• 4 مئی, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 11)

اپنے جائزے لیں
از ارشادات خطبات مسرور جلد 11
قسط 11

جائزہ لیں صد فی صد واقفین و واقفات خطبات سننے والے ہوں

واقفینِ نَو کے مطالعہ میں روزانہ کوئی نہ کوئی دینی کتاب ہونی چاہئے۔ چاہے ایک دو صفحے پڑھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب، جیسا کہ مَیں نے کہا، اگر وہ پڑھیں تو سب سے زیادہ بہتر ہے۔ پھر اسی طرح خطبات ہیں سو فیصد واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو کو یہ خطبات سننے چاہئیں۔ کوشش کریں۔ یہاں یوکے میں ایک دن مَیں نے کلاس میں جائزہ لیا تھا تو میرا خیال ہے دس فیصد تھے جو باقاعدہ سنتے تھے۔ اس کی طرف شعبہ کو بھی اور والدین کو بھی اور خود واقفینِ نَو کو بھی توجہ دینی چاہئے۔ انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ وہ واقفینِ نَو کے جو پروگرام بناتے ہیں، وہ Inter-active پروگرام ہونے چاہئیں جس سے زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ44)

وقف نوکی انتظامیہ کمیٹی جائزہ لے کہ آئندہ د س سال میں ان کی کیا ضرورتیں ہیں

اسی طرح ہر ملک کی جو انتظامیہ ہے وہ ایک کمیٹی بنائے جو تین مہینہ کے اندر یہ جائزہ لے کہ ان ملکوں کی اپنی ضروریات آئندہ دس سال کی کیا ہیں؟کتنے مبلغین ان کو چاہئیں؟ کتنے زبان کے ترجمے کرنے والے چاہئیں؟ کتنے ڈاکٹرز چاہئیں؟ کتنے ٹیچرز چاہئیں؟ جہاں جہاں ضرورت ہے اور اس طرح مختلف ماہرین اگر چاہئیں تو کیا ہیں؟ مقامی زبانوں کے ماہرین کتنے چاہئیں؟ تو یہ جائزے لے کر تین سے چار مہینے کے اندراندر اس کی رپورٹ ہونی چاہئے اور پھر جو شعبہ وقفِ نَو ہے وہ اس کا پراپر فالو اَپ (Proper Follow Up) کرے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ44)

واقفین نو کی کیرئیر گائیڈنس کمیٹی ہو جو جائزہ لیتی رہے

بعض لوگ بزنس میں جانا چاہتے ہیں یا پولیس یا فوج میں جانا چاہتے ہیں یا اَورشعبوں میں جانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے وہ بے شک جائیں لیکن وقف سے فراغت لے لیں۔ یہ اطلاع کیاکریں۔ پھر اسی طرح ہر ملک میں واقفینِ نَو کے لئے کیرئیر گائیڈنس کمیٹی بھی ہونی چاہئے جو جائزہ لیتی رہے اور مختلف فیلڈز میں جانے والوں کی رپورٹ مرکز بھجوائے یا جن کو مختلف فیلڈز میں دلچسپی ہے، اُن کے بارے میں اطلاع ہو، پھر مرکز فیصلہ کرے گا کہ آیا اس کو کس صورت میں اجازت دینی ہے اور پھر یہ بھی جیسا کہ مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والے واقفینِ نَو اپنے تجدیدِ وقفِ نَو کے عہد کو نہ بھولیں، لکھ کر بھجوایا کریں۔ بانڈ (Bond) لکھیں۔ اسی طرح واقفینِ نَو کے لئے ایک رسالہ لڑکوں کے لئے ’’اسماعیل‘‘ اور لڑکیوں کے لئے ’’مریم‘‘ شروع کیا گیا ہے۔ جرمن اور فرنچ میں بھی اس کا ترجمہ ہونا چاہئے۔ اگر تو ایسے مضامین ہیں جو وہاں کے مقامی واقفینِ نو، واقفاتِ نَو لکھیں تو وہ شائع کریں۔ نہیں تو یہاں سے مواد مہیا ہو سکتا ہے اس کو یہ اپنی اپنی زبانوں میںشائع کر لیا کریں۔ اردو کے ساتھ مقامی زبان بھی ہو۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ44-45)

