• 21 مئی, 2024

جامع المناھج والاسالیب (قسط 9)

جامع المناھج والاسالیب
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی شہرہ آفاق تصنیف تفسیر کبیر کا ایک اختصاصی مطالعہ
قسط 9

صناعت لفظی کا منہج / رجحان

اس رجحانِ تفسیر کی ذیل میں علم تفسیر کی سب سے بڑی مثال سواطع الالہام کی دی جاتی ہے۔ اس تفسیر کے بارہ میں علامہ محمد عبدالحق حقانی اپنی تفسیر کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:
’’سواطع الالہام جس کو بے نقط تفسیر کہتے ہیں۔ ابو الیفض فیضی کی تصنیف۔ یہ جلال الدین اکبر بادشاہِ ہند کے امراء میں سے تھا۔ تمام تفسیر میں بے نقط حروف لایا۔ اور بڑا تکلف کیا ہے۔ ایک طرح کی عبارت آرائی ہے مگر فن تفسیر اور دیگر تحقیقات سے بالکل بے بہرہ ہے۔‘‘

(مقدمہ تفسیر حقانی، محمد عبد الحق حقانی صفحہ نمبر211 میر محمد کتب خانہ کراچی)

صناعت لفظی کے منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر و تراجم قرآن کریم

  • سواطع الالہام لابی الفضل فیضی (1547ء تا 1595ء)
  • تفسیر محمدی (پنجابی) از حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوکے والے (1871ء)
  • درِّ منظوم تفسیر منظوم قرآن کریم از قادر فاضلی (فارسی) (ولادت و وفات)
  • منظوم پنجابی ترجمہ از محمد فیروز الدین (1904ء)
  • درس کلام اللہ (اردو زبان میں غیر منقوط تفسیری ترجمہ قرآن) از ڈاکٹر محمد طاہر مصطفیٰ (ولادت 1961ء)

جماعت احمدیہ کا صناعت لفظی کے منہج پر مبنی
تفاسیر و تراجم سے متعلق مؤقف

’’ایک پادری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ فیضی کی تفسیر اعلیٰ درجہ کی فصاحت و بلاغت میں ہے، کیونکہ ساری بے نقط لکھی ہے۔ میں نے اس کا جواب دیا کہ بے نقط لکھنا کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں، یہ ایک قسم کا تکلّف ہے اور تکلّفات میں پڑنالغو امر ہے۔ مومنوں کی شان یہ ہے وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۴﴾ (المؤمنون: 4) یعنی مومن وہ ہوتے ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اگر بے نقط ہی کو معجزہ سمجھتے ہو تو قرآن شریف میں بھی ایک بے نقط معجزہ ہے اور وہ یہ ہے لَارَیْبَ فِیْہِ اس میں ریب کا کوئی لفظ نہیں۔ یہی اس کا معجزہ ہے لَا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ (حٰمٓ السّجدہ: 43) اس سے بڑھ کر اور کیا خوبی ہوتی۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ454-455 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

