• 12 مئی, 2025

’’پردہ‘‘ احمدی عورت کی شان

نمازوں کی عادت، پردہ کی پابندی، اولاد کی تربیت اور فیشن سے بچنا،
ان پہلوؤں کاجائزہ لیں اور عمل کریں

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی کریمﷺ کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ پردہ کی تعلیم تمام عورتوں تک پہنچا دیں اور اس حکم کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے پردے کو مسلمان عورتوں کی پہچان قرار دیا ہے چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔
(ترجمہ) اے نبی! تو اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اُوپر جُھکا دیا کریں۔ یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی نہ جائیں اور انہیں تکلیف نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا ( اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔

(الاحزاب:60)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’اس آیت میں پردے کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پردے کے ذریعہ غیر مسلم عورتوں کے بالمقابل مسلمان عورتوں کی ایک پہچان رکھی گئی ہے۔ ورنہ یہود کہہ سکتے تھے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ مسلمان عورت ہے اس لئے ہم نے اسے چھیڑا۔‘‘

(ترجمۃالقرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ صفحہ 741)

پھر خدا تعالیٰ سورۃالنور میں نبی کریمﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید فرماتا ہے۔ (ترجمہ) اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے از خود ر ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی (جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر) وہ ظاہر کر دیا جائے جو (عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں اور اے مومنوں! تم سب کے سب توبہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف جھکو تا تم کامیاب ہو جاؤ۔

(النور:32)

نبی کریمﷺ نے اپنے اس کام کو خوب انجام دیا ہے اور آپﷺ نے یہ پیغام پہنچا بھی دیا اور اپنے اقوال وافعال سے پردے کے حکم کی پورے طور پر وضاحت بھی کر دی ۔ذیل میں اس حوالہ سے چند ایک احادیث درج ہیں

نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔
حد سے بڑھی ہوئی بے حیائی انسان کو بد نما بنا دیتی ہے اور شرم و حیا انسان کو خوشنما و خوبصورت اور با وقار بنا دیتی ہے۔

(ترمذی ابواب البر والصلۃ)

امّ المومنین حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں میں اور حضرت میمونہ ؓ آنحضرتؐ کے پاس تھے۔ ایک نابینا صحابی ابن ام مکتومؓ حاضر ہوئے۔ حضور نے ہم دونوں کو ان سے پردہ کرنے کا حکم فرمایا۔ میں نے عرض کی کیا وہ نابینا نہیں جو ہمیں دیکھ ہی نہیں سکتا؟ حضور ؐنے فرمایا ’’کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کہ اس کو دیکھ نہیں سکتیں۔‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح کتاب النکاح باب النظر الی المخطوبۃ و بیان العورات)

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نےفرمایا۔
دوزخیوں کے دوگروہ ایسے ہیں کہ ان جیسا میں نے کسی گروہ کو نہیں دیکھا۔ ایک وہ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کوڑے ہوتے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے پھرتے ہیں اور دوسرے وہ عورتیں جو کپڑے تو پہنتی ہیں مگر حقیقت میں وہ ننگی ہوتی ہیں۔ ناز سے لچکیلی چال چلتی ہیں لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے جتن کرتی پھرتی ہیں ۔بختی اونٹوں کی کو ہانوں کی طرح اُن کے سر ہوتے ہیں ان میں سے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگی اور اس کی خوشبو تک نہ پائے گی ۔حالانکہ اس کی خوشبو دُور کے فاصلے سے بھی آسکتی ہے۔

(مسلم کتاب اللباس)

اور یہی تعلیم اِس زمانے کے حصنِ حصین حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی موعود ؑ نے دی ہے جو در حقیقت قرآن کریم اور نبی کریمﷺ کی ہی تعلیم ہے۔

حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں۔
’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھاہے۔ ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں لیکن یہ بات بہت ہی صا ف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بد نظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے پھر جس حالت میں کے پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہو گا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ104)

پھر حضرت مسیح موعودؑ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں فرماتے ہیں۔
’’خدا تعالیٰ نے عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتا دیئے ہیں۔ یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا۔ کانوں کو نا محرم کی آواز سننے سے بچانا۔ نامحرموں کے قصّے نہ سننا اور ایسی تمام تقریروں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا۔ اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔ اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کے یہ اعلی تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام کا ہی خاصہ ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد10 صفحہ343)