جائزہ لیں تو مسلمان ہی آپس میں لڑتے نظر آرہے ہیں

پاکستان کی حالت دیکھ لیں۔ درجنوں روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ اگر گزشتہ چند سالوں کی قتل و غارت کی تعداد جو آپس کی لڑائیوں اور حملوں کی وجہ سے ہوئی ہے ان کو جمع کیا جائے تو ہزاروں میں ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت میرے پاس اس کے حقیقی اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اخباروں سے پڑھنے سے پتہ لگتا ہے کہ روزانہ درجنوں میں قتل ہو رہے ہیں اور اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہر سال خود کش بموں سے سینکڑوں بلکہ شاید سینکڑوں سے بھی تعداد آگے نکلے۔ ہزاروں میں پہنچ گئی ہے۔ لوگ مارے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ خدا کے نام پر اور دین کے نام پر ہو رہا ہے۔ کیونکہ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح: 30) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک خصوصیت بھی بتائی ہے کہ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِِ (الفتح: 30) کہ کفار کے خلاف جوش رکھتے ہیں، اُن کے لئے سختی ہے۔ اس لئے علماء سمجھتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی کافر بنا کر اُس کے خلاف جو چاہے کر لو۔ ہمیں لائسنس مل گیا۔ جب ایسی سوچ ہو جائے، ایسے معیار ہو جائیں تو کفر کے فتوے لگانے والے خود اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں کے مطابق کفر کے فتوے کے نیچے آ جاتے ہیں۔ بہر حال پاکستان میں اس لحاظ سے ابھی بظاہر امن کی حالت ہے کہ حکومت اور عوام کی لڑائی نہیں ہے لیکن جن ملکوں میں جنگ کی حالت ہے وہاں جہاں دشمن فوجوں نے بھی ظلم و بربریت کی ہے، وہاں خود مسلمان بھی مسلمان کو مار رہے ہیں۔ مثلاً افغانستان کا جائزہ لیں تو وہاں مسلمانوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور خود کش حملے یا عام حملے شروع کئے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں کہا جاتا ہے گزشتہ دس سال میں اس وجہ سے تقریباً پچاس ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ ان میں غیر ملکی فوجی کم ہیں جو مرے بلکہ فوجی چاہے وہ افغانی بھی ہوں کم ہیں۔ شہریوں کی موتوں کی تعداد زیادہ ہے جو معصوم گھروں میں بیٹھے یا بازاروں میں پھرتے اپنے ہی لوگوں کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ شام میں، سیریا (Syria) میں تو خالصۃً مسلمان ہی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے (یہ بڑا محتاط اندازہ ہے) کہ ستّر ہزار لوگ اب تک مارے جا چکے ہیں۔ اکثریت معصوم شہریوں کی ہے۔ مصر میں انقلاب لانے کے بہانے ہزاروں قتل کئے گئے، لیبیا میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور ابھی تک مارے جا رہے ہیں۔ عراق میں 2003ء سے اب تک کہا جاتا ہے کہ چھ لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد بھی ابھی تک خود کش حملوں کے ذریعہ سے عراق میں مارے جا رہے ہیں۔ یا ویسے بھی آپس میں لڑائی سے مارے جا رہے ہیں۔ اب اخباروں میں یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ مسلمان ممالک، باہر کی دوسری حکومتیں بھی طاغوتی اور شیطانی طاقتوں یا قوتوں کا آلۂ کار بن کر آپس میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ مثلاً دو دن پہلے شام کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی کہ سعودی عرب یورپ کے ایک ملک سے اسلحہ لے کر شام میں جو مخالفین کا حکومت مخالف گروپ ہے، اُس کو سپلائی کر رہا ہے اور ان لوگوں میں شدت پسند لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر ان کو حکومت مل گئی تو عوام مزید ظلم کی چکی میں پسیں گے۔ مصر میں بھی آجکل لوگ یہ نظارے دیکھ رہے ہیں۔ نہ صرف ملک کے عوام بلکہ علاقے کا امن بھی برباد ہو گا اور یہی نہیں بلکہ پھر یہ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ (الفتح: 30) کے نام پر دنیا کا امن بھی برباد کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر مسلمان ممالک کسی ملک میں ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں تو صحیح اسلامی طریق تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم بات چیت کے ذریعہ سے غیروں کو بیچ میں ڈالے بغیر امن اور عوام کے حقوق کی کوشش کرتی اور یہ کر سکتی تھی۔ اگر شام میں پہلے علوی سُنّیوں پر ظلم کر رہے تھے تو اب اُس کا الٹ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے مسلمان ملکوں کے آپس میں دو بلاک بھی بن رہے ہیں جو خطے کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ اب اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو اس کی ابتدا مشرقی ممالک سے ہی ہو گی جو گزشتہ جنگوں کی طرح یورپ سے نہیں ہو گی۔ پس مسلمان ملکوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے۔ کاش کہ یہ لوگ اور حکومتیں بھی اور علماء بھی اور سیاستدان بھی قرآنِ کریم کے اس حکم پر عمل کرنے والے ہوتے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۱۱﴾ (الحجرات: 11) کہ مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ137-138)

ووٹ دینے سے پہلے یہ جائزہ لو کہ آیا یہ اس عہدہ کا اہل بھی ہے کہ نہیں

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۵۹﴾

(النساء: 59)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت سننے والا اورگہری نظر رکھنے والا ہے۔

یہ سال جیسا کہ تمام جماعتیں جانتی ہیں، جماعت میں انتخابات کا سال ہے۔ ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔ امراء، صدران اور دوسرے مختلف عہدیداران کے انتخابات کئے جاتے ہیں۔ بعض جماعتوں میں یہ انتخابات شروع بھی ہو چکے ہیں۔ بڑی جماعتوں میں جو مجالسِ انتخابات منتخب ہوتی ہیں، اُن کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ مجالسِ انتخاب پھر اپنے عہدیداران کا انتخاب کرتی ہیں۔ بہرحال جماعت کے انتظامی ڈھانچے کو صحیح رنگ میں چلانے کے لئے جہاں یہ انتخابات ضروری ہیں، وہاں اس کام کو احسن رنگ میں آگے بڑھانے کے لئے، عُہدوں کا حق ادا کرنے کے لئے صحیح افراد کا انتخاب بھی بہت ضروری ہے اور یہ ایسا اہم امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس امر کی طرف مومنین کو توجہ دلائی ہے اور تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ تمہیں کس قسم کے عہدیداران منتخب کرنے چاہئیں اور عہدیداروں کو توجہ دلائی کہ صرف عہدے لینا کافی نہیں بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بنتے ہو۔

یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے، اس میں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ اس آیت میں پہلی ذمہ داری رائے دہی کا حق ادا کرنے والوں کی ہے کہ عُہدہ ایک امانت ہے اس لئے تمہاری نظر میں جو بہترین شخص ہے اُس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرو۔ ووٹ دینے سے پہلے یہ جائزہ لو کہ آیا یہ اس عہدہ کا اہل بھی ہے کہ نہیں۔ جس کے حق میں تم ووٹ دے رہے ہو یا ووٹ دینا چاہتے ہووہ اس عہدہ کا حق ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے یا نہیں؟ جتنی بڑی ذمہ داری کسی کے سپرد کرنے کے لئے آپ خلیفہٴ وقت کو مشورہ دینے کے لئے جمع ہوئے ہیں، اُتنی زیادہ سوچ بچار اور دعا کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کہ یہ شخص مجھے پسند ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے۔ یا فلاں میرا عزیز ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے۔ یا فلاں میرا برادری میں سے ہے، شیخ ہے، جٹ ہے، چوہدری ہے، سیّد ہے، پٹھان ہے، راجپوت ہے، اس لئے اُس کو ووٹ دیا جائے۔ کوئی ذات پات عہدیدار منتخب کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جواب طلبی صرف عہدیدار کی نہیں کرتا کہ کیوں تم نے صحیح کام نہیں کیا۔ بلکہ ووٹ دینے والے بھی پوچھے جائیں گے کہ کیوں تم نے رائے دہی کا اپنا حق صحیح طور پر استعمال نہیں کیا۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ223-224)

