• 11 مئی, 2025

مومن کو ہمیشہ مسجد کے آداب کا خیال ملحوظ رہنا چاہئے

’’اے میرے اللہ میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے مجھ پر کھول دے‘‘ حدیث نبویؐ

مساجد اللہ کی محبوب ترین مقامات میں سے ہیں اور ان مقامات کا تقدس قائم رکھنے کے لئے قرآن پاک، رسول اللہﷺ، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء سلسلہ نے ان مقامات کے آداب کا ذکر کیا ہے۔ جن کو خاکسار نے مضمون کی صورت میں جمع کرنے کی سعی کی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

  • (ترجمہ) اور جب ہم نے (اپنے) گھر کو لوگوں کے بار بار اکٹھا ہونے کی اور امن کی جگہ بنایا اور ابراہیم کے مقام میں سے نماز کی جگہ پکڑو اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔

(البقرہ: 126)

  • (ترجمہ) اور جب ہم نے ابراہیم کے لئے خانہ کعبہ کی جگہ بنائی (یہ کہتے ہوئے کہ) میرا کسی کو شریک نہ ٹھہرا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک وصاف رکھ۔

(الحج:27)

  • (ترجمہ) اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت (یعنی لباسِ تقویٰ) ساتھ لے جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

(الاعراف:32)

آنحضرت ﷺ جب مسجد میں داخل ہو تے تو یہ دعا پڑھتے:

بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ

اللہ کے نام کے ساتھ۔ اللہ کے رسول پر سلامتی ہو۔ اے میرے اللہ میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے مجھ پر کھول دے۔
آنحضرت ﷺ جب مسجد سے باہر تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے۔

بِسْمِ اللّٰہِ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی اَبْوَابَ فَضْلِکَ

اللہ کے نام کے ساتھ۔ اللہ کے رسول پر سلامتی ہو۔ اے میرے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور اپنے فضل کے دروازے مجھ پر کھول دے۔

(ابن ماجہ کتاب المساجد باب الدعا عند دخولِ المسجد)

ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو بیٹھنے سے قبل 2 رکعت (نفل) ادا کرے۔

(بخاری کتاب الصلوۃ با ب اذا دخل المسجد فلیرکع)

حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو وہاں کچھ کھا پی لیا کرو۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ جنت کے باغ کیا ہیں؟ اس پر رسول کریمﷺ نے فرمایا ‘‘مساجد جنت کے باغ ہیں’’ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! ان میں کھانے پینے سے کیا مراد ہے اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سُبحَانَ اللّٰہِ وَ الحَمْدُ لِلّٰہ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ وَاللّٰہُ اَکْبَر پڑھنا۔

(ترمذی۔کتاب الدعوات، باب حدیث فی اسماء اللہ الحسنیٰ مع)

آنحضرتﷺ نے ایک اور موقع پر فرمایا: بعض باتیں مسجد میں کرنا جائز نہیں 1۔ مساجد کو گزرنے کا راستہ نہ بنایا جائے۔ 2۔مساجد میں اسلحہ کا استعمال بلاوجہ نہ کیا جائے۔ 3۔ مسجدوں میں کمان نہ پکڑی جائے اور نہ مسجد میں تیر برسائے جائیں۔ 4 ۔کچّا گوشت لے کر مسجد سے نہ گزرا جائے۔ 5۔ مسجد میں نہ تو کسی پر حد جاری کی جائے اور نہ مسجد میں کسی سے قصاص لیا جائے۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب المساجد باب مایکرہ فی المساجد)

آنحضرتﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: مسجد میں مشاعرہ کے رنگ میں اشعارنہ پڑھے جائیں (یعنی ایسے اشعار جو لغویات کے زمرہ میں آتے ہیں) اس میں بیٹھ کر خرید و فروخت نہ کی جائے۔ یا جمعہ کے دن نماز سے پہلے لوگ حلقے بنا کر بیٹھے باتیں نہ کریں۔

(ابو داؤد کتاب الصلوۃ باب تحلیقات یوم الجمعۃ)

ایک موقع پر آنحضرتﷺ نے صحابہ ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: اگر تم لوگ پہلی صف کی فضیلت جانتے تو اس میں شرکت کے لئے قرعہ اندازی کرتے۔

(بخاری کتاب الصلوۃ حدیث نمبر:984)

ان احادیث میں آنحضرتﷺ نے ہمیں مساجد کے آداب و احترام کی طرف توجہ دلائی ہے اور مساجد کو ہر قسم کی لغویات سے پاک رکھنے اور دنیاداری کے جملہ امور سے منزہ رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے کیونکہ مساجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں۔

آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص پیاز، لہسن یا کوئی بدبودار چیز کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آیا کرے کیونکہ فرشتوں کو بھی اُس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب نہی اکل الثوم)

حضرت عمر و بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مسجد میں مشاعرہ کے رنگ میں اَشعار پڑھنے سے منع فرمایاہے۔ اور (اس بات سے بھی منع فرمایاہے کہ) اس میں بیٹھ کر خریدو فروخت کی جائے اور مسجد میں جمعہ کے دن نماز سے پہلے لوگ حلقے بنا کر بیٹھے باتیں کریں۔

(ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی کراھیۃ البیع والشراء)

حضرت سلمان فارسی ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکیزگی اختیار کر ے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو، استعمال کرے، پھر نماز جمعہ کے لئے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان میں گھس کرنہ بیٹھے۔ پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اِس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘

(بخاری کتاب الجمعۃ باب الدھن للجمعۃ)

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ ’’جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تُو اپنے پاس بیٹھے آدمی سے کہے کہ خاموش ہو جا تو تُو نے خود ایک لغو حرکت کی۔‘‘

(بخاری کتاب الجمعۃ باب الانصاب یوم الجمعۃ والامام یخطب)

آنحضرتﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا مساجد اس لئے نہیں کہ ان میں پیشاب کیا جائے، تھوکا جائے یا کوئی گند وغیرہ پھینکا جائے (یعنی مسجدوں کو ہر قسم کی گندگی سے پاک صاف رکھنا چاہئے) کیونکہ وہ اللہ کے ذکر اور قرآن کریم کے پڑھنے کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں۔

(مسلم کتاب الطہارۃ باب وجوب غسل البول)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی مُمِد اور مُعَاوِن ہے……یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے۔ اِسی لئے لازم ہے کہ…… ہر نماز میں وضو کرو، جماعت کھڑی کرو تو خوشبو لگا لو، عیدین اور جمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اِسی بنا پر قائم ہے،اَصل وجہ یہ ہے کہ اِجْتِمَاع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے۔ پس غسل کرنے اور صاف کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے سے سمیت اورعفونت سے روک ہو گی۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد 1 ص704-705)

’’ مسجد کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ491)

’’ اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔‘‘

(ملفوظات جلد 4ص93)

حضرت خلیفۃالمسیح الاوَّل ؓفرماتے ہیں۔
’’رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے اور جماعت ہو رہی ہو تو وقار اور سکینت سے آئے اور ادب کرے۔جیسا کہ کسی شہنشاہ کے دربار میں داخل ہوتا ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد1صفحہ221)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں۔
’’اے بنی نوع انسان! ہر نماز کے وقت زینت کا خیال رکھا کرو۔ اِسی لئے شریعت نے حکم دیا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کیاجائے۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے جائیں۔ کوئی (بد) بودار چیز نہ کھائی جائے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 5ص367)

’’جب آپؐ نے فرمایا ہے کہ کچا پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آؤتو اسی میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ اگر کوئی اچھی چیز انسان کھائے اور پھر اپنے منہ کو صاف نہ کرے اور اس کی سڑاند منہ میں پیدا ہو جائے تو اس صورت میں بھی اسے اجتماع سے دُور رہنا چاہئے پھر رسول کریم ﷺ نے اس کی کیا ہی لطیف حکمت بیان فرمائی ہے۔آپﷺ فرماتے ہیں بدبو دار چیزوں سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔اب فرشتہ کوئی جسمانی چیز تو ہے نہیں کہ بدبو اسے تکلیف ہو۔مراد یہی ہے کہ ہر نیک فطرت انسان اس سے اذیت محسوس کرتا ہے اورپاک لوگوں کو اس طرح تکلیف ہوتی ہے اس لئے تم مسجد میں ایسی چیزیں کھا کر نہ آیا کرو جن سے انہیں تکلیف ہو…تکلیف تو اسے ہی ہو گی جو فرشتہ خصلت ہو گا اور پاک صاف رہنے والا ہو گا۔اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے لئے آؤ توکپڑے بدل کر آؤ۔اس کی حکمت تو ظاہر ہی ہے۔کپڑے کو پسینہ لگتا رہتا ہے اور پسینہ میں چونکہ زہر بھی ہوتی ہے اور بُو بھی۔پس اس کا انسان کی اپنی صحت پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے اور دوسروں کو بھی بُو سے اذیت پہنچتی ہے۔اس لئے رسول کریم ﷺ نے ہدایت دی کہ کپڑے بدل کر آیا کرو۔‘‘

