• 17 مئی, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 15؍اکتوبر 2021ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍اکتوبر2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

’’خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے امن سے بدل دیا‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمرؓ کے واقعۂ شہادت اور اس کے پیچھے کارفرما عوامل کا تفصیلی تجزیہ

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ﴿۴﴾ إِيَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِيَّاکَ نَسۡتَعِيۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِيۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡہِمۡ ۬ۙ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّيۡنَ﴿۷﴾

حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کي شہادت کا واقعہ

گذشتہ خطبہ ميں بيان ہوا تھا۔ اس بارہ ميں کچھ مزيد باتيں ہيں جو بيان کرنے والي ہيں۔ صحيح بخاري کي جو روايت بيان کي گئي تھي اس سے يہ معلوم ہوتا تھا کہ حضرت عمرؓ پر جب حملہ ہوا تو اسي وقت فجر کي نماز ادا کي گئي۔ اور حضرت عمرؓ اس وقت مسجد ميں ہي تھے۔ جبکہ دوسري روايات ميں ملتا ہے کہ فوري طور پر حضرت عمرؓ کو گھر لے جايا گيا اور نماز بعد ميں ادا کي گئي جيسا کہ صحيح بخاري کے شارح علامہ ابن حجر اس روايت کے نيچے ايک دوسري روايت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہيں کہ جب حضرت عمرؓ کا خون زيادہ بہنے لگا اور ان پر غشي طاري ہو گئي تو ميں نے انہيں لوگوں کے ساتھ اٹھايا اور انہيں گھر پہنچا ديا۔ آپؓ پر بےہوشي طاري رہي يہاں تک کہ صبح کي روشني نماياں ہو گئي۔ جب انہيں ہوش آيا تو انہوں نے ہماري طرف ديکھ کر فرمايا: کيا لوگوں نے نماز پڑھ لي ہے؟ تو ميں نے عرض کيا کہ جي ہاں۔ اس پر آپؓ نے فرمايا: اس کا کوئي اسلام نہيں جس نے نماز ترک کي۔ پھر آپؓ نے وضو کيا اور نماز پڑھي۔

(فتح الباري جلد7 صفحہ64 شرح حديث نمبر 3700 دار المعرفة بيروت)
(الطبقات الکبريٰ لابن سعد جلد3 صفحہ263 دارالکتب العلمية بيروت 1990ء)

اس کے علاوہ طبقات کبريٰ ميں بھي يہي ہے کہ حضرت عمرؓ کو اٹھا کر گھر پہنچايا گيا اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے نماز پڑھائي۔ نيز يہ بھي ملتا ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن ؓنے قرآن کريم کي سب سے چھوٹي دو سورتيں وَالْعَصْرِ اور إِنَّآ أَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ پڑھيں اور ايک جگہ وَالْعَصْرِ اور قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ پڑھنے کا ذکر ہے۔

(الطبقات الکبريٰ لابن سعد جلد3 صفحہ266 دارالکتب العلمية بيروت 1990ء)

حضرت عمرؓ کے قاتل کا ذکر کرتے ہوئے طبقاتِ کُبريٰ ميں لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ پر حملہ ہوا تو آپؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے فرمايا: جاؤ اور دريافت کرو کہ کس نے مجھے قتل کرنے کي کوشش کي ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ميں نکلا اور ميں نے گھر کا دروازہ کھولا تو لوگوں کو جمع ديکھا جو حضرت عمرؓ کے حال سے ناواقف تھے۔ ميں نے پوچھا کہ کس نے امير المومنين کو خنجر مارا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کے دشمن اَبُولُؤْلُؤَۂ نے آپ کو خنجر مارا ہے جو مُغِيرہ بن شُعبہ کا غلام ہے۔ اس نے اَور لوگوں کو بھي زخمي کيا ہے ليکن جب وہ پکڑا گيا تو اسي خنجر سے اس نے خود کشي کر لي۔

(الطبقات الکبريٰ جلد3 صفحہ263 دارالکتب العلمية بيروت لبنان1990ء)

اس بارے ميں کہ

کيا حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کي شہادت کوئي سازش کا نتيجہ تھي
يا اس شخص کا ذاتي عناد تھا،

بعد کے بعض مؤرخين نے يہ بھي لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کي شہادت صرف کسي ذاتي عناد کي بنا پر نہيں تھي بلکہ ايک سازش تھي۔ بہرحال حضرت عمرؓ جيسے بہادر خليفہ کو جس طرح شہيد کر ديا گيا، ہم ديکھتے ہيں کہ عام طور پر مؤرخين اور سيرت نگار شہادت کے واقعات تفصيل کے ساتھ بيان کرنے کے بعد خاموش ہو جاتے ہيں اور يہ تاثر ملتا ہے کہ اَبُولُؤْلُؤَۂ فيروز نے ايک وقتي جوش اور غصہ ميں انہيں قتل کر ديا تھا۔ ليکن حال کے بعض مؤرخين، سيرت نگار اس پر تفصيل کے ساتھ بحث کرتے ہوئے يہ بيان کرتے ہيں کہ يہ محض ايک فردِ واحدکے غصہ کي وجہ سے انتقامي کارروائي نہيں ہو سکتي بلکہ ايک سازش تھي اور باقاعدہ ايک پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت حضرت عمرؓ کو قتل کيا گيا تھا۔ اور اس سازش ميں مشہور ايراني سپہ سالار ہُرمُزَان جو کہ اب بظاہر مسلمان ہو کر مدينہ ميں رہ رہا تھا وہ بھي  شامل تھا۔ حال کے ان مصنفين نے قديم مؤرخين اور سيرت نگاروں سے شکوہ کيا ہے کہ کيوں انہوں نے اس اہم قتل پر تفصيلي بحث نہيں کي کہ يہ ايک سازش تھي۔

البتہ تاريخ و سيرت کي ايک اہم کتاب ’البِدايہ والنِّھَايہ‘ ميں صرف اتنا ملتا ہے کہ شبہ کيا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے قتل ميں ہُرمُزَان اور جُفَينہ کا ہاتھ تھا۔ (البدايہ والنھايہ جلد4 صفحہ 144، دار الکتب العلمية) چنانچہ اسي شبہ پر

حضرت عمرؓ کے سوانح نگار سير حاصل بحث کرتے ہوئے
اس کو باقاعدہ ايک سازش قرار ديتے ہيں۔