جماعت کا تفصیلی جائزہ لے کر بہترین شخص کو خدمت سپرد کی جائے

اس آیت میں تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا (النساء: 59) کہا گیا ہے۔ یہ عہدیداران کے لئے بھی ہے۔ بعض عہدے یا بعض کام ایسے ہیں جو بغیر انتخاب کے نامزد کر کے سپرد کئے جاتے ہیں۔ مثلاً سیکرٹری رشتہ ناطہ ہے، اس کا عہدہ ہے یا خدمت ہے یا بعض شعبوں میں بعض لوگوں کو کام تفویض کئے جاتے ہیں تو امیر جماعت یا صدر جماعت یا متعلقہ سیکرٹری اگر کسی کو ایسے کام دیتے ہیں تو صرف ذاتی پسند اور تعلق پر نہ دیا کریں بلکہ افرادِ جماعت کا تفصیلی جائزہ لیں اور یہ جائزہ لے کر پھر اُن میں سے جو بہترین نظر آئے اُسے کام سپرد کرنا چاہئے ورنہ یہ خویش پروری ہے اور اسلام میں ناپسند ہے۔ لیکن اگر کوئی اپنے کسی دوست یا عزیز کو کوئی کام سپرد کرتا ہے اور اُس کی بظاہر اُس کام کے لئے لیاقت بھی ہے تو پھر بعض لوگ جن کو اعتراض کرنے کی عادت ہے وہ بلا وجہ یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اس نے اپنے قریبی کو فلاں عہدہ دے دیا۔ اُن کو یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ کسی عہدیدار کا، کسی امیر کا عزیز ہونا یا قریبی ہونا کوئی گناہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اُس شخص کو خدمت سے محروم کر دیا جائے۔ یہ بات مَیں نے اس لئے واضح کر دی کہ بعض لوگوں کی طرف سے اس طرح کے اعتراض آ جاتے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ225)

اگر بجٹ میں گنجائش بھی ہو تو جائزہ لے کر
کم سے کم خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے

عہدیدار کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ جماعتی اموال کو خاص طور پر بہت احتیاط سے خرچ کریں۔ کسی بھی صورت میں اسراف نہیں ہونا چاہئے۔ اسی لئے خاص طور پر وہ شعبے جن پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کے بجٹ بھی بڑے ہیں، اُنہیں صرف اپنے بجٹ ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ کوشش ہو کہ کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ضیافت کا شعبہ ہے، لنگر کا شعبہ ہے یا جلسہ سالانہ کے شعبہ جات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لنگر اب دنیا میں تقریباً ہر جگہ پھیل چکا ہے اور جلسہ سالانہ کا نظام بھی دنیا میں پھیل چکا ہے۔ ہر دو شعبوں کے نگرانوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر بجٹ میں گنجائش بھی ہو تو جائزہ لے کر کم سے کم خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہی امانت کے حق ادا کرنے کا صحیح طریق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مال کے آنے کی یا اُس کی فراوانی کی کوئی فکر نہیں تھی، صحیح خرچ کرنے والوں کی فکر تھی۔ پس امراء اور متعلقہ عہدیداران اس بات کا خاص خیال رکھیں۔

(خطبات مسرور جلد11صفحہ231-232)

عہدیداران جائزہ لے کر اپنے قول وفعل کو ایک کریں

یہ بھی ضروری ہے کہ جن علاقوں میں خاص طور پر ضرورتمند اور غرباء ہیں اُن کا خیال رکھا جائے اور اپنے وسائل کے مطابق اُن کی دیکھ بھال کرنا بھی متعلقہ امراء اور عہدیداران کا کام ہے۔ اس بارے میں یہ ضروری نہیں کہ درخواستیں ہی آئیں۔ خود بھی جائزے لیتے رہنا چاہئے۔ یہ امراء اور صدران کے فرائض میں داخل ہے۔

ایک بہت بڑی ذمہ داری ہر امیر کی، ہر صدر جماعت کی، ہر عہدیدار کی تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ (آل عمران: 111) ہے کہ نیکی کی ہدایت کرنا اور بدی سے روکنا۔ پس تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ کو ہمیشہ ہر عہدیدار کو یاد رکھنا چاہئے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہر عہدیدار خود اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنے قول و فعل کو ایک نہیں کرتا۔ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں کرتا۔ تقویٰ کے اُن راستوں کی تلاش نہیں کرتا جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اور تقویٰ کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ صرف چند نیکیاں بجا لانا یا چند برائیوں سے رکنا، یہ تقویٰ نہیں ہے۔ بلکہ تمام قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی سے رکنا، یہ تقویٰ ہے۔

پس یہ معیار ہیں جو حاصل کر کے ہم نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے بن سکتے ہیں اور امانت کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ افرادِ جماعت کو بھی، تمام عہدیداران کو بھی، جو منتخب ہو چکے ہیں یا منتخب ہونے والے ہیں، اور منتخب ہو کر آئیں گے اور مجھے بھی اپنی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ234)

اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے
کہ اعمالِ صالحہ بجالانے والے ہوں

اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جواب طلبیاں شروع ہو جائیں، لوگوں کو خوفزدہ کیا جانے لگے تو یہ بھی فساد کے زُمرہ میں آتا ہے۔ پس یہ انسان کو ہر وقت اپنے مدّنظر رکھنا چاہئے، اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اعمالِ صالحہ انہوں نے بجا لانے ہیں اور اعمالِ صالحہ یا اپنے اعمال کی اصلاح اُس وقت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے اور خدا تعالیٰ نے متقیوں کی یہ نشانی رکھی ہے، تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والوں کی یہ نشانی رکھی ہے کہ ہر عمل، چاہے وہ نیک عمل ہو، عملِ صالح نہیں بن جاتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ عملِ صالح نہ ہو اور اس کو اللہ تعالیٰ کی نظر میں عملِ صالح بنانے کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی ضرورت ہے، اُس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے، استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ357)

عاجزی، محبت واخوت اور قربانی کے جذبے کا جائزہ لیں

جو مشن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لے کر آئے۔ وہ دو اہم کام ہیں۔ ایک تو بندے کو خدا کی پہچان کروا کر خدا تعالیٰ سے ملانا، اور دوسرے بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کرنا اور یہ دونوں کام ایسے ہیں جو ہمارے سے تقویٰ اور قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ہماری عملی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دنیا کو ہم خدا تعالیٰ سے اُس وقت تک نہیں ملا سکتے جب تک ہمارا اپنا خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق قائم نہ ہو۔ دوسرے بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی ہے، تو یہ ہم اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ہم عاجزی، انکساری، سچائی، محبت، اخوت اور قربانی کا جذبہ اپنے اندر نہ رکھتے ہوں۔

پس ان تین دنوں میں ہم نے اپنے اس تعلق اور جذبے کا جائزہ لینا ہے اور بڑھانا ہے ان شاء اللّٰہ تعالیٰ، تا کہ جلسہ پر آنے کے مقصد کو بھی حاصل کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے والے بھی ہوں۔ پس ان تین دنوں میں اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے اور عملی حالتوں کو درست کرنے کی ہر احمدی کو، ہر شامل ہونے والے کو کوشش کرنی چاہئے اور دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ ہم حقیقت میں اس جلسے کے مقصد کو پانے والے ہوں۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ371-372)