پھر فرمایا۔
’’اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے۔ خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ عورتوں کو فقط قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے۔ کیونکہ اس میں مرد وعورت دونوں کی بھلائی ہے’’

(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد10 صفحہ344)

اسلام کی یہ خوبصورت تعلیم جو کہ پردہ کے متعلق ہے قرآن کریم، احادیث رسول کریمﷺ اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے اسی تعلیم کو خلفائے احمدیت نے اپنے اپنے دَور میں خوب وضاحتوں کے ساتھ آگے پہنچایا ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓ فرماتے ہیں۔
’’گھونگٹ کا پردہ بہ نسبت اس پردہ کے جو آج کل ہمارے ملک مین رائج ہے، سے زیادہ محفوظ تھا … بہر حال ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دینی احکام پر عمل کرے (چہرے کا پردہ کرے) اور اگر کہیں اس عمل میں کمزوری پائے جاتی ہے تو اُسے دُور کرے۔‘‘

(الفضل 5 اپریل 1960ء)

آپ ؓ فرماتے ہیں۔
’’اگر کسی حسین پر پہلی نظر پڑ جائے تو تم دوبارہ اس پر ہرگز نظر نہ ڈالوں اس سے تمہارے قلب میں ایک نور پیدا ہو گا۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ213)

حضرت مصلح موعودؓ پردہ کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’شرعی پردہ جو قرآن کریم سے ثابت ہے یہ ہے کہ عورت کے بال گردن اور چہرہ کانوں کے آگے تک ڈھکا ہوا ہو۔ اس حکم کی تعمیل میں مختلف ممالک میں اپنے حالات اور لباس کے مطابق پردہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

(الفضل 8 نومبر 1924)

پھر فرمایا ۔
’’وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے۔ اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ301)

پھر فرمایا۔
‘‘جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کُھلے منہ نہ پھرے اور مردوں سے اختلاط نہ کرے۔ ہاں اگر وہ گھو نگٹ نکال لے اور آنکھوں سے راستہ دیکھے تو یہ جائز ہے لیکن منہ سے کپڑا اٹھا دینایا مکسڈ (Mixed) پارٹیوں میں جانا جبکہ اِدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور ان کا مردوں سے بے تکلفی کے ساتھ غیر ضروری باتیں کرنا یہ ناجائز ہے’’

(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 304)

ایک اور موقع پر فرمایا۔
‘‘ پردہ چھوڑنے والا قرآن کی ہتک کرتا ہے ایسے انسان سے ہمارا کیا تعلق۔ وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم اس کے دشمن اور ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے احمدی مردوں اور ایسی احمدی عورتوں سے تعلق نہ رکھیں’’

(الفضل27 جون1958)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ پردہ کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’پردہ کا حکم عورتوں کو بُرے لوگوں کے شر سے بچانے کے لئے دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ان کے لئے تنگی نہیں بلکہ آسانی پیداکرنا ہے۔ قرآن تو عورتوں کو دوسروں کے شر سے بچانا چاہتا ہے۔‘‘

(دورہ مغرب 1980 صفحہ 51)

ایک اور موقع پر فرمایا ۔
’’قرآن نے پردہ کا حکم دیا ہے انہیں (احمدی مستورات کو) بہر حال پردہ کرنا پڑے گا یا وہ جماعت چھوڑ دیں کیونکہ ہماری جماعت کا موقف ہے کہ قرآن کریم کے کسی حکم سے تمسخر نہیں کرنے دیا جائے گا نہ زبان سے نہ عمل سے۔ اسی پر دُنیا کی ہدایت اور حفاظت کا انحصار ہے۔‘‘

(الفضل 25 نومبر 1978)

ایک اور موقع پر فرمایا۔
’’میں ایسی خواتین سے جو پردہ کو ضروری نہیں سمجھتیں پوچھتا ہوں کہ انہوں نے پردہ کو ترک کر کے اسلام کی کیا خدمت کی…آج بعض یہ کہتی ہیں پردہ نہ کرنے کی اجازت دی جائے…پھر کہیں گی ننگ دھڑنگ سمندر میں نہانے اور ریت پر لیٹنے کی اجازت دی جائے۔ میں کہوں گا پھر تمہیں دوذخ میں جانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے…وہ اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں قبل اس کے کہ خدا کا قہر نازل ہو۔‘‘