انہي مصنفين ميں سے ايک محمد رضا صاحب اپني کتاب سيرت عمر فاروقؓ ميں لکھتے ہيں کہ حضرت عمرؓ کسي بالغ قيدي کو مدينہ ميں آنے کي اجازت نہيں ديا کرتے تھے حتيٰ کہ حضرت مُغِيرہ بن شُعبہ والئ کوفہ نے ان کے نام ايک خط لکھا کہ ان کے پاس ايک غلام ہے جو بہت ہنرمند ہے اور وہ اس کو مدينہ ميں آنے کي اجازت کے طلبگار ہيں اور حضرت مغيرہ بن شُعبہؓ نے کہا کہ وہ بہت کام جانتا ہے جس ميں لوگوں کے ليے فائدے ہيں۔ وہ لوہار ہے۔ نقش و نگار کا ماہر ہے۔ بڑھئي ہے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت مغيرہؓ کے نام خط لکھا اور انہوں نے اسے مدينہ بھيجنے کي اجازت دے دي۔ حضرت مغيرہ ؓنے اس پر ماہانہ سو درہم ٹيکس مقرر کيا۔ وہ حضرت عمرؓ کي خدمت ميں حاضر ہوا اور خراج زيادہ ہونے کي شکايت کي۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: تم کون سے کام اچھي طرح کر ليتے ہو؟ اس نے آپؓ کو وہ کام بتائے جس ميں اسے اچھي خاصي مہارت حاصل تھي۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا: تمہارے کام کي مہارت کےحوالے سے تو تمہارا خراج کوئي زيادہ نہيں ہے۔ وہ آپؓ سے ناراضي کي حالت ميں واپس چلا گيا۔ حضرت عمرؓ نے چند روز توقف کيا۔ ايک دن وہي غلام آپؓ کے پاس سے گزرا تو آپؓ نے اسے بلا کر کہا کہ مجھے خبر پہنچي ہے کہ تم ہوا سے چلنے والي چکي بہت اچھي بنا سکتے ہو۔ وہ غلام غصے اور ناپسنديدگي کے عالم ميں حضرت عمرؓ کي طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ ميں آپؓ کے ليے ايک ايسي چکي بناؤں گا کہ لوگ اس کا چرچا کرتے رہيں گے۔ جب وہ غلام مڑا تو آپؓ اپنے ساتھ والے اصحاب کي طرف متوجہ ہوئے اور کہا اس غلام نے مجھے ابھي ابھي دھمکي دي ہے۔ چند دن گزرے کہ اَبُولُؤْلُؤَۂ نے اپني چادر ميں دو دھاري والا خنجر چھپا رکھا تھا جس کا دستہ اس کے وسط ميں تھا اور اس نے حضرت عمرؓ پر وار کيا جيسا کہ واقعہ شہادت ميں بيان ہو چکا ہے۔ اس کا ايک وار ناف کے نيچے لگا تھا۔ اَبُولُؤْلُؤَۂ کو حضرت عمرؓ سے ايک لحاظ سے کينہ اور بغض بھي تھا کيونکہ عربوں نے اس کے علاقے کو فتح کر ليا تھا اور اسے قيدي بنا ليا تھا اور اس کے بادشاہ کو ذليل و خوار ہونے کي حالت ميں جلا وطن ہونے پر مجبور کر ديا تھا۔ وہ جب بھي کسي چھوٹے قيدي بچے کو ديکھتا تو ان کے پاس آ کر ان کے سروں پر ہاتھ پھيرتا اور رو کر کہتا کہ عربوں نے ميرا جگر گوشہ کھا ليا۔ جب اَبُولُؤْلُؤَۂ نے حضرت عمرؓ کو شہيد کرنے کا پختہ ارادہ کر ليا تو اس نے بڑے اہتمام سے دو دھاري خنجر بنايا، اسے تيز کيا، پھر اسے زہر آلود کيا، پھر اسے لے کر ہُرمُزَان کے پاس آيا اور کہا تمہارا اس خنجر کے بارے ميں کيا خيال ہے۔ اس نے کہا ميرا تو خيال ہے کہ تُو اس کے ذريعہ جس پر بھي وار کرے گا اسے قتل کر دے گا۔ ہُرمُزَان فارسيوں کے سپہ سالاروں ميں سے تھا۔ مسلمانوں نے اسے تُسْتُر کے مقام پر قيد کر ليا تھا اور انہوں نے اسے مدينہ بھيج ديا تھا۔ جب اس نے حضرت عمرؓ کو ديکھا تو اس نے پوچھا ان کے محافظ و دربان کہاں ہيں؟ جيسا کہ پہلے بيان ہو چکا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ عليہم نے بتايا کہ ان کا کوئي محافظ ہے نہ دربان ہے اور نہ کوئي سيکرٹري ہے، نہ کوئي ديوان ہے تو اس نے کہا کہ انہيں تو نبي ہونا چاہيے۔ بہرحال پھر وہ مسلمان ہو گيا اور حضرت عمرؓ نے اس کے ليے دو ہزار مقرر کر ديے اور اسے مدينہ ميں قيام کرايا۔

طبقاتِ ابن سعدميں نافع کي سند سے ايک روايت ہے کہ

حضرت عبدالرحمٰن ؓنے وہ چھري ديکھي جس کے ذريعہ سے
حضرت عمرؓ کو شہيد کيا گيا تھا۔

انہوں نے کہا: ميں نے گذشتہ روز يہ چھري ہُرمُزَان اور جُفَينہ کے پاس ديکھي تھي تو مَيں نے پوچھا: تم اس چھري سے کيا کرتے ہو تو ان دونوں نے کہا: ہم اس کے ذريعہ گوشت کاٹتے ہيں کيونکہ ہم گوشت کو چھوتے نہيں۔ اس پر حضرت عُبيداللہ بن عمر ؓنے حضرت عبدالرحمٰنؓ سے پوچھا: کيا آپؓ نے يہ چھري ان دونوں کے پاس ديکھي تھي؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پس حضرت عُبيداللہ بن عمر ؓنے اپني تلوار پکڑي اور دونوں کے پاس آئے اور انہيں قتل کر ديا۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت عُبيداللہ ؓکو بلا بھيجا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: آپؓ کو ان دونوں افراد کے قتل کرنے پر کس چيز نے برانگيختہ کيا جبکہ وہ دونوں ہماري امان ميں ہيں۔ يہ سنتے ہي حضرت عُبيداللہ نے حضرت عثمانؓ کو پکڑ کر زمين پر گرا ديا حتي کہ لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ کو حضرت عُبيداللہ سے بچايا۔ جب حضرت عثمانؓ نے انہيں بلوايا تھا تو انہوں نے يعني حضرت عُبيداللہ نے تلوار حمائل ميں کر لي تھي ليکن حضرت عبدالرحمٰن ؓنے انہيں سختي کے ساتھ کہا کہ اسے اتار دو تو انہوں نے تلوار اتار کر رکھ دي تھي۔

سعيد بن مُسَيِّب سے روايت ہے کہ جب حضرت عمرؓ  شہيد کر ديے گئے، يہ ايک روايت ہے جو ميں نے پہلے بيان کي۔ کہاں تک يہ سچي ہے، حضرت عثمانؓ والا قصہ کہاں تک صحيح ہے اللہ بہتر جانتا ہے ليکن بہرحال قتل کرنے کاواقعہ اَور جگہ بھي بيان ہوا ہے۔ حضرت عمر شہيد کر ديے گئے تو حضرت عبدالرحمٰن بن ابي بکرؓ نے کہا: ميں حضرت عمرؓ کے قاتل اَبُولُؤْلُؤَۂ کے پاس سے گزرا تھا جبکہ جُفَينہ اور ہُرمُزَان بھي اس کے ساتھ تھے اور وہ سرگوشي کر رہے تھے۔ جب ميں اچانک ان کے پاس پہنچا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور ايک خنجر ان کے مابين گر پڑا۔ اس کے دو پھل تھے۔ اس کا دستہ اس کے وسط ميں تھا۔ پس ديکھو کہ جس خنجر سے حضرت عمرؓ کو شہيد کيا گيا ہے وہ کيسا تھا؟ انہوں نے ديکھا تو وہ خنجر بالکل ويسا ہي تھا جيسے حضرت عبدالرحمٰن بن ابي بکرؓ نے بيان کيا تھا۔