سیکرٹریانِ مال، سیکرٹریانِ تربیت،
سیکرٹریانِ تبلیغ کے کاموں کا جائزہ لیں

خلیفۂ وقت کے خطبات کا سننا بھی بہت ضروری ہے۔ یا دوسری باتیں جو مختلف وقتوں میں کی جاتی ہیں اُن پر غور کرنا اور نوٹ کرنا بڑا ضروری ہے۔ عہدیدار جہاں احبابِ جماعت کو یہ توجہ دلائیں وہاں عہدیداران خود بھی اس طرف توجہ دیں۔ امیر جماعت کا خاص طور پر یہ کام ہے کہ خطبات میں اگر کوئی ہدایت دی گئی ہے اور اگر کوئی تربیت کا پہلو ہے تو فوراً اُسے نوٹ کریں اور صدرانِ جماعت کو سرکلر کریں اور پھر باقاعدگی سے اس کی نگرانی ہو کہ کس حد تک اُس پر عمل ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض اور جماعتیں بھی یہ کرتی ہوں لیکن رپورٹ کا جہاں تک تعلق ہے ابھی تک صرف امریکہ کی جماعت کے امیر ہیں جو باقاعدگی سے یہ نوٹ کرتے ہیں اور پھر سرکلر بھی کرتے ہیں اور کوئی بھی بات جب دیکھیں کہ خطبہ میں کی گئی ہے، کوئی ہدایت دی گئی ہے تو آگے پہنچاتے ہیں اور باقیوں کو بھی چاہئے کہ اس پر عمل کریں۔ یوکے (UK) تو ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اگر اس بارے میں یہاں صحیح رنگ میں کام کیا جائے تو سب جماعتوں سے بڑھ کر یہاں بہترین نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرکز سے یا میری طرف سے مختلف ہدایات جو جاتی ہیں وہ بھی آپ کا کام ہے کہ فوری طور پر جماعتوں کو پہنچائی جائیں اور پھر اُس کا follow up بھی کیا جائے، feed back بھی لی جائے۔

اسی طرح نیشنل امیر جماعت ریجنل امیر بنا کر صرف اس بات پر نہ بیٹھ جائیں کہ ریجنل امیر کام کر رہے ہیں اور تمام کام کا انحصار انہی پر ہو، یہ نہیں ہونا چاہئے، صحیح طریق نہیں ہے۔ اس سے جو بات اَب تک میری نظر میں آئی ہے یہ ہے کہ ملکی مرکز اور جماعتوں میں دُوری پیدا ہو رہی ہے، بلکہ یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ہم مرکز تک یعنی ملکی مرکز تک براہِ راست نہیں پہنچ سکتے۔ یہ احساس بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے یہاں بھی اور دوسری جگہ بھی امیر جماعت اس بات کی پابندی کریں کہ سال میں کم از کم دو مرتبہ صدران کے ساتھ میٹنگ ہو اور کام اور ترقی کی رفتار کا جائزہ لیا جائے اور جو صدران باوجود توجہ دلانے کے کام نہیں کرتے اُن کی رپورٹ مجھے بھجوائیں۔ اسی طرح سیکرٹریانِ مال، سیکرٹریانِ تربیت، سیکرٹریانِ تبلیغ بھی ہیں۔ اگر دو نہیں تو سال میں کم از کم ایک میٹنگ ان کے ساتھ ضروری ہونی چاہئے اور ان کے کاموں کا جائزہ لیں۔ اگر یہ سیکرٹریان فعال ہو جائیں تو باقی شعبوں کے سیکرٹریان ہیں، یا باقی شعبوں کے جو بہت سارے مسائل ہیں وہ بھی خود بخود حل ہو جائیں گے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ464-465)

کارکن کوخود جائزہ لینا چاہئے کہ مہمان کی خدمت میں کوئی کمی تو نہیں رہی

یہ دیکھیں کہ اکثریت نے، خاص طور پر جو غیرمہمان تھے، انہوں نے بچوں اور نوجوانوں اور بوڑھوں اور عورتوں کو جو مہمان نوازی کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اُس کا اُن پر بڑا گہرا اثر ہوا ہے اور ان سب نے تقریباً اس کا ذکر کیا ہے۔ پس یہ خدمت کا جذبہ جو جماعت احمدیہ کے افراد میں ہے یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے۔ ایک بچہ ہے اُس نے پانی پلایا اور آگے گزر گیا لیکن وہ ایک دل میں جو اثر قائم کر گیا اُس نے اُس دل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالا۔ اسی طرح کوئی نوجوان ہے، کسی کو کھانا کھلا رہا ہے، کوئی کار پارکنگ میں ہے تو خوش خلقی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ایسے مظاہرے کرتے ہوئے پارکنگ کروا رہا ہے۔ لڑکے، لڑکیاں سکیننگ اور چیکنگ کر رہی ہیں تو بڑی خوش اخلاقی سے کر رہی ہیں۔ لجنہ نے ہر شعبہ میں اپنے انتظامات کئے جیسا کہ واقعات میں ذکر بھی ہوا ہے اور بڑے اچھے کئے۔ سہولت پہنچانے میں مصروف رہیں۔ تو یہ باتیں جہاں سب کارکنان کے لئے اپنوں کی دعاؤں کو حاصل کرنے والا بناتی ہیں، غیروں کو اسلام اور احمدیت کی حقیقت سے آگاہ کر رہی ہوتی ہیں اور اس خوبصورت تعلیم کا گرویدہ کر رہی ہوتی ہیں۔ پس ان تمام کارکنات اور کارکنان کا میں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے گزشتہ سالوں کی نسبت اِس سال خاص طور پر نسبتاً زیادہ بہتر رنگ میں اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹیاں اور فرائض سرانجام دئیے۔ مجھے لوگوں کے جو تأثرات مل رہے ہیں اس میں اس سال پارکنگ کے شعبہ کے بڑے اچھے تاثرات ہیں۔ خدام پارکنگ کرواتے تھے، خوش اخلاقی سے حال پوچھتے تھے، تکلیف پر معذرت کرتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے پانی وغیرہ کا پوچھتے تھے۔ ایک لکھنے والا یہ لکھتا ہے کہ کسی کو مَیں جانتا نہیں تھا لیکن یہ اخلاق دیکھ کر سفر کی آدھی تھکان اور کوفت جو تھی وہ دور ہو جاتی تھی۔ تو بس یہی ایک احمدی کا طرّہ امتیاز ہے اور ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہم میں سے ہر ایک کو کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان اعلیٰ اخلاق کو ہمیشہ قائم رکھنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

