• 19 مئی, 2024

آج کی دعا

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنِّی الْحَزَنَ وَ اٰتَانِیْ مَا لَمْ یُؤْتَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَالَمِیْنَ

(تذکرہ صفحہ:562، ایڈیشن چہارم2004)

ترجمہ: اس خدا کی تعریف ہے جس نے میرا غم دور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی۔

یہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے۔

ہمارے پیارے امام عالی مقام سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے (مندرجہ بالا الہام)۔ لیکن ان جذبات اور احساسات کو ہم نے وقتی نہیں رہنے دینا بلکہ دعا اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ اس کی اعلیٰ سے اعلیٰ مثالیں رقم کرنے کا عہد کرنا چاہئے۔ ہم اس رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں جس نے عُسر اور یُسر میں اللہ تعالیٰ سے وفا اور اس کی حمد کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔آپ ابتدائی دور میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کرتے رہے۔چنانچہ دیکھو مرادیں بھر آئیں اور آپ فاتحانہ شان سے مکّہ میں داخل ہوئے لیکن کس حالت میں۔اس بارہ میں ایک روایت ہے:-
ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابوبکر نے مجھ سے بیان کیا کہ (فتح مکہ کے دن) جب آنحضرت ﷺ ’’ذی طوی‘‘ مقام کے پاس پہنچے تو اس وقت آپ نے سرخ رنگ کی دھاری دار چادر کے پہلو سے اپنا چہرہ مبارک قدرے ڈھانکا ہوا تھا۔ اور مکہ کی فتح کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو آپؐ کو عزت عطا فرمائی تھی، اس کی وجہ سے آپ نے اپنا سرِ مبارک اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے اس قدر جھکایا ہوا تھا کہ قریب تھا کہ آپ کی داڑھی مبارک پالان کے اگلے حصہ سے جا چھوئے۔

(سیرۃ ابن ہشام۔ ذکر فتح مکۃ)

اس حالت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :-
عُلُوّ جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہے۔اور شیطان کا عُلُوّ استکبار سے ملا ہوا تھا۔ دیکھو ہمارے نبی کریم ﷺ نے جب مکہ کو فتح کیا تو آپؐ نے اسی طرح اپنا سر جھکا یا اور سجدہ کیا جس طرح ان مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکہ میں آپؐ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپؐ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپؐ نے سجدہ کیا۔

(الحکم 31 اکتوبر 1902،ملفوظات جلددوم صفحہ404 حاشیہ)

(خطبہ جمعہ 2؍مئی 2003ء)

(مرسلہ:مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

اسلام اور اہل کتاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2022