• 18 مئی, 2025

دعاؤں کی چھاؤں میں (قسط دوئم و آخر)

دعاؤں کی چھاؤں میں
قسط دوئم و آخر

قسط اول کے لیے دیکھیں الفضل آن لائن موٴرخہ یکم دسمبر 2022ء

14؍ستمبر 1990ء کو مسز ناصر کے نام حضور رحمہ اللہ نے اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا: ’’آپ عطر کا تحفہ جو چھوڑ گئی تھیں اس کے ساتھ ایک چٹ پر عطر سے کہیں زیادہ معطر شعر لکھے ہوئے تھے۔آپ کو تو عزیزہ امۃ الباری کی مدد کے بغیر شعر ٹھیک سے پڑھنے بھی نہیں آتے، آپ نے کیسے ایسے اچھے، سادہ مگر بہت پُر اثر شعر کہہ لئے۔ جذبات تو صاف پہچانے جاتے ہیں کہ آپ کے ہیں۔شعر ضرور امۃ الباری سے آرڈر پر بنوائے ہوں گے۔بنانے اور بنوانے والے دونوں شکریہ کے لائق ہیں۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ اَحْسَنُ الْجَزَاء۔

اللہ نے اتنی پیاری محبت کرنے والی ہر آواز پر لبیک کہنے والی جماعت کا مجھے خادم بنایا ہے شکر ادا کرتے کرتے مر بھی جاؤں تو شکر کا حق ادا نہ ہو۔‘‘

23؍مارچ 1994ء کا درجِ ذیل خط پڑھ کر ہم جھوم ہی اُٹھے دونوں کو خوش کردیا: ’’آپ کا خط ملا،فصاحت و بلاغت اور خیالات کی جو پاکیزگی اور اُڑان اس میں دکھائی دی اس سے پہلے تو میں سمجھا تھا کہ یہ باری ؔکا خط ہو گا لیکن جب دیکھا تو آپ کاخط نکلا۔ ماشاء اللّٰہ چشم بد دور باری ؔ جتنا اچھا شعر کہہ سکتی ہیں آپ اُن سے کم نثر نہیں لکھتیں۔‘‘

23؍دسمبر 1994ء کا مکتوب ایک ساتھ ہم دونوں کے نام تھا اور نہایت پُر لطف۔ تحریر فرمایا: ’’آپ دونوں ہی خدا کے فضل سے مسز ناصر بھی ہیں اور بہت سی باتوں میں ہم مزاج بھی ہیں اور ہم پیالہ بھی ہیں مگر شرابِ معرفت کی ہم پیالہ اور جب لجنہ کے دفتر جاتی ہیں تو پتلی دال میں ہم نوالہ بھی ہو جاتی ہیں۔آپ کو جو یہ پریشانی ہے کہ ایک دوسرے کا اشتباہ ہو جاتا ہے تو فرق یوں ہو سکتا ہے۔کہ ایک اچھی نظمیں کہنے والی اور ایک اچھی نظمیں پڑھنے والی مسز ناصر ہیں۔باقی آپ لوگوں کے کام سے بہت خوشی ہوتی ہے آپ دونوں ہی مسلسل محنت سے اپنے دائرے میں خوب خدمت کی توفیق پا رہی ہیں۔ اللّٰھم زد و بارک۔ نظمیں کہنے والی مسز ناصر کے بچوں کی شادی کی تصویر میں اور پاکیزہ گھریلو ماحول میں بے تکلفی سے کھینچی ہوئی تصویر دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے۔ ماشاء اللّٰہ خدا نے اس خاندان کو صرف باطنی صفات سے ہی نہیں نوازا۔ اللّٰھم زد و بارک۔ نظمیں پڑھنے والی مسزناصر کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ورثہ میں اچھی آواز دی ہے ماشاء اللّٰہ۔ چشم بد دور۔لیکن ان کے بچے تو غالباً اکثر ہی چھوٹے ہیں ان کے لئے میری یہی دعا ہے۔

؎ بڑھیں یہ جیسے باغوں میں ہو شمشاد

خدا کرے کہ بشارت کا یہ جھونکا آپ کے لئے بھی شمشاد تک جا پہنچے اور سب بچوں کی طرف سے آپ کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو۔اپنے میاں اور عزیزوں کو اورہم نواؤں ہم پیالوں اور اگر لجنہ خصوصیت سے پیش نظر ہو تو ہم پیالیوں اور ہم اداؤں کو محبت بھرا سلام اور پُر خلوص دعائیں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو اور دونوں جہاں کی حسنات سے نوازے اور آپ سے ہمیشہ راضی رہے آمین۔‘‘

ایک اور مکتوب میں آپ رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا:
’’آپ کا خط ملا۔ MTA پر آپ کا تبصرہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔اللہ اس فیض کے چشمہ سے لوگوں کو سیراب ہونے کی توفیق دے۔ آپ اور آپ کے بچوں کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔ اور اپنے فضلوں سے نوازے۔

تبرکات کے متعلق توآپ ان سے حکمت سے اور کسی اور ذریعہ سے بے شک پتہ کریں اور پھر مجھے بھی بتاہیں کہ کیا کیا ہے اور اگر کچھ قیمت لےکر بھی دے دے تو پوچھ کر خرید لیں۔ میں ادائیگی کر دوں گا۔نغمہ سلطانہ کو بہت بہت سلام پیار۔اس کے رشتہ کے لئے وہاں بھی کوشش کریں اور مجھے بھی اس کی تصویر اور کوائف بجھوا دیں تو ان شاءاللّٰہ میں بھی نظر رکھوں گا۔ ماشاءاللہ بہت سمجھ دار اور سلجھی ہوئی بچی ہے۔ آپ کی تحریر تو ماشاء اللّٰہ بہت اچھی ہے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ماشاءاللّٰہ چشم بددور۔ اللہ علم و عمل میں برکت ڈالے اور ہر آن حافظ و ناصر ہو۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی عنایات کے علاوہ حضرت چھوٹی آپا کی شفقتیں بھی نصیب ہوئیں۔چھوٹی آپا رحمہ اللہ ربوہ اجتماعات اور شوریٰ پر جانے والے لجنہ کراچی کے وفد کو خصوصی ملاقات کا وقت دیتیں اور خاطر تواضع بھی کرتیں جب کراچی تشریف لاتیں تو عید کا سماں ہوتا۔مارچ 1994ء میں کراچی تشریف لائیں تو سب عاملہ ممبرات کو احمدیہ ہال میں ایک ملاقات میں بےحد خوبصورت و نفیس کڑھائی والے دوپٹے تحفہ میں عنایت فرمائے۔ ایک برکت بی بی کے حصے میں بھی آیا۔ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی عہدے داران کو نصائح والے خطبات اور خطابات کے مضامین کا انڈیکس تیار کرنا ان کے سپرد ہوا ربوہ چلی گئیں جولائی کے ایک گرم ترین دن حضرت چھوٹی آپا سے ملنے گئیں دوران گفتگو اپنے کام کا بتایا اور عرض کیا کہ اگر امۃ الحئی لائبریری میں الفضل کی فائلیں ہوتیں تو کام آسانی سے ہو جاتا۔آپ نے بےحد شفقت سے فرمایا کہ ’’خلافتِ رابعہ کے دور کے الفضل کی فائلیں تو میں بھی بنارہی ہوں۔تم میرے پاس آجایاکرو یا گھرلے جانا ہوں تو لے جایا کرو‘‘ کیسی شفقت تھی دل انتہائی محبت کے جذبات سے لبریز ہوگیا۔ عرض کی چھوٹی آپاصبح کتنے بجے آ کر لے جایا کروں۔ فرمایا میرے پاس تو صبح سورج نکلنے سے پہلے ہی قرآنِ مجید پڑھنے والی طالبات آنے لگتی ہیں۔ جب چاہو آ جایا کرو۔ اس طرح کام بھی آسان ہوگیا اور روزانہ آپ سے ملاقات بھی ہوجاتی، گرمیوں میں اپنے باغ کے آموں کا تحفہ بھیجتیں۔ ہم نے قدم قدم پر اللہ پاک کے ایسے کرم دیکھے ہیں کہ بیان کی طاقت نہیں۔ الحمدللّٰہ۔ اکتوبر 1996ء میں اپنے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ کے لئے دعوت دی تو خرابیٔ صحت کے باوجود تشریف لائیں اور گھر بھر کی خوشیوں کو دوبالا کیا۔