اسی طرح تبشیر کی مہمان نوازی کا بھی اس مرتبہ بہت اچھا معیار رہا ہے۔ جامعہ کے طلباء، واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ ہر مہمان ان کی تعریف کر رہا ہے۔ لیکن خود کارکن کو اپنا یہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اگر کہیں کوئی کمی ہے تو اُس کو آئندہ سال کس طرح بہتر کیا جا سکتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ500-501)

ہر احمدی کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے چاہئیں

ہر احمدی کو چاہئے کہ ان مخالفتوں کی آندھیوں کے باوجود اپنے ایمان کو بڑھاتا چلا جائے۔ استقامت کے اِن نمونوں پر ہمیشہ قائم رہے۔ ایمان و اخلاص میں بڑھتا چلا جائے اور ثبات قدم کے لئے دُعا بھی کرے کیونکہ ثبات قدم بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی عطا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اُس کے آگے جھکنا اور اُس کی عبادت کا حق ادا کرنا بھی بہت زیادہ ضروری ہے۔ اِسی طرح اپنی عملی حالتوں کو پہلے سے بہتر کرنے کی طرف بھی بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا اور اپنی عملی حالتوں کو بہتر کرنا صرف اُن احمدیوں کا کام نہیں جن پر سختیاں ہورہی ہیں بلکہ ہر احمدی کو اپنی حالتوں کے جائزے لینے چاہئیں۔ سنگاپور کے احمدی بھی اور برما کے احمدی بھی اور تھائی لینڈ کے احمدی بھی اور دنیا کے ہر ملک کے احمدی اگر اپنی ایمانی حالتوں کا جائزہ نہیں لیں گے تو اس میں ترقی نہیں کریں گے اور اگر احمدیت میں ترقی نہیں ہوگی تو احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پس ہر احمدی کو اپنے ایمان و ایقان میں ترقی کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ532)

مَیں نے جائزہ لیا ہے بعض عہدیداران بھی خطبات کو باقاعدگی سے نہیں سنتے

ہر احمدی کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسانات کا شکرگزار ہو کہ اُس نے ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے زمانے کے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ لیکن یہ شکر گزاری کس طرح ہوگی؟ اس شکر گزاری کے لئے ہمیں اپنی خواہشات کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی ہوگی، اپنے جذبات کی قربانی دینی ہوگی، حقیقی تعلیم کو سمجھنے کے لئے محنت کرنی ہوگی، پس اِس طرف ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ باتیں تو بہت سی کرنے والی ہیں لیکن ابھی وقت نہیں کہ مَیں ساری باتیں اسی وقت کھول کر بیان کروں۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں فاصلوں کی دُوری کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعت اور خلافت کے تعلق کو جوڑ دیا ہے۔ اس لئے میرے خطبات اور مختلف پروگراموں کو ضرور سنا کریں۔ مَیں نے جائزہ لیا ہے بعض عہدیداران بھی خطبات کو باقاعدگی سے نہیں سنتے۔ یہ خطبات وقت کی ضرورت کے مطابق دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے اپنے آپ کو اِن سے ضرور جوڑیں تاکہ دنیا میں ہر جگہ احمدیت کی تعلیم کی جو اکائی ہے اس کا دنیا کو پتہ لگ سکے۔ آخر میں مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند ارشادات آپ کے سامنے رکھوں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنی جماعت کو کس معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’ضروری ہے کہ جو اِقرار کیا جاتا ہے کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، اِس اِقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کا عمدہ نمونہ پیش کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ605)

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ535)

جائزے لیں کہ جلسے کی اہمیت کا اندازہ ہے کہ نہیں

ایک دور دراز ملک کے رہنے والے کے اخلاص کی ایک اور مثال دیکھیں کہ دین کا علم حاصل کرنے کی اُن میں کیا تڑپ تھی؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر کیسا فضل فرمایا۔ آئیوری کوسٹ سے عمر سنگارے صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ احمدی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے قبولیتِ دعا اور امام مہدی علیہ السلام کی صداقت کے بہت سے نشانات دکھائے اور ہر روز دکھا رہا ہے جس سے میرے ایمان میں ترقی ہو رہی ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ناں کہ میری بعثت کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ آئیوری کوسٹ کے ایام قریب تھے اور میری مالی حالت ایسی تھی کہ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے زادِ راہ پاس نہیں تھا۔ کرایہ وغیرہ نہیں تھا۔ میں نے دعا کی کہ اے اللہ! تیرے مہدی سچے ہیں اور مجھے اُن کے قائم کردہ جلسہ میں جانا ہے۔ اُن کی صداقت کے نشان کے طورپر اپنی جناب سے میرے لئے زادِ راہ مہیا فرما۔ یہ دعا کی انہوں نے۔ اب ان لوگوں کو دیکھیں جنہیں جلسہ کی اہمیت کا اندازہ ہے اور ہر ایک اپنا بھی جائزہ لے۔ کہتے ہیں اگلے روز ایک غیر از جماعت دوست نے مجھ سے جلسہ پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مَیں نے جلسہ پر جانے والے قافلہ کی انتظامیہ کو اپنا اور اُس دوست کا نام لکھوا دیا۔ جلسہ پر جانے میں دو روز رہ گئے تھے لیکن ابھی جلسہ پر جانے کا کوئی انتظام نہ ہوا تھا۔ کرایہ پاس نہ تھا۔ کہتے ہیں مَیں نے دعا جاری رکھی۔ اسی دوران مجھے قریبی ایک گاؤں میں جانا پڑ گیا۔ وہاں ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میں تو کل سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں اور اُس نے میرے ہاتھ میں بیس ہزار فرانک تھما دئیے اور یہ کہا کہ یہ آپ کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُس دوسرے شخص کے دل میں ڈالا کہ تم اُس کو پیسے دو۔ کہتے ہیں مَیں نے رقم لے کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس رقم سے میں نے سولہ ہزار فرانک دو افراد کا کرایہ ادا کر دیا اور چار ہزار سفر کے لئے رکھ لیا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل یقیناً اُن کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے جیسا کہ انہوں نے خود بھی لکھا ہے۔ بیعت کے بعد وہ تبدیلی پیدا ہوئی جس نے دنیا کی بجائے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے پر اُن کو مائل کیا۔ کسی انسان کے پاس نہیں گئے بلکہ دعا میں لگے رہے کہ اللہ تعالیٰ انتظام کر دے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول بھی کی اور اُن کی خواہش کو پورا فرمایا۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ560-561)

