• 3 مئی, 2024

قرآن کو تکیہ نہ بناؤ

ایک روایت میں آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے قرآن کے ماننے والو! قرآن کو تکیہ نہ بناؤ اور رات دن کے اوقات میں اس کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کرو اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دو۔ اور اس کے الفاظ کو صحیح طریق سے پڑھو اور جو کچھ قرآن میں بیان ہوا ہے ہدایت حاصل کرنے کی غرض سے اس پر غور و فکر کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ اس کی وجہ سے کسی دنیاوی فائدے کی خواہش نہ کرنا۔ بلکہ خدا کی خوشنودی کے لئے اس کو پڑھنا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)۔ یعنی صرف اس کو زبانی سہارا نہ بناؤ، قرآن کریم رکھا ہوا ہے اور پڑھ رہے ہیں۔ بلکہ اس کو پڑھو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ اس کے الفاظ و معانی پر غور کرو اور پھر اس کا پڑھنا خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو، نہ کہ ذاتی فائدے اٹھانے کے لئے جس طرح آج کل بعض لوگ کرتے ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبیدہ الملیکی رضی اللہ عنہ جو صحابہ میں سے ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو۔ اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ اور اس کو پھیلا ؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو۔ اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

(مشکوٰۃ المصابیح۔ کتاب فضائل القرآن الباب الاوّل، الفصل الثالث حدیث نمبر 2210)

یعنی قرآن کریم کو پڑھو بھی اس کی تعلیم کو پھیلاؤ بھی اور اس پر عمل بھی کرو۔ دوسروں کو بھی بتاؤ۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا حافظ ہے وہ ایسے لکھنے والوں کے ساتھ ہو گا جو بہت معززاور بڑے نیک ہیں۔ اور وہ شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات پر شدت سے کار بند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہو گا۔

(بخاری، کتاب التفسیر- تفسیر سورۃ عبس- حدیث نمبر 4937)

تو زیادہ اجر قرآ ن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی ہے۔ اور عمل اسی وقت آئے گا جب اس کے مفہوم کو سمجھ سکیں گے۔ اور آپؐ اس کی بار بار تلقین اس لئے فرماتے تھے کہ قرآن کریم پڑھو اور سمجھو کہ قرآن کریم کو گھروں میں صرف سجاوٹ کا سامان نہ بناکے رکھو یا صرف یہی نہیں کہ پڑھ لیا اور عمل نہ کیا بلکہ عمل سے ہی درجات بلند ہوتے ہیں۔ پھر ایک اور ترغیب دیتے ہوئے آپؐ فرماتے ہیں کہ اونچی آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے لوگوں کے سامنے خیرات کرنے والا اور آہستہ آواز میں قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا چپکے سے خیرات کرنے والا۔

(سنن ابی داؤد -کتاب التطوع۔ باب فی رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے روز اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہو گی، جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی۔ پھر جب اس کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہو گا جس نے قرآن پر عمل کیا۔

(سنن ابی داؤد -کتاب الوتر – باب ثواب قراءۃ القرآن)

دیکھیں آپؐ کو ہر وقت یہ لگن تھی کہ اس کتاب کو امت ہمیشہ پڑھتی رہے، اس پر عمل کرتی رہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ اس کو چھوڑ دے۔ اور یقیناً اس کے لئے آپؐ دعائیں بھی کرتے تھے۔ اور یہ جو درجات کی بلندی کے بارے میں فرما رہے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی آپؐ کو بتایا ہو گا اور اسی سے علم پا کر آپؐ نے بتایا ہے کہ اس کے درجات کی بلندی ہو گی۔ اللہ کرے کہ آپؐ کی اس دلی تمنا کو امت سمجھے۔ اور بھی بے شمار مثالیں ہیں جن میں آپ ؐ نے امت کو قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے تاکہ وہ اعلیٰ اخلاق قائم ہو سکیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ امت بھی ان پر عمل کرے اور قرآن کریم کی تعلیم تمام دنیا میں رائج ہو جائے۔

(خطبہ جمعہ 4؍ مارچ 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ترقی کے گُر

اگلا پڑھیں

حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات