• 9 مئی, 2025

حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، حضرت مصلح موعود ؓ کے حوالہ سے ہی مزید بیان فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ211۔ ایڈیشن1984ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے 1903ء میں جب ایک شخص عبدالغفور نے جو اسلام سے مرتد ہو کر آریہ ہو گیا تھا اور اس نے اپنا نام دھرمپال رکھ لیا تھا۔ ’’ترک اسلام‘‘ نام کی کتاب لکھی تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا جواب لکھا جو ’’نور الدین‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ کتاب روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنائی جاتی تھی۔ جب دھرم پال کا یہ اعتراض آیا کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تو دوسروں کے لئے کیوں نہیں ہوتی اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا یہ جواب سنایا گیا کہ اس جگہ نار سے ظاہری آگ مرادنہیں بلکہ مخالفت کی آگ مراد ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اس تاویل کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے۔ اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی کتاب ’’نور الدین‘‘ میں یہی جواب لکھا اور تحریر فرمایا کہ ’’تم ہمارے امام کو آگ میں ڈال کر دیکھ لو۔ یقیناً خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق اسے اس آگ سے اسی طرح محفوظ رکھے گا جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ رکھا تھا۔‘‘

(نورالدین صفحہ 146) (تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ614)