جب حضرت عُبيداللہ بن عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابي بکرؓ سے يہ سنا تو تلوار لے کر نکل پڑے حتي کہ ہُرمُزَان کو آواز دي۔ جب وہ ان کے پاس آيا تو اسے کہا ميرے ساتھ چلو حتي کہ ہم اپنے گھوڑے کو ديکھيں اور خود اس سے پيچھے ہٹ گئے۔ جب وہ آپ کے آگے چلنے لگا تو انہوں نے اس پر تلوار کا وار کيا۔ حضرت عُبيداللہ بن عمرؓ بيان کرتے ہيں کہ جب اس نے تلوار کي حدت محسوس کي تو اس نے لا الہ الا اللّٰہ پڑھا۔ حضرت عُبيداللہؓ کہتے ہيں کہ ميں نے جُفَينہ کو آواز دي وہ حِيرہ کے نصاريٰ ميں سے ايک نصراني تھا وہ سعد بن ابي وقاص کا مددگار تھا انہوں نے اسے صلح کے ليے مدينہ بھيجا تھا جو کہ اس کے اور ان کے درميان ہوئي تھي۔ وہ مدينہ ميں کتابت سکھاتا تھا۔ جب ميں نے اسے تلوار ماري تو اس نے اپني آنکھوں کے سامنے صليب کا نشان بنايا۔ پھر حضرت عُبيداللہؓ آگے بڑھے اور اَبُولُؤْلُؤَۂ کي بيٹي کو قتل کر ديا جو مسلمان ہونے کا دعويٰ کرتي تھي۔ حضرت عبداللہؓ  کا ارادہ تھا کہ آج وہ مدينہ ميں کسي قيدي کو زندہ نہيں چھوڑيں گے۔ مہاجرين ان کے خلاف اکٹھے ہو گئے اور انہيں روکا اور انہيں دھمکي دي تو انہوں نے کہا کہ اللہ کي قسم! ميں انہيں ضرور قتل کروں گا۔ اور وہ مہاجرين کو بھي خاطر ميں نہ لائے حتيٰ کہ حضرت عَمرو بن عاص ؓ ان کے ساتھ مسلسل بات چيت ميں لگے رہے حتيٰ کہ انہوں نے تلوار حضرت عَمروبن عاصؓ کے حوالے کر دي۔ پھر حضرت سعد بن ابي وقاصؓ ان کے پاس آئے تو ان دونوں نے ايک دوسرے کي پيشاني کے بال پکڑ ليے۔ غرض آپ نے ہُرمُزَان، جُفَينہ اور اَبُولُؤْلُؤَۂ کي بيٹي کو قتل کر ديا۔

اب تمام معاملہ اس بحث ميں ذکر کيا جا چکا ہے کہ کس نے اَبُولُؤْلُؤَۂ کو حضرت عمرؓ کے قتل کرنے پر اکسايا تھا اور لکھنے والے يہ لکھتے ہيں کہ جو روايات ہم تک پہنچي ہيں وہ اس بات پر دلالت کرتي ہيں اور جو اس حق ميں ہيں کہ حضرت عمرؓ کا قتل ايک سازش تھي ۔ ہُرمُزَان نے يہ ساري منصوبہ بندي کي تھي کہ اس نے حضرت عمرؓ کے خلاف اَبُولُؤْلُؤَۂ کے کينہ اور بغض کو مزيد بھڑکايا۔ وہ دونوں عجمي تھے۔ پھر يہ کہ جب ہُرمُزَان کو قيد کر ليا گيا اور اسے مدينہ بھيج ديا گيا تو اس نے اس انديشہ کے پيش نظر اسلام قبول کر ليا کہ خليفہ اسے قتل کر ديں گے۔

طبقاتِ ابن سعد ميں نافع کي روايت ميں مذکور ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے وہ چھري ديکھي تھي جس کے ساتھ حضرت عمرؓ کو شہيد کيا گيا تھا اور سعيد بن مُسَيِّب کي روايت طبري ميں مذکور ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابي بکرؓ نے وہ خنجر ديکھا تھا جو اَبُولُؤْلُؤَۂ، جُفَينہ اور ہُرمُزَان کے درميان گر گيا تھا۔ جب وہ اچانک ان کے پاس آئے تھے تو وہ ان کے چلنے کي وجہ سے گر گيا تھا۔ جب حضرت عُبيداللہ بن عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابي بکرؓ سے يہ بات سني تو وہ فوراً گئے اور ان دونوں کو قتل کر ديا اور انہوں نے اسي پر اکتفا نہ کيا بلکہ انہوں نے جذبہ انتقام سے مغلوب ہو کر اَبُولُؤْلُؤَۂ کي بيٹي کو بھي قتل کر ديا۔ وہ خنجر جس کے متعلق حضرت عبدالرحمٰن بن ابي بکرؓ نے بتايا تھا وہ بالکل وہي تھا جس کے ذريعہ حضرت عمرؓ کو شہيد کيا گيا تھا۔ اگر حضرت عُبيداللہ بن عمرؓ ہُرمُزَان اور جُفَينہ کو قتل کرنے ميں جلدي نہ کرتے تو اس بات کا امکان تھا کہ ان دونوں کو معاملہ کي تحقيق کے ليے بلايا جاتا اور اس طرح يہ سازش آشکار ہو جاتي۔ اگر ان سب چيزوں کو سامنے رکھا جائے تو يہ بات روز روشن کي طرح سمجھي جا سکتي ہے کہ يہ ايک سوچي سمجھي سازش تھي اور جس نے اس سازش کو عملي جامہ پہنايا اور حضرت عمرؓ کو قتل کيا وہ اَبُولُؤْلُؤَۂ تھا۔ يہ سازش کے حق ميں کہنے والے کہتے ہيں۔

(ماخوذ از سيرت عمر فاروق از محمد رضا: مترجم محمد سرور گوہر صاحب، صفحہ340تا344)

اسي طرح ايک اور سيرت نگار ڈاکٹر محمد حسين ہيکل اپني کتاب ميں لکھتے ہيں کہ واقعہ يہ ہے کہ جب مسلمان ايرانيوں اور عيسائيوں پر غالب آئے تھے اور جب سے ان ملکوں کي زمام حکومت انہوں نے سنبھالي تھي اور شہنشاہِ ايران کو عبرت ناک شکست دے کر فرار پر مجبور کيا تھا اس وقت سے ايراني، يہودي اور عيسائي اپنے دلوں ميں عربوں کے خلاف عموماً اور حضرت عمرؓ کے خلاف خصوصاً کينہ و بغض کے جذبات چھپائے بيٹھے تھے۔ اس وقت لوگوں نے اپني گفتگو ميں اس کينہ اور بغض کا ذکر بھي کيا تھا اور انہيں حضرت عمرؓ کي وہ بات بھي ياد آئي تھي جو انہوں نے يہ معلوم کرنے کے بعد کہ ان پر حملہ کرنے والا اَبُولُؤْلُؤَۂ ايک ايراني ہے کہي تھي۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا تھا۔ ميں تم کو منع کرتا تھا کہ ہمارے پاس کسي بےدين کو گھسيٹ کر نہ لانا ليکن تم نے ميري بات نہ ماني۔ مدينہ ميں ان عجمي بے دينوں کي تعداد مختصر سي تھي ليکن ايک جماعت تھي جن کے دل غضب اور انتقام سے لبريز اور جن کے سينے کينہ و بغض کي آگ سے دہک رہے تھے اور کون جانے،

ہو سکتا ہے ان لوگوں نے سازش کي ہو

اور اَبُولُؤْلُؤَۂ کا يہ فعل اسي سازش کا نتيجہ ہو جس کا جال ان دشمنانِ اسلام نے اپنے کينہ اور دشمني کي پياس بجھانے کے ليے بُنا تھا اور جس کے متعلق وہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح عربوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے مسلمانوں کے بازو کمزور کيے جا سکتے ہيں۔

