• 18 مئی, 2024

مصیبتوں کو بُرا نہیں ماننا چاہئے

مصیبتوں کو بُرا نہیں ماننا چاہئے کیونکہ مصیبتوں کو برا سمجھنے والا مومن نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَالۡجُوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۶﴾ۙ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾ یہی تکالیف جب رسولوں پر آتی ہیں تو ان کو انعام کی خوشخبری دیتی ہیں اور جب یہی تکالیف بدوں پر آتی ہیں تو ان کو تباہ کر دیتی ہیں۔ غرض مصیبت کے وقت قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھنا چاہئے کہ تکالیف کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا طلب کرے۔

جو نیک کام مومن کرتا ہے اس کے لئے اجر مقرر ہوتا ہے۔ مگر صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا ثواب بے حد و بے شمار ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی لوگ صابر ہیں یہی لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو سمجھ لیا۔ خدا تعالیٰ ان لوگوں کی زندگی کے دو حصّے کرتا ہے جو صبر کے معنی سمجھ لیتے ہیں۔ اوّل جب وہ دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے جیسا کہ فرمایا اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المؤمن: 61) اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ: 187) دوم بعض دفعہ اللہ تعالیٰ مومن کی دعا کو بعض مصلحت کی وجہ سے قبول نہیں کرتا تو اس وقت مومن خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ تنزل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن سے دوست کا واسطہ رکھتا ہے۔ جیسا کہ دو دوست ہوں ان میں سے ایک دوسرے کی بات تو کبھی مانتا ہے اور کبھی اس سے منواتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس تعلق کی مثال ہے جو وہ مومن سے رکھتا ہے۔ کبھی وہ مومن کی دعا کو قبول کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المؤمن: 61) اور کبھی وہ مومن سے اپنی باتیں منوانی چاہتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ پس اس بات کو سمجھنا ایمانداری ہے کہ ایک طرف زور نہ دے۔

مومن کو مصیبت کے وقت میں غمگین نہیں ہونا چاہئے۔ وہ نبی سے بڑھ کر نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ایک محبت کا سرچشمہ جاری ہو جاتا ہے۔ مومن کو کوئی مصیبت نہیں ہوتی جس سے اس کو ہزارہا قسم لذّت نہیں پہنچتی…

خدا تعالیٰ کے پیاروں کو گناہ سے مصائب نہیں پہنچتے… مومن کے جوہر بھی مصائب سے کھلتے ہیں۔ چنانچہ دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھوں اور نصرت کے زمانے پر آپ کے اخلاق کو کس طرح ظاہر کیا۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف نہ پہنچتے تو اب ہم ان کے اخلاق کے متعلق کیا بیان کرتے۔ مومن کی تکالیف کو دوسرے بیشک تکالیف سمجھتے ہیں مگر مومن اس کو تکالیف نہیں خیال کرتا۔یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنی سچی توبہ پر قائم رہے اور یہ سمجھے کہ توبہ سے اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ اور اگر توبہ کے ثمرات چاہتے ہو تو عمل کے ساتھ توبہ کی تکمیل کرو۔ دیکھو! جب مالی بوٹا لگاتا ہے پھر اس کو پانی دیتا ہے اور اس سے اس کی تکمیل کرتا ہے اسی طرح ایمان ایک بوٹا ہے اور اس کی آبپاشی عمل سے ہوتی ہے اس لئے ایمان کی تکمیل کے لئے عمل کی از حد ضرورت ہے۔ اگر ایمان کے ساتھ عمل نہیں ہوں گے تو بوٹے خشک ہو جائیں گے اور وہ خائب و خاسر رہ جائیں گے۔

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ603-604)

پچھلا پڑھیں

سالانہ ریجنل تربیتی کلاس۔ گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 دسمبر 2022