’’اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے۔ کہ چونکہ قرآنی فصاحت بلاغت فضول طریقوں سے بکلّی پاک اور منزہ ہے۔ پس اس صورت میں حکیم مطلق کی شان مقدس سے بالکل دور تھا کہ وہ فضول گو شاعروں کی طرح بے نقط یا بانقط عبارت میں اپنا کلام نازل کرتا۔ کیونکہ یہ سب لغو حرکتیں ہیں۔ جن میں کچھ بھی فائدہ نہیں اور حکیم مطلق کی شان اس سے بلند وبرتر ہے کہ کوئی لغو حرکت اختیار کرے۔ جس صورت میں اس نے آپ ہی فرمایا ہے وَالَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ یعنی ایماندار وہ لوگ ہیں جو لغو کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا وقت بیہودہ کاموں میں نہیں کھوتے۔ تو پھر آپ ہی کیونکر بیہودہ کام کرتا جس حالت میں اپنی کتاب کی اس نے یہ تعریف کی ہے کہ اس کی شان میں فرمایا ہے وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ۔ لَا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَلَا مِنۡ خَلۡفِہٖ یعنی قرآن حکمت سے پر ہے۔ باطل کو اس کے آگے پیچھے سے گزر نہیں۔ تو اس صورت میں وہ کیونکر آپ ہی باطل کو اس میں بھر دیتا۔ اس کام کے لئے تو فیضی جیسا ہی کوئی نادان فضول گو چاہئے۔ اَلْخَبِيْثَاتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ۔ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِيْنَ خدا کے کلام کو اس طرح پر بے نقط سمجھنا چاہئے کہ وہ لغو اور جھوٹ اور بیہودہ گوئی کے نقطوں سے منزہ اور معرا ہے اور اس کی فصاحت بلاغت وہ بے بہا جوہر ہے جس سے دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ روحانی بیماروں سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ حقائق اور دقائق کا جاننا حق کے طالبوں پر آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا کا فصیح کلام معارف حقہ کو کمال اعجاز سے، کمال ترتیب سے، کمال صفائی اور خوش بیانی سے لکھتا ہے اور وہ طریق اختیار کرتا ہے جس سے دلوں پر اعلیٰ درجہ کا اثر پڑے اور تھوڑی عبارت میں وہ علوم الٰہیہ سما جائیں جن پر دنیا کی ابتدا سے کسی کتاب یا دفتر نے احاطہ نہیں کیا۔ یہی حقیقی فصاحت بلاغت ہے جو تکمیل نفس انسانی کے لئے ممد و معاون ہے جس کے ذریعہ سے حق کے طالب کمال مطلوب تک پہنچتے ہیں اور یہی وہ صنعتِ ربانی ہے جس کا انجام پذیر ہونا بجز الٰہی طاقت اور اس کے علم وسیع کے ممکن نہیں۔ خدائے تعالیٰ اپنے کلام کے ایک ایک فقرہ کی سچائی کا ذمہ وار ہے اور جو کچھ اس کی تقریر میں واقعہ ہے خواہ وہ اخبار اور آثار گذشتہ ہیں خواہ وہ آئندہ کی خبریں اور پیشگوئیاں ہیں اور خواہ وہ علمی اور دینی صداقتیں ہیں۔ وہ تمام کذب اور ہزل اور بیہودہ گوئی کے داغ سے منزہ ہیں۔‘‘

(براہینِ احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ459-466 حاشیہ در حاشیہ)

درسی اور فنّی رجحان

دنیائے عرب کی موجود یونیورسٹیز میں آجکل علم تفسیر میں علمائے متقدمین و متاخرین کی تفاسیر سے مختلف عناوین کے تحت پڑھایا جاتا ہے۔ اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں مدارس و دینی درسگاہوں میں قدیم تفاسیر کو ہی پڑھایا جاتا تھا۔ براعظم افریقہ میں اس علم کو تنوع کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ بہر حال ذیل میں اس رجحان کی چند تفاسیر پیش کی جاتی ہیں:

  • الکشاف عن حقائق التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التاویل للزمخشری (467ھ تا 538ھ)
  • مدارک التنزیل و حقائق التاویل المعروف بہ تفسیر النسفی لعبداللہ بن احمد بن محمود النسفی (وفات 710ھ)
  • تفسیر القرآن العظیم لابی الفداء الحافظ ابن کثیر (701ھ تا 774ھ)
  • تفسیر جلالین لامام جلال الدین المحلی (791ھ تا 864ھ) امام جلال الدین السیوطی (849ھ تا 911ھ)
  • انوار التنزیل و اسرار التاویل المعروف بہ تفسیر بیضاوی لناصر الدین البیضاوی (وفات 1901ء)

تفسیر کبیر اور اس کا علم تفسیر القرآن کے تدریسی ماخذ کے طور پر استعمال برصغیر پاک و ہند کےایسے ماحول میں جہاں جماعت احمدیہ اور اس کے لٹریچر پر طرح طرح کی قانونی قدغنیں، تعصب اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں اس کتاب سے استفادہ تو کیا اس کو شائع کرنا بھی ایک بڑی بات ہے۔ تعصب کی عینک نے اس عظیم الشان اسلامی لٹریچر کو بھی دھندلا کر کے دکھایا۔ عالم عرب میں اس تفسیر کے استعمال سے متعلق کسی حتمی بات کا علم نہیں ہو سکا۔ اس کے برخلاف براعظم افریقہ کی جدید یونیورسٹیز میں اس تفسیر کو باقاعدہ تفسیری ماخذ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مثلاًمغربی افریقہ کے ملک نائیجیریا کی قابل ذکر درسگاہ، یونیورسٹی آف ابادان میں شعبہ اسلامک سٹڈیز میں علم تفسیر کی تدریس میں اس تفسیر سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک کے دینی مدارس میں بھی خواہ جماعت احمدیہ کے علم کلام کو نگاہ اعتراض سے ہی دیکھا جائے آپ کی تفسیر کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ آپ نے ایک بار فرمایا:
’’میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایساہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علم قرآن بخشاہے اور اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔‘‘

