• 4 مئی, 2025

تبلیغ اور آنحضرتؐ کا اسوۂ حسنہ

انبیاء، اللہ تعالیٰ کے پیغامات پہنچانے کے لئے آتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی بات کے لئے مامور تھے۔ اللہ تعالیٰ نوحؑ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے

قَالَ یٰقَوۡمِ لَیۡسَ بِیۡ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶۲﴾ اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَاَنۡصَحُ لَکُمۡ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۳﴾

(الاعراف: 62-63)

اس نے کہا اے میری قوم! میں کسی گمراہی میں مبتلا نہیں بلکہ میں تو تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے ایک رسول ہوں۔میں تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور میں اللہ سے وہ علم حاصل کرتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَاللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاس

(المائدہ: 68)

اے رسول! اچھی طرح پہنچا دے جو تیرے ربّ کی طرف سے تیری طرف اتارا گیا ہے۔ اور اگر توُ نے ایسا نہ کیا تو گویا تو نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔

تبلیغ کے فریضہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قسم کی سخت مشکلات پیش آئیں ان سے آپ بڑی حکمت و دانائی اور صبر اور حلم کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے۔ اس کی متعدد مثالیں کتب سیرت میں ملتی ہیں۔ آج مجھے ان مثالوں میں سے چند مثالیں بیان کرنا ہیں جو ہمارے لئے اسوۂ حسنہ کے طور پر ہیں۔

تبلیغ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو اصولی ہدایات تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ لوگوں کو گنجلکوں اور الجھنوں میں نہ پھنساؤ۔ صاف اور سیدھی بات کرو جس میں آسانی بھی ہو اور سہولت بھی۔ عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی بات ہو۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبلؓ کو جب یمن کی طرف والی بنا کر بھیجا تو فرمایا یَسِّرْ وَلَا تُعَسِّرْبَشِّرْ وَلَا تُنَفِّرْ (سیرة ابن ہشام جلد4 صفحہ175) کہ آسان اور سہولت کی باتیں لوگوں کو بتانا جن کا سمجھنا بھی آسان ہو اور ان پر عمل کرنا بھی آسان ہو۔ مشکل بات جو لوگوں کی سمجھ سے بالا ہو اور عمل کے لحاظ سے انہیں بوجھ لگے ان باتوں سے بچتے رہنا۔ بشارت اور خوشخبری کا پیغام دینا اور ایسی باتوں سے پرہیز کرنا جو لوگوں کو متنفر کرنے کا باعث ہوں۔

حضرت عثمان بن العاصؓ کو طائف کا والی بنا کر بھیجتے ہوئے فرمایا:اے عثمان! نماز مختصر پڑھانا اور کمزور لوگوں پر سب کو قیاس کرنا کیونکہ نماز میں شامل ہونے والوں میں بڑی عمر کے، چھوٹی عمر کے کمزور اور ضروری کام پر جانے والے سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ان کا خیال رکھنا دین کی طرف رغبت دلانے کے لئے ضروری ہے۔

(سیرة ابن ہشام صفحہ 137)

حضرت خدیجہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان سے بھی اصول تبلیغ اور اس بارہ میں کامیابی کے گروں کا پتہ چلتا ہے کہ ایک کامیاب مبلغ کو نافع الناس وجود بننا چاہئے۔ وقت پر لوگوں کے کام آنے کی صلاحیت ہونی چاہئے اور یہ جذبہ بطور اسوہ اپنانا چاہئے کہ وہ اخلاق جو نابود ہو چلے ہوں انہیں کس طرح دوبارہ قائم کرنا چاہئے۔

چنانچہ حضرت خدیجہؓ فرماتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی اور رشتہ داروں کے کام آنے کے سلسلہ میں بے مثال ہیں۔ بے کس اور بے سہارا لوگوں کے لئے سہارا اور ماوی وملجا بنتےہیں اور محتاج اور ضرورت مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور جو نیک اور اچھے اخلاق نابود ہو چکے تھے انہیں دوبارہ قائم کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔اعلیٰ درجہ کے مہمان نواز ہیں۔ لوگوں کی جائز ضرورتوں میں ان کے مددگار اور معاون ہیں۔

(بخاری کتاب بدء الوحی)

یہی اخلاق تبلیغ حق میں کامیابی کے ضامن ہیں اور حقیقی اثر پیدا کرنے میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔

تبلیغ میں کامیابی کے لئے استقامت بھی ایک لازمی شرط ہے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَاسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَلَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَقُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَاُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَاِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ

(الشوری: 16)

پس اِسی بنا پر چاہئے کہ تُو انہیں دعوت دے اور مضبوطی سے اپنے موقف پر قائم ہو جا جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے اور اُن کی خواہشات کی پیروی نہ کر اور کہہ دے کہ میں اس پر ایمان لا چکا ہوں جو کتاب ہی کی باتوں میں سے اللہ نے اُتارا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کا معاملہ کروں۔ اللہ ہی ہمارا ربّ اور تمہارا بھی ربّ ہے۔ ہمارے لئے ہمارے اعمال اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا (کام) نہیں (آسکتا)۔ اللہ ہمیں اکٹھا کرے گا اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

غرض تبلیغ کے بیسیوں اصول ہیں جن میں سے چند ایک کو موقعے کی مناسبت سے خاکسار نے بیان کیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ تبلیغ کے سلسلہ میں پیش آنے والی مشکلات کا بڑی دلیری اور دانائی کے ساتھ سامنا کرنا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ حق کی راہ سے ہٹانے کے لئے مخالفین نے سینکڑوں چالیں چلیں آپ پر سختی کی گئی اور بائیکاٹ کیا گیا۔ طرح طرح کے لالچ بھی دیئے گئے لیکن آپ کے پائے استقامت میں ذرہ بھی لغزش نہ آئی۔

ابو لہب آپ کا چچا تھا اور پڑوسی بھی لیکن وہ آپ کو تکلیف دینے اور زک پہنچانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ اردگرد کے محلہ داروں کو اپنے ساتھ ملا کر آپ کو خوب تنگ کرتے۔ محلے کا گند اکٹھا کر کے آپ کے گھر کے دروازے کے سامنے ڈال دیتا۔ بعض اوقات آپ گلی میں سے گزر رہے ہوتے تو محلہ کے اوباش آپ کے چچا کی شہ پر آپؐ پر کوڑا کرکٹ ڈال دیتا۔ آپؐ صبر و حلم کے ساتھ ان سب زیادتیوں کو برداشت کرتے اور اپنے چچا اور محلہ کے دوسرے لوگوں کو صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے کہ رشتہ داری اور ہمسائیگی کا یہی حق ہے جس کو تم ادا کر رہے ہو۔

ایک بار آپؐ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل کو شرارت سوجھی اور کسی کو بھیج کر مذبح خانے سے اونٹ کی انتڑیاں اور اوجھری منگوائی اور جب آپ سجدہ میں تھے تو یہ گند آپؐ کے سر اور کندھوں پر رکھ دیا۔ آپؐ دیر تک سجدہ میں پڑے دعائیں کرتے رہے اور اطلاع ملنے پر آپؐ کے گھر کی ایک خاتون نے آ کر آپؐ پر سے یہ گند اتارا۔ اس ایذا اور دکھ پر نہ آپؐ نے کسی کو برا بھلا کہا اور نہ کوئی گالی دی صرف اتنا کہا اللہ تعالیٰ یہ حرکت کرنے والوں کو سمجھ دے۔

یہ تو اس وقت کے واقعات ہیں جبکہ آپؐ کے پاس نہ کوئی دنیوی طاقت تھی اور نہ آپؐ کے ساتھ کوئی طاقتور جتھا تھا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اقتدار بخشا اور ایسے فدائی بخشے جو آپؐ پر ہزار جان نثار تھے تو تب بھی تبلیغ کے سلسلہ میں آپؐ کا حلم اور صبر اسی مقام پر تھا۔ آپؐ مخاطب کی سختی اور شدت کا جواب بڑی نرمی حلم اور صبر کے ساتھ دیتے۔ یہاں تک کہ آپؐ کے اخلاق کو دیکھ کر سخت سے سخت دشمن کا دل بھی پسیج جاتا اور غوروفکر کے لئے اس کا رجحان بیدار ہو جاتا اور آخر کار اسلام قبول کر کے سعادت دارین کا وارث بن جاتا۔

عثمان بن طلحہؓ کلید بردار کعبہ تھے ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ حضورؐ نے عثمان سے کہا کہ اگر آپ مجھے کعبہ کی چابیاں دے دیں تو میں کعبہ کے اند جا کر نماز پڑھوں۔ عثمان نے بڑے متکبرانہ انداز میں جواب دیا کہ میاں اپنی جگہ پر رہو۔ تمہاری یہ شان نہیں کہ تمہارے لئے کعبہ کے دروازے کھولے جائیں۔ عثمان کے اس جواب پر آپؐ نے فرمایا ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں جسے چاہوں گا یہ چابیاں اس کے حوالے کروں گااور اسے کلید بردار کعبہ بناؤ ں گا۔ عثمان نے پھر جواب دیا کیا اس دن قریش ختم ہو جائیں گے کہ تیرے جیسے بے سہارا آدمی کے ہاتھ میں چابیاں ہوں؟

فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے عثمان کو بلوایا وہ لرزاں ترساں حضورؐ کے سامنے حاضر ہوئے۔ انہیں وہ کلمات یاد تھے جو حضورؐنے کہے اور عثمان نے اس کے جواب میں کہے۔ آپؐ نے عثمان سے کعبہ کے دروازے کی چابیاں لے لیں۔ اس موقع پر حضرت علیؓ نے حضو رؐ کی خدمت میں عرض کی یا رسولؐ اللہ! عہدہ جات کعبہ کے لحاظ سے حاجیوں کی ضروریات مہیا کرنے یعنی سقایہ کا عہدہ آل ابی طالب کے پاس ہے۔ کعبہ کی کلید برداری اور حجابت کا عہدہ بھی ہمیں ہی عنایت فرمایا جائے تاکہ یہ دونوں عہدے ہمارے پاس رہیں۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کی درخواست کو نظر انداز کر کے چابیاں عثمان کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا۔ آج بدلہ اور انتقام لینے کا دن نہیں آج نیکی اور احسان اور حقوق کے قائم کرنے کا دن ہے۔ جاؤ! کعبہ کی کلید بردرای کا عہدہ میں تیرے اور تیرے خاندان کے حوالے کرتا ہوں اور جو شخص تم سے یہ عہدہ چھینے گا وہ ظلم کے جرم کا مرتکب ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسن سلوک دیکھ کر عثمان اسی وقت مسلمان ہو گئے اور یقین کر لیا کہ یہ حوصلہ اور یہ حلم نبی کے سوا کوئی اور نہیں دیکھا سکتا۔

(تاریخ الخمیس وسیرة ابن ہشام، واقعات فتح مکہ)

فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے عام معافی کا اعلان فرمایا صرف گیارہ آدمیوں کے بارہ میں آپؐ کا حکم تھا کہ یہ لوگ اپنی مسلسل شرارتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے جنگی مجرم ہیں۔ اس لئے جہاں بھی ملیں ان کو بطور سزا قتل کر دیا جائے لیکن عمل کے لحاظ سے آپؐ نے ان گیارہ آدمیوں میں سے بھی سات کو معاف فرما دیا۔ ان جنگی مجرموں میں عکرمہ بن ابی جہل بھی تھے وہ ڈر کے مارے مکہ چھوڑ کر یمن کی طرف بھاگ گئے۔ ان کی بیوی ام حکیمؓ بنت الحارث نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ایک دن وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی یا رسول اللہؐ !عکرمہ قصور وار ہے لیکن آپؐ کی قوم کا آدمی ہے اور مجھے اپنی بیوگی کا بھی ڈر ہے آپؐ اسے معاف فرما دیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ اچھا تمہاری سفارش منظور ہے۔ چنانچہ وہ یمن کی طرف آئیں اور عکرمہ کی منت سماجت کر کے اور انہیں تسلی دے کر اپنے ساتھ واپس لے آئیں۔ عکرمہ کو باہر کھڑا کر کے وہ حضورؐکے پاس اندر گئیں اور عرض کی حضورؐ! عکرمہ حاضری کی اجازت چاہتا ہے۔ حضورؐ یہ سن کر خوشی سے کھڑے ہوگئے اور عکرمہ کو دیکھ کر فرمایا۔ مرحباً! بالراکب المہاجر۔ مہاجر سوار کا آنا مبارک ہو۔ حضورؐ کا یہ سلوک دیکھ کر عکرمہ کچھ حیران ہوئے اور عرض کی حضورؐ! میری بیوی ام حکیم کہتی ہے کہ آپؐ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ ٹھیک کہتی ہے۔ اس پر عکرمہ نے عرض کیا۔ میں نے آپؐ کو بڑے دکھ دیئے اور بڑے نازیبا الفاظ میں آ پؐ کا ذکر کیا کرتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا۔ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو دھو دیتا ہے۔ عکرمہ نے پھر عرض کیا حضور! میری بخشش کے لئے دعا کیجئے۔ آپؐ نے دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِعِکْرَمَہ مَا سَبَقَ مِنْ ذَنْبِہٖ کہ اے اللہ! عکرمہ سے جو قصور ہوئےہیں وہ سب معاف کر دے۔ پھر آپؐ نے فرمایا عکرمہ! جو مانگنا ہے مانگو جو میری وسعت میں ہو گا دوں گا۔ عکرمہ نے پھر عرض کیا یہی چاہتا ہوں کہ قصور معاف ہو جائیں۔ میں آپؐ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ جتنا مال میں نے آپؐ کی مخالفت میں خرچ کیا تھا اس سے دگنا اسلام کی خدمت میں خرچ کروں گا اور آپؐ کے دین کو مٹانے کے لیے جتنی لڑائیاں لڑا ہوں اس سے دگنا اسلام کی اشاعت کے لئے جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے کی کوشش کروں گا۔