(خطبات محمود جلد22صفحہ 113-114)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:
’’ أَنْ طَہِّرَا بَیْتی َ کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک کرو اور اسے ہر قسم کے عیبوں اور خرابیوں سے بچاؤ…اس سے مراد ظاہری صفائی بھی ہے جیسا کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ مساجد کو صاف رکھو اور اس میں عُود وغیرہ جلاتے رہو۔ اور اس سے باطنی صفائی بھی مراد ہو سکتی ہے۔ یعنی مسجد کی حرمت کا خیال رکھو اور اس میں بیٹھنے کے بعد لغویات سے کنارہ کش رہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ170)

فرمایا: ’’لُغت کی رُو سے بھی نجاستِ ظاہری اور باطنی دونوں کو دُور کرنے کیلئے تطہیرکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ170)

آپؓ مزیدفرماتےہیں:
’’مساجد کو صاف رکھنے کا رسول کریمﷺ نے خاص طور پر حکم دیا ہے…اسلام نے بتایا ہے کہ ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اب اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا اور ایک اصول قائم نہ کردیا جاتا توکئی لوگ مسجدوں میں آتے اور ہوائیں خارج کرتے رہتے نتیجہ یہ ہوتا کہ بدبوسے لوگوں کا دماغ خراب ہو جاتا۔ پس اس میں بھی اسلام نے حکمت رکھی ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسجد میں تھوک یا بلغم پھینکنا گناہ ہے اور اگر کوئی شخص تھوک دے یا بلغم پھینکے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس تھوک کو اٹھا کر زمین میں دفن کرے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ مسجد ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب مسلمانوں نے اکٹھا ہونا ہوتا ہے اگر تھوک یا بلغم پڑا ہو تو لوگوں کو تکلیف ہو۔نمازیں پڑھنی ہوتی ہیں ایسی صورت میں نمازیوں کو جو تکلیف پیش آسکتی تھی وہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔مسجد میں تھوکنے کی عادت کو مسلمان اب چھوڑ بیٹھے ہیں لیکن مسجد میں بے احتیاطی سے کھانا کھانے کی عادت ابھی ان میں سے نہیں گئی۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سالن گر جاتا ہے اور پھر اس سالن پر یا دال پر مکھیاں بیٹھتیں اور بُوپیدا ہوتی ہے۔حالانکہ اگروہ اس بات کو سمجھتے کہ مسجد میں تھوکنے کو رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے تو وہ مسجد میں دال وغیرہ گرا کر تھوک سے بھی زیادہ غلاظت نہ پھیلاتے۔ تھوک بیشک ایک کراہت کی چیز ہے مگر اس کی سڑاند بعد میں قائم نہیں رہتی لیکن سالن اور دال وغیرہ جب مسجد میں گر جائے تو چونکہ ان چیزوں میں گھی ہوتا ہے اس لئے اس کی سڑاند بعد میں بڑھتی رہتی ہے مگر لوگ تھوک تو مسجد میں نہیں پھینکتے اور دال یا سالن گرا کر اس سے بہت زیادہ سڑاند پیدا کر دیتے ہیں مسجد میں بے شک کھانا کھانا منع نہیں مگر اتنی احتیاط تو ضرور کرلینی چاہئے کہ انسان کھاتے وقت کوئی کپڑا بچھالے اورپھر احتیاط سے کھائے تاکہ مسجد میں چیونٹیاں اور مکھیاں اکٹھی نہ ہوں اور نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔‘‘