(دورہ مغرب1980 صفحہ238)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں۔
’’میں نے یہ محسوس کیا ہے اور بڑی شدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے کہ احمدی مستورات بے پردگی کے خلاف جہاد کا اعلان کریں۔ کیونکہ اگر آپ نے بھی یہ میدان چھوڑ دیا تو پھر دنیا میں اور کون سی عورتیں ہوں گی جو اسلامی اقدار کی حفاظت کے لئے آگے آئیں گی۔‘‘

(الفضل28 فروری 1983 ء)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہٗ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی بار بار اپنے خطبات و خطابات میں پردہ کی اہمیت ہم پر واضح فرمائی ہے ۔

چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
’’مکس گیدرنگ (Mix Gathrering) میں مَیں نے کھانے کی اجازت نہیں دی۔ کھانے پینے کے علاوہ اگر پورے پردے میں ہوں تو پھر صرف بیٹھنے کی اجازت ہے۔ کھانے پینے کی ہرگز نہیں۔ کھانے کے وقت پردہ میں سکرین میں جا کے پردہ میں کھانا کھائیں۔ اس اعتراض سے ڈر کر ہم نے اسلامی تعلیم کا حکم ختم نہیں کر دینا۔ سوال یہ نہیں کوئی دیکھتا ہے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ حجاب ختم ہو جاتا ہے۔ مکس(Mix) ہونے کی جو روک ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔ جب یہ روک ختم ہو جاتی ہے تو پھر دوستیاں ہو جاتی ہیں اور خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔‘‘

(دورۂ جرمنی 2009 ءلجنہ اماء اللہ کو ہدایات۔ الفضل انٹرنیشنل 29جنوری 2009ء)

فرمایا۔
’’بعض جگہوں پر ہمارے ہاں شادیوں وغیرہ پر لڑکوں کو کھانا سرو (Serve) کرنے کو بلالیا جاتا ہے … اور کہا جاتا ہے چھوٹی عمر والے ہیں حالانکہ چھوٹی عمر والے جن کو کہا جاتا ہے وہ بھی کم از کم 17، 18 سال کی عمر کے ہوتے ہیں۔ بہر حال بلوغت کی عمر کو ضرور پہنچ گئے ہوتے ہیں۔ وہاں شادیوں پر جواں بچیاں پھر رہی ہوتی ہیں اور پھر پتہ نہیں جو بلائے جاتے ہیں کس قماش کے ہیں … پاکستان میں تو میں نے دیکھا ہے کہ عموماً یہ لڑکے تسلی بخش نہیں ہوتے…عورتوں کے حصے میں … عورتوں کا انتظام ہونا چاہے‘‘

(خطبہ جمعہ 30جنوری2004ء۔خطبات مسرور جلد2 صفحہ87)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہٗ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ ربوہ کو ایک خط میں بعض ہدایات دیتے ہوئے فرمایا۔
’’برقعوں میں بھی حد سے زیادہ فیشن کو بھی ختم کریں۔ ہر اجلاس میں احمدی بچی کا مقام اس کو بتائیں۔ مجھے زیادہ بڑے بڑے کام نہیں چاہئیں۔ ان باتوں پر دھیان دیں۔ نمازوں کی عادت، پردہ کی پابندی، اولاد کی تربیت اور فیشن کی اندھا دُھند تقلید سے بچنا۔ ان تمام پہلوؤں کے حوالے سے جائزہ لیں۔آپ کے پاس کوائف ہونے چاہئیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل 12مارچ 2005ء)

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہٗ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’پردہ ایک اسلامی حکم بھی ہے اور ایک احمدی عورت اور نو جوان لڑکی کی شان بھی اوراس کا تقّدس بھی ہے اور کیونکہ احمدی عورت کا تقّدس بھی اسی سے قائم ہے اس کو قائم رکھنا ضروری ہے۔‘‘

(خطاب بر موقع اجتماع لجنہ اماء اللہ یو۔کے 19نومبر2006ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم و حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء کے ارشادات کے مطابق پردے کا خصوصی اہتمام کرنے اور کروانے کی توفیق عطافرمائے کیونکہ اسی سے ہماری دُنیا و آخرت کی بھلائی وابستہ ہے۔

(ندیم احمد فرخ)

پچھلا پڑھیں

اعلانات واطلاعات

اگلا پڑھیں

نیکی کی جزا