(تاریخ الخمیس واقعات فتح مکہ)

کعب بن زبیرؓ عرب کے مشہور شاعر اور قصائد سبعہ معلقہ کے شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے مخالفت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت کچھ کہا آپؐ کی (معاذ اللّٰہ) ہجو کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے اور لڑائیوں میں آپؐ کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے لئے شعر کہتے تھے۔ یہ بھی ان جنگی مجرموں میں شامل تھے جن کے خلاف آپؐ نے کہہ رکھا تھا کہ جہاں بھی یہ ملیں ان کو قتل کر دیا جائے۔ یہ روپوش ہو گئے تھے ان کے بھائی بجیر بن زہیر نے کسی ذریعہ سے ان کو پیغام بھجوایا کہ بچنا چاہتے ہو تو حضورؐ کی خدمت میں نادم ہو کر حاضر ہو جاؤ۔ وہ نادم ہونے والوں کو معافی دینے کی بڑی جرات رکھتے ہیں اور یہ شعر بھی ساتھ بھجوائے۔

؎فَمَنْ مُبْلِغٍ کَعْباً فَھَلْلَّکَ فِی الَّتِی
تَلُوْمُ عَلَیْھَا بَاطِلاً وَّ ھِیَ اَحْزَمُ
اِلَی اللّٰہ لَا الْعُزّیٰ وَ لَا اللَّاتِ وَحْدَہٗ
فَتَنْجُوْ اِذَا کَانَا لِنَّجَاءُ وَتَسْلَمُ

اس تبلیغ سے کعب متاثر ہوئے اور مدینہ آ گئے اور صبح کی نماز کے بعد حضور کی خدمت میں حاضری دی۔ حضورؐ کعب کو نہ پہچانتے تھے۔ چنانچہ حضورؐ کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے اور آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر عرض کیا کعب بن زہیر نادم ہو کر آپؐ سے امان چاہتا ہے۔ کیا آپؐ اسے امان دے سکتے ہیں؟۔ آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں وہ امان میں آ سکتا ہے اس پر کعب نے عرض کیا کہ میں کعب بن زہیر ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تائب ہو کر آئے ہو اور میری امان میں ہو۔ اس پر کعب نے وہ قصیدہ پڑھا جو بانت سعاد یا قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس قصیدہ کے دو شعر یہ ہیں۔

نُبِّئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَوْعَدَنِی
وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَا حَوْلِی

یعنی مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول مجھ پر ناراض ہیں اور مجھے سزا کا مستحق سمجھتے ہیں لیکن اللہ کے رسول سے معافی کی امید بھی بے جا نہیں۔

اِنَّا لِرَسُوْلٍ لَنُوْرٌ یُسْتَضَاءُ بِہٖ
مُہنَّدٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ مَسْلُوْلُ

یعنی رسول مجسم نور ہیں آپ سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ستی ہوئی اعلی درجہ کی تلوار ہیں۔( جس کی وجہ سے باطل بری طرح گھائل ہو چکا ہے۔)

غرض یہ ساٹھ سے اوپر اشعار کا قصیدہ عربی زبان کے ادب میں بڑے بلند مقام کا مالک ہے۔