(خطبات محمود جلد22صفحہ 115-116)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مزیدفرماتےہیں۔
’’مساجد خدا کا گھر کہلاتی ہیں اور مساجد وہ مقام ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں مگر لوگ جب مساجد میں آتے ہیں تووہ ہزار قسم کی بکواس کرتے ہیں،آپس میں دنیوی معاملات پر لڑتے جھگڑتے ہیں، ایک دوسرے کو جوش میں گالیاں بھی دے دیتے ہیں۔ غیبت بھی کر لیتے ہیں اور انہیں ذرا بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ خدا کے گھر میں بیٹھ کر کس قسم کی شرمناک حرکات کر رہے ہیں۔ اُنہیں تو چاہئے تھا کہ وہ جب تک مساجد میں رہتے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کی زبانیں تر رہتیں مگر وہ بجائے ذکر الٰہی کرنے کے دنیوی امور میں ا پنے قیمتی وقت کو ضائع کرکے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مرتکب بن جاتے ہیں۔……مساجد میں اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں اور اس قدر شور بعض لوگوں نے مچایا ہواہوتا ہے کہ تعجب آتا ہے کیوں ابھی تک لوگوں کو اتنی موٹی بات بھی معلوم نہیں ہوئی کہ انہیں مساجد کا احترام کرنا چاہئے۔ اور لغو باتوں کی بجائے ذکر الہیٰ میں اپنا وقت گزارنا چاہئے……یا اگر باتیں ہی کرنی ہوں تو دین کی باتیں کریں…. ہم اپنی مساجد میں جب بیٹھتے ہیں تو ہمیشہ دین کی باتیں کرتے ہیں یا ایسی دنیوی باتیں بھی کرلیتے ہیں جو دین سے تعلق رکھتی ہیں مگر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مساجد میں بیٹھ کر سوداسلف کی باتیں شروع کردی جائیں۔یا ایک دوسرے کی غیبت شروع ہو جائے۔ یہ ساری باتیں سخت معیوب ہیں اور انسان کو خدا تعالیٰ کی نظر میں گنہگار بنا دیتی ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 8ص543-542)

فرمایا: ’’مساجدذکر الہٰی کے لئے ہیں لیکن ذکر الہٰی ان تمام باتوں پر مشتمل ہے جو انسان کی ملّی،سیاسی، علمی اور قومی برتری اور ترقی کے لئے ہوں۔ لیکن وہ تمام باتیں جو لڑائی، دنگہ،فساد یا قانون شکنی سے تعلق رکھتی ہوں خواہ ان کا نام ملّی رکھ لو یا سیاسی۔ قومی رکھ لو یا دینی ان کا مساجد میں کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح مساجد میں ذاتی امور کے متعلق باتیں کرنا بھی منع ہے کیو نکہ اسلام مسجد کو بیت اللہ قرار دیتا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص قرار دیتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6ص 29)

حَضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒفرماتے ہیں۔
’’مساجد اللہ ہی کی ملکیت ہیں اس لئے مسجد کا مالک خدا ہی ہوتا ہے…….تاہم جو شخص دل میں بری نیت،گری ہوئی خواہشات اور شرارت کے ارادہ سے مسجد میں آتا اور اس کی بے حرمتی کرنا چاہتا ہے اسے اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔‘‘

(خطبات ناصر جلد 8ص 645)

فرمایا: ’’قرآن کریم نے جو یہ فرمایا یٰا بَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف:23) تو یہاں بھی اسی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے۔ مسجدتذلل اور عبادت کے مقام کو کہتے ہیں اور زِیْنَۃٌ سے یہاں مراد دل کی صفائی اور پاکیزگی اور دل کا تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ نے یہاں حکم دیا ہے کہ جب بھی میرے حضور تذللسے جھکنا چاہو اور میری اطاعت اور میری عبادت کرنا چاہو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تم اپنے دلوں کو پاکیزہ کرو اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرتے ہوئے مجھ تک پہنچنے کی کوشش کرو۔‘‘

(خطبات ناصر جلد 2ص 70-71)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’سب سے زیادہ توجہ کا مرکز اللہ کا گھر ہونا چاہئے کسی محلے میں کسی شہر میں اور ساری جماعت کو اس کو پاکیزہ رکھنے میں اور اسے زینت بخشنے میں حصہ لینے کی اس طرح کو شش کرنی چاہئے کہ اگر حصہ ملے تو اپنا اعزاز سمجھے اگر حصہ نہ ملے تو محرومی سمجھے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 6صفحہ529)

فرمایا: ’’خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف:32) کہ اے مومنو! تم ہرمسجد میں اپنی زینت خود ساتھ لے کر جایا کرو۔…خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ سمجھایا کہ…. تم مہمان ہو اور میں تمہارا میزبان ہوں۔میرا گھر ہے جس میں تم آرہے ہو اس لئے میں ہر ایک سے حسبِ مراتب کے مطابق سلوک کروں گا۔تمہاری زِینتوں کو دیکھا جائے گا کہ تمہاری کتنی قدر ہونی چاہئے اس مسجد میں۔تم اپنی قیمت خود بڑھانے والے ہو گے اور جتنی اپنی قیمت اُونچی کرتے چلے جاؤ گے اتنا ہی اس میزبان کو زیادہ قدر دان پاؤ گے۔‘‘

(خطبات طاہر جلد 8صفحہ157۔158)