ایک موقعہ پر آپ نے اس کی مزید تفصیل بھی بیان کی نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے معجزات کا بھی ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس کتاب کا ذکر ہو چکا ہے جب ’’حضرت خلیفہ اولؓ یہ کتاب نور الدین لکھ رہے تھے تو اس میں آپ نے لکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا جو ذکر ہے اس سے مراد لڑائی کی آگ ہے۔ آپ نے خیال کیا کہ آگ میں پڑ کر زندہ بچنا تو مشکل ہے اس لئے آگ سے مراد لڑائی کی آگ لی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں بسراواں ؔ کی طرف سیر کے لئے جایا کرتے تھے۔ (حضرت مصلح موعود کہتے ہیں) مجھے یاد ہے (کہ) مَیں بھی ساتھ تھا۔ کسی نے چلتے ہوئے کہا کہ حضور بڑے مولوی صاحب نے بڑا لطیف نکتہ بیان کیا ہے۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ جو لوگ عام طور پر عقلی باتوں کی طرف زیادہ راغب ہوں وہ ایسی باتوں کو، اس طرح کی تاویلیں اور نکتے بہت پسند کرتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً ساری سیر میں اس بات کا ردّ کرتے رہے اور فرمایا کہ ہمیں الہام ہوا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اگر اللہ تعالیٰ نے ایسا سلوک کیا تو کیا بعید ہے (کہ آگ میں ڈالا ہو)۔ کیا طاعون آگ سے کم ہے اور دیکھ لو کیا یہ کم معجزہ ہے کہ چاروں طرف طاعون آئی مگر ہمارے مکان کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ رکھا۔ پس اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے بچا لیا ہو تو کیا بعید ہے۔ ہماری طرف سے مولوی صاحب کو کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں۔ چنانچہ جیسا پہلے ذکر ہو چکا ہے انہوں نے کاٹ دیا اور پھر نئے فقرات لکھے‘‘۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) ’’معجزات کے بارے میں انبیاء ہی کی رائے صحیح سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ وہ اُن کی دیکھی ہوئی باتیں ہوتی ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ آدھ آدھ گھنٹہ باتیں کرتا ہے، سوال کرتا اور جواب پاتا ہے اس کی باتوں تک تو خواص بھی نہیں پہنچ سکتے کجا یہ کہ عوام الناس جنہوں نے کبھی خواب ہی نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہو تو ایک دو سے زیادہ نہیں اور پھر اگر زیادہ بھی دیکھیں تو دل میں تردّد رہتا ہے کہ شاید یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نفس کا ہی خیال ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ) مگر جو یہ کہتے ہیں کہ اِدھر ہم نے سونے کے لئے تکیے پر سر رکھا اُدھر یہ آواز آنی شروع ہوئی کہ دن میں تمہیں بہت گالیاں لوگوں نے دی ہیں۔ یعنی سارا دن تمہیں بہت گالیاں ملی ہیں مگر فکر نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اور تکیے پر سر رکھنے سے لے کر اٹھنے تک اللہ تعالیٰ اسی طرح تسلّی دیتا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ ساری ساری رات یہی الہام ہوتا رہتا ہے کہ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ أَقُوْمُ۔ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) دوسرے لوگ ان باتوں کو نہیں سجھ سکتے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ ایک حد تک سمجھ سکتے ہیں مگر اس حد تک نہیں جس حد تک نبی سمجھ سکتا ہے۔ نبی نبی ہی ہے۔ اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کلام ایسے رنگ میں ہوتا ہے جس کی مثال دوسری جگہ نہیں مل سکتی’’۔ (حضرت مصلح موعود اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ) میرے اپنے الہام اور خواب اس وقت تک ہزار کی تعداد میں پہنچ چکے ہوں گے مگر اس شخص کی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی) ایک رات کے الہامات کے برابر بھی یہ نہیں ہو سکتے جسے شام سے لے کر صبح تک اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ أَقُوْمُ کا الہام ہوتا رہا ہے‘‘۔ (پھر آپ نے فرمایا) ’’پھر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی عزت کریں لیکن جب ہم ان کو انبیاء کے مقابلے پر کھڑا کرتے ہیں تو گویا خواہ مخواہ ان کی ہتک کراتے ہیں۔ ہر شخص کا اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں عام طور پر یہ چرچا رہتا تھا کہ آپ کو زیادہ پیارا کون ہے۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض چھوٹے مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا نام لیتے تھے۔ ہم اس پارٹی میں تھے جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو زیادہ محبوب سمجھتی تھی۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دوپہر کے قریب کا وقت تھا۔ کیا موقع تھا؟ یہ یادنہیں۔ (آپ فرماتے ہیں) پہلے بھی کبھی شاید یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں اور ممکن ہے اس وقت موقع بیان کیا ہو مگر اس وقت یادنہیں ہے۔ (فرماتے ہیں کہ) مَیں گھر میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے یا حضرت اماں جان جو شاید وہیں تھیں ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو احسانات ہیں ان میں سے ایک حکیم صاحب کا وجود ہے۔ آپ بالعموم حضرت خلیفہ اول کو حکیم صاحب کہا کرتے تھے کبھی بڑے مولوی صاحب اور کبھی مولوی نور الدین صاحب بھی کہا کرتے تھے۔ آپ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور (حضرت خلیفہ اوّل کے بارے میں) فرمایا کہ ان کی ذات بھی اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان ہے۔ اور یہ ہمارا ناشکرا پن ہو گا اگر اس کو تسلیم نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک ایسا عالم دیا ہے جو سارا دن درس دیتا ہے۔ پھر طبّ بھی کرتا ہے اور جس کے ذریعہ ہزاروں جانیں بچ جاتی ہیں۔ یہ تو پہلے بات ہوئی جو حضرت مصلح موعود کے سامنے ہوئی۔ پھر آگے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودنے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ اسی طرح میرے ساتھ چلتے ہیں جس طرح انسان کی نبض چلتی ہے۔ پس ایسے شخص کا کوئی حوالہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں پیش کیا جائے۔ (اس موقع پر یہ بات آپ نے کہی جب یہ مقابلہ ہو رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے اور حضرت خلیفہ اول نے یہ فرمایا ہے۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں باوجود ان ساری تعریفوں کے اگر ایسے شخص کا کوئی حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے میں پیش کیا جائے۔ پھر اپنا ذکر فرمایا کہ) یا مثلاً اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلے پر میرا نام دے دیا جائے تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہم کو گالیاں دلوائی جائیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں حضرت خلیفہ اول کا ایک اعلیٰ مقام ہونے کے باوجود، ان کے الفاظ ان کے بارے میں جو بیان ہوئے اس کے باوجود اگر مقابلہ پہ حوالہ پیش کیا جائے تو آپ نے فرمایا یہ ایسا ہی ہے جیسے گالیاں دلوائی جائیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ) خلفاء کی عزت اسی میں ہوتی ہے کہ متبوع کی پیروی کریں۔ (یعنی جس کی اتباع کی ہے، جس کی بیعت کی ہے اس کی پیروی کریں۔ خلفاء کی عزت اسی طرح قائم رہتی ہے۔) اور اگر عدم علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے (یعنی خلفاء سے بھی اگر عدم علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے) تو جسے اس کا علم ہو اسے چاہئے کہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے شاید آپ کو اس کا علم نہ ہو‘‘۔ (پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) نقد کا علم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے۔ (یعنی کسی بات کو سمجھنے کا، اس کی گہرائی میں جانے کا، اس کو پرکھنے کا، اچھی طرح چھان پھٹک کرنے کا علم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کا جو علم ہے۔ فرماتے ہیں۔ وہ خلفاء کو، ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے) اور مامورین کی باتوں کو سمجھنے کی دوسروں سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔ پھر اس بات پر غور کر کے ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے معنی وہی ہیں جو لوگ لیتے ہیں اور یقینا نقد کے بعد ہم اس کو حل کر لیں گے (یعنی اس کو پرکھنے کے بعد ہم حل کر لیں گے) اور وہ حل ننانوے فیصدی صحیح ہو گا۔ لیکن اس کو حل کرنے کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ہم آپ کے مقابل پر ہوں گے اور آپ کے ارشادات کے مقابلے میں نام لے کر ہماری بات پیش کی جائے۔ کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ پیش کرے اور آگے سے دوسرا میرا نام لے دے تو اس کے معنے سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہتک کرائی جائے۔

(خطبہ جمعہ 27؍ فروری 2015ء)

پچھلا پڑھیں

قرآن کو تکیہ نہ بناؤ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 دسمبر 2020