عرب کے مشہور سخی حاتم طائی کا بیٹا عدی عیسائی تھا۔ کئی لڑائیوں میں آپؐ کے خلاف اس نے حصہ لیا آخر جب حضورؐ کو غالب آتے دیکھا تو شام کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی ایک بہن قبیلہ میں پیچھے رہ گئی اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ مدینہ میں آئی۔ اس نے حضورؐ کی خدمت میں عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلَکَ الْوَالِدُ وَغَابَ الْوَافِدُ فَامْنُنْ عَلَیَّ مَنَّ اللّٰہَ عَلَیْکَ۔ یعنی حضورؐ! والد فوت ہو چکا ہے، نگران غائب ہو چکا ہے۔ مجھ پر احسان کیجئے اللہ آپؐ کو اس کا اجر دے گا۔ آپؐ نے پوچھا وافد سے کون مراد ہے اس نے کہا کہ عدی بن حاتم آپؐ نے فرمایا وہی عدی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگ کر دشمنوں کے ساتھ جا ملا ہے۔ بنت حاتم نے عرض کیا حضورؐ وہی حاتم۔ آخر کار حضورؐ نے اس کی فریاد کو سنا اور فرمایا جلدی نہ کرو کوئی بھروسہ کا آدمی ملے تو اس کے ساتھ تمہیں اس جگہ پہنچا دیں گے۔ جہاں تم جانا چاہتی ہو۔ کچھ دنوں کے بعد ایسے لوگ مل گئے جو شام جا رہے تھے اور قابل بھروسہ تھے۔ حضورؐ نے ان کے ساتھ جانے کی بنت حاتم کو اجازت دی، سواری بھی دی اور زاد راہ بھی عنایت فرمایا۔وہ اپنے بھائی عدی کے پاس آئی اور اسے بہت کچھ برا بھلا کہا کہ تم بڑے ظالم ہو۔ مجھے تنہا چھوڑ کر اپنے بال بچوں کے ساتھ مزے کی زندگی گزار رہے ہو۔ بہرحال بنت حاتم کچھ عرصہ اپنے بھائی عدی کے پاس رہی۔ ایک دن باتوں باتوں میں عدی نے پوچھا۔ اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کے پاس تم کچھ عرصہ بطور قیدی کے رہی ہو۔ بنت حاتم نے اپنے بھائی عدی کو جواب دیا کہ اگر تم میری بات مانو تو اس شخص کے پاس جلدی چلے جاؤ کیونکہ اگر وہ نبی ہے جیسا کہ اس کا دعوی ہے تو تم سعادت دارین حاصل کرو اور اگر وہ بادشاہ ہے تو اتنا مہربان بادشاہ ہے کہ تیرے جیسا بہادر اس کے حضور میں عزت و شہرت پائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ عدی نے اس مشورہ کو مان لیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ عدی بیان کرتے ہیں کہ جب میں مسجد نبوی میں پہنچا تو حضورؐ اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔میں نے سلام عرض کیا۔ حضورؐ نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کون ہو؟ میں نے جواب دیا عدی بن حاتم۔ حضورؐ خوشی سے کھڑے ہو گئے۔ مجھے خوش آمدید کہا اور پھر مجھے اپنے گھر لے گئے۔ راستہ میں آپؐ کو ایک بوڑھی عورت ملی۔ اس کی کوئی ضرورت تھی۔ حضورؐدیر تک کھڑے اس کی باتیں سنتے رہے۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ شخص بادشاہ نہیں ہو سکتا۔ اتنی شفقت سے ایک کمزور بڑھیا کی باتیں ایک بادشاہ نہیں سن سکتا۔ بہرحال جب میں حضورؐ کے ساتھ گھر پہنچا تو حضورؐ نے میرے بیٹھنے کے لئے نمدہ بچھایا میں نے عرض کیا آپؐ اس پر بیٹھیں لیکن آپؐ نے فرمایا اکرام ضیف ضروری ہے چنانچہ میں نمدہ پر بیٹھ گیا اور حضورؐ زمین پر بیٹھے میں نے اپنے دل میں کہا یہ بھی بادشا ہوں والی بات نہیں۔ اتنے منکسر المزاج اور مہمان نواز بادشاہ نہیں ہوا کرتے۔ خاطر مدارات کے بعد حضورؐ نے باتیں کرتے ہوئے فرمایا۔ اے عدی! تو اپنے قبیلے کا سردار تھا اور بادشاہوں جیسا تیرا رہن سہن تھا۔ اپنی قوم سے مرباع یعنی ان کی آمدنیوں کا اپنی ذاتی ضرویات کے لئے چوتھا لیتا تھا۔ تمہارے مذہب میں کیا یہ جائز ہے؟ میں نے عرض کیا یہ جائز تو نہیں لیکن اس کا رواج ہے آپؐ نے فرمایا مذہب اور رواج کا آپس میں کیا جوڑ۔ عدی کہتے ہیں کہ حضورؐ کی ان باتوں سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں۔ نبیوں کے سوا نہ تو کوئی ایسی باتیں کر سکتا ہے اور نہ ان باتوں پر عمل کر سکتا ہے۔ حضورؐ نے یہ بھی فرمایا تمہیں میری جماعت عددی لحاظ سے کمزور اور غریب نظر آتی ہے لیکن ایک دن آنے والا ہے کہ یہ حالت نہیں رہے گی ایک دن آئے گا کہ میری اس جماعت کی حکومت میں اس قدر امن و امان ہو گا کہ ایک اکیلی عورت قادسیہ سے چل کر مکہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے آئے گی راستہ میں اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہو گا اور ارض بابل یعنی فارس کے سفید محلات میری حکومت کے لوگوں کے زیر تصرف آئیں گے اور مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ کوئی آدمی محتاج نہیں رہے گا۔ چنانچہ عدی بن حاتم نے اسلام قبول کیا اور بعد میں اسلام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کرنے کی توفیق پائی۔

