• 2 مئی, 2024

پہلے آپ کو السلام علیکم جناب حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا

پہلے آپ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ جناب حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس وقت مَیں نے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ روایات لی ہیں جو اُن کے رؤیا و کشوف کے بارے میں ہیں۔ پہلی روایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ کی ہے۔ یہ کچھ دیر قادیان رہنے کے لئے آئے۔ قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے تو (وہاں کے) جو مختلف واقعات تھے، ان کی ایک روایت پیچھے چلتی آرہی ہے۔ اُس کے بعد آگے بیان کرتے ہیں کہ پانچ چھ روز کے بعد میں رخصت ہو کر واپس آ گیا (یعنی قادیان سے واپس چلے گئے)۔ واپس اپنے گھر آ کر، اپنے علاقے میں آ کر میں نے تبلیغ شروع کر دی۔ سب سے پہلے مَیں اپنے استاد صاحب کے پاس بغرض تبلیغ پہنچا۔ رات کے وقت اُن کو اور (اُن کے ساتھی تھے) میاں لال دین صاحب آرائیں، جو وہاں کے باشندے تھے، اُنہیں تبلیغ کی۔ کہتے ہیں اُسی رات جب میں نماز پڑھ کر سویا تو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام کی کمر میں ایک کمر بند باندھا ہوا تھا اور نہایت چستی سے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑ کر بڑی تیزی سے مجھے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مدینہ شریف میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاں بیوت مبارک تھے، (جہاں اُن کے گھر تھے، وہاں انہوں نے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے) کھڑا کر دیا اور (پھر کہتے ہیں کہ خواب میں مجھے) آپ علیہ السلام نظر نہیں آئے اور میں اُن مکانات کو جو خام تھے (کچے مکان تھے) اور شمار میں نو (9) ہیں۔ دیکھ کر کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم مبارک ان گھروں میں رہتے تھے اور اُن کے شمالی سمت میں ایک خام مسجد ہے۔ خواب میں مَیں کہتا ہوں کہ یہ مسجدنبوی ہے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ صبح کو مَیں نے مولوی صاحب کو یہ خواب سنایا (یعنی اپنے استاد کو) اور ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ اُن کی خدمت میں پیش کی اور (وہاں سے آ گیا، اُن سے) رخصت ہوا۔ پندرہ روز کے بعد مولوی صاحب نے یہ کتاب پڑھی، قادیان روانہ ہوئے اور بیعت کر کے واپس آئے۔ اسی طرح میاں لال دین بھی بیعت میں داخل ہو گئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ۔ غیر مطبوعہ۔ جلد7صفحہ235-234۔ ازروایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ)

حضرت نظام الدین صاحبؓ، انہوں نے 1890ء یا 91ء میں بیعت کی تھی۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بیعت سے بہت پہلے 1883ء۔ 1884ء میں دیکھ لیا تھا۔ کہتے ہیں ’’مَیں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوا۔ نمازِ عصر مسجد مبارک سے پڑھ کر پرانی سیڑھیوں سے جب نیچے اترا تو ابھی سقفی ڈیوڑھی میں تھا (یعنی وہ ڈیوڑھی جس پر covered area تھا) کہ دو آدمی بڑے معزز سفید پوش جوان قد والے ملے۔ (یہ قادیان گئے ہوئے تھے) جو مجھے سوال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کا پتہ مہربانی کر کے بتلائیں کہ کہاں ہیں؟ ہم بہت دور دراز سے سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ مَیں نے کہا آؤ مَیں بتلا دوں۔ انہوں نے کہا نہیں آپ ہمارے پیچھے ہو جائیں۔ اوپر ہیں تو ہم پہچانیں گے۔ تب میں اُن کے پیچھے ہو لیا۔ وہ میرے آگے آگے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چلے گئے۔ آگے اجلاس لگا ہوا تھا۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس تھی۔) اور حضور علیہ السلام دستارِ مبارک سر سے اتارے ہوئے بے تکلف حالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جاتے ہوئے اُن میں سے ایک شخص نے حضور کو جاتے ہی پوچھا کہ آپ کا نام غلام احمد ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’ہاں‘‘۔ پھر اُس نے کہا کہ آپ کا دعویٰ مسیح موعود کا ہے؟ حضور نے فرمایا۔ ’’ہاں‘‘۔ تو پھر اُس نے کہا کہ پہلے آپ کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ جناب حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا، اور پھر میری طرف سے اور میں فلاں دن حضوری میں تھا۔ (یعنی اپنی خواب کا ذکر کر رہے ہیں) تب رسولِ خدا کا ہاتھ مبارک حضورؑ کے دائیں کندھے پر تھا۔ (یہ آگے وہی شخص اب اپنی خواب بتا رہے ہیں کہ فلاں دن مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھا) اور رسولِ خدا کا ہاتھ مبارک حضورؑ کے دائیں کندھے پر تھا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دائیں کندھے پر تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ھٰذَا مَسِیْحٌ‘‘ ان کی بیعت کرو اور میرا سلام کہو۔ (یہ اُن لوگوں نے کہا۔) کہتے ہیں تب میرے دل نے سخت لرزہ کھایا۔ (یہ جو روایت بیان کرنے والے ہیں ناں حضرت نظام الدین صاحب، یہ اب آگے اپنا واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ) تب میرے دل نے سخت لرزہ کھایا اور دعا مسجد اقصیٰ میں بہت زاری سے کی۔ اللہ کے صدقے، اللہ تعالیٰ کے قربان، کیسے جلدی اُس نے میرے آقا کی دعا سے اس عاجز گناہگار کو اُٹھایا ہے۔ اسی رات سے بشارتیں اعلیٰ سے اعلیٰ ہونی شروع ہو گئیں۔ (جب مَیں نے دعا کی۔) تمام خوابوں کے لئے تو میدانِ کاغذ کی ضرورت ہے (اتنی خوابیں ہیں کہ انتہا کوئی نہیں) صرف ایک آخری خواب جس نے میرے جیسے عاصی گناہگار کو شرف بیعت حاصل کرنے کی بخشی، جس کا (ذکر) درج ذیل کرتا ہوں۔ کہتے ہیں خواب میں دیکھا کہ ایک دریا شرق سے غرب کو جا رہا ہے جس کی چوڑائی تقریباً ایک میل کی ہو گی۔ پانی بہت مصفّٰی ہے جیسے کسی نے شعر کہا ہے:

؎مصفٰی ہمچو چشم نیز بیناں
مصفٰی ہمچو از خلوت نشیناں

یعنی ایسا صاف جیسے ایک صاف نظر دیکھنے والی آنکھ ہے، جیسے صاف دل ایسا شخص جو خلوت میں ہو، علیحدگی میں ہو، الگ پاک سوچ رکھنے والا ہو، وہ بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ تشبیہ انہوں نے دی ہے۔ بہر حال کہتے ہیں بہت صاف پانی تھا، کوئی شئے اُس میں خوفناک نہیں ہے اور میں بڑی خوشی سے تیر رہا ہوں۔ جب مولوی عبداللہ کشمیری جو اُس وقت تک (میرا خیال ہے اس وقت تک) احمدی نہیں تھا اُس نے بہت دور کنارے جنوب سے بلند آواز سے کہا۔ اے منشی جی، اے بابو جی! کیا آپ نہا رہے ہیں؟ ذرا دل کی جگہ تو دیکھو جو بالکل خشک ہے۔ کہتے ہیں مَیں نہا رہا تھا۔ آواز آئی کہ دل کو دیکھو باوجود پانی میں تیرنے کے بالکل خشک ہے۔ تب میں اُسی عالم میں اچھل کر دیکھتا ہوں تو واقعی میرے دل کی جگہ بالکل خشک ہے۔ اچھلتا ہوں اور پانی ہاتھوں میں بھر کے دل کی جگہ ڈال رہا ہوں، مگر خشک۔ مَیں کہتا ہوں مولوی عبداللہ! یہ کیا بات ہے؟ اُس نے جواب دیا۔ مشرق کو منہ کر کے دیکھو کیونکہ میں مغرب کی طرف جا رہا تھا۔ مشرق کی طرف جب منہ کر کے دیکھا تو اُدھر ایک بڑا عظیم الشان پُل دریا پر ہے اور اُس پُل کے اوپر مرزا صاحب کے گھر ہیں۔ مَیں نے کہا میں اس طرف نہیں جاؤں گا کیونکہ مرزا کے گھر ہیں۔ پھر مولوی عبداللہ نے کہا کہ جاؤ تو سہی۔ پھر جواب دیا کہ مَیں اُس طرف نہیں جاؤں گا۔ پھر مولوی عبداللہ روئے اور بلند آواز سے کہا کہ جاؤ تو سہی۔ تب اللہ تعالیٰ کے صدقے قربان، میں تیرتا ہوا پُل سے پار کی طرف شرق (یعنی مشرق کی طرف) چلا گیا۔ اُس طرف نکلا تو کنارہ گھاس والا پانی کے برابر ملا۔ محنت کر کے گھاس والے کنارے پر کھڑا ہو کر تمام بدن سے پانی نچوڑ رہا ہوں (خواب میں دیکھتے ہیں) مگر دل کا پانی جو خشک جگہ دل کی تھی (یعنی پہلے جب دریا میں نہا رہے تھے تو دل خشک تھا لیکن جب یہاں کھڑے ہو کر جسم سے پانی نچوڑنا شروع کیا تو کہتے ہیں کہ جو خشک جگہ دل کی تھی) وہاں سے اتنا پانی جاری ہے جو ایک چشمے کی طرح جاری ہے، خشک ہونے تک نہیں آتا۔ آنکھ کھل گئی اور اُسی دن بیعت کر لی اور ٹھنڈ پڑ گئی۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7 صفحہ189تا191۔ ازروایات حضرت نظام الدین صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 28؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اسلام اور اہل کتاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2022