اور رو حانی نشانوں کے ذریعہ سے ان بندوں کو ہدایت دے۔ سو میں دیکھتا ہوں کہ یہی حکم مجھے ہوا ہے۔

اب واضح ہو کہ ان بندوں سے مراد یورپ کی طاقتیں ہیں جو تمام دنیا میں پھیلتی جاتی ہیں اور طور سے مراد تجلیات حقہ کا مقام ہے جس میں انوار و برکات اور عظیم الشان معجزات اور ہیبت ناک آیات صادر ہوتی ہیں اور خلاصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ مسیح موعود جب آئے گا تو وہ ان زبردست طاقتوں سے جنگ نہیں کرے گا بلکہ دینِ اسلام کو زمین پر پھیلانے کے لئے وہی چمکتے ہوئے نور اس پر ظاہر ہوں گے جو موسیٰ نبی پر کوہ طور میں ظاہر ہوئے تھے پس طور سے مراد چمکدار تجلیات الٰہیہ ہیں جو معجزات اور کرامات اور خرق عادت کے طور پر ظہور میں آرہے ہیں اور آئیں گے اور دنیا دیکھے گی کہ وہ چمک کس طرح سطح دنیا پر محیط ہو جائے گی خدا بہت پوشیدہ اور مخفی در مخفی ہے مگر جس طرح موسیٰ کے زمانہ میں ایک خوفناک تجلی اس نے ظاہر کی تھی یہاں تک کہ اس تجلی کی موسیٰ بھی برداشت نہ کر سکا غش کھا کر گر گیا اس زمانہ میں بھی وہ فوق العادت الٰہی چمک اپنا چہرہ دکھائے گی جس سے طالب حق تسلی پائیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آج سے پچیس برس پہلے مجھے مخاطب کر کے ایک عظیم الشان پیشگوئی کی ہے جو میری کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ397-398)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی اور مقامات جیسے براہین احمدیہ جلد پنجم اور حقیقۃ الوحی میں اس حدیث کے حوالہ سے کوہ طور کے پاش پاش اور ریزہ ریزہ ہونے کا ذکر کر کے اپنے دور میں زلزلے آنے کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن اس مضمون پر اللہ نے توفیق دی تو پھر کسی وقت قلم آزمائی ہو گی۔ زیر نظر مضمون میں مسیح موعود کے اپنی جماعت کو کوہ طور پر لے جانے کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے۔ حضور ؑ نے اوپر ملفوظات کے حوالہ میں کوہ طور پر جماعت کو لے جانے کے ضمن میں فرمایا کہ ہیبت حق کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے طاعون کو ایک ذریعہ اور سامان ٹھہرایا ہے۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جو اس بلا اور طوفان میں بھی خدا سے نہیں ڈرتا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے۔

آج بھی 120سال گزرنے کے بعد ہمارا معاشرہ ایک طاعون سے نبرد آزما ہے۔ یہ طاعون بھی کروڑوں کی تعداد میں زندگیاں نگل گئی ہے اور دنیا بھر میں ایک زلزلہ کی سی کیفیت رہی ہے۔ معاشرہ کی اقدار تک ملیا میٹ ہو گئی ہیں۔ ایسی آفات لازماً ایک سبق، ایک نصیحت معاشرہ پر چھوڑ جاتی ہیں۔ ایسے وقت میں خوف خدا بھی بڑھتا ہے۔ عبادات میں اضافہ ہوتا ہے۔ صدقہ و خیرات میں زیادتی ہوتی ہے۔ استغفار، تسبیح و درود کثرت سے کیے جاتے ہیں اور آنکھیں بھی تر رہنے لگتی ہیں اور یہ کیفیت ہم نے اس دور میں اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا۔ ہمارا تقویٰ بڑھا۔ خلیفۃ المسیح اور نظام کی اطاعت میں بڑ ھوتری ہوئی۔ اخوت و بھائی چارہ مضبوط ہوا۔ یہ آفت ابھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کسی نہ کسی طرح اپنا زور دکھلاتی رہتی ہے تا اس ہیبت خدا سے ڈرتے ہوئے زندگیوں میں بہتری لانے کی توفیق پاتے رہیں۔

اب میں اختصار کے ساتھ اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہوئے مسیح موعود کےاپنی جماعت کو کوہ طور پر لے جانے کا ذکر کرتا ہوں۔ طور ایک پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تجلی پائی تھی۔ خدا کو دیکھا تھا۔ طور روحانی معنوں میں اس بلندی کو بھی کہتے ہیں جہاں انسان کو خدا مل جاتا ہے اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جماعت احمدیہ میں مسیح موعودؑ کو آنحضور ﷺ کا سلام پہنچا کر خلیفۃ المسیح کی اطاعت کا جؤا اپنی گردنوں میں پہن کر حقیقی معنوں میں خدا تک رسائی ہوتی ہے۔ روز نامہ الفضل آن لائن میں ہر پیر کو مکرم عابد خان کی ڈائری سے ایک ورق شائع ہوتا ہے جو اس لحاظ سے ایمانوں میں زیادتی کا موجب ہوتا ہے۔ جس میں آئے روز کسی ایسے واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ میں خدا کی تلاش میں تھا یا تھی مجھے کسی جگہ خدا نہیں مل رہا تھا۔ مجھے اب جماعت احمدیہ میں خدا نظر آیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطابات و خطبات میں ایسے واقعات کا ذکر فرماتے رہتے ہیں کہ فلاں شخص یا عورت نے خدا کی تلاش میں احمدیت قبول کر لی۔