حضرت عمرؓ کے صاحبزادوں کو حقيقتِ حال سے باخبر ہونے کي سب سے زيادہ بے چيني تھي۔ وہ اس راز سے پردہ اٹھا کر اس کي تہ تک پہنچ سکتے تھے اگر اَبُولُؤْلُؤَۂ فيروز خود کشي نہ کرتا۔ ليکن اس نے خُودکشي کرلي اور اس راز کو اپنے ساتھ قبر ميں لے گيا تو کيا بات ختم ہو گئي اور اب اس راز کو پانے کي کوئي سبيل نہيں رہي؟ يہ لکھنے والا مؤرخ لکھتا ہے جو اس سازش کو بے نقاب کرنے کے حق ميں ہے کہ يہ سازش تھي کہ نہيں؟ بلکہ کارکنان قضا و قدر نے چاہا کہ عرب کا ايک سردار اس راز سے واقف ہو جائے اور اس سازش کي طرف رہنمائي کرے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے جب وہ چھري ديکھي جس سے حضرت عمرؓ کو شہيد کيا گيا تھا تو فرمايا: مَيں نے يہ چھري کل ہُرمُزَان اور جُفَينہ کے پاس ديکھي تھي۔ ميں نے ان سے پوچھا تم اس چھري سے کيا کرو گے؟ وہ بولے کہ گوشت کاٹيں گے کيونکہ ہم گوشت کو ہاتھ نہيں لگاتے اور حضرت عبدالرحمٰن بن ابي بکرؓ نے فرمايا کہ ميں حضرت عمرؓ کے قاتل اَبُولُؤْلُؤَۂ کے پاس سے گزرا۔ جُفَينہ اور ہُرمُزَان اس کے ساتھ تھے اور وہ آپس ميں چپکے چپکے باتيں کر رہے تھے۔ مَيں دفعتاً ان کے پاس پہنچا تو وہ بھاگے اور ايک خنجر ان کے درميان گر پڑا جس کے دو پھل تھے اور دستہ بيچ ميں تھا۔ ديکھو وہ خنجر کيسا ہے جس سے حضرت عمرؓ کو شہيد کيا گيا ہے؟ لوگوں نے ديکھا تو واقعي وہي خنجر تھا جو حضرت عبدالرحمٰن بن ابي بکر ؓنے بتايا تھا۔ پھر تو اس معاملے ميں کوئي شک باقي نہيں رہتا۔ يہ لکھنے والا کہتا ہے کہ دونوں کے دونوں سچے گواہ ہيں بلکہ مسلمانوں ميں سب سے زيادہ قابلِ اعتبار ہيں اور گواہي دے رہے ہيں کہ جس چھري سے حضرت عمرؓ کو شہيد کيا گيا وہ ہُرمُزَان اور جُفَينہ کے پاس تھي۔ ان ميں سے ايک گواہ کا کہنا ہے کہ اس نے قاتل اَبُولُؤْلُؤَۂ کو قتل کرنے سے پہلے دونوں سے سازش کرتے ديکھا ہے اور دونوں گواہوں کے بيان کےمطابق يہ سب کچھ اس رات کا قصہ ہے جس صبح حضرت عمرؓ پر حملہ کيا گيا۔ کيا اس کے بعد بھي کوئي شخص اس ميں شبہ کر سکتا ہے کہ امير المومنين اس سازش کا شکار ہوئے جس کے اہم کردار تو يہي تين آدمي تھے ليکن يہ بھي ہو سکتا ہے کہ دوسرے ايراني يا ان قوموں کے افراد بھي اس ميں شامل ہوں جن پر مسلمانوں نے غلبہ پايا تھا۔

حضرت عُبيداللہ بن عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کي بات اور عبدالرحمٰن بن ابي بکر ؓکي شہادت سني تو ساري کائنات ان کي نگاہوں ميں خون ہي خون ہو گئي۔ ان کے دل ميں يہ بات بيٹھ گئي کہ مدينہ کے تمام پرديسي اس سازش ميں شريک ہيں اور ان سب کے ہاتھوں سے جرم کا خون ٹپک رہا ہے۔ انہوں نے فوراً تلوار سنبھالي اور سب سے پہلے ہُرمُزَان اور جُفَينہ کا کام تمام کيا۔ روايت ہے کہ انہوں نے ہُرمُزَان کو آواز دي اور جب وہ باہر نکل کر آيا تو اسے کہا کہ ذرا ساتھ آؤ اور ميرے گھوڑے کو ديکھ لو اور خود پيچھے ہٹ گئے۔ جب وہ ان کے سامنے سے گزرا تو تلوار کا ايک ہاتھ اس پر مارا۔ ايراني نے جب تلوار کي سوزش محسوس کي تو کہا لا الہ الا اللّٰہ اور وہيں ڈھير ہو گيا۔ روايت ہے کہ حضرت عُبيداللہ بن عمر ؓ،يہ حضرت عمرؓ کے بيٹے تھے نے کہا کہ پھر ميں نے جُفَينہ کو بلايا وہ حِيرہ کا ايک عيسائي تھا اور سعد بن ابي وقاص کا دودھ شريک بھائي تھا۔ اس رشتے سے سعد اسے مدينہ لے آئے تھے جہاں وہ لوگوں کو پڑھايا لکھايا کرتا تھا۔ جب ميں نے اسے تلوار ماري تو اس نے اپني دونوں آنکھوں کے درميان صليب کا نشان بنايا۔ حضرت عبداللہ کے دوسرے بھائي بھي اپنے والد کي شہادت پر ان سے کچھ کم غضبناک نہيں تھے اور سب سے زيادہ غصہ ام المومنين حضرت حفصہ رضي اللہ تعاليٰ عنہا کو تھا۔

بہرحال يہ جو انہوں نے کيا ہے قانوني طور پر اس کي کوئي اجازت نہيں تھي۔

کسي شخص کو اختيار نہيں کہ وہ خود انتقام لينے کے ليے کھڑا ہو جائے

يا اپنا حق خود وصول کرے جبکہ معاملات کا فيصلہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم اور آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے خلفاء رضوان اللہ عليہم کے ليے مخصوص تھا۔ وہ لوگوں کے درميان منصفانہ فيصلے اور مجرم کے خلاف قصاص کا حکم صادر کرتے تھے۔ اس ليے حضرت عُبيداللہؓ  کا فرض تھا کہ جب انہيں اس سازش کا علم ہوا جس کے نتيجہ ميں ان کے والد کي جان گئي تو اس کا فيصلہ امير المومنين سے چاہتے۔ اگر ان کے نزديک سازش ثابت ہو جاتي تو وہ قصاص کا حکم جاري فرما ديتے اور اگر ثابت نہ ہوتي يا اس کے متعلق امير المومنينؓ، نئے خليفہ کے دل ميں کوئي شبہ پيدا ہو جاتا تو وہ شبہ کي حد تک سزا ميں تخفيف کر ديتے يا يہ فيصلہ دے ديتے کہ تنہا اَبُولُؤْلُؤَۂ مجرم ہے۔ (ماخوذ از الفاروق عمرؓ  از محمد حسين ہيکل مترجم:حبيب اشعر، صفحہ869تا 872، اسلامي کتب خانہ اردو بازار لاہور) بہرحال جو انہوں نے کيا قانوني طور پر وہ ان کا حق نہيں بنتا تھا۔

مختصر يہ کہ

ہر چند کہ يہ بعيد از قياس نہيں کہ يہ قتل ايک باقاعدہ سازش ہو

ليکن اس وقت کے حالات کا تقاضا ہو کہ حضرت عثمانؓ فوري طور پر اس ميں تحقيق نہ کروا سکے ہوں يا جو بھي حالات ہوں ابتدائي مؤرخ اس کے متعلق خاموش ہيں اور اس زمانے کے کچھ مؤرخ قرائن کي روشني ميں اس پر بحث کر رہے ہيں اور ان کے دلائل ميں کچھ وزن معلوم ہوتا ہے کيونکہ يہ سازشي گروہ يہيں رکتا نہيں بلکہ پھر حضرت عثمانؓ بھي اسي طرح کي ايک سازش کا شکار ہوتے ہيں اور اس سے اس شبہ کو مزيد تقويت ملتي ہے کہ اسلام کي بڑھتي ہوئي ترقي اور غلبہ کو روکنے کے ليے اور اپنے انتقام کي آگ کو ٹھنڈا کرنے کے ليے بيروني عناصر کي ايک سازش کے تحت حضرت عمرؓ کو شہيد کيا گيا تھا۔ واللّٰہ اعلم۔

