• 3 مئی, 2024

لجنہ اماء اللہ کا قیام اور اس کے اغراض و مقاصد وذمہ داریاں

؎گزرے ہوئے سوسال کی تاریخ گواہ ہے
سائے کی طرح سایہ فگن ہم پہ خدا ہے

لجنہ اماء اللہ کے قیام پر سَو سال ہو گئے۔ الٰہی افضال و برکات کے لیے سالوں اور صدیوں کے پیمانے محفوظ رکھنے سے مستقبل میں مزید ترقی کے لیے یقین، جوش اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ دل حمد وشکر میں ڈوب جاتاہے۔ پہلی صدی میں تخم سے تناور درخت بننے تک پل پل کی تصویر چلا کر وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ کے تجربوں، کاوشوں اور قربانیوں سے آگاہی آئندہ آبیاری کرنے والوں کے حوصلوں کو بڑھاتی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی صداقت جماعت کی ہمہ جہتی ترقی میں اَظْہَرُ مِنَ الشَّمْسِ ہے۔فرماتے ہیں:
’’میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ67)

لجنہ اماء اللہ کے قیام کے اغراض و مقاصد وہی ہیں جو اسلام احمدیت ایک عورت سے تقاضا کرتا ہے۔ خالقِ کائنات کا حقیقی عرفان اور اس پر زندہ ایمان پیدا کرنا۔ معبود اور عبد کے درمیان فاصلے کم کرتے کرتے ایک زندہ تعلق پیدا کرنا۔ قرآن پاک کو امام، نور اور ہدایت سمجھنا۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ سے سچا عشق اور آپؐ کی کامل اتباع کرنا قرآن مجید میں مذکورنیک عورتوں کی صفات پیدا کرنے کی دعا اور کوشش کرنا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

مسلمان ایمان والیاں، فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزے رکھنے والیاں۔

(التحریم: 6)

حضرت مسیح موعود مہدی معہودؑ کے ہاتھ پر اسلام کے احیائے نَو کے لیے جمع ہونا اور جمع کرنا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنا جماعت کو متحد یک جان رکھنے کی کوشش کرنا تاکہ کما حقہ خیر امت کہلا سکیں۔

ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے عورت کو دورِجاہلیت کے قَعْرِ مُذَلّتْ سے نکال کر تعلیم و تربیت سے سنوار کر معاشرے کا قابلِ قدر وجود بنایا تھا۔ مگر اسلام کے انحطاط کے ساتھ عورت کو پھر اس کے حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں صاحبِ کوثرﷺ کی بیٹیوں کی قسمت چمکی۔ ایک جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاٴَنْبِیَآءِ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ان کی زندگی میں انقلاب لے آئے۔ آپؑ کی حیات بخش دعاؤں، تعلیم اور تربیت نے ایسے ایسے قابل رشک ہیرے تراشے جن کی روشنی نے نئے آسمان اور نئی زمین میں اُ جالا کردیا۔ آپؑ کی قوتِ قدسیہ نے بیداری کی لہر پیدا کی۔ عورتیں جو اپنی پیدائش کی غرض سے بے خبر ہوکر صرف گھر داری میں جاہل غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہی تھیں اپنے اللہ سے تعلق بڑھانے کے لیے دین سیکھنے کی شیدائی ہوگئیں۔ اس ضمن میں دوایمان افروز واقعات پیش ہیں جن سے لجنہ اماء اللہ کے قیام کا پس منظربھی واضح ہوگا۔

حضرت ام طاہر کی والدہ بیگم حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحبؓ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:
حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سنتے ہیں اور درس بھی مگر ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں ہم پر کچھ رحمت ہونی چاہیے کیونکہ اس غرض کے لیے آئے ہیں کہ فیض حاصل کریں۔ حضورؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا:
’’جو سچے طلبگار ہیں ان کی خدمت کے لیے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں۔ ہمارا یہی کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں‘‘اس سے پہلے حضورؑ نے کبھی عورتوں میں تقریر یا درس نہیں دیا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرمادی۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ882)

دوسرا واقعہ ایک تیرہ سال کی بچی کا ہے جس کےسر سے والد محترم کا سایہ 13؍مارچ 1914ء کو اُٹھا اور وہ 14؍مارچ 1914ء کو نو منتخب خلیفہ کوایک خط لکھتی ہے:
’’گزارش ہے کہ میرے والد صاحب نے مرنے سے دو دن پہلے مجھے فرمایا کہ ہم تمہیں چند نصیحتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا فرمائیں میں ان شاءاللّٰہ عمل کروں گی۔ تو فرمایا: بہت کوشش کرنا کہ قرآن آجائے اور لوگوں کو بھی پہنچے۔ میرے بعد اگر میاں صاحب خلیفہ ہوں تو ان کو میری طرف سے کہہ دینا کہ عورتوں کا درس جاری رہے اور میں امیدوار ہوں آپ قبول فرمائیں گے۔ میری بھی خواہش ہے اور کئی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی خواہش ہے کہ میاں صاحب درس کرائیں۔ آپ برائے مہربانی درس صبح ہی شروع کرادیں میں آپ کی نہایت مشکور رہوں گی۔‘‘

(امۃ الحئی بنت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ)

یہ ذہین و فطین تعلیم کی لگن رکھنے والی بچی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حرم میں آئیں۔ آپؓ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی زبردست لگن رکھتی تھیں۔ آپؓ ہی کی تحریک پر حضورؓ  نے 15؍دسمبر 1922ء کو ایک مضمون تحریر فرمایا جس کی اولین مخاطب قادیان کی مستورات تھیں لیکن در حقیقت یہ ایک بین الاقوامی تنظیم کی بنیادی دستاویز تھی۔ اس سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے زمانے میں جو تحریکیں ہوئی تھیں سب مردوں کے لیے تھیں۔ یہ عورتوں کے لیے پہلی علمی، دینی، تمدنی تحریک تھی۔ اس مضمون کے حرف حرف سے خدمت اسلام کا توانا عزم و حوصلہ جھلکتا ہے۔آپؓ نے طبقۂ اناث کو ایک لائحہ عمل دیا:
’’اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے۔ ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لیے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ عورتوں میں اب تک یہ احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیے جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکیں۔‘‘

اس مقصد کے حصول کے لیے سترہ ضروری اموراس اولوالعزم ہستی نے تجویز فرمائے۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لیے ایک انجمن قائم کی جائے تاکہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جا سکے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لیے کچھ قواعد ہوں جن کی پاپندی ہر رکن پر واجب ہو۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ قواعد و ضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اوراس کے استحکام میں ممد ہوں۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصا ان پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوں تاکہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیدا ہو۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ علم بڑھانے کے لیے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری سمجھے اسلام کے واقف لوگوں سے لیکچر کروائے جائیں۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لیے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تما م کارروائیاں ہو۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کے لیے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم اور آنحضرتؐ اور حضرت مسیح موعود ؑنے مقرر فرمایا ہے اور اس کے لیے ہر ایک قربانی کے لیے تیار رہو۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے پینے پہننے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو۔ اس کے لیے ایک دوسرے کی پوری مدد کرنی چاہیے اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہیے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بددل اور سست بنانے کی بجائے انہیں چست،ہوشیار، تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی محبت، اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو۔ اسلام کی خاطر اور اس کے منشاکے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو۔ اس لیے اس کام کو بجالانے کے لیے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور صبر اور ہمت سے اصلاح کی جائے نہ کہ ناراضگی اور خفگی سے تفرقہ بڑھایا جائے۔

چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیاجائے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور ٹھٹھا کرتے ہیں اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی ہنسی اور ٹھٹھے کی پرواہ نہ کی جائے اور بہنوں کو الگ الگ مہنوں یا طعنوں یا مجالس کے ٹھٹھوں کو بہادری و ہمت سے برداشت کا سبق اور اس کی طاقت کا مادہ پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی سے حاصل کیا جائے تاکہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری بہنوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لیے اور ہمیشہ کے جاری رکھنے کے لیے اپنی ہم خیال بنائی جائیں اور یہ کام اس صورت میں چل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہو اپنا فرض سمجھے کہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے گی۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے صرف وہی بہنیں انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری متفق ہوں اور کسی وقت خدانخوستہ کو ئی متفق نہ رہے تو وہ بطیب خاطر انجمن سے علیحدہ ہو جائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے۔

چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں۔ چھوٹے بڑے غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر میں کوئی تفریق نہ ہو۔ بلکہ غریب اور امیر دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑ ا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لیے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لیے بعض طریق تجویز کیے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اس لیے دعا کی جائے اور کروائی جائے۔

آخر میں آپ نے لکھا تھا کہ جو اس تحریک کے مندرجات سے متفق ہیں وہ دستخط کردیں۔ اس پر چودہ خواتین نے دستخط کیے ۔ پہلا نام یہ تھا ’’حضرت ام المؤمنین ام محمود نصرت جہاں بیگم‘‘، یہ دستخط کنندگان حضورؓ کے ارشاد پر 25؍دسمبر 1922ء کو حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے گھر جمع ہوئیں۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے بھی خطاب فرمایا۔ اس میں لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ تنظیم کا نام لجنہ اماء اللہ، اللہ کی لونڈیوں کی انجمن تجویز فرمایا۔ آپؓ نے لجنہ کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کرکے کئی مشورے دیئے اور نصیحتیں کیں۔حضرت اماں جانؓ لجنہ کی پہلی پریزیڈنٹ منتخب ہوئیں۔ منتخب ہونے کے بعد آپؓ نے حضرت سیدہ اُم ناصر صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر کرسیٔ صدارت پر بٹھا دیا۔

(تاریخ لجنہ اماء اللہ حصہ اول صفحہ66-72)

(نعمان احمد احسان)

پچھلا پڑھیں

تاریخ لجنہ اماء اللہ برازیل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2023