(سیرة ابن ہشام جلد4 صفحہ166)

بعض اوقات حضور علیہ الصلوة والسلام مخاطب کی دلچسپی اور رجحان کے لحاظ سے اس کی تسلی کرواتے اور اسلام کی صداقت کے لئے اس کے اندر انشراح صدر کے لئے کوشش فرماتے۔

بنو تمیم کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا یہ قبیلہ اپنے قومی تفوق اور تفاخر کے لئے مر مٹنے کے لئے تیار رہتا تھا۔ چنانچہ جب یہ وفد مدینہ آیا تو بڑے متکبرانہ انداز میں حضورؐ کے سامنے کھڑے ہو کر پکارنے لگا اُخْرُجْ اِلَیْنَا یَا مُحَمَّد۔ اے محمد! باہر آ کر ہماری باتیں سنیئے۔ ان کا چیخنا چلانا اور زور زور دے کر پکارنا بے ادبی کا باعث تھا لیکن حضورؐ کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کئے بغیر باہر تشریف لائے اس پر اس وفد کے لوگوں نے کہا جِئْنَاک نُفَاخِرُکَ فَأْذَنْ لِخَطِیْبِنَا وَ شَاعِرِنَا یعنی ہم آپ کے پاس تفاخر قومی کے اظہار کے لئے آئے ہیں ہمارے مقرر اور شاعر کو اجازت دیجئے کہ وہ اپنے قومی تفاخر اور تفوق کا اظہار کریں اور بتا سکیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمارے مقابل کا کوئی اور نہیں۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا اجازت ہے اپنے خطیب اور شاعر کو پیش کیجئے چنانچہ مسجد میں قومی تفاخر کا یہ مقابلہ شروع ہوا۔ آپؐ اور تمام صحابہ مجلس میں موجود تھے۔ بنو تمیم کا خطیب عطارد بن حاجب کھڑا ہوا اور اس نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ عَلَیْنَا الْفَضْلُ وَالْمَنُّ وُھَوَ اَھْلَہٗ الَّذِیْ جَعَلْنَا مَلُوْ کًاوَھَبَ لَنَا اَمْوَالًا عَظِیْمًا نَفْعَلُ فِیْھَا الْمَعْرُوْفُ الخ

یعنی وہ اللہ حمد کا مستحق ہے جس نے ہم پر اپنا فضل نازل کیا ہم پر اس کے احسانات ہیں۔ اس نے ہمیں بادشاہ بنایا اور بکثرت اموال بخشے جن کی وجہ سے ہم بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیتے ہیں مشرق کے لوگوں میں ہم اشرف ترین قوم ہیں۔ ہماری مانند کوئی اور معزز نہیں۔ کوئی ہے جو کارناموں میں ہمارا مقابلہ کر سکے ہم بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن زیادہ باتیں کرنے کی بجائے ہم عمل کے قائل ہیں۔کوئی ہمارے مقابل تو آئے۔ جب عطارد بات کر چکا تو حضورؐ نے ثابت بن قیس انصار یؓ کو جواب دینے کے لئے فرمایا۔

ثابت اٹھے اور یوں گویا ہوئے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الذی السموات وَالارضُ خَلْقہ قضیٰ فیھن اَمرہٗ وَوَسِعَ کُرْسیہ علمہ وَلم یک شیءٍ قط اِلاَّمِنْ فضلہ ثُمَّ کَانَ مِنْ قد رَتِہ اَنْ جَعَلْنَا ملوکا وَاصْطَفیٰ مِنْ خَیْرِخَلْقِہ رَسولاً الخ