خدمات شعبہ مصباح

بحیثیت سیکرٹری مصباح 1990ء سے شروع کرکے بارہ سال خدمت سرانجام دی۔ اس میں بھی دل ڈال کر کام کیا۔ اس وقت کراچی کی گیارہ قیادتوں میں سے آٹھ قیادتوں کے مصباح ربوہ سے صدر لجنہ کراچی کے نام احمدیہ ہال میں آتے تھے۔ رسالوں کی تعداد کے مطابق بِل آجاتا مگر سارے مصباح فروخت نہیں ہوتے تھے قرض بڑھتا چلا جاتا اور ایسا کوئی فنڈ نہیں تھا جس سے قرض ادا ہوتا۔ مسز ناصر نے چارج لیا تو اس میں اور بھی بہت سے مسائل تھے مصباح کی قیمت بڑھ گئی تھی اور قیادتوں کی تعداد بھی۔ حکمت سے کام کیا سارا نظام ہی بدل دیا۔ مصباح منگوانے کی ذمہ داری قیادتوں کی نگرانوں پر ڈال دی۔ رسالہ کا چندہ بجائے ماہانہ کے سالانہ ادا کرنے لگیں۔ مصباح کے خریداروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا مصباح کی مالی معاونت بھی بہت بڑھ گئی۔ اس طرح نہ صرف قرض ادا ہوگیا بلکہ جب اس کام سے سبکدوش ہوئیں تو پس انداز کی ہوئی خاصی رقم دفتر میں جمع کروائی۔

خدمات قیادت نمبر 9

سیکرٹری مال قیادت نمبر9 قریباً سولہ سترہ سال کام کیا اس قیادت میں بہت بڑا علاقہ شامل تھا۔ اس پھیلاؤ کی وجہ سے باوجود انتہائی کوشش کے سال بھر میں ایک ایک گھر سے رابطہ کرنا مشکل ہوگیا تو صدر صاحبہ کراچی کو صورت حال سے آگاہ کیا آپ نے مکمل جائزہ لے کر سارے علاقے کو تین قیادتوں میں بانٹ دیا اپنی نگرانی میں سب جگہ انتخاب کروائے۔ ان کو باقاعدہ انتخاب کے مطابق مرکز کی منظوری کے ساتھ گلشن اقبال غربی قیادت نمبر 18 کی صدر مقرر کیا گیا۔ یہ ذمہ داری 1999ء سے 2001ء تک سر انجام دی۔

منفرد خصوصی خدمات کی توفیق

1989ء میں ہم نے جماعت کے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر مجلہ المحراب تیار کیا یہی سال لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کے قیام کو پچاس سال ہوئے تھے۔ اس میں ہم نے محسنات کے عنوان سےکراچی لجنہ کی خدمت گزاروں کے مختصر حالات شامل کئے تھے۔ان میں ایک نام ج ع صاحبہ کا تھا جوکراچی کی ایک سرگرم رکن تھیں مسز ناصر کے لئے یہ نام نامانوس تھا کیونکہ ان کے کراچی آنے سے پہلے انہوں نے احمدیہ ہال آنا چھوڑ دیا تھا۔

ان محترمہ کی خدمات کا عرصہ قریباً بیس سال پر محیط تھا۔ ان کے ذکر میں ایک جملے نے مسز ناصر کو چونکا دیا۔ لکھا تھا ’’اپنے بارے میں سب سے بڑا اعزاز مجھے حضرت نواب مبارکہ صاحبہ رضی اللہ عنہانے دیا۔ سیرت النبیﷺ کا جلسہ تھا۔حضرت بیگم صاحبہ کی تقریر بھی تھی۔ جب میری تقریر ختم ہوئی تو خود میرے آنسو بہہ رہے تھے جب میں بیگم صاحبہ کے پاس گئی تو ان کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے انہوں نے فرمایا۔’’ظالم تونے غضب کر دیا تمہارے بعد تو بولنے کو دل نہیں چاہتا‘‘ یہ سب سے بڑا خراج تحسین تھا جو مجھے حاصل ہوا۔ اس کے بعد مجھے کبھی تعریف کی حاجت نہیں ہوئی‘‘ مسز ناصر نے چند پرانی ممبرات سے ان کے متعلق جاننے کی کوشش کی تو پتہ لگا کہ وہ ایک معروف صحابی کی پوتی ہیں کسی مالی مجبوری سے حضرت اقدس علیہ السلام کے کچھ خطوط فروخت کرنے پڑے تھے۔ ان دنوں وہ شدید علیل ہیں اور کئی قسم کی تکالیف میں مبتلا ہیں۔کسی عزیزہ کے ساتھ رہتی ہیں گوشہ نشینی کی زندگی ہے ملنا جلنا پسند نہیں کرتیں۔ مسز ناصر کو خیال آیا کہ ہوسکتا ہے ان کے پاس اور بھی نوادرات ہوں۔کسی طرح حاصل ہوسکیں تو اچھا ہے۔ مکرمہ صدر صاحبہ لجنہ مرکزیہ اور صدر صاحبہ لجنہ کراچی کی اجازت سے خیریت پوچھنے ان کے گھر چلی گئیں یہ نومبر 1995ء کی بات ہے جمعہ کا دن تھا۔پھر آنا جانا رکھا تحفے تحائف سے راہ و رسم بڑھائی۔ اعتماد حاصل کیا تو وہ آہستہ آہستہ کھلنے لگیں۔ اس دوران دعائیں کیں اور کروائیں۔ ایک خواب سے رہنمائی ملی خواب میں ایک صندوق دیکھا جسے کھولنے پر ایک بلی اپنا بچہ لے کر بھاگی اس میں ایک انسانی ڈھانچہ بھی تھا۔ جس کی تعبیر خزانہ تھی۔ ایک دن ان کے پاس پہنچ گئیں۔ہمدردی سے باتیں کیں۔حالت بہت تکلیف دہ تھی بستر سے اٹھ نہ سکتی تھیں۔ مسز ناصر خیریت پوچھ کر آنے لگیں تو کہا کہ میں دوبارہ بھی آؤں گی ج ع صاحبہ نے کہا کہ آپ جب مرضی آئیں مگر میں دروازہ نہ کھول سکوں گی اس کھڑکی سے چابی پکڑا سکتی ہوں آپ خود اندر آجانا اور جاتے ہوئے باہر سے تالا لگا کر یہیں سے چابی مجھے دے دینا۔ اسی ترکیب سےدو تین دفعہ جانے پر انہیں کچھ اعتماد ہوا تو وہ راز کھول دیا جس کی وجہ سے انہیں پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ بہت افسوسناک بات تھی بتایا کہ پیسوں کی ضرورت تھی میرے دادا جان کی کوئی بھی چیز میرے پاس تھی جو میں نے بیچ دی۔ مسز ناصر نے درخواست کی کہ کوئی تبرک ہیں تو مجھے بھی دکھا دیں بتا یا کہ پارٹیشن کے وقت بہت کچھ ضائع ہو گیا۔ایک صندوق تھا جو میں نے… صاحب کو دے دیا تھا بہت قریب جا کے سننے پر بھی نام وا ضح نہ ہوا ۔ انہوں نے اپنے زمانے کے ایک ٹیپ ریکارڈ ر اور آڈیو کیسٹس کی بھی نشان دہی کی جس میں بعض خواتین مبارکہ کی تقاریر ریکارڈ کی تھیں۔لجنہ کے دفتر میں آکر تلاش کرنے پر سب کچھ مل گیا جوخلافت لائبریری ربوہ کے حوالے کر دیا گیا۔ج ع صاحبہ کی صحت اور کچھ معاونت کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی درخواست پیش کی تو آپ نے دعاؤں سے نوازا۔

