• 25 اپریل, 2024

Remembrance Day

ماہ ِنومبر کا آغاز ہوتے ہى جہاں موسم سرد ہونے کى وجہ سے لوگ گرم ملبوسات کا استعمال شروع کر دىتے ہىں۔ وہاں ہى کوٹ اور جىکىٹس کے کالرز پر جابجا لال چھوٹے چھوٹے پوپى کے پھول سجے دکھائى دىتے ہىں ۔ىہ چھوٹے پوپى دراصل پہلى جنگ عظىم مىں ہونے والے شہىدوں کے اعزاز مىں ان کى محبت مىں لگائے جاتے ہىں اور اس سے ہونے والے آمدن رىٹائرڈ فوجىوں اور انکے افراد خانہ پر خرچ کى جاتى ہے۔ مسلح افواج کے ممبروں کو امدادى امداد مىں دى جاتى ہے۔

برطانىہ، فرانس، کىنىڈا، بىلجىئم، آسڑىلىا اور نىوزى لىنڈ کے لاکھوں افراد گىارہ نومبر 1918ء کى دستہ سازى کى برسى کى ىاد مىں  پوپى کا پھول پہنتے ہىں۔ پہلى جنگ عظىم 1914ء مىں آرچڈو فرانز فرڈىنىنڈ کے قتل کے بعد شروع ہوئى اور ىہ 1918ء تک جارى رہى۔ فرانس، برطانىہ، روس اور امرىکہ نے جرمنى، آسٹرو ہنگرى اور سلطنت عثمانىہ نے اس لڑائى مىں حصہ لىا۔ اس قتل عام مىں نو سے گىارہ ملىن فوجى ہلاک ہوئے۔ کئى اور زخمى ہوئے۔ شہرى اموات بھى زىادہ تھىں ۔تقرىبا  چھ سے تىرہ ملىن افراد ہلاک ہوئے۔ جنگ عظىم نے قتل و غارت کے نئے نئے طرىقے متعارف کرائے۔ ان مىں ٹىنک ، لڑاکا طىارے ، دستى بم اور زہرىلى گىس شامل تھى۔ پہلى جنگ عظىم لڑائى کى اىک خوفناک شکل تھى جس نے لاکھوں افراد کو ہلاک ىا زخمى کىا۔ غرض کہ بے حد و حساب جانى و مالى نقصان ہوا۔

جنگ کا اختتام 11 نومبر 1918ءمىں ہوا اور آخر کار فرىقىن کے مابىن اىک امن معاہدے کے تحت جنگ بندى عمل مىں آئى۔ جن سپاہىوں نے اپنے وطن کى خاطر اپنى جان تک کى بازى لگا دى اور ہمت و شجاعت سے دشمن کا مقابلہ کىا۔ اور اس شعر کے مصداق اپنى جانىں قربان کر دىں کہ

؎جان دى دى ہوئى اسى کى تھى
حق تو ىہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

(مرزا غالب)

انہى بہادر افواج کے سپاہىوں کو خراج تحسىن پىش کرنے کے لىے گىارہ نومبر کو ىہ Remembrance Day مناىا جاتا ہے۔ ٹھىک گىارہ بجے جب جنگ بندى ہوئى تھى اسى وقت اىک تقرىب کا انعقاد کىا جاتا ہے جہاں ان تمام شہداء کى قربانى کو اظہار عقىدت پىش کرنے کے لىے دو منٹ کى خاموشى اختىار کى جاتى ہے۔

اور خصوصى دعا کى جاتى ہے۔ جنگ ہمىشہ اپنے ساتھ تباہىاں لاتى ہىں۔ اس لىے ہر مذہب اور خصوصاً اسلام نے امن کا حکم دىا ہےلىکن اگر اپنے دفاع مىں لڑنا پڑے تو اس وقت پىٹھ نہ دکھانے کا حکم ہے۔ بلکہ بہادرى سے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہىے۔ خدا کى راہ مىں جہاد کرنے کے بعد وطن کے دفاع مىں لڑنا بھى بہت اہمىت رکھتا ہے۔ جو لوگ زندگى جىسى نعمت کو کسى عظىم مقصد کى خاطر قربان کر دىتے ہىں وہ حىاتِ جاوداں پا لىتے ہىں۔تارىخ اىسے شہداء کو ہمىشہ ىاد رکھتى ہے جو اپنے وطن کى خاطر جان کا نذرانہ پىش کرتے ہىں۔ کىونکہ حدىث نبوى صلى اللہ علىہ وسلم ہے:

حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ۔

ىعنى وطن کى محبت اىمان کا حصہ ہے۔

حضرت خلىفہ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالى اس کى مزىد وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہىں:
’’وطن سے وفادارى اور محبت‘‘ کہنا ىا سننا بہت آسان ہے لىکن درحقىقت ىہ چند الفاظ اپنے اندر بہت وسعت، خوب صورتى اور گہرائى سمىٹے ہوئے ہىں۔ ان الفاظ کے معانى اور تقاضوں کو سمجھنا دراصل بہت مشکل ہے ۔ بہر حال اس مختصر سے وقت مىں مَىں وطن سے وفادارى اور محبت کے متعلق اسلامى نقطۂ نظر پىش کرنے کى کوشش کروں گا ۔اسلام کى سب سے پہلى او ربنىادى اصل ىہ ہے کہ کسى شخص کے قول و فعل مىں کسى بھى قسم کا تضاد ىا منافقت نہ پائى جائے۔ حقىقى وفادارى اىک مخلصانہ تعلق کى متقاضى ہوتى ہے۔ نىز ىہ کہ انسان کا ظاہر اور باطن اىک ہو۔قومى نقطۂ نظر سے ىہ اصول اور بھى زىادہ اہمىت کا حامل ہے ۔ کسى بھى ملک کے شہرى کے لىے ضرورى ہے کہ اس کا اپنے وطن سے رشتہ حقىقى وفادارى پر مبنى ہو۔ اس سے فرق نہىں پڑتا کہ وہ پىدائشى طورپر اس ملک کا باسى ہے ىا بعد مىں اىمىگرىشن ىا کسى اَور طرىق سے اُس نے اُس ملک کى شہرىت حاصل کى ہے۔

وفادارى اىک بہت بڑى خوبى ہے جس کے بہترىن مظہر اور نمونہ خدا تعالىٰ کے انبىاء ہوتے ہىں ۔ خدا سے اُن کى محبت اور تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ ہر حال اور تمام معاملات مىں ان کے پىش ِنظر الٰہى احکام ہوتے ہىں اور وہ کما حقہٗ احکام ِالٰہى پر عمل پىرا ہونے کى کوشش کرتے ہىں۔ اسى طرح خدا سے ان کى وفادارى کے اسلوب اور بہترىن معىار کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا صرف انبىاء ہى کى وفادارى کے معىار کو مثال اور نمونہ کے طورپر پىش کرنا چاہىے۔ تا ہم اِس پر مزىد بات کرنے سے پہلے ىہ سمجھنا ضرورى ہے کہ حقىقى وفادارى کا مطلب کىا ہے؟

اسلامى تعلىمات کے مطابق وفادارى کى صحىح تعرىف اپنے عہد و پىمان کو ہر سطح اور ہر طرح کے حالات مىں مشکلات کے باوجود غىر مشروط طورپر ادا کرنا ہے۔ اسلامى تعلىم کى رو سے ىہ وفادارى کا حقىقى معىار ہے۔ قرآن کرىم مىں متعدد مقامات پر اللہ تعالىٰ مسلمانوں کو نصىحت کرتا ہے کہ انہىں اپنے وعدے اور عہد ضرور پورے کرنے چاہئىں۔ کىونکہ خدا اُن سے اُن کے تمام عہدوں کے متعلق جو انہوں نے کىے پوچھے گا۔ مسلمانوں کو نصىحت کى گئى ہے کہ وہ اپنے تمام عہدوں کو پورا کرىں جس مىں خدا تعالىٰ سے کئے گئے عہد بھى شامل ہىں اور دوسرے تمام وعدے بھى جو انہوں نے اپنے اپنے درجہ اور عہدہ کى رعاىت سے کئے۔

ىہاں ىہ سوال پىدا ہو سکتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کا دعوىٰ ہے کہ ان کے نزدىک خدا تعالىٰ اور مذہب سب سے زىادہ اہم ہىں لہٰذا خدا سے وفادارى کا عہد اِن کى اوّلىن ترجىح ہے۔ نىز خدا سے کىا ہوا عہد باقى ہر چىز پر فوقىت رکھتا ہے جسے وہ پورا کرنے کى کوشش کرتے ہىں جبکہ وطن سے وفادارى اور ملکى قوانىن کى پاسدارى کا عہد ثانوى حىثىت کا حامل ہے۔ لہٰذا عىن ممکن ہے کہ کسى موقع پر وہ وطن کے وعدہ کو خدا کے لىے قربان کرنے پر تىار ہو جائىں۔