• جہاں تک احمدیوں کا تعلق ہے ان میں ہزاروں ایسے ہیں جن کا اپنے خالق حقیقی کے ساتھ زندہ تعلق ہے۔ خدا ان سے بولتا ، باتیں کرتا ہے۔ سچی خوابیں ان کو آتی ہیں۔ ان کی دعاؤں کو سنتا ہے۔ جن کا ذکر خاکسار روزانہ ہی الفضل کی ڈاک میں یادرفتگان کی صورت میں مشاہدہ کرتا ہے۔ چونکہ ہماری جماعت میں اس امر کا اظہار معیوب جانا جاتا ہے اس لیے ایسے لوگ سامنے نہیں آتے۔ وہ طور کے درخت زیتون سے تقویت بھی حاصل کرتے ہیں۔ یہ درخت اللہ تعالیٰ کی معیت ، معاونت اور محبت کا درخت ہے۔

• زندہ خدا کی بات چلی ہے۔ جماعت احمدیہ کی ترقیات زندہ خدا کی تائید کی مرہون منت ہیں۔ بعض ممالک میں ہر طرف سے احمدیت پر مخالفت کی تلوار لٹک رہی ہے۔ مار دو، کچل دو اور ان کی جائیدادیں لوٹ لو کی آوازیں ہر سمت سے سنائی دے رہی ہیں۔ ان حالات میں احمدیوں کا جوانمردی سے survive کرنا جہاں ایک معجزہ سے کم نہیں وہاں زندہ خدا کی موجودگی بھی نظر آتی ہے۔

• طور پر لے جانے سے ایک مراد یہ ہے کہ ہر احمدی اپنے اندر آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتارے۔ آپؐ کے حسین اعمال کو اپنے اندر جگہ دے تا ہر احمدی، ایک چھوٹا محمدؐ بن کر دنیا میں چمکے۔ کسی نے ہمارے لئے ہی تو کہا ہے کہ ہم زمین زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے۔

• طور پر لے جانے سے ایک مراد جہاں خدا کی معرفت سے آشنائی ہے وہاں اسلامی افعال و اعمال سے دوسرے مسلمانوں سے ممتاز حیثیت رکھنا ہے۔ احمدیوں کے نیک اعمال صحابہؓ سے ملا دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ لاکھوں احمدیوں پر پورا اترتے ہیں۔

مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی
فسبحان الّذی اخزی الاعادی

• ایک اور رنگ جو طور پر لے جانے کے مترادف ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر کونے پر افرا تفری اور انتشار کا ماحول ہے۔ کہیں ہڑتال ہے تو کہیں ہنگامہ آرائی ، کہیں اسٹرائیک ہے تو کہیں توڑ پھوڑ حتٰی کہ مساجد سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جلوس نکلتے ہیں جو معاشرہ کے سکون کو برباد کرتے رہتے ہیں۔ مگر روئے زمین پر ایک جماعت احمدیہ ہے جو ان جھمیلوں سے پاک ہے۔ نہ سٹرائیک، نہ جلوس نہ سڑکوں پر ہنگامہ آرائی۔ خلافت تلے ہم ایک ہیں اور پر امن۔ کوئی جلوس نہیں۔ ابھی حال ہی میں جلسہ سالانہ برطانیہ ہوا۔ پھر جلسہ جرمنی کے نظارے ہم نے ایم ٹی اے پر دیکھے۔ پنڈال میں خاموشی ،25ہزار سے زائد مجمع پر کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کوئی ہنگامہ آرائی نہیں۔ ہر طرف ہر شعبہ میں اطاعت کے نمونے اور روحانی ماحول یوں لگتا ہے جیسے خدا حلول کر آیا ہو ، یہی وہ طور ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں لے جانا چاہتے ہیں۔

• قرآن کریم کی ان تمام آیات جن میں حضرت موسیؑ اور طور سینا کا ذکر ہے کو حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ تفسیر کبیر میں دیکھا تو طور کے روحانی مقام کے جو معانی سامنے آئے انہیں بھی قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ سورة البقرہ میں طور کے ذکر کے ساتھ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ کے الفاظ آتے ہیں یعنی تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔ یہ طور مقام کی بلند ترین چوٹی ہے۔ بائبل خروج باب 20 آیت 20 میں بھی خوف خدا کا ذکر ہے۔ ایک جگہ لَعَلَّکُمۡ تَصۡطَلُوۡنَ (النمل: 8) کے الفاظ آئے ہیں کہ آسمانی کلام کے پڑھنے سے گرمائش پیدا کرنے کے لئے آگ سینکو۔

اور زیتون، من و سلوی کے ذکر میں یہ سبق پنہا ں ہے کہ طور مقام پر جو روحانی پھل تمہیں ملیں گے وہ تمہیں گلنے سڑنے سے بچائیں گے۔ کیونکہ زیتون کی بھی یہ تاثیر ہے۔

اور ہاں میثاقکم کے الفاظ سے حضرت مصلح موعود ؓ نے یہ بھی سبق لیا ہے کہ جو عہد بلند مقام (چبوترے) پر لیا جائے وہ دوسرے عہدوں سے نمایاں فوقیت رکھتا ہے اس لئے طور کے روحانی مقام پر براجماں ہونے پر جو عہد و پیمان کریں گے وہ نمایاں ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ اس بلند وارفع مقام کو سمجھنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق دے۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اکتوبر 2022