جائزے لیں کتنے اپنے خلاف گواہی دینے کو تیارہیں

اللہ تعالیٰ سچائی کے بارہ میں مزید فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۱﴾ (الفرقان: 70) کہ اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور وہ بات کہو جو پیچ دار نہ ہو بلکہ سچی، کھری اور سیدھی ہو۔ یہ وہ سچائی کا معیار قائم رکھنے کے لئے احسن ہے جس کو کرنے اور پھیلانے کا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے جائزے لیں تو سچائی کے یہ معیار نظر نہیں آتے۔ ہر قدم پر نفسانی خواہشات کھڑی ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں، کتنے ہیں ہم میں سے جو بوقت ضرورت اپنے خلاف گواہی دینے کو تیار ہو جائیں، اپنے والدین کے خلاف گواہی دیں، اپنے پیاروں کے خلاف گواہی دیں اور پھر یہ معیار قائم کریں کہ اُن کی روز مرہ کی گفتگو، کاروباری معاملات وغیرہ جو ہیں ہر قسم کی پیچ دار باتوں سے آزاد ہوں۔ کہیں نہ کہیں یا تو ذاتی مفادات آڑے آ جاتے ہیں یا قریبیوں کے مفادات آڑے آ جاتے ہیں۔ یا اَنائیں آڑے آ جاتی ہیں اور غلطی ماننے کو وہ تیار نہیں ہوتے۔ ان باتوں کو پیچ دار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اپنی جان بچائی جائے تاکہ اپنے مفادات حاصل کئے جائیں۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ571)

خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو خود بھی
اپنا جائزہ لینا ہو گا

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی تو اس نے اس عقل کو استعمال کر کے اپنی آسانیوں کے سامان پیدا کئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی الۡاَرۡضِ زِیۡنَۃً لَّہَا لِنَبۡلُوَہُمۡ اَیُّہُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ﴿۸﴾ (الکہف: 8) یعنی زمین پر جو کچھ ہے اُسے یقیناً ہم نے زینت بنایا ہے تا کہ ہم اُنہیں آزمائیں کہ کون بہترین عمل کرتا ہے۔

پس یہاں زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دے کر اُس کی اہمیت بھی بیان فرما دی۔ ہر نئی ایجاد جو ہم کرتے ہیں اُس کو بھی زینت بتا دیا، اُس کی اہمیت بیان فرمائی لیکن فرمایا کہ ہر چیز کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن اس کا فائدہ تبھی ہے جب احسن عمل کے ساتھ یہ وابستہ ہو۔ پس ہمیں نصیحت ہے کہ ان ایجادات سے فائدہ اُٹھاؤ لیکن احسن عمل مدّنظر رہے۔ یہ ایجادات ہیں، ان کی خوبصورتی تبھی ہے جب اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کام کیا جائے یا کام لیا جائے، نہ کہ فتنہ و فساد پیدا ہو۔ اگر احسن عمل نہیں تو یہ چیزیں ابتلا بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے میں نے مثالیں دیں۔ یہ ٹیلی ویژن ہی ہے جو فائدہ بھی دے رہا ہے اور ابتلا بھی بن رہا ہے۔ بہت سے گھر انٹرنیٹ اور چیٹنگ کی وجہ سے برباد ہو رہے ہیں۔ بچے خراب ہو رہے ہیں اس لئے کہ آزادی کے نام پر اللہ تعالیٰ کی مہیا کی گئی چیزوں کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ حقیقی عبد کے لئے حکم ہے کہ ہمیشہ احسن قول اور احسن عمل کو سامنے رکھو اور کام کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ بہر حال قرآنِ شریف کے بے شمار حکم ہیں ہر حکم کی تفصیل یہاں بیان نہیں ہو سکتی۔ ایک بات ہے جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور اس بارے میں شروع میں بھی میں کچھ کہہ آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے جو احسن قول کے بارے میں ہمیشہ مدّنظر رکھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بہت پسند ہے، فرمایا کہ وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۴﴾َ (حٰمٓ السجدہ: 34) اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ پس یہ خوبصورت تعلیم اور بات ہے جو ایک حقیقی بندے سے جس کی توقع کی جاتی ہے، کی جانی چاہئے۔ جو آیت میں نے شروع میں تلاوت کی تھی اُس میں فرمایا تھا کہ یَقُوْلُ الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کہ ایسی بات کیا کرو جو سب سے اچھی ہو اور سب سے اچھی وہ باتیں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ لیکن اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب اچھی باتیں سمٹ کر اس ایک بات میں آ جاتی ہیں، اس آیت میں ان کا خلاصہ ہے اور یہی سب سے احسن قول ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف بلاؤ۔ اب خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو خود بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ خود کس حد تک ان باتوں پر عمل کر رہا ہے جن کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ میں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم وہ بات نہ کہو جو تم کرتے نہیں کیونکہ یہ گناہ ہے۔

(خطبات مسرور جلد11صفحہ577-578)

کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے
ہمیں اپنے جائزے لینے ہونگے

ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا، سوچنا ہو گا، منصوبہ بندی کرنی ہو گی، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی ہو گی تا کہ ہم کامیابیوں سے ہمکنار ہوں اور آگے بڑھتے چلے جائیں۔ اگر ہم آپ کو مان کر پھر آرام سے بیٹھ جائیں اور کوئی فکر نہ کریں تو یہ عہدِ بیعت کا حق ادا کرنے والی بات نہیں ہوگی۔ یہ دعویٰ قبول کر کے بیٹھ جانا اور سو جانا ہمیں مجرم بناتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی جب ہم اپنے وسائل کو دیکھتے ہیں، اپنی حالتوں کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ہم کریں بھی تو کیا کریں گے کہ ایک طرف ہمارے وسائل محدود اور دوسری طرف دنیا کی اسّی فیصد سے زائد آبادی کو مذہب سے دلچسپی نہیں ہے، دنیا کے پیچھے بھاگنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں دولت ہے، ہر قسم کی ترقی ہے، دوسرے مادّی اسباب ہیں جنہوں نے یہاں رہنے والوں کو خدا سے دور کر دیا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں کہ خدا تعالیٰ کی تلاش میں وقت ضائع کریں۔ ابھی کل کی ڈاک میں ہی ایک احمدی کا جاپان سے ایک خط تھا، بڑے درد کا اظہار تھا کہ میں نے اپنے ایک جاپانی دوست سے کہا، اُن کے بڑے اچھے اور اعلیٰ اخلاق ہیں، تعلقات بھی اُن سے اچھے ہیں، بات چیت بھی ہوتی رہتی ہے، جب اُسے یہ کہا کہ خدا سے دعا کریں کہ ہدایت کی طرف رہنمائی ہو تو کہنے لگے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے کہ تمہارے خدا کی تلاش کرتا پھروں یا خدا سے رہنمائی مانگوں، مجھے اور بہت کام ہیں۔ تو یہ تو دنیا کی حالت ہے۔ ان قوموں کی جواپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھتی ہیں یہ حالت ہے اور غریب قوموں کو بھی اس ترقی اور دولت کے بل بوتے پر اپنے پیچھے چلانے کی بڑی طاقتیں اور امیر قومیں کوشش کر رہی ہیں۔ پس جب یہ صورتِ حال ہو، سننے کی طرف توجہ نہ ہو یا کم از کم ایک بڑے طبقہ کی توجہ نہ ہو اور دولت اور مادّیت ہر ایک کو اپنے قبضہ میں لینے کی کوشش کر رہی ہو اور ہمارے وسائل جیسا کہ مَیں نے کہا، محدود ہوں تو ایسے میں کس طرح ہم دجل اور مادّیت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بظاہر ناممکن نظر آتا ہے کہ ہم دنیا کی اکثریت کو خدا تعالیٰ کے وجود کی پہچان کروا سکیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کر سکیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں اور بڑی تحدّی سے فرماتے ہیں کہ میں یہ سب کچھ کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں اور یہ ہو گا۔ ان شاء اللہ

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ546-547)

اگر باریکی سے جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ ’’بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں‘‘

مَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر عملی اصلاح میں ہم سو فیصد کامیاب ہو جائیں تو ہماری لڑائیاں اور جھگڑے اور مقدمے بازیاں اور ایک دوسرے کو مالی نقصان پہنچانے کی کوششیں، مال کی ہوس، ٹی وی اور دوسرے ذرائع پر بیہودہ پروگراموں کو دیکھنا، ایک دوسرے کے احترام میں کمی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش، یہ سب برائیاں ختم ہو جائیں۔ محبت، پیار اور بھائی چارے کی ایسی فضا قائم ہو جو اس دنیا میں بھی جنت دکھا دے۔ یہ ایسی برائیاں ہیں جو عملاً ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ جماعت کے اندر بھی بعض معاملات ایسے آتے رہتے ہیں، اس لئے میں نے ان کا ذکر کیا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہم میں پیدا ہو جائے تو خدمتِ دین کے اعلیٰ مقصد کو ہم فضلِ الٰہی سمجھ کر کرنے والے ہوںگے۔ میری اس بات سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم خدمتِ دین کو تو فضلِ الٰہی سمجھ کر ہی کرتے ہیں لیکن سو فیصد عہدیداران اس پر پورا نہیں اترتے۔ میرے سامنے ایسے معاملات آتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عہدیداروں میں وسعتِ حوصلہ اور برداشت کی طاقت نہیں ہے۔ کسی نے اونچی آواز میں کچھ کہہ دیا تو اپنی اَنا اور عزت آڑے آ جاتی ہے۔ کبھی جھوٹی غیرت کے لبادے اوڑھ لئے جاتے ہیں۔ پس کسی کام کو فضلِ الٰہی سمجھ کر کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر بات برداشت کرتا ہے۔ اپنی عزت کے بجائے ’’اَلْعِزَّۃُ لِلّٰہِ‘‘ کے الفاظ اُسے عاجزی اور انکساری پر مجبور کرتے ہیں۔ پس اگر باریکی سے جائزہ لیں تو پتہ چلے کہ ’’بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ18)

… اگر یہ نہیں تو ہم دعوے کی حد تک تو بے شک درست ہوں گے کہ زمانے کے امام کو مان لیا لیکن حقیقت میں زبانِ حال سے ہم دعوے کا مذاق اُڑا رہے ہوں گے۔ کسی غیر کی دشمنی ہمیں نقصان نہیں پہنچا رہی ہو گی بلکہ خود ہمارے نفس کا دوغلا پن ہمیں رُسوا کر رہا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر مستزاد ہے۔

پس خاص طور پر ہر اُس شخص کو جس کو جماعت کی خدمت پر مامور کیا گیا ہے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عام طور پر ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ حق بیعت زبانی دعووں سے اور صرف ماننے سے ادا نہیں ہوتا بلکہ عمل کی قوت جب تک روشن نہ ہو، کچھ فائدہ نہیں۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ676-678)