صحيح مسلم ميں مذکور ہے کہ حضرت ابن عمرؓ روايت کرتے ہيں کہ جب ميرے والد پر حملہ ہوا تو ميں ان کے پاس موجود تھا۔ لوگوں نے ان کي تعريف کي اور کہا جَزَاکَ اللّٰہُ خَيْرًا۔ اللہ تعاليٰ آپ کو بہترين بدلہ دے۔ آپؓ نے فرمايا: ميں رغبت رکھنے والا بھي ہوں اور ڈرنے والا بھي ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ

آپؓ خليفہ مقرر کر ديجيے۔

آ پؓ نے کہا: کيا ميں تمہارا بوجھ زندگي ميں بھي اور مرنے کے بعد بھي اٹھاؤں؟ ميں چاہتا ہوں کہ اس ميں ميرا حصہ برابر کا ہو۔ يعني نہ مجھ پر کوئي گرفت ہو نہ مجھے کچھ ملے۔ اگر ميں کسي کو جانشين بناؤں تو انہوں نے بھي جانشين بنايا جو مجھ سے بہتر تھے يعني حضرت ابوبکرؓ۔ بنا دوں تو کوئي حرج نہيں ہے۔ اگر ميں تمہيں بغير جانشين مقرر کرنے کے چھوڑ جاؤں تو وہ تمہيں بغير جانشين مقرر کرنے کے چھوڑ گئے تھے جو مجھ سے بہتر تھے يعني دوسري مثال رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي دي کہ آپؐ تھے جنہوں نے جانشين مقرر نہيں کيا تھا۔ حضرت عبداللہؓ  کہتے ہيں کہ جب آپؓ نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کا ذکر کيا تو ميں جان گيا کہ آپؓ جانشين مقرر نہيں کريں گے۔

(صحيح مسلم کتاب الامارةباب الاستخلاف وترکہ حديث 4713)

صحيح مسلم کي ايک دوسري روايت ميں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓسے روايت ہے۔ وہ کہتے ہيں کہ ميں حضرت حفصہؓ کے پاس گيا۔ انہوں نے فرمايا: کيا تم جانتے ہو کہ تمہارے والد جانشين مقرر کرنے والے نہيں۔ وہ کہتے ہيں ميں نے کہا کہ وہ ايسا نہيں کريں گے۔ انہوں نے يعني حضرت حفصہؓ نے فرمايا وہ ايسا کريں گے۔ وہ کہتے ہيں ميں نے قَسم کھائي کہ حضرت عمرؓ سے دوبارہ بات کروں گا۔ کہتے ہيں مَيں صبح تک خاموش رہا اور آپ سے کوئي بات نہيں کي۔ وہ کہتے ہيں کہ ميرا حال يہ تھا کہ گويا ميں اپني قَسم کي وجہ سے پہاڑ اٹھانے والا ہوں۔ ميں لوٹا اور ان کے پاس گيا۔ انہوں نے مجھ سے لوگوں کا حال دريافت کيا يعني حضرت عمرؓ نے اور ميں نے آپؓ کو بتايا کہ وہ کہتے ہيں۔ پھر ميں نے جو وہ لوگ کہتے ہيں وہ باتيں بتائيں۔ پھر ميں نے آپ سے کہا کہ ميں نے لوگوں کو ايک بات کہتے ہوئے سنا ہے اور ميں نے قسم کھائي ہے کہ آپؓ سے وہ بات ضرور کہوں گا۔ ان کا، لوگوں کا خيال ہے کہ آپؓ جانشين مقرر نہيں کريں گے۔ بات يہ ہے کہ اگر کوئي آپ کے اونٹوں کو چرانے والا ہو يا بکريوں کا چرواہا ہو پھر وہ آپ کے پاس آئے اور انہيں چھوڑ دے تو آپ ديکھيں گے کہ اس نے ان کو ضائع کر ديا۔ پس لوگوں کي نگہباني تو زيادہ ضروري ہے ۔ کہتے ہيں حضرت عمرؓ نے ميري بات سے اتفاق کيا اور کچھ دير کے ليے اپنا سر جھکايا۔ پھر آپؓ نے سر اٹھايا اور ميري طرف توجہ کي اور فرمايا: اللہ عز وجل اپنے دين کي حفاظت کرے گا۔ اگر ميں کسي کو خليفہ نہ بناؤں تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے خليفہ تو نہيں بنايا تھا اور اگر ميں خليفہ بناؤں تو حضرت ابوبکرؓ نے خليفہ بنايا تھا۔ انہوں نے يعني حضرت عمرؓ کے بيٹے ابن عمرؓ نے کہا: پس اللہ کي قَسم! جب انہوں نے يعني حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کا ذکر کيا تو ميں سمجھ گيا کہ آپؓ کسي کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے برابر نہيں کريں گے اور يہ کہ آپؓ کسي کو جانشين نہيں بنائيں گے۔

(صحيح مسلم کتاب الامارةباب الاستخلاف وترکہ حديث 4714)

حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ بيان کرتے ہيں کہ جب حضرت عمرؓ کو زخمي کيا گيا تو درد سے بےقرار ہونے لگے۔ حضرت ابن عباسؓ نے ان سے کہا جيسا کہ ان کو تسلي دينے لگے ہيں۔ امير المومنين! اگر ايسا ہے تو آپ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي صحبت ميں رہ چکے ہيں اور آپؓ نے نہايت عمدگي سے آپؐ کا ساتھ ديا۔ پھر آپؓ ان سے ايسي حالت ميں جدا ہوئے کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم آپؓ سے خوش تھے۔ پھر آپؓ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ رہے اور نہايت عمدگي سے ان کا ساتھ ديا۔ پھر آپؓ ان سے ايسي حالت ميں جدا ہوئے کہ وہ آپؓ سے خوش تھے۔ پھر آپؓ ان کے صحابہ کے ساتھ رہے اور آپؓ نے نہايت عمدگي سے ان کا ساتھ ديا اور اگر آپؓ ان سے جدا ہو گئے تو يقيناً آپؓ ايسي حالت ميں ان سے جدا ہوں گے کہ وہ آپؓ سے خوش ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا يہ جو تم نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي صحبت اور آپؐ کي خوشنودي کا ذکر کيا ہے تو يہ محض اللہ تعاليٰ کا احسان ہے جو اس نے مجھ پر کيا۔ اور جو تم نے حضرت ابوبکرؓ کي صحبت اور ان کي خوشنودي کا ذکر کيا ہے تو يہ بھي محض اللّٰہ جَلَّ ذِکْرُہٗ کا احسان ہے  جو اُس نے مجھ پر کيا۔ اور يہ جو تم ميري فکر ديکھ رہے ہو تو يہ تمہاري خاطر اور تمہارے ساتھيوں کي خاطر ہے۔ ميں اپني فکر نہيں کر رہا۔ تمہاري اور تمہارے ساتھيوں کي فکر کر رہا ہوں۔ اللہ کي قَسم! اگر ميرے پاس زمين بھر سونا بھي ہو تو ميں ضرور اللہ عز وجل کے عذاب سے فديہ دے کر چھڑا ليتا پيشتر اس کے کہ ميں وہ عذاب ديکھوں۔

(ماخوذ از صحيح البخاري کتاب فضائل اصحاب النبيؐ باب مناقب عمر بن خطاب۔۔ حديث 3692)

حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ آيت وَ لَيُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا کي تفسير کرتے ہوئے فرماتے ہيں ’’خلفاء پر کوئي ايسي مصيبت نہيں آئي جس سے انہوں نے خوف کھايا ہو اور اگر آئي تو اللہ تعاليٰ نے اسے امن سے بدل ديا۔ اس ميں کوئي شبہ نہيں کہ حضرت عمرؓ  شہيد ہو گئے مگر جب واقعات کو ديکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ

حضرت عمرؓ کو اس شہادت سے کوئي خوف نہيں تھا

بلکہ وہ متواتر دعائيں کيا کرتے تھے کہ يا اللہ! مجھے شہادت نصيب کر اور شہيد بھي مجھے مدينہ ميں کر۔ پس وہ شخص جس نے اپني ساري عمر يہ دعائيں کرتے ہوئے گزار دي ہو کہ يا اللہ! مجھے مدينہ ميں شہادت دے۔ وہ اگر شہيد ہو جائے تو ہم يہ کس طرح کہہ سکتے ہيں کہ اس پر ايک خوفناک وقت آيا مگر وہ خدا تعاليٰ کي طرف سے امن سے نہ بدلا گيا۔ بيشک اگر حضرت عمرؓ شہادت سے ڈرتے اور پھر وہ شہيد ہو جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کے خوف کو خدا تعاليٰ نے امن سے نہ بدلا مگر وہ تو دعائيں کرتے رہتے تھے کہ يا اللہ! مجھے مدينہ ميں شہادت دے۔ پس ان کي شہادت سے يہ کيونکر ثابت ہو گيا کہ وہ شہادت سے ڈرتے بھي تھے اور جب وہ شہادت سے نہيں ڈرتے تھے بلکہ اس کے لئے دعائيں کرتے تھے جن کو خدا تعاليٰ نے قبول فرما ليا تو معلوم ہوا کہ اس آيت کے ماتحت ان پر کوئي ايساخوف نہيں آيا جو ان کے دل نے محسوس کيا ہو اور اس آيت ميں جيسا کہ ميں بيان کر چکا ہوں يہي ذکر ہے کہ خلفاء جس بات سے ڈرتے ہوں گے وہ کبھي وقوع پذير نہيں ہو سکتي اور اللہ تعاليٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا مگر جب وہ ايک بات سے ڈرتے ہي نہ ہوں بلکہ اپني عزت اوربلندي درجات کا موجب سمجھتے ہوں تو اسے خوف کہنا اور پھر يہ کہنا کہ اسے امن سے کيوں نہ بدل ديا گيا بے معني بات ہے۔‘‘ يہ نکتہ بھي سمجھنے والا ہے۔

آپؓ فرماتے ہيں کہ ’’ميں نے تو جب حضرت عمرؓ کي اس دعا کو پڑھا تو ميں نے اپنے دل ميں کہا کہ اس کا بظاہر يہ مطلب تھا کہ دشمن مدينہ پر حملہ کرے اور اس کا حملہ اتني شدت سے ہو کہ تمام مسلمان تباہ ہو جائيں۔ پھر وہ خليفۂ وقت تک پہنچے اور اسے بھي شہيد کر دے۔ مگر اللہ تعاليٰ نے حضرت عمرؓ  کي دعا بھي قبول کر لي اور ايسے سامان بھي پيدا کر ديئے جن سے اسلام کي عزت قائم رہي۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ مدينہ پر کوئي بيروني لشکر حملہ آور ہوتا اندر سے ہي ايک خبيث اٹھا اور اس نے خنجر سے آپؓ کو شہيد کر ديا۔‘‘

(تفسير کبير جلد6 صفحہ378)

غلاموں کي آزادي کے حوالے سے اسلامي تعليم بيان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت عمرؓ کي شہادت کے واقعہ کو لے کر لکھا ہے اور اس کا سبب بيان کيا ہے۔ فرمايا کہ ’’پہلے تو يہ حکم ديا کہ تم احسان کر کے بغير کسي تاوان کے ہي ان کو رہا کر دو‘‘ يعني غلاموں کو بغير کسي تاوان کے رہا کر دو۔ ’’پھر يہ کہا کہ اگر ايسا نہيں کرسکتے تو تاوان وصول کر کے آزاد کر دو اور اگر کوئي شخص ايسا رہ جائے۔‘‘ کوئي غلام ’’جو خود تاوان ادا کرنے کي طاقت نہ رکھتا ہو اس کي حکومت بھي اس کے معاملہ ميں کوئي دلچسپي۔‘‘ اور جہاں سے وہ آيا ہے جس حکومت کا وہ فرد ہے اس کو آزاد کرانے ميں اس کي حکومت بھي ’’کوئي دلچسپي نہ ليتي ہو اور اس کے رشتہ دار بھي لاپرواہ ہوں تو وہ تم کو نوٹس دے کر اپني تاوان کي قسطيں مقرر کروا سکتا ہے۔‘‘ پھر وہ خود قيدي جو ہے وہ اپني تاوان کي قسطيں مقرر کروا سکتا ہے۔ ’’ايسي صورت ميں جہاں تک اس کي کمائي کا تعلق ہے قسط چھوڑ کر سب اسي کي ہوگي اور وہ عملاً پورے طور پر آزاد ہوگا۔‘‘ يعني جتني کمائي وہ کرے گا اس ميں سے وہ قسط ادا کرے گا جو اس نے آزادي کے ليے رکھي ہے اور باقي آمد اس کي اپني ہے اور يہ ايک طرح کي آزادي ہے۔

’’حضرت عمر رضي اللہ عنہ کو ايک ايسے غلام نے ہي مارا تھا
جس نے مکاتبت کي ہوئي تھي۔

وہ غلام جس مسلمان کے پاس رہتا تھا ان سے ايک دن اس نے کہا کہ ميري اتني حيثيت ہے، آپ مجھ پر تاوان ڈال ديں۔ مَيں ماہوار اقساط کے ذريعہ آہستہ آہستہ تمام تاوان ادا کردونگا۔ انہوں نے ايک معمولي سي قسط مقرر کر دي اور وہ ادا کرتا رہا۔ ايک دفعہ حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے پاس اس نے شکايت کي کہ ميرے مالک نے مجھ پر بھاري قسط مقرر کر رکھي ہے آپؓ اسے کم کرا ديں۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے اس کي آمدن کي تحقيق کي تو معلوم ہوا کہ جتني آمد کے اندازہ پر قسط مقرر ہوئي تھي اس سے کئي گنا زيادہ آمد وہ پيدا کرتا ہے۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے يہ ديکھ کر فرماياکہ اس قدر آمد کے مقابلہ ميں تمہاري قسط بہت معمولي ہے اِسے کم نہيں کيا جاسکتا۔ اِس فيصلہ سے اسے سخت غصہ آيا اور اس نے سمجھا کہ ميں چونکہ ايراني ہوں اِس لئے ميرے خلاف فيصلہ کيا گيا ہے اور ميرے مالک کا عرب ہونے کي وجہ سے لحاظ کيا گيا ہے۔ چنانچہ اِس غصہ ميں اس نے دوسرے ہي دن خنجر سے آپ پر حملہ کر ديا اور آپؓ انہي زخموں کے نتيجہ ميں شہيد ہوگئے۔‘‘

(اسلام کا اقتصادي نظام، انوارالعلوم جلد18 صفحہ28-29)

حضرت مصلح موعودؓمزيد بيان کرتے ہيں کہ

’’دنيا ميں دو ہي چيزيں راستي سے پھيرنے کا موجب ہوتي ہيں
يا تو انتہائي بغض يا پھر انتہائي محبت۔