14؍جنوری 1996ء کے مکتوب میں تحریر فرمایا ’’آپ کا خط ملا۔شعبہ اشاعت لجنہ کراچی کے لیے آپ کی خدمات کو اللہ قبول فرمائے اور بہترین جزا دے۔ باقی جہاں تک (ج ع) صاحبہ کا تعلق ہے۔ ان کے متعلق کسی جماعتی مدد کے لئے کوئی کارروائی آپ کے پیش نظر ہوتواس کے لئے امیر صاحب کراچی سے رابطہ کریں۔ ان کی طرف سے سفارش ہوئی تو مدد کی جائے گی،بہرحال آپ نے جو ہمدردانہ کاروائی کی ہے اس کا شکریہ۔جزاک اللّٰہ احسن الجزاء۔‘‘

ایک دن اطلاع ملی کہ ج ع صاحبہ وفات پاگئی ہیں ہم سب کو افسوس ہوا ۔ مسز ناصر کہتی ہیں کے وہ دو وجہ سے قابل رحم تھیں ایک تو صحت دوسرے اندر کی خلش جس کا اظہار کئی بار ہوتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ کے کرم سے وہ صندوق بھی مل گیا۔ ہوا یہ کہ ایک دن مکرمہ شکیلہ طاہر کا فون آیا کہ کوئی صاحب ہمارے گھر پر صندوق چھوڑ گئے ہیں۔ پرانے کاغذات ہوں گے۔امی کو سانس کی تکلیف ہوجاتی ہے اور میں صرف دو دن کے لئے آئی ہوں۔آپ اس پراجیکٹ پر کام کر رہی تھیں آپ کا حق ہے کہ اسے وصول کرلیں۔ شکیلہ طاہر ہمارے شعبہ اشاعت کی ایک رفیق کار کی با صلاحیت بیٹی ہیں۔ جو ان دنوں خلافت لائبریری میں کام کر رہی تھیں۔ مسز ناصر بیمار تھیں چند دن ہسپتال میں داخل رہی تھیں ابھی کمزوری باقی تھی مگر سب کچھ پس پشت ڈال کر اطہر بیٹے کو ساتھ لے کر گئیں اور باکس لے آئیں۔ باکس آیا تو اسی کونے میں ہاتھ مارا جہاں خواب میں انسانی ڈھانچہ دیکھا تھا جو لفافہ ہاتھ لگا اس میں ہمارے پیارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط تھے فورا ً مکرمہ آپا سلیمہ صاحبہ اور خاکسار کو اطلاع دی میں اسی وقت اپنی بیٹی امۃ الشافی کے ساتھ ان کے گھر پہنچی۔ صندوق دیکھ کر ہی جذبات پر قابو رکھنا مشکل تھا۔ ہم نادرو نایاب یادگار سامان دیکھنے جارہے تھے جن کا تعلق ہمارے پیارے امام زماں علیہ السلام سے تھا۔پہلے میں نے مسز ناصر کو گرمجوشی سے مبا رکباد دی کچھ دیر وہ کچھ بول نہ سکیں پھر بڑی عاجزی سے کہنے لگیں ’’اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔میری کوئی بہادری نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہی کوئی سلسلہ رکھا ہوتا ہے اسی کا تصرف ہوتا ہے۔خود ہی اسباب پیدا فرماتا ہے کسی سے کوئی کام لے لیتا ہے۔اسی کی مہربانی ہے۔ پیارے حضور کی دعائیں ہیں۔ پھر آپا سلیمہ صاحبہ کی شفقتیں جن کا مضبوط ہاتھ ہمیشہ پشت پر ہوتا جس سے حوصلہ بڑھتا۔ میرے اندر کام کی لگن تھی جسے بشریٰ داؤد اور آپ کو دیکھ کربڑھاوا ملا۔ معاملے کی تہ تک پہنچنا اور کام کو مکمل کرکے چھوڑنا بھی عادت رہی ہے۔ شکر ہے اس اللہ پاک کا جو مسبب الاسباب ہے‘‘ دعا کرکے اس صندوق کو کھولا جوجست کی موٹی چادر سے سیالکوٹ کا بنا ہوا تھا۔ اس ڈھکنے کے اندر ایک اور ڈھکنا تھا اسے کھولا تو ایک لوہے کا گز ملا جو ڈھکنا کھول کے اسے گرنے سے بچانے کے لئے سہارا دینے کے لئے تھا۔ اندر کاغذات ہی کاغذات تھے ہم نے اس میں موجود ہر کاغذ کی فہرست بنائی۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک کے خطوط اور چھوٹے سائز کے لفافے جن پر آپ علیہ السلام کےدستِ مبارک سے پتے لکھے ہوئے تھے۔ یہ 1906ء 1907ء اور 1908ء کے تھے۔ کچھ مضامین کچھ ڈائریاں تھیں جیسے ملفوظات یا درس کے نوٹس ہوں۔ کئی بزرگ ہستیوں کے خطوط تھے حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کی اطلاع کی تحریریں تھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی تو آپ نے18؍کتوبر 1996ء کے مکتوب میں دعاؤں سے نوازا:
’’جزاکم اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء۔ تبرکات کے حصول والا تو ماشاءاللّٰہ آپ نے بڑا عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔بڑی خوشی ہوئی ہے ورنہ تو یہ ضائع ہوجانا تھا اللہ آپ کو صحت وعافیت والی فعال زندگی عطا فرمائے۔‘‘