(المو عود، انوارالعلوم جلد17 صفحہ614)

نعتی منہج / رجحان

اس منہج میں مفسر ہر آیت قرآنی سے سیرت النبی ﷺ کا کوئی نہ کوئی پہلو نکالتا ہے۔ اس رجحانِ تفسیر کی کوئی تفسیر تو شائد عالم عرب میں نہیں ملتی۔ مگر برصغیر کے ایک عالم حاجی عبدالوھاب بخاری (المتوفیٰ 1525ء) نے اسی منہج پر ایک تفسیر لکھی۔ اس کے بارہ میں مولانا عبدالحئی حسنی صاحب اپنی تصنیف نزھۃ الخواطر میں لکھتے ہیں۔

’’آپ (عبدالوھاب بخاری ) کی ایک تفسیر ہے۔ آپ نے یہ تفسیر ماہ ربیع الثانی سن 915ھ میں لکھنا شروع کی اور 17 شوال 915ھ میں مکمل کی۔ آپ نے یہ تفسیر چھ ماہ کے عرصہ میں لکھی۔ اس تفسیر میں آپ نے اکثر بلکہ تمام آیات قرآنیہ سے مناقب نبی ﷺ ثابت کئے، آپ نے اس میں محبت رسول ﷺ کے اسرار، وجدانی کیفیات بیان کیں۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے یہ تصنیف غلبہ حال میں لکھی کیونکہ اس میں جو آپ نے ذکر کیا اس میں سے اکثر (تاریخی اعتبار سے ثابت شدہ) درست نہیں۔‘‘

(اعلام بمن فی تاریخ الھند من الاعلام المعروف بہ نزھۃ الخواطر و بھجۃ المسامع والنواظر، الجزء الرابع، صفحہ381 مطبوعہ دار ابن حزم 1999ء)

لا منہجی یا تقصیری رجحان

اس رجحان سے متعلق ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن اور ڈاکٹر حافظ محمد حماد اپنے تحقیقی مقالہ ’’برصغیر میں قرآن فہمی کے رجحانات اور اثرات‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’عصر حاضر کے کچھ ایسے صحافی، ریٹائرڈ فوجی افسران، پروفیسرز، اداریہ نگاران اور بزعم خود دانشواران بھی ’’تفسیر القرآن‘‘ کا ’’فرض‘‘ ادا کر رہے ہیں، جن کے پاس سرے سے نہ مطلوبی اہلیت ہی موجود ہے اور نہ کوئی مخصوص منہج اور نہ وہ کسی اہل علم سے رابطہ کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ اگرچہ اس لا منہجی رجحان کی کوئی مستقل تفسیر تو نظر سے نہیں گزری، البتہ بعض تمدنی، قانونی اور معاشرتی مسائل میں اخبارات کے صفحات اور رسائل و جرائد میں ان کی ’’نکتہ آفرینیاں‘‘ مطالعہ سے گزرتی رہتی ہیں۔ اس طرز کے ’’نکات و معارف‘‘ کو لامنہجی تقصیری رجحان کہا جا سکتا ہے۔ ’’لا منہجی‘‘ اس لئے کہ وہ منہج سے آشنا ہی نہیں، اور ’’تقصیری‘‘ اس لئے کہ وہ آداب تفسیر اور ادوات تفسیر دونوں ہی سے قاصر اور تہی دامن ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اپنے مخصوص میدان میں کامل مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ ’’تفسیر قرآن‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنا بھی ’’فرض‘‘ سمجھتے ہیں اور امت کو نئے نئے ’’حقائق‘‘ سے متعارف کرواتے رہتے ہیں۔

(برصغیر میں قرآن فہمی کے رجحانات اور اثرات ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن، ڈاکٹر حافظ محمد حماد القلم جون 2018ء صفحہ70)