’’مسجد کے آداب ساری زندگی پر حاوی ہیں۔ ان کے فلسفے سے اپنی نسلوں کو آگاہ کریں۔ مسجد سے تعلق رکھنے والی قوم دنیا کی سب سے متمدن قوم اور مہذب قوم ہوتی ہے…… آپ دنیا کی بہترین قوم ہیں۔ اور خدا کرے کہ ہمیشہ بہترین رہیں۔‘‘

(الفضل 25۔اکتوبر 1992ء)

فرمایا:۔ ’’مسجد کی زینت عبادت کرنے والوں سے ہوتی ہے…… آپ مسجد بنائیں اورخوب بنائیں۔ خوبصورت بھی بنائیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اِن مساجد کو تقویٰ سے سجائیں ……عبادات کو سنوار کر اداکریں ……پھر خدا کی محبت اور پیار کی نظریں آپ پر پڑیں گی۔‘‘

(الفضل 27اکتوبر 1992ء)

صحابہؓ حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ سے درخواست کیا کرتے تھے کہ ہماری مسجدوں میں بھی کوئی نماز ادا کریں،دو نفل ادا کریں تاکہ ہماری مسجد کو رونق ملے اور ان کی مراد غالباً قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کرنا ہوتی تھی.. کہ تم لوگ ہر مسجد میں اپنی زینتیں ساتھ لے کر جایا کرو (الاعراف:23) اور یہاں زینت سے مراد تقویٰ ہے۔ پس چونکہ حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کو تمام کائنات میں اگلوں اور پچھلوں سے زیادہ تقویٰ نصیب ہوا۔پس صحابہؓ یہ درخواست بالکل قرآنی تعلیم کے مطابق کیا کرتے تھے۔

(خطبات طاہر جلد8ص459-460)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں۔
’’…پھر زینت ظاہری کے بارہ میں اور نماز میں توجہ رکھنے کی وجہ سے وضو کا بھی حکم ہے اس سے ایک تو صفائی پیدا ہوتی ہے دوسرا ذراآدمیActive ہو جاتا ہے۔ وضو کرنے سے اور توجہ سے نماز پڑھتا ہے۔اور خاص طور پرجمعہ کے دن تو نہا کر آنے کو پسند کیا گیا ہے تو بہر حال مقصد یہ ہے کہ ظاہری طور پر بھی صفائی کا خیال رکھو تو روح کی بھی صفائی کی طرف توجہ ہوگی اللہ تعالی کی خشیت اور تقوی بھی دل میں پیدا ہوگا…تو مسجد کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھنا چاہئے۔مسجد کی صفائی کے ضمن میں ایک حدیث آتی ہے۔حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:میرے سامنے میری امت کے اجر پیش کئے گئے یہاں تک کہ وہ خس وخاشاک بھی اجر کا باعث ہے جسے ایک شخص مسجد سے باہر پھینکتا ہے۔مسجد کی صفائی کے لئے اگر کوئی تنکا بھی اٹھا کر باہر پھینکتا ہے تو اس کا بھی اجر ملتا ہے…جہاں جہاں بھی جماعت احمدیہ کی مساجد ہیں اس کی صفائی کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 364-365)

’’نمازوں کے دوران اپنے موبائل فون…… بند رکھیں۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے کہ فون لے کر نمازوں پر آ جاتے ہیں اور پھر جب گھنٹیاں بجنا شروع ہوتی ہیں توبالکل توجہ بٹ جاتی ہے نماز سے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد1ص195)

نیز فرمایا:۔’’سب سے اہم عمارات مساجد ہیں۔مسجد کے ماحول کو بھی پھولوں، کیاریوں اور سبزے سے خوبصورت رکھنا چاہئے، خوبصورت بنانا چاہئے۔ اور اِس کے ساتھ ہی مسجد کے اندر کی صفائی کا بھی خاص اِہتمام ہونا چاہئے……صفیں اُٹھا کر صفائی کی جائے…… دیواروں پر جالے بڑی جلدی لگ جاتے ہیں، جالوں کی صفائی کی جائے۔ پنکھوں وغیرہ پر مٹی نظر آ رہی ہوتی ہے وہ صاف ہونے چاہئیں۔ غرض جب آدمی مسجد کے اندر جائے تو اِنتہائی صفائی کا اِحساس ہونا چاہئے کہ ایسی جگہ آ گیا ہے جو دوسری جگہوں سے مختلف ہے اور مُنْفَرِد ہے۔ اور جن مساجد میں قالین وغیرہ بچھے ہوئے ہیں وہاں بھی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے۔ لمبا عرصہ اگر صفائی نہ کریں تو قالین میں بو آنے لگ جاتی ہے، مٹی چلی جاتی ہے۔ خاص طور پر جمعے کے دن تو بہرحال صفائی ہونی چاہئے۔ اور پھر حدیثوں میں آیا ہے کہ دُھونی وغیرہ دے کر ہوا کوبھی صاف رکھنا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد2ص272)