اِس خدشہ کے جواب مىں سب سے پہلے مَىں آپ کو بتاتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے خود ىہ تعلىم دى ہے کہ ’’وطن سے محبت اىمان کا حصہ ہے۔‘‘ لہٰذا اسلام اپنے ہر پىروکار سے مخلصانہ حب الوطنى کا تقاضا کرتا ہے۔ خدا اور اسلام سے سچى محبت کرنے کے لىے کسى بھى شخص کے لىے لازمى ہے کہ وہ اپنے وطن سے محبت کرے۔ لہٰذا ىہ بالکل واضح ہے کہ کسى شخص کى خدا سے محبت اور وطن سے محبت کے درمىان کوئى ٹکراؤ نہىں ہو سکتا۔ چونکہ وطن سے محبت کو اسلام کا اىک رکن بنا دىا گىا ہے اس لىے ىہ واضح ہے کہ اىک مسلمان کو اپنے وطن سے وفادارى کے اعلىٰ معىار حاصل کرنے کے لىے کوشش کرنى چاہىے کىونکہ ىہ خدا سے ملنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا اىک ذرىعہ ہے۔ اس لىے ىہ ناممکن ہے کہ اىک حقىقى مسلمان کى خدا سے محبت، اس کى وطن سے سچى محبت اور وفادارى کى راہ مىں کبھى رکاوٹ کا باعث بنے۔

(خطاب ملٹرى ہىڈ کوارٹر کوبلنز جرمنى بحوالہ 2012ء عالمى بحران اور امن کى راہ صفحہ26۔27)

ان سب نصائح کو مدنظر رکھتے ہوئے احمدى جس بھى ملک مىں رہے وہ اس ملک کى گورنمنٹ کا وفادار ہوتا ہے۔ ہر سال اکتوبر، نومبرمىں جماعت احمدىہ کى ذىلى تنظمىں پوپى فنڈ رىزنگ مىں حصہ لىتى ہىں۔خدام الاحمدىہ، اطفال الاحمدىہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدىہ نىز انصار اللہ بھى پوپى فلاور کى باسکٹس تھامے آپ کو ہر جگہ دکھائى دىں گے۔ جہاں وہ ان پھولوں کى پنز کو فروخت کر کے اس کى آمدن گورنمنٹ کو تحفتاًپىش کرتے ہىں۔ حکومتى سطح پر جماعت احمدىہ کى ان کاوشوں کو سراہا جاتا ہے اور بہت واضح الفاظ مىں حکومتى ادارے ان پر خوشنودى کا اظہار کرتے دکھائى دىتے ہىں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلىٰ ذَالِکَ

ان پوپى کے پھولوں کو پہلى جنگ عظىم سے کىا نسبت ہے؟

لىفٹنٹ کرنل جان مىک کرى جو اىک کىنىڈىن فوجى تھا۔  اس نے اپنى ساتھى فوجى کى وفات کےبعد اىک نظم تحرىر کى تھى۔جب اس کے سامنے مىدان جنگ مىں جابجا ىہ لال پھول کھلے ہوئے تھے۔

اس نظم مىں جنگ کى اىک ستم ظرىفى پر روشنى ڈالى گئى ہے کہ فوجىوں کو مرنا ضرورى ہے تاکہ اىک قوم کى زندگى زندہ رہے۔

پہلى جنگ عظىم کے بعد پوست ىاد، امىد اور استقامت کى علامت بن گئى تھى۔ اور ىہ نظم بھى جىسے Remembrance Day کا اىک خاص حصہ بن گئى تھى۔