مسز ناصر کو ابھی ایک آس باقی تھی کہ مرحومہ کے گھر سے کچھ مل سکتا ہے ان کی عزیزہ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ایک فائل دی جس میں ان کے کچھ خاندانی خطوط تھے۔ہمارا خیال تھا کہ یہ غیر اہم ہیں۔ اسے اچھی طرح سمجھایا کہ ہمیں جماعت کے اکابرین کے کاغذات دیں گی تو آپ کو بھی فائدہ ہوگا۔ ہم نے دستیاب ہونے والے خاندانی خطوط حضرت صاحب کی خدمت میں براہ راست بھجوائے اور ساتھ درخواست کی کہ جن لفافوں پر حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک سے پتے اور آپ علیہ السلام کے دستخط ہیں ان میں سے اگر اجازت ہو تو ہم ایک ایک رکھ لیں۔ تبرک کے لئے۔آپ کا بڑا پیارا جواب آیا

10.3.97

عزیزہ مسز ناصر ملک صاحبہ

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ

آپ کا خط ملا جس کے ساتھ آپ نے… کے دیے ہوئے کچھ خطوط بھی بھجوائےہیں۔ جزاکم اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزاء… خانگی باتوں والے جو خطوط ہیں۔ وہ آپ کی نظر میں اہم ہوں یا نہ ہوں۔مگر جماعتی لحاظ سے بڑے اہم ہیں… اس لئے ایسے خط آئندہ بھی اگر آپ کو ملیں تو لے کر مجھے بجھوا دیں۔ باقی آپ نے جو لفافے تبرک رکھنے کے لئے مانگے ہیں۔ وہ بے شک لے لیں۔ آپ نے ماشاءاللّٰہ یہ بڑی تاریخی خدمت کی ہے۔آپ کا یہ حق بنتا ہے۔ ضرور لے لیں۔جَزَاکُمُ اللّٰہ تَعَالیٰ اَحْسَنُ الْجَزَاء۔‘‘

اس کے بعد ایک اور فائل ملی۔وہ اس طرح کہ کسی نے مسز ناصر کو اطلاع دی کہ آپ کے گھر کے نیچے سیڑھیوں میں ایک خاتون بیٹھی ہیں جو خون سے لت پت ہیں آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ دیکھا تو ج ع صاحبہ کی وہی عزیزہ تھیں بہت برے حال میں ناک سے مسلسل خون جاری تھا انہیں طبی امداد دی کچھ ہوش آئی تو اپنے پرس سے ایک فائل نکال کر دی۔ انہیں کچھ رقم بھی دی گئی۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہماری عاقبت سنواردے آمین۔