انتہائي بغض بسا اوقات معمولي واقعہ سے پيدا ہو جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے وقت ديکھو کتنے معمولي واقعہ سے بغض بڑھا جس نے عالم اسلامي کو کتنا بڑا نقصان پہنچايا ہے۔ ميں سمجھتا ہوں اس واقعہ کا اثر اب تک چلتا جا رہا ہے۔ حضرت عمرؓ کے وقت ايک مقدمہ آپؓ کے پاس آيا۔ کسي شخص کا غلام کماتا بہت تھا ليکن مالک کو ديتا کم تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس غلام کو بلايا اور اسے کہا کہ مالک کو زيادہ ديا کرو۔ اس وقت چونکہ پيشہ ور کم ہوتے تھے اس لئے لوہاروں اور نجاروں کي بڑي قدر ہوتي تھي۔ وہ غلام آٹا پيسنے کي چکي بنايا کرتا تھا اور اس طرح کافي کماتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ساڑھے تين آنے اس کے ذمہ لگا دئيے کہ مالک کو ادا کيا کرے۔ يہ کتني قليل رقم ہے مگر اس کا خيال تھا کہ حضرت عمرؓ نے غلط فيصلہ کيا ہے اس پر اس کے دل ميں بغض بڑھنا شروع ہوا۔ ايک دفعہ حضرت عمرؓ نے اسے کہا کہ ہميں بھي چکي بنا دو۔ اس پر کہنے لگا  ايسي چکي بنا دوں گا جو خوب چلے گي۔ يہ سن کر کسي نے حضرت عمرؓ سے کہا آپ کو دھمکي دے رہا ہے۔‘‘ يہ پہلا جو واقعہ ہے اس سے لگتا ہے کہ اسي سے ملتا جلتا ہے يا وہي واقعہ ہے اور اسي کا واقعہ ہے۔ بہرحال ہے اسي غلام کا۔ ’’آپؓ نے کہا الفاظ سے تو يہ بات ظاہر نہيں ہوتي۔‘‘ پہلي روايت ميں ہے کہ حضرت عمرؓ نے خود کہا تھا کہ يہ دھمکي دے رہا ہے۔ ’’اس نے کہا لہجہ دھمکي آميز تھا۔ آخر ايک دن حضرت عمرؓ نماز پڑھ رہے تھے کہ اس غلام نے آپؓ کو خنجر مار کر قتل کر ديا۔‘‘ حضرت مصلح موعود ؓ لکھتے ہيں کہ ’’وہ عمرؓ جو کروڑوں انسانوں کا بادشاہ تھا، جو بہت وسيع مملکت کا حکمران تھا، جو مسلمانوں کا بہترين رہنما تھا ساڑھے تين آنے پر مار ديا گيا مگر بات يہ ہے کہ جن کي طبيعت ميں بغض اور کينہ ہوتا ہے وہ ساڑھے تين آنے يا دو آنے نہيں ديکھتے وہ اپني پياس بجھانا چاہتے ہيں۔ ان کي طبيعت بغض کے لئے وقف ہوتي ہے۔ ايسي حالت ميں وہ نہيں ديکھتے کہ ہمارے لئے اور دوسروں کے لئے کيا نتيجہ ہو گا۔ حضرت عمرؓ کے قاتل سے جب دريافت کيا گيا کہ تُو نے يہ سفاکانہ فعل کيوں کيا تو اس نے کہا انہوں نے ميرے خلاف فيصلہ کيا تھا مَيں نے اس کا بدلہ ليا ہے۔‘‘

پہلے يہ تفصيل اس طرح بيان نہيں ہوئي۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت اس کو پکڑتے ہوئے تھوڑا سا وقت ملا ہو تو اس ميں اس نے يہ کہہ ديا ہو کہ ميں نے يہ قتل اس لئے کيا ہے اور پھر خود کشي بھي کر لي۔ حضرت مصلح موعوؓد کہتے ہيں کہ ’’ميں نے اس دردناک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے اس کا اسلام پر آج تک اثر ہے اور وہ اس طرح کہ گو موت ہر وقت لگي ہوتي ہے مگر ايسے وقت ميں موت کے آنے کا خيال نہيں کيا جاتا جب قويٰ مضبوط ہوں ليکن جب قويٰ کمزور ہوں اور صحت انحطاط کي طرف ہو تو لوگوں کے ذہن خود بخود آئندہ انتظام کے متعلق سوچنا شروع کر ديتے ہيں۔ وہ ايک دوسرے سے اس بارے ميں باتيں نہيں کرتے مگر خود بخود رَو ايسي پيدا ہو جاتي ہے جو آئندہ انتظام کے متعلق غور کرنے کي تحريک کرتي ہے۔ اس وجہ سے جب امام فوت ہو تو لوگ چوکس ہوتے ہيں۔ چونکہ حضرت عمرؓ کے قويٰ مضبوط تھے گو ان کي عمر تريسٹھ سال کي ہو چکي تھي ليکن صحابہ کے ذہن ميں يہ نہ تھا کہ حضرت عمرؓ ان سے جلدي جداہو جائيں گے اس وجہ سے وہ آئندہ انتظام کے متعلق بالکل بے خبر تھے کہ يکدم حضرت عمرؓ کي وفات کي مصيبت آ پڑي۔ اس وقت جماعت کسي دوسرے امام کو قبول کرنے کے لئے تيار نہ تھي۔ اس عدم تياري کا نتيجہ يہ ہوا کہ حضرت عثمانؓ سے لوگوں کو وہ لگاؤ نہ پيدا ہوا جو ہونا چاہئے تھا۔ اس وجہ سے اسلام کي حالت بہت نازک ہو گئي اور حضرت عليؓ کے وقت اَور زيادہ نازک ہو گئي۔‘‘

(خطبات محمود جلد11 صفحہ240۔241)

جو فساد بعد ميں ہوئے يہ بھي ان کي ايک وجہ بيان کي ہے۔ آپؓ کے نزديک يہ وجہ ہو سکتي ہے۔