یعنی ساری تعریفوں کی مستحق اللہ کی ذات ہے جس نے آسمان و زمین پیدا کئے۔ ان میں اپنی تقدیر کے مطابق ایک مستحکم نظام قائم کیا اور اس کی حکومت کی کرسی اس کے علم کے مطابق بڑی وسیع ہے اس کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کی قدرت کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ اس نے ہمیں بادشاہ بنایا اور خیر الناس کو اپنا رسول بنا کر بھیجا جو کیا بلحاظ نسب اور کیا بلحاظ سیرت اور کیا بلحاظ صدق سب سے بڑھ کر ہے۔ اس نے اپنی کتاب اس پر نازل کی اور مخلوقات کے لئے ا سے ہادی بنایا۔ مہاجرین اور انصار نے اس کے عظیم پیغام کو قبول کیا اور اس کی وجہ سے شرف میں کوئی اور ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا واقول قولی ھٰذا واستغفر اللّٰہ لی وللمؤمنین والمؤمنت والسلام علیکم اور میں اپنی بات کہتا ہوں اور اللہ سے اپنے لئے اور مومن مردوں اورعورتوں کے لئے بخشش طلب کرتا ہوں اور تم پر سلام ہو۔ اس کے بعد شاعروں کا مقابلہ ہوا۔

بنو تمیم کا شاعر زبر تان بن بدر کھڑا ہوا اور تفاخر قومی پر مشتمل شعر پڑھنے شروع کئے جن میں ایک شعر یہ بھی تھا۔

نَحْنُ الکرام فَلَاحیُّ یُعَادِ لُنَا
منا الملوک و فینا تُنصب البِیَع

یعنی ہم معزز ترین لوگ ہیں کوئی قبیلہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہمیں سے بادشاہ بنتے ہیں اور ہم میں عبادت گاہیں تعمیر ہوتی ہیں۔

زبر تان نے جب اپنے شعر ختم کئے تو حضورؐ نے حسان بن ثابتؓ سے فرمایا اس کا جواب دو۔ حسانؓ نے مقابلہ میں شعر کہے جن میں سے دو شعر یہ ہیں۔

اِکْرِمْ بِقَوْمٍ رَسُوْلُ اللّٰہِ شِیْعَتُہُمْ
اِذَا تَفَاوُتِ الْاَھْوَاءُ وَالشِّیَعُ

یعنی اس قوم کی عزت و شہرت کے کیا کہنے جس کے مددگار اور ساتھی اللہ کے رسول ہوں جب کہ قومیں اپنی خواہشوں اور اپنے حامیوں کے لحاظ سے متفاوت اور منقسم ہوں۔

ایک اور بحر میں حسانؓ نے کہا۔

فَلَا تَجْعَلُوْ لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَاسْلِمُوْ
وَ لَا تَلْبِسُوْا زیًّا کَزَیِّ الْاَ عَاجِم

یعنی اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بناؤ اور اسلام قبول کر لو اور عجمیوں کی عادات اور ان کے پہناووٴں کو ترک کر دو۔

غرض جب خطابت اور شعر کا مقابلہ ختم ہوا تو بنو تمیم کے سردار اقرع بن جا بس نے ہی فیصلہ دیا کہ:

وَاَبِی اِنَّ ھٰذا رجل لمؤتیٰ لہ‘ لخطیبہ اَخْطَبُ مِنْ خَطِیبِنَا وَلشاعرہ اشعر مِنْ شاعرناوَاَصواتہم احلی مِنْ اَصواتنا

یعنی مجھے اپنے باپ کی قسم اس شخص کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کی تائید ہے اس کا خطیب ہمارے خطیب سے زیادہ قابل ہے اور اس کا شاعر ہمارے شاعر سے زیادہ افضل ہے اور ان کی آوازیں ہماری آوازوں سے زیادہ شریں ہیں۔

اس فیصلہ کے بعد وفد کے سارے ارکان نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بڑے اعزاز اور انعام و اکرام کے ساتھ واپس روانہ کیا۔

(سیرة ابن ہشام جلد4 صفحہ152)

بعض اوقات آپؐ ملنے والے کے مزاج اور اس کی طبیعت کا لحاظ کر کے اور اس کے مطابق سلوک کرتے اور اسے قبول حق کی طرف متوجہ کرتے اگر کوئی شخص رکھ رکھاؤ اور تکلف سے بات کرنے کا عادی ہے تو آپؐ اس کی طبیعت کے مطابق بات کرتے اور اگر کوئی سادہ طبع بے تکلف طبیعت کا ر سیاہے تو اس کی روح کا خیال رکھتے ہوئے آپؐ پیغام حق پہنچاتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کتب سیرة میں لکھا ہوا ملتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر مخاطب کی نفسیات سے واقف ہو کر آپؐ اسے مخاطب فرماتے۔