حضرت سیٹھ اسمٰعیل آدمؓ

قدرت نے ان کو ایک بہت مفید کام لینے کے لئے چن لیا،تمہید یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت سیٹھ اسمٰعیل رضی اللہ عنہ کا تعلق میمن برادری سے تھا 1873ء میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام آدم تھا۔1896ء میں تحریری بیعت کی 1898ء میں قادیان تشریف لائے۔ عقیدت و اخلاص میں بہت ترقی کی۔ خطبہ الہامیہ کے دن والی گروپ فوٹو میں شامل تھے۔ ان کے پاس حضرت اقدس علیہ السلام کے قیمتی محبت بھرےخطوط بھی تھے۔ پاکستان بنا تو ہجرت کرکے کراچی آگئے اور یہیں 1957ء میں وفات پائی۔ تدفین میمن برادری نے اپنے قبرستان میں کی۔ ان کی آل اولاد،حالات زندگی اورقبر کے متعلق معلومات کی جماعت کو ضرورت تھی۔ مربی سلسلہ مکرم مولانا عبدالمالک خان نے آپ کی یاد میں ایک مضمون لکھا جو 28؍جنوری 1958ء الفضل ربوہ میں شائع ہوا تھا اس کا آخری پیرا تھا ’’سیٹھ صاحب کے اعزا،میمن قوم کے معززین جماعت کے افراد سیٹھ صاحب کے مکان پر جمع ہوگئے۔ تجہیزو تکفین کے بعد آپ کا جنازہ میمن قبرستان میں لے جایا گیا جہاں خاکسار نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر اس قبرستان میں ان کی نعش کو سپرد خاک کردیا گیا۔ مکرم جناب چودھری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ نے تمام احباب سمیت سیٹھ صاحب رضی اللہ عنہ کی ترقیٔ درجات کے لئے لمبی دعا کی اور آپ کے بچوں اور رشتہ داروں کو صبر کی تلقین فرمائی اور ایسے موقع پر آنحضرت ﷺ کا جو طریق ہوا کرتا تھا اس کو بیان فرمایا میں اس موقع پر ان تمام معززین کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں جنہوں نے سیٹھ صاحب کی تجہیزو تکفین میں جماعت احمدیہ کی مدد فرمائی۔ فجزاھم اللّٰہ احسن الجزا۔ احباب جماعت سے گزارش ہے کہ جو دوست حضرت سیٹھ صاحب رضی اللہ عنہ مرحوم کے حالات زندگی کے متعلق کچھ جانتے ہوں وہ تحریر فرما کر انجمن احمدیہ بندر روڈ کراچی کے پتہ پر روانہ فرمائیں تاکہ ان امور کو اس کتاب میں شامل کرلیا جائے جو سیٹھ صاحب کے لڑکے سیٹھ صاحب کے حالات زندگی کے متعلق شائع کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ربوہ میں شعبہ تاریخ میں کراچی کی شکیلہ طاہر صاحبہ کام کرتی تھیں انہوں نے مسز ناصر سے ذکر کیا کہ آپ کراچی میں رہتی ہیں وہاں ان کےخاندان کے افراد کو تلاش کرکے کوشش کریں کہ مطلوبہ معلومات مل جائیں۔ ستمبر 1997ء کو شکیلہ نے ایک فائل دکھائی جس میں سیٹھ صاحب کی یاد میں لکھےگئے دو مضامین تھے اور صاحبزادہ مرزا غلام احمد کے کراچی کی انتظامیہ کے نام کچھ خطوط تھے جو مختلف لوگوں کو مزار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے لکھے گئے تھے۔ مسز ناصر نے ان کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ کام مشکل ہے پہلے کوشش بھی ہو چکی تھی۔ خطوط میں انہیں ایک نام رفیعہ محمد صاحبہ کا نظر آیا جو کچھی میمن تھیں اورہمارے شعبہ اشاعت میں کام کرتی تھیں۔ اپنے خاندان کے بارے میں ایک کتاب ’’میری کہانی‘‘ لکھی تھی۔کچھ امید کی کرن نظر آئی۔ حضرت صاحب کو دعا کے لئے خط لکھا۔ جس میں اپنا ایک خواب بھی لکھا تھا۔ حضور رحمہ اللہ کا جواب موصول ہوا کہ آپ کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تقویٰ میں بڑھائے گا۔ ستاری کا سلوک کرے گا اللہ آپ کو مقصد میں کامیاب کرے۔ بہت امید ہوگئی کہ غیب سے سامان ہوجائے گا۔ کراچی آکر آپا رفیعہ سے معلومات کرنا چاہیں تو ان کا رویہ قدرے خشک سا تھا۔ وہ اس خاندان کی پرانی واقف تو تھیں مگر تعلقات میں ایک ناکام رشتے کی بد مزگی سے رخنہ آچکا تھا اور ملنا جلنا بند تھا۔ ان کی بہن کی شادی سیٹھ صاحب رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہاشم سے ہوئی تھی جو چار مہینے میں تکلیف دہ حالات میں ختم ہوگئی تھی۔ اس کا ذکر ہی انہیں دکھی کردیتا۔ انہیں بڑی عاجزی سے سمجھایا کہ پرانی باتیں دفن کریں مسئلہ ایک صحابی کی قبر معلوم کرکے کتبہ لگانے کا ہے تو وہ مدد کرنے پر آمادہ ہوئیں۔آپا رفیعہ نے اپنے بھائی عارف ستار صاحب کے ذریعے ہارون صاحب کا فون نمبر رہائش کا پتہ اور کچھ معلومات لے کر دیں ان کے مطابق سیٹھ صاحب کے چار لڑکے تھے۔آدم،داؤد، محمد،ہاشم۔ داؤد کی بیوی کا نام رقیہ بائی تھا ان کی دو بیٹیاں ہاجرہ اور امینہ تھیں۔ جن کو گھر میں ہاجو ماں اور امو ماں کہتے تھے۔ دونوں بہنوں کی شادیاں دو بھائیوں سیٹھ ہارون جعفراور سیٹھ عیسیٰ جعفر سے بنگلور میں 1941ء میں ہوئیں عیسیٰ جعفر کراچی کی مشہور شخصیت تھے کسی ملک کے ایمبیسیڈر بھی رہے تھے۔ ہاجو ماں پہلی بچی کی پیدائش کے بعد طاعون سے وفات پا گئیں ان کی بچی امو ماں نے پالی۔ آپا رفیعہ نے ہارون صاحب سے فون پر رابطہ کیا اور امو ماں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اموماں شدید بیمار ہیں۔ ہسپتال میں داخل ہیں۔ جب گھر آئیں گی تو وہ ہمیں بتائیں گے۔ پہلے تو سوچا کہ وقت ضائع کئے بغیر ہسپتال میں ہی ان سے ملاقات کی جائے مگر کوئی صورت نہ بنی۔آخر یکم دسمبر کو فون کرنے پر ہارون صاحب نے آپا رفیعہ کو بتایا کہ امو ماں گھر آگئی ہیں اگرچہ بہت کمزور ہیں بے ہوشی کی سی کیفیت ہے آپ چاہیں تو مل سکتی ہیں۔ یہ دونوں خواتین کچھ انتظار کرکے 12؍دسمبر کو کچھ تحائف بھی لے کر ان کے گھر پہنچیں۔ ان کی بیٹی شاہین نے اچھی طرح استقبال کیا۔ امو ماں کے کمرے میں گئے ان کا صرف چہرہ کھلا تھا باقی جسم چادر سے ڈھکا ہوا تھا قریب جاکر جھک کر سلام کیا۔ مسز ناصر نے کہا میں آپ کے دادا کی برادری کی ہوں۔ اس پر ان کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں چمک محسوس ہوئی۔ نیز بتایا کہ وہ ہمارے بزرگ تھے ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی آل اولاد کس حال میں ہے ہم ان کی قبر پردعا کرنا چاہتے ہیں اس پرکتبہ لگانا چاہتے ہیں۔ بڑی مشکل سے بولیں کہ ’’میرے بابا کا بھی‘‘ تاریخ احمدیت کی جلد دوم میں سے خطبہ الہامیہ کے وقت کی ان کے دادا کی تصویر دکھائی اور بتا یا کہ ہمارا مقصد صرف ان کی قبر پر دعا کرنا ہے۔ ان کا کتبہ لگانا ہے۔ ہارون صاحب احمدیت کے ذکر پرکچھ گھبرائے اور مخالفانہ باتیں شروع کیں ان کی ایک بیٹی امریکہ سے آئی ہوئی تھیں۔ بیٹیاں تعلیم یافتہ اور غیر متعصب تھیں مہمانوں کے آنے کا مقصد جان کر انہیں کچھ ہمدردی ہوگئی انہیں ڈرائنگ روم میں لے گئیں اپنے والد کے مخالفانہ رویے کو دیکھ کر چپ نہ رہ سکیں کہا کہ کسی کو کسی کے مذہب میں مداخلت کا حق نہیں ہوتا میرے علم میں ہے آپ نے ناناجان سے اچھا نہیں کیا تھا اگر امی کے دادا احمدی تھے تو ان کی مرضی کی جگہ پر دفن کی اجازت کیوں نہ دی۔ اس دن بات بڑھانا مناسب نہ لگا۔دعا سلام اور خیریت پوچھ کر واپس آگئیں مگر ہارون صاحب سے قبر معلوم کرنے کا مرحلہ باقی تھا۔ دعا کرنے اور کرانے پر زور تھا۔مسز ناصر کہتی ہیں ایک دن فجر کی نماز میں سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہنے کے ساتھ ہی ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی بہت دیر اس میں ڈوبی رہی۔ دل کو حوصلہ ہوا کہ کامیابی کی راہیں کھلیں گی۔کراچی کی صدر لجنہ اور خاکسار راقم الحروف پل پل ان کے ساتھ تھیں سب کے مشورے سے طے پایا کہ بہت نرمی اور ادب اداب سے کسی طرح انہیں یقین دلایا جائے کہ ہمارا مقصد انہیں کوئی نقصان پہنچانا نہیں ہے نہ ہی ان کے خاندانی امور میں کوئی دخل اندازی کریں گے بس آپ ہمیں قبر دکھا دیں آپا رفیعہ نے ایسے ہی بات کی۔ ہارون ساحب نے کہا ٹھیک ہے آپ کل آجائیں میں قبرستان لے جاؤں گا۔ مسز ناصر اپنے بیٹے اطہر احمد کے ساتھ گاڑی میں آپا رفیعہ کو لے کر ان کے گھر چلی گئیں۔ ہارون صاحب ان کی گاڑی میں ہی بیٹھ گئے اور اطہر کو راستہ بتانے لگے۔ محمد علی جناح روڈ سے سول ہسپتال والی سڑک پر آئے اور دائیں بائیں گاڑی مڑواتے ہوئے ایک سبز رنگ کے گیٹ والے قبرستان پر رکے اس پر کچھی میمن قبرستان کا بورڈ لگا تھا۔ اندر گئے تو پہلے آدم اسمٰعیل کی قبر نظر آئی پھر ہاشم اسمٰعیل کی اور ایک درخت نیچے خاصی اونچی قبر دکھائی جس پر محراب دار کتبہ نظر آیا انہوں نے بتایا کہ اس میں حضرت سیٹھ اسمٰعیل آدم رضی اللہ عنہ مدفون ہیں کتبہ آدھا مٹا مٹا سا تھا باقی نیچے کے حصے پر فارسی کے دو اشعار لکھے تھے جو پڑھے نہیں گئے۔ لیکن تاریخ وفات 7؍ دسمبر 1957ء واضح لکھا ہوا تھا۔ یہی گوہر مقصود تھا۔سب نے مزار پر دعا کی۔ مگر کھوج میں محنت کرنے والی خواتین کی دعا میں حمد وشکر کا رنگ گہرا تھا۔ واپسی پر ہارون صاحب نے بتایا کہ یہ کتبہ ہاشم نے لگوایا تھا۔ پھر وہ بے تکلفی سے اپنے خاندان کی باتیں بتاتے رہے جب گاڑی قائد اعظم کے مزار کے قریب آئی تو کچھ گھما کر وہ مکان دکھایا جہاں ہاشم کی وفات ہوئی تھی اور پھروہ مکان دکھایا جو دوسرے بھائی محمد اسمعیل کا تھا۔ جو ان کی بیٹی خیر النساء اور ان کے بیٹے نادر مرزا کی ملکیت میں ہے۔ وہ تو دوبئی گئے ہوئے ہیں نیچے کا حصہ کرائے پر دیا ہوا ہے سامان اوپر کی منزل میں بند ہے۔ نادر سے چابی لے کر دکھایا جاسکتا ہے ہو سکتا ہے اس میں کوئی آپ کے کام کے کاغذات ہوں۔ واپسی پر ان کے گھر تھوڑی دیر کے لئے رکے تو ہارون صاحب نےخانہ کعبہ کی نادر و نایاب تصاویر دکھائیں جن کی ان کی اجازت سے وڈیو بنالی اوران کے تعاون پر بہت شکریے کے ساتھ خدا حافظ کہا۔

قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے دیکھے۔ 29؍دسمبر کو صاحبزادہ مرزا غلام احمد صدر کمیٹی خلافت لائبریری ربوہ کی خدمت میں اس وقت تک کی کامیابی کی مکمل رپورٹ ارسال کردی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

اب کام کا دوسرا مرحلہ تھا کہ حضرت سیٹھ صاحب رضی اللہ عنہ کے کوئی کاغذات ہوں تو مل جائیں۔ ہم فون کرکے امو ماں کی خیریت پوچھتے رہے۔6؍ جنوری کو ہارون صاحب نے بتایا کہ ان کی نادر مرزا سے بات ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک انہیں علم ہے مکان تبدیل کرتے وقت کاغذات جلا دئے گئے تھے۔ 5؍ فروری کو مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد کا دعاؤں کا خط ملا اور ہماری کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ چند دن بعد ہماری صدر صاحبہ امۃ الحفیظ محمود بھٹی نے مکرم امیر صاحب جماعت کراچی کا پیغام دیا کہ آپا رفیعہ صاحبہ اور مسز ناصر کو گیسٹ ہاؤس میں بلایا ہے۔ موصوف نے ساری تفصیل پوچھی اور کام کو سراہا۔ دعائیں بھی دیں۔اسی دن شام کو امو ماں کی وفات کی خبر ملی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

قادیان دارالامان کی زیارت

اللہ پاک کے خاص فضل سے کئی مرتبہ جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔1990ء کا سفر اس طرح یادگار بن گیا کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے خواب میں ایک خوش خبری عطا کی جو کئی سال بعد معجزانہ رنگ میں پوری ہوئی اس جلسے میں اپنی امی جان اور اور مکرمہ امۃ الشافی سیال کے ساتھ گئی تھیں وہاں کتب کا سٹال لگایا اور جلسہ گاہ میں ڈیوٹی بھی دی۔ خدمت کے راستے تلاش کرنے میں ماہر ہیں۔قادیان سے واپسی پہلے قافلے کے ساتھ ہونی تھی۔ مگرامی کی طبیعت ٹھنڈ لگنے سے خراب ہو گئی۔ ان کو وہاں چھوڑ کر آنے کی وجہ سے دل بےحد پریشان تھا عجیب کرب کی حالت میں سارا سفر دعاؤں میں درودشریف پڑھنے میں گزرا۔اس تکلیف میں دعا کر رہی تھیں کہ 7؍جنوری 1991ءکو اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب نظارہ دکھایا عشاء کی نماز کے بعدخواب دیکھا بیان کرتی ہیں ’’ایک چبوترہ نما خاصی بڑی سی جگہ ہے۔ ایک طرف فاصلے پر میں کھڑی ہوں۔سر اٹھا کر دیکھتی ہوں تو خانہ کعبہ اس چبوترے کے درمیان میں ہے۔کچھ عرب عورتیں لمبے چوغے پہنے وہاں نظر آتی ہیں۔میں سوچتی ہوں سنا ہے یہ ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں مانگتے مجھے قریب نہ ہونے دیں گی۔جونہی وہ پرےہوتی ہیں۔میں تیزی سے اس جوش کے ساتھ کہ خانہ کعبہ پر نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے۔بے ساختہ غلافِ کعبہ ایک کونے سے دونوں ہاتھوں سے ہٹا کر بار بار بوسے لیتی ہوں اور مسلسل بہتےآنسوؤں سے ایک ہی بات تکرار سے کہتی ہوں کہ اے میرے اللّٰہ میں تجھ سے کچھ نہیں مانگتی سوائے تیری محبت کے بس تو مجھے اپنا اور اپنے پیاروں کا قُرب دے دے۔پھر کسی کو پوچھتی ہوں کہ یہاں حجرِ اسود بھی ہے۔آواز آتی ہے وہ سامنے کھڑکی کے پٹ کھولو۔اس طرف بڑھتی ہوں۔پٹ کھولنے پر اخبار کا صفحہ سا نظر آتا ہے۔اسے ہٹانے پر سامنے سیاہ رنگ کا پتھر ہے۔سلاجیت کی طرح سیاہ اور چمکتا ہوا رنگ ہے۔میں اسے بھی چومتے ہوئے اپنی وہی دعا دہراتی ہوں ’’مجھے کچھ نہیں چاہیے میرے مولا بس تیرے سوا کچھ نہیں چاہئے‘‘ پھر ایک دم اذان کی طرح لاؤڈ سپیکر پر عربی زبان میں کوئی کچھ بول رہا ہے۔مجھے لگتا ہے اب سب لوگ طواف کریں گے۔اور میں بھی چلنے لگتی ہوں۔سامنے زینے ہیں۔آہستہ سے اس طرف سے نیچے اترنے لگتی ہوں۔سامنےکافی لوگ چارپائیوں پر ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہیں سب کی پشت مجھے دکھائی دیتی ہے۔دل کہتا ہے۔ان میں آنحضرت ﷺ بھی بیٹھے ہوں گے۔(خواب میں بھی خوف ہے کہ لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ میں احمدی ہوں تو مجھے نکال دیں گے)‘‘ یہ خواب اس لئے لکھا ہے کہ صفائی سے پورا ہوا۔ ویسے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے خواب سنایا اور پھر وہ پورا ہوا ۔ یہ اللہ پاک کا ان پر خاص احسان ہے۔

اسی سال اللہ تعالیٰ کے ایک غیر معمولی احسان کی روداد پڑھیے حمد وثنا کے ساتھ ذکر کرتی ہوں۔