اگر ہم جائزہ لیں تو مسلمانوں کی جو اکثریت ہے اس معیار کے مطابق بھوکی پیاسی رہتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا کہ رمضان کے مہینے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر کے ایک سفر پر تھے اور اس حالت میں ایک موقع پیدا ہوا کہ آپ ایک جگہ تقریر فرما رہے تھے۔ تقریر کے دوران آپ کے گلے میں خشکی محسوس ہوئی تو ایک دوست نے یہ دیکھ کر چائے کی پیالی آپ کو پیش کی۔ آپ نے اُسے ہٹا دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر تکلیف محسوس ہوئی، اُس نے فکرمند ہوکے پھر چائے کی پیالی پیش کی۔ آپ نے ہٹا دیا اور ہاتھ سے اشارہ بھی کیا کہ رہنے دو۔ لیکن کیونکہ تکلیف پھر ہوئی اور گلے میں خشکی کا احساس ہوا تو پھر اُس نے تیسری دفعہ چائے کی پیالی پیش کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالباً یہ سمجھ کر کہ اگر میں نے نہ لی تو یہ سمجھا جائے گا کہ میں ریاء کر رہا ہوں اور سفر میں جو روزہ نہ رکھنے کا حکم اور سہولت ہے، اُس سے لوگوں کو دکھانے کے لئے فائدہ نہیں اُٹھا رہا۔ آپ نے ایک گھونٹ اس پیالی میں سے لے لیا۔ تو اس پر وہاں بیٹھے غیر از جماعت لوگوں نے شور مچا دیا کہ دیکھو مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور رمضان کے مہینے میں روزہ نہیں رکھا ہوا۔ اُن لوگوں کے نزدیک روزے کی اہمیت یہ ہے کہ روزہ رکھ لو چاہے خدا تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہو۔ حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں کہ ان میں سے شاید نوّے فیصد نماز بھی نہیں پڑھتے ہوں گے، اُس کے بھی تارک ہوں گے اور ننانوے فیصد جھوٹ بولنے والے، دھوکہ فریب کرنے والے، مال لوٹنے والے تھے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اُن میں سے ننانوے فیصد یقیناً اُس وقت روزے دار بھی ہوں گے کیونکہ روزے کو سب سے بڑی نیکی سمجھا جاتا ہے۔ مگر وہ روزہ اُس طرح نہیں رکھتے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو جھوٹ بولتا ہے، غیبت کرتا ہے، گالی دیتا ہے، خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا روزہ روزہ نہیں ہے، وہ صرف بھوکا پیاسا رہتا ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں تو مسلمانوں کی جو اکثریت ہے اس معیار کے مطابق بھوکی پیاسی رہتی ہے۔ مگر یہ بھوکا پیاسا رہنا اُن کے نزدیک بہت بڑی نیکی ہے اور اُن کا بیڑا پار کرنے کے لئے کافی ہے۔ یا چند مزید نیکیوں کو جو اُن کے نزدیک بڑی ہیں اُس میں شامل کر لیں گے کہ اسی سے ہماری بخشش کے سامان ہو گئے۔ ایسے لوگ جو ہیں وہ نہ دنیا میں نیکیاں قائم کرنے والے ہو سکتے ہیں، نہ ہی وہ صحیح معیارِ گناہ قائم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے خود ساختہ بڑی نیکیوں اور چھوٹی نیکیوں اور بڑے گناہوں اور چھوٹے گناہوں کے معیار قائم کر لئے ہیں اور نتیجۃً وہ جو بھی اُن کی نیکی کی تعریف ہے، اُس کے مقابلے پر بڑی نیکی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس بدی کو چھوٹا سمجھتے ہیں اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اُس کو نہ چھوڑنا یہی ہے کہ اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور یوں ایک برائی سے دوسری برائی میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے اُس نیکی کو بڑا قرار دیا ہے جسے کرنا مشکل ہو اور وہ ہر ایک کے لئے مختلف ہے، اور اُس بدی کوبڑا قرار دیا ہے جس سے بچنا مشکل ہو۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ687-688)

قادیان کے احمدیوں کی مستقل آبادی کو اپنے دلوں کے جائزے لینے ہونگے

پس اگر جلسہ کے مقصد سے بھرپور فائدہ اُٹھانا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے سب شامل ہونے والے جلسہ میں شامل ہوںجو جلسہ کے مقاصد میں سے ایسا اہم مقصد ہے جس کا آپ نے خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ امیری، غریبی اور بڑے ہونے اور چھوٹے ہونے کے فرق کو مٹا دیں۔ ذاتی رنجشیں بھی ہیں تو یہاں اس ماحول میں وہ ایک دوسرے کے لئے اس طرح دُور کر دیں جیسے کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں۔ قادیان کے احمدیوں کی مستقل آبادی کو بھی اپنے سینوں کو ٹٹولنا ہو گا۔ اپنے دلوں کے جائزے لینے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایسا موقع عطا فرمایا کہ مسیح موعود کی بستی میں رہتے ہیں جس کا ماحول ویسا ہونا چاہئے جیسا کہ زمانے کے امام نے خواہش کی تھی اور اس کے لئے جماعت کی تربیت کی کوشش کی اور پھر اس بات کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں یعنی وہاں رہنے والوں کو اپنی زندگی میں ایک اور موقع دیا کہ جلسہ میں شامل ہوں اور اپنی تربیت کے اس اعلیٰ موقع سے فائدہ اُٹھائیں۔

پس جہاں ہر آنے والا اس محبت و اخوت کے تعلق اور رشتے کو قائم کرے، وہاں اس بستی میں رہنے والا ہر احمدی بھی اس طریق پر اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ یہی جائزے پھر دنیاوی خواہشات سے بھی دلوں کو پاک کریں گے اور آخرت کی طرف بکلّی جھکنے کا خیال اور احساس پیدا ہو گا۔ خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو گا۔ اس دنیا کی خواہشات کی فکر نہیں ہو گی بلکہ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر: 19) کا مضمون جو ہے، یہ سامنے ہو گا۔ یہ کوشش ہو گی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اور اُخروی زندگی کی بھلائیاں چاہنے کے لئے اس دنیا سے کیا آگے بھیجنا ہے۔ زہد اور تقویٰ پر نظر رکھنی ہے یا دنیاداری کا نمونہ دکھانا ہے اور خدا تعالیٰ کے خوف کو دل سے نکال کر یہ زندگی گزارنی ہے۔ عہدِ بیعت کی پابندی کرنی ہے یا عہدِ بیعت کا خوبصورت بَیج صرف سینے پر لگا کر اپنے آپ کو عہدِ بیعت کو پورا کرنے والا سمجھنا ہے۔ خدا ترسی، پرہیزگاری اور نرم دلی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہیں یا ظلم و جور اور بداخلاقی اور بدکلامی جیسی برائیوں کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہوئے اپنے عمل سے اُس کے اظہار کرنے ہیں۔ عاجزی اور انکساری کے نمونے قائم کرنے ہیں یا تکبر و غرور سے اپنے سروں اور گردنوں کو اکڑا کر چلنا ہے۔ سچائی کے خوبصورت موتی بکھیرنے ہیں یا جھوٹ کے اندھیروں کی نذر ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینی ہے۔ دینی مہمات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہوئے مسیح محمدی کے مشن کی تکمیل کرنی ہے یا دنیا داری کی چمک دمک میں ڈوب کر اپنے مقصد کو بھولنا ہے۔ پس یہ جائزے اور اپنے عمل کا تنقیدی جائزہ ہمیں بتائے گا کہ ‘‘مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ’’ کو کس حد تک ہم نے اپنے سامنے رکھا ہوا ہے۔ پس جلسہ کے یہ تین دن ان باتوں کا جائزہ لینے کے لئے اور اپنے عمل خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے لئے بہترین دن ہیں جبکہ ایک دوسرے کا روحانی اثر قبول کرنے کا بھی رجحان ہوتا ہے۔ تہجد کی اجتماعی اور انفرادی ادائیگی ایک خاص ماحول پیدا کر رہی ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سجدہ گاہوں اور دعاؤں کی جگہیں بھی بہت سے دلوں کو بے قرار دعاؤں کی توفیق دے رہی ہوتی ہیں۔ لا محسوس طریقے پر انتشارِ روحانیت کا ماحول ہوتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ710-711)

(نیاز احمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

تبلیغ کے میدان میں جماعت احمدیہ جرمنی کی تاریخی اور اہم پیش رفت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 نومبر 2022