فتنہ کے وقت چند آدمي نماز کے موقع پر حفاظت کے ليے کھڑے ہونے ضروري ہيں۔

يہ بھي حضرت مصلح موعودؓ نے فرمايا ہے۔ اور اس ضمن ميں حضرت عمرؓ کي شہادت کا واقعہ بيان کيا ہے۔ فرماتے ہيں کہ ’’قرآن مجيد کا صراحتاً حکم ہے کہ حفاظت کے لئے مسلمانوں ميں سے آدھے کھڑے رہا کريں اور گو يہ جنگ کے وقت کي بات ہے جب ايک جماعت کي حفاظت کے لئے ضرورت ہوتي ہے ليکن اس سے استدلال کيا جا سکتا ہے کہ چھوٹے فتنے کے انسداد کے لئے اگر چند آدمي نماز کے وقت کھڑے کر دئيے جائيں تو يہ قابلِ اعتراض امر نہيں بلکہ ضروري ہو گا‘‘ کہ يہ کس طرح کيا جائے؟ فرماتے ہيں کہ ’’اگر جنگ کے وقت ہزار ميں سے پانچ سو حفاظت کے لئے کھڑے کئے جا سکتے ہيں تو کيا معمولي خطرے کے وقت ہزار ميں سے پانچ دس آدمي حفاظت کے لئے کھڑے نہيں کئے جا سکتے؟ يہ کہنا کہ خطرہ غير يقيني ہے بيہودہ بات ہے۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے ساتھ کيا ہوا۔ آپؓ نماز پڑھ رہے تھے۔ مسلمان بھي نماز ميں مشغول تھے کہ ايک بدمعاش شخص نے سمجھا يہ وقت حملہ کرنے کے لئے موزوں ہے وہ آگے بڑھا اور اس نے خنجر سے وار کر ديا۔ اس واقعہ کے بعد بھي اگر کوئي شخص يہ کہتا ہے کہ نماز کے وقت پہرہ دينا اس کے اصول يا وقار کے خلاف ہے۔‘‘ يعني نماز کے اصول يا وقار کے خلاف ہے ’’تو سوائے اپني حماقت کے مظاہرہ کرنے کے اور وہ کچھ نہيں کرتا۔ اس کي مثال اس بيوقوف کي سي ہے جو لڑائي ميں شامل ہوا اور ايک تير اسے آ لگا جس سے خون بہنے لگا۔ وہ ميدان سے بھاگا اور خون پونچھتا ہوا يہ کہتا چلا گيا کہ يا اللہ! يہ خواب ہي ہو‘‘ يہ سچي بات نہ ہو کہ تير مجھے لگ گيا ہے۔ ’’…… تاريخ سے يہ بھي ثابت ہے کہ ايک موقع پر صحابہ نے اپني حفاظت کا انتظام نہ کيا تو انہيں سخت تکليف اٹھاني پڑي۔ چنانچہ حضرت عَمرو بن العاصؓ جب مصر کي فتح کے لئے گئے اور انہوں نے علاقہ کو فتح کر ليا تو اس کے بعد جب وہ نماز پڑھاتے تو پہرہ کا انتظام نہ کرتے۔ دشمنوں نے جب ديکھا کہ مسلمان اس حالت ميں بالکل غافل ہوتے ہيں تو انہوں نے ايک دن مقرر کر کے چند سو مسلح آدمي عين اس وقت بھيجے۔ جب مسلمان سجدہ ميں تھے پہنچتے ہي انہوں نے تلواروں سے مسلمانوں کے سر کاٹنے شروع کر دئيے۔ تاريخ سے ثابت ہے کہ سينکڑوں صحابہ اس دن مارے گئے يا زخمي ہوئے۔ ايک کے بعد دوسرا سر زمين پر گرتا اور دوسرے کے بعد تيسرا اور ساتھي سمجھ ہي نہ سکتے کہ يہ کيا ہو رہا ہے حتي کہ شديد نقصان لشکر کو پہنچ گيا۔ حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کو جب معلوم ہوا تو آپؓ نے انہيں بہت ڈانٹا اور فرمايا کہ کيا تمہيں معلوم نہ تھا کہ حفاظت کا انتظام رکھنا چاہئے مگر انہيں‘‘ يعني حضرت عمرؓ کو ’’کيا معلوم تھا کہ مدينہ ميں بھي ايسا ہي ان کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اس واقعہ کے بعد صحابہ نے يہ انتظام کيا کہ جب بھي نماز پڑھتے ہميشہ حفاظت کے لئے پہرے رکھتے۔‘‘

(خطبات محمود جلد16 صفحہ68-69)

حضرت عمرؓ کے قرض کے بارے ميں

پہلے بھي ذکر ہو چکا ہے۔ آپؓ نے پوچھا تھا اور پھر اپنے بيٹے کو فرمايا تھا۔ اس بارے ميں مزيد يہ ہے کہ انہوں نے اپنے بيٹے کو کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ ديکھو مجھ پر کتنا قرض ہے؟ انہوں نے حساب کيا تو چھياسي ہزار درہم نکلے۔ آپؓ نے فرمايا: اے عبداللہ! اگر آلِ عمر کا مال اس کے ليے کافي ہو تو ان کے مال سے ميرا يہ قرض ادا کر دينا۔ اگر ان کا مال کافي نہ ہو تو بنو عدي بن کعب سے مانگنا۔ اگر وہ بھي کافي نہ ہو تو قريش سے مانگنا اور ان کے علاوہ کسي اَور سے نہ کہنا۔

(الطبقات الکبريٰ جلد3 صفحہ257 دارالکتب العلمية)

صحابہ کرامؓ جانتے تھے کہ ہمارا يہ سادہ زندگي بسر کرنے والا امام اتني بڑي رقم اپنے اوپر خرچ کرنے والا نہيں ہے۔ انہيں معلوم تھا کہ جو اتنا قرض چڑھايا تھا، يہ رقم بھي انہوں نے ضرورت مندوں اور غريبوں پر ہي خرچ کي تھي۔ اس ليے عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپؓ بيت المال سے قرض لے کر اپنا يہ قرض کيوں نہيں ادا کر ديتے؟ حضرت عمرؓ نے فرمايا معاذ اللہ !کيا تم چاہتے ہو کہ تم اور تمہارے ساتھي ميرے بعد يہ کہيں کہ ہم نے تو اپنا حصہ عمرؓ کے ليے چھوڑ ديا۔ تم اب تو مجھے تسلي دے دو مگر ميرے پيچھے ايسي مصيبت پڑ جائے کہ اس سے نکلے بغير ميرے ليے نجات کي کوئي راہ نہ ہو۔ پھر حضرت عمرؓ نے اپنے بيٹے عبداللہ بن عمرؓ سے فرمايا۔ ميرے قرض کي ذمہ داري قبول کرو۔ چنانچہ انہوں نے يہ ذمہ داري قبول کر لي۔ حضرت عمرؓ ابھي دفن نہيں کيے گئے تھے کہ ان کے بيٹے نے ارکانِ شوريٰ اور چند نصاريٰ کو اپني اس ضمانت پر گواہ بنايا جو قرض کي ذمہ داري لي تھي اور حضرت عمرؓ کي تدفين کے بعد ابھي جمعہ نہيں گزرا تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ قرض کي رقم لے کر حضرت عثمانؓ کي خدمت ميں پہنچے اور چند گواہوں کے سامنے اس بار سے سبکدوش ہو گئے۔

(الطبقات الکبريٰ جلد3 صفحہ273 دارالکتب العلمية)

قرض کي ادائيگي کے متعلق ايک اَور روايت کتاب ’’وفاء الوفاء‘‘ ميں ملتي ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روايت ہے کہ جب حضرت عمرؓ کي وفات کا وقت قريب آيا تو آپؓ کے ذمہ قرض تھا۔ آپؓ نے حضرت عبداللہؓ اور حضرت حفصہ ؓ کو بلايا اور کہا ميرے ذمہ اللہ کے مال ميں سے کچھ قرض ہے اور ميں چاہتا ہوں کہ ميں اللہ کو اس حال ميں ملوں کہ ميرے ذمہ کوئي قرض نہ ہو۔ پس تم اس قرض کو پورا کرنے کے ليے اس مکان کو بيچ دينا جس ميں رہتے تھے۔ پس اگر کچھ مال کم رہ جائے تو بنو عدي سے مانگنا۔ اگر پھر بھي بچ جائے تو قريش کے بعد کسي کے پاس نہ جانا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ان کي، حضرت عمرؓ کي وفات کے بعد حضرت معاويہؓ کے پاس گئے اور آپؓ نے، حضرت معاويہؓ نے حضرت عمرؓ کا گھر خريد ليا جس کو دارالقضاء کہا جاتا ہے۔ آپ نے وہ مکان بيچ ديا اور حضرت عمرؓ کا قرض ادا کر ديا۔ اس ليے اس گھر کو دَارُ قَضَآءِ دَيْنِ عُمَر کہا جانے لگا يعني وہ گھر جس کے ذريعہ حضرت عمرؓ کے قرض کو ادا کيا گيا تھا۔

(وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفيٰ از علامہ نور الدين مجلد1 جزء الثاني صفحہ222 مکتبة الحقانية محلہ جنگي پشاور پاکستان)

يہ ذکر ابھي مزيد چل رہا ہے ان شاء اللہ آئندہ ذکر ہو گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 05؍نومبر 2021ء)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 05؍نومبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 نومبر 2021