بنو سعد بن بکر کی طرف سے ایک نمائندہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔ وہ مدینہ آیا مسجد کے سامنے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور پھر اندر جا کرپوچھا اَیُّکُم ابن عبدالمطلب۔ تم میں عبد المطلب کا بیٹا کون ہے؟۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں تشریف فرما تھے آپؐ نے جواب دیا اَنَا ابن عبد المطلب میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ اس نے پھر کہا أَمُحمدٌ کیا محمد تو ہے آپؐ نے فرمایا ہاں محمد میں ہی ہوں۔

اس پر اس نے کہا یَا اِبن عبد المطلب اِنِّی سَائلک مُغَلِّظٌ علیک فِی المسئلہ فَلَا تَجْرَنَّ فِی نفسك یعنی اے عبد المطلب کے بیٹے! میں کچھ باتیں تم سے پوچھوں گا اور تکلف چونکہ مجھے نہیں آتا اس لئے سوال میں کرختگی اور سختی ہو تو برا نہ منانا۔ آپؐ نے فرمایا پوچھو میں برا نہیں مناؤں گا۔ اس پر اس نے کہا اَنْشُرَکَ اللّٰہ اِ ِلٰھک واِ ِلہ من کَانَ قبلک واِ ِلہ من ھُوَ کائِنٌ بَعْدَکَ اللّٰہ بعثک اِ ِلینا رَسولاً یعنی میں تجھے اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جو تیرا بھی معبود ہے اور تم سے پہلوں کا بھی معبود ہے اور تمہارے بعد میں آنے والوں کا بھی معبود ہے کیا اس اللہ نے تمہیں ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم اسی نے مجھے رسول بنایا ہے۔ پھر اس نے اسی طرح قسم کے الفاظ دہرا کر پوچھا أَللّٰہ اَمرک اَنْ نعبدہ وَ حْدَہ لَا نُشْرک بِہٖ شَیْأً وَ اَنْ نخلع ھٰذہ ا لاَندادًا الَّتِی کَانَ اَبائنا یَعْبُدُوْنَ مَعَہ کہ کیا اللہ نے آپؐ کو حکم دیا ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اوران تمام بتوں کو چھوڑ دیں جس کی ہمارے آباؤ اجداد اس کے ساتھ عبادت کرتے تھے آپ نے فرمایا اللّٰھُمَ نَعَم کہ ہاں اللہ کی قسم ہے ایسا ہی اس نے حکم دیا ہے۔ غرض اسی طرح قسم کے الفاظ کو دہرا کر وہ آپؐ سے سوال کرتا آپؐ اس کے سوال کا جواب دیتے۔اس نے پانچ نمازوں کے بارہ میں پوچھا، روزہ، حج زکوة اور دوسرے فرائض اسلام کے بارہ میں پوچھا اور حضورؐ اسی طرح بے تکلفی میں اس کے سوالات کا جواب دیتے رہے۔ جب وہ سوال پوچھ چکا اور جواب سن لئے تو اس نے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا سَأُدِّیْ ھٰذہ الفَرَائض وَاجتنب مَا نُھِیْتُ عَنْہ ثُمَّ لَا ازید وَ لَا انقص کہ میں ان فرائض کو ادا کروں گا اور ان باتوں سے بچوں گا جن سے آپؐ نے منع کیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا۔ جب ضمام بن ثعلبہ واپس چلے گئے تو آپؐ نے فرمایا اگر اس نے صدق دل سے ان باتوں پر عمل کیا تو ضرور جنت میں جائے گا۔

(سیرة ابن ہشام جلد4 صفحہ162)

ان واقعات میں ایک سچے مبلغ کے لئے کئی سبق ہیں اور ان پر غور کرنے سے تبلیغ کی کئی راہیں کھلتی ہیں۔ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ

(یہ مضمون آپ کے بڑے بیٹے مکرم فرید احمد ملک نے امریکہ سے بھجوایا اور مکرمہ فائقہ بشریٰ آف بحرین نے کمپوز کیا اور ادارہ نے بطور مائدہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔)

(حضرت ملک سیف الرحمٰن مرحوم۔ سابق مفتی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 اکتوبر 2022