فرمایا: ’’اتنے چھوٹے بچوں کو مساجد میں نہیں لانا چاہئے جس کی بالکل ہوش کی عمر نہ ہو اور ان کے رونے سے دوسرے نمازیوں کی عبادت میں خَلَل واقع ہوتا ہو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد اول صفحہ 365)

نیز فرمایا: ’’نماز کے دوران بعض اوقات بچے رونے لگ جاتے ہیں جس سے بعض لوگوں کی نماز میں بہرحال توجہ بٹتی ہے،خراب ہوتی ہے۔جو نماز کاتعلق تھا وہ جاتا رہتاہے۔تو اس صورت میں والدین کو چاہئے اگر والد کے پاس بچہ ہے یا والدہ کے پاس بچہ ہے کہ وہ اس کو باہر لے جائیں۔ یہ بہترہے کہ اس اکیلے کی نماز خراب ہو،بجائے اس کے کہ پورے ماحول میں بچے کے شور کی وجہ سے رونے کی وجہ سے نمازیوں کی نماز خراب ہو رہی ہو۔ نیز اگر چھوٹی عمر کے بچے ہیں تو ما ئیں جو ہیں اگر یا باپوں کے پاس ہے توباپ،پہلی صفوں میں بیٹھنے کی کوشش نہ کریں۔بلکہ پیچھے جا کر بیٹھیں تاکہ اگر ضرورت پڑے تو نکلنا بھی آسان ہو۔‘‘

(خطبات مسرور جلد اول صفحہ 194)

’’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب امام خطبہ دے رہا ہو تو بات کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔بعض لوگ اپنے بچوں کو خطبے کے دوران منہ سے بول کر روک ٹوک کر رہے ہوتے ہیں۔….اگر کبھی ساتھ بیٹھے ہوئے بچے کو یا کسی دوسرے شخص کوخاموش کروانا پڑے تو اشارہ سے سمجھانا چاہئے،منہ سے کبھی نہیں بولنا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد اول صفحہ:489)

’’ ایک مومن اپنے ایمان میں مضبوطی کے لئے ہدایت کے راستے پر چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دنیا اور آخرت کی جنت کے پھل کھانے کے لئے مسجد میں جاتا ہے۔ پس یہی مسجدوں کا مقصد ہے اور اسی مقصد کے لئے مسجدیں بنائی جاتی ہیں دنیاداری تو مسجدوں کے پاس سے بھی نہیں گزرنی چاہئے۔بلکہ ایک روایت میں تو آتا ہے کہ کسی گمشدہ چیز کا مسجد میں اعلان کرنا بھی منع ہے، اس میں بھی بددعا دی گئی ہے۔ تو جب یہاں تک حکم ہو تو پھر مسجد میں تو دنیاداری کی باتوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

(خطبات مسرورجلد 3ص31)

فرمایا: ’’مسجد کے کچھ آداب ہیں جسے ہر مسجد میں آنے والے کو یاد رکھناچاہئے۔ نماز باجماعت جب کھڑی ہوتی ہے تو آداب میں سے ایک بنیادی چیز صفوں کو سیدھا رکھنا ہے اور اس کو آنحضرتﷺنے بڑی اہمیت دی ہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد 5ص149)

نیزفرمایا: ’’اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد میں نہیں لانا چاہئے جس کی بالکل ہوش کی عمر نہ ہو اور ان کے رونے سے دوسرے نمازیوں کی عبادت میں خلل واقع ہوتاہو۔‘‘

(خطبات مسرورجلد 1ص365)

فرمایا: ’’پس مسجد کا تو وہ مقام ہے جہاں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے…. اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کے آگے جھکنے کے لئے آیا جاتا ہے۔ مسجد کا لفظ سَجَدَ سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے عاجزی انکساری اور فرمانبرداری کی انتہا۔پس مسجد تو یہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے والی جگہ ہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد 7ص586)

(فرازیاسین ربانی۔غانا)

پچھلا پڑھیں

اعلانات واطلاعات

اگلا پڑھیں

نیکی کی جزا