9؍فروری کو ان کے بھائی مکرم مرزا افضل مربی سلسلہ امریکہ سے کراچی آئے۔ سفر میں پیارے حضور رحمہ اللہ کی قدم بوسی کے لئے لندن رکے۔ حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو ان کے ہاتھ پیارے حضور نے ان کے لئے دعاؤں سے معطر خط کے ساتھ ایک خوب صورت سوٹ کا کپڑا بھیجا تھا۔ جس کی پیکنگ بھی بہت خوب صورت تھی۔ بھائی کا آنا خوشی کی بات ہوتی ہے مگر یہ تو بہت بڑی خوشی لے کر آئے تھے فَبِأَیِّ آلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ۔ پیارے حضور رحمہ اللہ کے احسانات ان گنت ہیں۔

فریضۂ حج ادا کرنے کی سعادت

عبادت اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان رازداری کے تعلقات اور عجزو نیاز کے معاملات ہوتے ہیں۔مسز ناصر کے محسوسات انہی کے الفاظ میں پیش کرتی ہوں:؎

کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار

1998ء میں بڑی بیٹی ڈاکٹر ثمینہ فواد جو ان دنوں ریاض (سعودی عرب) میں رہتی تھی کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع تھی اس کا آپریشن ہونا تھا اور پہلی بچی طوبیٰ قریباً ڈیڑھ سال کی تھی۔ اس کو سنبھالنا مشکل تھا اس لئے وہ ہمارے پاس کراچی آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے نومبر میں وقف نو بیٹے فضل الرحمٰن سے نوازا۔ بچہ ایک مہینے کا ہوا تو اسے واپس جانا تھا۔ بچے چھوٹے تھے۔ اس لئے میرا ویزا لگواکر مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ وہاں رمضان المبارک کا مہینہ آیا۔ جس کا اپنا ہی لطف تھا۔ چھٹی کے دن جماعت کے احباب ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے نمازیں،درس،افطاری، تراویح نفل مل کرپڑھتے سحری کرکے گھروں کو آتے۔ عید الفطر بچوں کے ساتھ منائی۔ اگلے روز اس علاقے کے پہلے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے۔ مکرم امیر صاحب کا افتتاحی خطاب و دعا رقت آمیز تھا۔دعاؤں کا خوب موقع ملا اس کیفیت میں اچانک مجھے اللہ پاک نے ایک نظارہ دکھایا۔ میں نے دیکھا میرا بیٹا اطہر احمد میرے سامنے کھڑا ہے اور میں بڑے درد سے اللہ تعالیٰ سےاس کے لئے فریاد کرتی ہوں کہ یا اللہ !تیرے لئے کیا مشکل ہے اس کے دل سے پاکستان سے باہر جانے کا خیال مٹا دے۔ یا اس کی خواہش پوری کر کے کسی پُرامن جگہ پہنچا دے۔آمین۔اللہ تعالیٰ نے مضطر کی دعا سن لی گھر آئی تو کراچی سے ملک صاحب نے یہ خوشخبری سنائی کہ۔ مبارک ہو۔ اطہر بخیر وعافیت کینیڈا پہنچ گیا ہے۔میری حالت ناقابل بیان تھی۔فون ثمینہ کو پکڑا دیا۔آنکھوں سے غم اور خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے۔ پورا وجود خدا کی حمد سے بھرا ہوا تھا الحمدللّٰہ۔ اطہر بیٹے سے فون پربات ہوئی۔ مبارکباد اور دعائیں دیں وہ کہنے لگا اللہ تعالیٰ کے گھر کے پاس پہنچی ہوئی ہیں ہو سکے تو حج کرلیں۔ اس کی بات سے میری عجیب کیفیت ہوئی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ مجھ جیسی ناچیز اپنے محبوب،اپنے پیشوا حضرت رسول کریم ﷺ کی بستی میں پہنچ سکتی ہوں۔اللہ تو قادر ہے اس کے لئے کیا مشکل ہے مجھ عاجز کی حج کی تمنا بھی پوری کردے۔ وہ ذات رحمان اور رحیم ہے وہ من کی مرادیں مانگنے پربھی عطا فرماتا ہے اور بن مانگے بھی جھولیاں بھر دیتا ہے، وہ تو ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے۔ میں ایسی ہی سوچ میں گم تھی کہ اس دلوں کے بھید جاننے والے نے میری بیٹی ثمینہ اور داماد فواد کے دل میں ڈالا کہ پہلے امی کے عمرے کا انتظام کرنا چاہئے۔جلسہ سالانہ کے قریبا پندرہ دن بعد ہم نے حرمین شریفین کی زیارت کا پہلا سفر کیا۔ مدینہ گئے۔ مسجد نبوی ﷺدیکھی روضہ رسول ﷺ پر دعا کی۔مدینے سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے توذہن میں تھا کہ یہیں کہیں قریب ہی ہوگا لیکن جب گاڑی چلتی ہی چلی گئی تو مکہ سے مدینہ ہجرت کے وہ مبارک مسافر یاد آئے جنہوں نے اونٹوں پر یہ سفر کیا تھا۔ اچھا خاصا فاصلہ ہے اب تو پکی سڑکیں ہیں پھر بھی چار گھنٹے لگے۔شام کے قریب جب حدود میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے عمرہ کرنے کا ارادہ تھا ہمارے پاس کتاب تھی جس میں ساری ہدایات تھیں کہاں سے داخل ہونا ہے کہاں احرام باندھنا ہے وغیرہ۔ ہدایت کے مطابق احرام باندھ لئے احرام باندھا تو دل کی عجیب حالت تھی مکہ کے قریب آرہے تھے خانہ کعبہ کو دیکھنے کا عجیب شوق تھا۔خیال تھا کہ رات کے وقت عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے ہجوم کچھ کم ہوگا۔شام کو گئے ہر طرف تیز روشنی ا س قدر زیادہ تھی کہ دن کا گمان ہوتا تھا۔پہلے میں بچوں کے پاس ٹھہری ثمینہ اور فواد طواف کرکے آئے گرمی تھکن اور رش کی وجہ سے خاصی دیر لگی… خانہ کعبہ کی حدود میں داخل ہوئے پہلی سطح کا صحن عبور کرکے چند سیڑھیاں چڑھ کر اگلی سطح تک پہنچتے ہی پیارے کعبہ پر نظر پڑی۔ ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ مولیٰ کریم اس مقدس جگہ کو اس کے اصلی وارثوں کے سپرد کرنے کی راہ ہموار کر دے۔ اس کے ساتھ حقیقی پیار کرنے والے تو اس سے دور رکھے جاتے ہیں۔ ایسا سامان کر کہ وہ یہاں آ سکیں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی گئی ایک ستون کے ساتھ کھڑی رہی لوگوں کے گروپ تھے خواتین بھی تھیں وھیل چیئر والے ڈولیوں والے تیز تیز بھگا رہے تھے۔ کچھ افریقن عورتیں دیکھیں قد کاٹھ کی وجہ سے جگہ بنا رہی تھیں۔ میری خواہش پوری ہونے کا اللہ پاک نے سامان کیا۔ اندونیشئن عورتوں کا ایک گروپ اکٹھا طواف کر رہا تھا ان کے قریب چلی گئی اور ساتھ لگے لگے آہستہ آہستہ طواف کرتے ہوئے کعبہ کی طرف کھسکتے کھسکتے عین حطیم کےقریب پہنچ گئی وجد کا عالم تھا پانچویں چھٹے چکر میں دیکھا کہ کعبہ کا غلاف اٹھا ہوا ہے ایک عورت ذرا سا ہٹی تو پردے کو پکڑ لیا اور اس جذب کے وقت بھی وقت کے امام کے لئے دعائیں کیں۔ میری تو یہ حالت تھی کہ ہر چیز سے بے نیاز تھی یہی دل چاہتا تھا کہ سر نہ اٹھاؤں وہیں صبح ہوگئی تو ایک طواف اپنی پیاری ماں کی طرف سے کیا۔آب زمزم سے پیاس بجھائی۔