’’انحرافی‘‘ یا منفرد منہج /رجحان

تفسیر کے انحرافی رجحان سے مراد وہ رجحان لیا جاتا ہے جو کہ جمہور مسلمان علماء کے رجحانات سے اختلاف رکھے۔ اس رجحان کا نام انحرافی رکھنے والوں کا اپنا تعصب اظہر من الشمس ہے۔ بہر حال ہم اس رجحان کو منحرف کے بجائے منفرد کہہ سکتے ہیں۔ اس رجحان کے تحت جن تفاسیر کو پیش کیا جاتا ہے ان میں سے شیعہ تفاسیر ہیں۔ دوسرے نمبر پر نیچری رجحان کی حامل تفسیر، تفسیر القرآن از سر سید احمد خان (1817ء تا 1898ء) ہے۔ ایک رجحان اشتراکی رجحان ہے جس کی نمائندہ تفسیر غلام احمد پرویز (1903ء تا 1985ء) کی تفسیر ’’تفسیر مطالب الفرقان‘‘ ہے۔ اکثر علماء جماعت احمدیہ کی تفاسیر کو بھی اسی رجحان کی ذیل میں لاتے ہیں۔ حالانکہ جماعت احمدیہ کی تفاسیر ایک الگ رجحان رکھتی ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا۔

جماعت احمدیہ کے بانی حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے صرف جیسا کہ مذکورہ بالا علماء نے ایک مفسر کا آداب و ادوات تفسیر سے مکمل واقفیت رکھنا بتایا ہے کو معیار نہیں بنایا، بلکہ آپ نے تفسیر نویسی میں روح القدس کی تائید کو ایک بڑا ذریعہ ہدایت کا قرار دیا ہے آپ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں۔
’’تفسیر قرآن میں دخل دینا بہت نازک امر ہے۔ مبارک اور سچا دخل اس کا ہے جو روح القدس سے مدد لے کر دخل دے، ورنہ علوم مروجہ کا لکھنا دنیا داروں کی چالاکیاں ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ505 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

اصلاحی منہج /رجحان

جیسا کہ پہلے کنایۃً بیان کیا جا چکا ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تفاسیر کو اصلاحی تفاسیر کہنا بے جا نہیں کیونکہ جماعت احمدیہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ دنیا کی عموماً اور امت مسلمہ کی خصوصاً اصلاح کے لئے آئے تھے۔ آپ کی اصلاحات میں ایک بڑی اصلاح فہم قرآن کی اصلاح ہے۔ آپ نے ان اسرار قرآنی سے پردہ اٹھایا جن کو غلط سمجھ کر جہاں ایک طرف مسلمان قرآنی تعلیم سے برگشتہ ہو رہے تھے وہیں علمائے مغرب اور مستشرقین اسلام پر اور قرآن حکیم پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے۔ آپؑ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے موافق ایک حَکَم عَدل بن کر دنیا میں تشریف لائے۔ آپ فرماتے ہیں۔

افترقت الأمۃ، و تشاجرت الملۃ فمنہم حنبلی و شافعی و حنفی و مالکی و حزب المتشیّعین۔ و لا شک ان التعلیم کان واحدا ولکن اختلفت الاحزاب بعد ذالک فترون کل حزب بما لدیھم فرحین۔ و کل فرقۃ بنی لمذھبہ قلعۃ و لا یرید أن یخرج منھا و لو وجد أحسن منھا صورۃ و کانوا لعماس اخوانھم متحصّنین۔ فارسلنی اللّٰہ لأستخلص الصیاصی۔ واستدنی القاصی، وانذر العاصی، ویرتفع الاختلاف و یکون القرآن مالک النواصی و قبلۃ الدین

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ559-560)