1920ء سے ىہ پھول ان تمام فوجىوں کى ىاد مىں پہنا جاتا ہے جنہوں نے جنگ کے مىدان مىں اپنى زندگىاں گنوا دى تھىں۔ مونىکا مارشل نے اسے سب سے پہلے پہنا تھا۔ اپنى تمام افواج کو خراج تحسىن پىش کرنے کے لىے کوئىن اىک ساتھ پانچ پوپى فلاور پہنتى ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کسى ذہن مىں ىہ سوال آئے کہ ہمارى جماعت تو عموماً اىسے کسى خاص دن منانے کى حوصلہ شکنى کرتى ہے تو پھر اس دن کے لىے ىہ فنڈ رىزنگ کىوں کى جاتى ہے۔ اور افرادِ جماعت بھى ىہ پھول بخوشى اپنے کپڑوں پر سجائے دکھائى دىتے ہىں تو اس کا جواب ىہى ہے کہ ہم کوئى دن نہىں مناتے بلکہ ان شہداء کى قربانى کو خراج تحسىن پىش کرتے اور فنڈ رىزنگ کر کے صرف اس ملک کى خدمت کرتے ہىں کىونکہ جب احمدى مسلمان اپنا عہد نامہ دہراتے ہىں تو اس مىں بھى ىہ عہد کرتے ہىں کہ ’’اپنے ملک اور قوم کى خاطر قربانى دىنے کے لىے ہر دم تىار رہىں گے۔‘‘ بس اسى عہد کو نبھانے کى خاطر ہم ان سپاہىوں کى قربانى کو ىاد رکھتے ہىں۔ حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالى نے بھى افراد ِجماعت کو اپنے ملک سے وفادار رہنے کى نصىحت کى ہے۔

بىت الرشىد ہمبرگ جرمنى مىں خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرماىا:
احمدى جہاں کہىں بھى جائىں گے۔ اپنے اُس وطن سے اسى طرح محبت کرتے ہىں جس طرح اس ملک کے وفادار شہرىوں کو کرنى چاہىے اور عملاً اس ملک کى ترقى اوربہترى کى کوشش کرتے ہىں۔ اسلام ہى ہے جوہمىں اس طرح جىنا سکھاتا ہے۔ اسلام ہمىں صرف اس طرز معاشرت کى نصىحت ہى نہىں کرتا بلکہ حکم دىتا ہے کہ ہم جس ملک مىں رہ رہے ہوں اُس کے ساتھ مکمل وفادارى کرىں۔

(عالمى بحران اورامن کى راہ صفحہ105)

زندہ قومىں اپنے لىے قربانى دىنے والوں کو کبھى بھى نہىں بھولتىں تو ہمارى جماعت کو بھى ان شہداء کو ىاد رکھنا چاہىے جن کا خون جماعت احمدىہ کے ثمر آور شجر کى آبىارى مىں شامل ہے ہم احمدى دن منانے پر ىقىن نہىں رکھتے اسى لىے اپنى روزانہ کى نمازوں کى دعاؤں مىں، اپنے تہجد کے سجوود مىں ان شہداء کو ىاد رکھ کرہم اس قرض محبت کو ادا کر سکتے ہىں۔ اللہ ہمىں اسکى توفىق عطا فرمائے کہ ہم ان قربانى دىنے والوں کا حق ادا کر سکىں۔ آمىن ثمّ آمىن

اب ہم اس عظىم جنگ کى ىاد مىں اپنى جانىں قربان کرنے والوں کو ىاد کرتے ہوئے اس بات کا خواہش بھى رکھتے ہىں کہ اب مزىد اىسى کوئى تباہى ہمىں ىا ہمارى نسلوں کو دىکھنى نہ پڑے۔ بلکہ ىہ دنىا امن و آتشى کا گہوارا بن جائے۔ انسانىت کا جذبہ ہر ذى روح کے دل مىں موجزن رہے۔ ہر ملک کے صاحب اقتدار اپنى عوام کو پُرامن خطہ ارض فراہم کرنے والے ہوں۔

جہاں کسى کا خونِ ناحق نہ بہے۔ جہاں صرف امن کا قانون چلتا ہو۔ اللہ کرے کہ اىسا ہى ہو۔ آمىن

پىارے آقا کے درج ذىل ىہ دعائىہ الفاظ خدا کرے کہ ہر آئىن کا نصب العىن بن جائىں:
’’خدا کرے کہ جنگ، بد امنى اور دشمنىوں مىں گھرى ہوئى دنىا امن، محبت، اخوت اور اتحاد کا گہوارہ بن جائے۔‘‘

(ملکہ برطانىہ کے نام خط، عالمى بحران اور امن کا راستہ 232)

(صدف علیم صدیقی ۔ریجائنا کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 05؍نومبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 نومبر 2021