اگلے دن فواد غار حرا دکھانے لے گیا۔ ہزارہا دفعہ پڑھا ہوا تھا کہ پہاڑی پر ہے مگر اتنی بڑی پہاڑی ہوگی یہ نہیں سوچا تھا۔ نیچے کھڑی دیکھ رہی تھی آنسو نہیں رک رہے تھے یہاں آقا ﷺ کتنی مشقت سے تشریف لاتے ہوں گے اور ہمارے لئے دعائیں کرتے ہوں گے۔راستے میں ایک ایک چیز کو اس نظر سے دیکھتی کہ یہاں پیارے رسولِ خدا ﷺ کی نظر پڑی ہوگی یہاں قدم پڑے ہوں گے۔ میں باوجود خواہش کے اوپر نہیں چڑھ سکی مگر میری دعائیں ضرور اوپر چڑھ رہی تھیں۔

حرمین شریف کا دوسرا سفر

حج بیت اللہ کے لئے ہوا للہ تعالیٰ کا احسان عظیم اور ثمینہ فواد کا دلی شکریہ کہ اس زندگی میں حج کی سعادت کا موقع ملا۔نیت کرتے ہی ایسا لگا مسبب الاسباب نے گود میں بھر لیا ہے سب کام معجزانہ طور پر ہونے لگے۔ فواد امور داخلیہ سے میرے لئے اجازت لینے گیا تو طویل لائن میں وہ آخر میں کھڑا تھا کام تیز رفتاری سے نہیں ہو رہا تھا۔ باری آنے تک دفتر بند ہونے کا وقت ہوجانا تھا اگلے دن چھٹی تھی۔ پھر حج پر جانے کا وقت نکل جانا تھا۔ فکر مندی سے دعا کررہا تھا اتنے میں پشت سے کوئی افسر آیا فواد سے کاغذات لے کر اجازت کی مہر لگا دی اور چلا گیا۔یہ سب کچھ میرے پیارے آقا کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان ہیں۔ہم حج کے لئے روانہ ہوئے ہم پانچ افراد تھے دو بچے طوبی سوا دو سال کی اور فضل الرحمان چار مہینے کا تھا۔ہمارے علاوہ سات آٹھ گاڑیوں میں دوسرے خاندانوں کا قافلہ جدہ پہنچا۔ جماعت نے مختلف گھروں میں ٹھہرانے کا بہت منظم طریقے سے عمدہ انتظام کر رکھا تھا۔گاڑیاں وہاں چھوڑ کر بسوں میں سفر کرتے ہوئے۔سات ذی الحج کو احرام باندھ کر منٰی کی طرف رواں دواں تھے لبیک لبیک اللّٰھم لبیک کی صدائیں دل ودماغ کو مہکا رہی تھیں۔اس سال جمعہ کے روز حج تھا۔لہذا وہاں کے لوگوں کے مطابق جمعہ کاحج، حج اکبر کہلاتا ہے۔جس کا ثواب سات گنا زیادہ ہوتا ہے۔اس لئے مقامی حاجیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔منٰی میں دوسرے ممالک سے آنے والے احباب جماعت بھی شامل ہو گئے۔کل تعداد تقریباً95تھی۔ جدہ سے شامل ہونے والے خدام اور لجنہ نے سارا انتظام عمدگی سے سنبھال لیا۔اللہ تعالیٰ بہترین جزا دے۔ہمہ وقت مستعد رہتے تھے۔مناسک حج ادا کرتے ہوئے۔قدم قدم پر دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگی۔عرفات کے میدان میں نماز جمعہ ادا کی۔حضور انور کے خطبہ جمعہ سے ایک پیغام ملا۔آپ نے فرمایا تھا۔کہ حج ہو رہا ہے۔احمدی بھی وہاں موجود ہیں۔وہاں بیت الفتوح کے لئے خاص طور پر دعا کریں۔اس طرح زیادہ خشوع و خضوع سے دعا کا موقع ملا۔عصر کی نماز کے بعد مزدلفہ کی طرف تمام حجاج کے قافلے رواں دواں تھے لبیک لبیک اللّٰھم لبیک کی گونج میں مغرب کے بعد پہنچے وہاں کھلے آسمان تلے مغرب عشاء کی نمازیں باجماعت ادا کر کے رمی جمار کے لئے اکھٹے ہوتے ہیں۔ دعائیں کرتے ہوئے کچھ دیر عورتوں کے ساتھ آرام کیا۔فجرکے لئے پھر منی میں پہنچنا تھا۔ یہاں وقت کی بہت پابندی کرنی ہوتی ہے۔ ہر جگہ کے لئے وقت مقرر ہے۔یہاں سے آخری مراحل میں داخل ہوئے کنکریاں مارنے کے لئے مردوں کے دو گروپ تشکیل دیے گئے۔ ان کی طرف سے اطلاع کے بعد قربانی کی جاتی۔خواتین کے لئے دعائیں مانگنے کا بہترین وقت تھا۔دوپہر کا کھانا جدہ کی جماعت کی طرف سے آگیا۔ الحمدللّٰہ۔

رات تک قربانیوں سے فارغ ہونے کے بعد مردوں نے سر کے بال منڈوا ئے۔ عورتوں نے ایک ایک انچ بال کاٹے۔الوداعی سفر کا سوچ کر دل کی حالت عجیب تھی۔رات کو مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔خانہ کعبہ کے قریب بہت عمدہ انتظام تھا۔عورتوں کے علیحدہ سینکڑوں کی تعداد میں باتھ روم بنے ہوئے تھے نہا کر احرام کھول کر کپڑے تبدیل کر کے بہتے آنسوؤں کے ساتھ خانہ کعبہ کا الوداعی طواف کیا۔ عاجزانہ دعاؤں کے بعد وہاں سے رخصت ہوئے۔اورجب تک نگاہیں پڑتی رہیں۔روح نےحمد و شکر سے سجدے کئے۔‘‘

حرف آخر

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی رضی اللہ عنہ اور والدین کی کی دعاؤں کی مہک میں خوشگوار محبتیں بانٹتے اور سمیٹتے زندگی گزر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیار سے نوازتا رہے۔ آمین۔

خاکسار اپنی اس اچھی ہم کار کے لئے شکر گزاری کے اظہار کی طاقت نہیں پاتی۔ فجزاھا اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزا۔

(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

سالانہ ریجنل تربیتی کلاس۔ گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 دسمبر 2022