ترجمہ: امتِ مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی ہے ان میں سے بعض حنبلی، شافعی، مالکی، حنفی اور شیعہ بن گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم تو ایک ہی تھی لیکن بعد میں کئی گروہ بن گئے اورہرگروہ اپنے نقطہ نظر پر خوش ہوگیا۔ ہرفرقہ نے اپنے اپنے مذہب کو ایک قلعہ بنارکھا ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے، خواہ دوسری طرف انہیں بہتر صورتحال ملے اور وہ اپنے بھائیوں کی بے دلیل باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔ پس اللہ نے اس صورتحال میں مجھے بھیجا تاکہ میں ایسے قلعوں سے انہیں باہر نکالوں اور جو دورہوچکے ہیں انہیں نزدیک لے آؤں اور نافرمانوں کو ہوشیار کردوں اور اس طرح اختلاف رفع ہوجائے اور قرآن کریم ہی پیشانیوں کا مالک اور دین کا قبلہ بن جائے۔

ایک اور جگہ آ پؑ فرماتے ہیں:
’’آثار میں ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہو گی کہ وہ قرآنی فہم و معارف کا صاحب ہو گا اور صرف قرآن سے استنباط کر کے لوگوں کو ان کی غلطیوں سے سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی ناواقفیت سے لوگوں میں پیدا ہو گئی ہوں گی۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ25 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

تفسیر کبیر کا اصلاحی منہج

حضرت مصلح موعو دؓ نے اپنے آقا حضرت مسیح موعودؑ سے فیض پا کر ایک عظیم الشان اصلاحی تفسیر لکھی جس میں جگہ جگہ آپ نے اسلام کی غلط سمجھ بوجھ اور مسلمان علماء کی ناکافیت کو ناصرف ظاہر کیا بلکہ ان کے تفسیری نکات کی تصحیح اور اصلاح کی۔ ذیل میں چند نمونے اس بات کے اثبات میں پیش کئے جائیں گے۔

• ’’مفسرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنائیں اس لئے وہ بعض دفعہ بے ہودہ قصے بھی اپنی تفسیروں میں درج کردیتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ373 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

• ‘‘مسلمان مفسرین نے لکھا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یہ خسر حضرت شعیب علیہ السلام تھے جو مدین قوم کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے۔ مگرمیرے نزدیک یہ درست نہیں اس لئے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت قومِ شعیبؑ کی تباہی کے بعد ہوئی تھی جیسا کہ سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ قومِ شعیبؑ کی ہلاکت کاذکر کرنے کے بعد فرماتاہے۔ ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۠ئِہٖ فَظَلَمُوۡا بِہَا (اعراف: 104) یعنی اس قوم کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف کھلی کھلی آیات کے ساتھ مبعوث کیامگرانہوں نے ظلم سے کام لیا۔ پس جبکہ قرآن کریم بوضاحت بتا رہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت شعیبؑ کی قوم کی تباہی کے بعد ہوئی تھی تو حضرت شعیبؑ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خسر قرار دینا کس طرح درست ہوسکتاہے۔ اسی طرح قرآن کریم بتاتاہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شِقَاقِیۡۤ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمۡ مِّثۡلُ مَاۤ اَصَابَ قَوۡمَ نُوۡحٍ اَوۡ قَوۡمَ ہُوۡدٍ اَوۡ قَوۡمَ صٰلِحٍ ؕ وَمَا قَوۡمُ لُوۡطٍ مِّنۡکُمۡ بِبَعِیۡدٍ ﴿۹۰﴾ (ہود: 90) یعنی اے میری قوم! دیکھنا کہ کہیں میری دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اپنے لئے ویسی ہی مصیبت سہیڑ لو جیسی نوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آئی تھی۔ اور لوطؑ کی قوم توتم سے کچھ ایسی دور بھی نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام حضرت لوط علیہ السلام کے قریب عرصہ بعد میں ہوئے ہیں۔ پس حضرت شعیب کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں قرار دینا اور انہیں آپ کا خسر بتانا ان آیات کی روسے درست نہیں ہوسکتا۔ پس میرے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام ان کے خسر تھے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ491 – 492 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

• بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس لفظ کے کوئی معنے نہیں ہیں کیونکہ یہ عربی لفظ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں اصل میں سجّین کا نون۔ لام سے بدلہ ہوا ہے اور یہ لفظ سجل سے نکلا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ (الانبیاء: 105) اس صورت میں اس کے معنے تحریر کرنے کے ہیں اور یا پھر یہ لفظ سِجِّیْل بمعنی اَن گھڑے پتھر کے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۪ۙ﴿۵﴾ (الفیل: 5) لیکن یہ استدلال درست نہیں اس لئے کہ سجّین کے معانی فراء اور زجاج اور ابوعبیدہ نے کئے ہیں اور یہ لوگ علم ادب میں بہت بلند مرتبہ رکھنے والے تھے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک لفظ عربی زبان کا نہ ہوتا اور وہ اس کے معنے کرنے لگ جاتے۔ اپنے معنوں کی تائید میں انہوں نے بعض اشعار بھی نقل کئے ہیں جن میں سجِّین کا لفظ پُرانے شعراء نے استعمال کیا ہے پھر جب ہم ذاتی طور پر غور کرتے ہیں تو ہمیں عربی زبان میں اس لفظ کے اَور مادے بھی مل جاتے ہیں سَجَنَہٗ سَجْنًا کے معنے ہوتے ہیں حَبَسَدَہٗ فِیْ السِّجْنِ اس کو قید خانہ میں بند کر دیا اور سَجَنَ الْھَمَّ کے معانے ہوتے ہیں اَضْمَرَہٗ اس نے اپنے غم کو چھپا لیا۔ (اقرب) پس جب کہ اس لفظ کے دوسرے مادے عربی زبان میں استعمال ہوتے ہیں اور جب کہ عربی زبان کے ماہرین نے اس کے معنے دائم اور شدید کے کئے ہیں تو یہ خیال کر لینا کہ یہ لفظ عربی زبان کا نہیں ہے بلکہ کسی اَور زبان کا ہے جسے عربی زبان میں شامل کر لیا گیا ہے قطعًا غلط اور بے بنیاد بات ہے۔ درحقیقت یہ ایک غلطی ہے جو بعض عرب مفسّروں کو لگی ہے۔ جب وہ ایک لفظ کو جو عام طور پر عربی میں استعمال نہیں ہوتا دیکھتے ہیں تو فوراً یہ خیال کر لیتے ہیں کہ یہ عربی کا لفظ نہیں حالانکہ دوسرے ماہرین لغت اسے عربی کا لفظ قرار دیتے ہیں۔ ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر آج کل کے عیسائی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم میں غیر زبان کے الفاظ پائے جاتے ہیں اور غیر زبانوں کے الفاظ کی وجہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن کریم کے متعلق جو یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ میں نازل کیا گیا ہے یہ غلط ہے حالانکہ اگر ان مفسرین کی بات جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا فلاں فلاں لفظ عربی نہیں تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی یہ اعتراض عقل کے بالکل خلاف ہے۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں غیر زبان کا کوئی لفظ نہ پایا جاتا ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ286 پرنٹ ویل امرتسر 2010)

• ’’یہ آیت (آیت نسخ سورۃ البقرۃ آیت107) ایسی اہم ہے کہ میں سمجھتا ہوں اِس آیت کے متعلق جو غلط فہمی لوگوں میں پائی جاتی تھی اگر حضرت مسیح موعودؑ صرف اسی کو دُور کرتے تو میرے نزدیک یہی ایک بات آپ کی نبوت اور ماموریت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہوتی۔ اس کے متعلق مسلمانوں میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں اُن کی موجودگی میں اسلام کو سچا مذہب قرار دینا یا اُسے قلبی تسلی اور اطمینان کا موجب سمجھنانا ممکن تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں اس آیت کے معنے مسلمانوں میں یہ رائج تھے کہ ہم قرآن کریم کی جو آیت بھی منسوخ کر دیں یا اُسے بھلا دیں ہم اُس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت لے آتے ہیں۔ اس آیت کے یہ معنے کر کے وہ اِس سے قرآن کریم میں نسخ کا ثبوت نکالا کرتے تھے اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات یقینا منسوخ ہو گئی تھیں اور منسوخ کے وہ یہ معنے لیتے تھے کہ اُن کے احکام کو معطل کر دیا گیا تھا اور بعض آیات کے متعلق وہ سمجھتے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے بُھلا دیا تھا۔ اِس نسخ کے متعلق مسلمانوں کے مختلف نظریات ہیں۔

( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ95 پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

(خواجہ عبدالعظیم احمد۔ مبلغ سلسلہ نائیجیریا)

پچھلا پڑھیں

تبلیغ کے میدان میں جماعت احمدیہ جرمنی کی تاریخی اور اہم پیش رفت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 نومبر 2022