• 3 مئی, 2024

تنظیم لجنہ اماءاللہ کے سو سال اور ہماری ذمہ داریاں

لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کی بنیاد

اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 15؍دسمبر 1922ء کو اپنے قلم سے قادیان کی مستورات کے نام ایک مضمون تحریر فرمایا جس میں سے کچھ حصہ پیش ہے:
’’ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے عورتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے، ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہیےجس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرکے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہو سکیں … علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہو کر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔‘‘

(تاریخ لجنہ حصہ اوّل صفحہ 672)

چودہ خواتین نے دستخط کیے۔ پہلا نام حضرت ام المؤمنین نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کا تھا۔ یہ دستخط کنندگان حضورؓ کے ارشاد پر 25؍دسمبر 1922ء کو حضرت اماں جان سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے گھر جمع ہوئیں۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے بھی خطاب فرمایا۔ اس میں لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ تنظیم کا نام لجنہ اماءِ اللہ یعنی اللہ کی لونڈیوں کی انجمن تجویز فرمایا۔ آپؓ نے کئی مشورے دیے اور نصیحتیں کیں۔

حضورؓ نے اس تنظیم کے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارہ میں کچھ نکات پیش فرمائے جن میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش ہیں:

  • اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنےعلم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔
  • اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تاکہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جا سکے۔
  • اس امر کی ضرورت ہے کہ قواعد و ضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں ممد ہوں۔
  • اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہٴ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدّ نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں۔
  • اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحادِ جماعت کو بڑھانے کے لئے … کوشاں رہو…اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو۔
  • اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے، پینے، پہننے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو۔ اس کے لئے ایک دوسری کی پوری مدد کرنی چاہئے۔ اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہئے۔
  • اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اور سست بنانے کی بجائے چست، ہوشیار تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اور خدا، رسولؐ، مسیح موعودؑ اور خلفا کی محبت، اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو۔ اسلام کی خاطر اور اس کے منشاکے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو۔اس لئے اس کام کو بجا لانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو۔

(ماخوذ از لجنہ اماء اللہ کی بنیاد اور اس کے شاندار نتائج)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’لجنہ کی تنظیم کے قیام سے آپ کو، احمدی عورت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مواقع میسر فرما دیے جہاں آپ اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مزید چمکا سکتی ہیں۔ پس اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2015ء صفحہ20)

حضرت مصلح موعودؓ کی منشا اور خلفائے احمدیت کے مختلف مواقع پر کیے گئے خطابات کی روشنی میں اب ہم اس عظیم کام کو آگے لے کر چلنے کے بارہ میں راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گےکہ ہم سے ان پاک ہستیوں نے کیا توقعات رکھی ہوئی ہیں۔

نماز کی ادائیگی ایک مسلمان پر فرض ہے۔ والدین نے نہ صرف خود نمازیں ادا کرنی ہیں بلکہ اپنی گودوں میں پلنے والے بچوں کو بھی نمازی بنانا ہے۔ اس حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سمجھاتے ہیں کہ:
’’نماز پڑھنے کی تلقین کرنا اور نماز پڑھنے کا صحیح طریق سکھانا یہ ماں باپ کا اولین فرض ہے۔ کس طرح کھڑے ہونا ہے، کس طرح نماز میں بیٹھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ بچوں کی انتہائی بچپن میں تربیت کیا کرتے تھے۔ بیشک ذیلی تنظیمیں تربیت کرنے اور اکائی پیداکرنے کے لئے بنائی گئی ہیں لیکن اس سے ماں باپ کی ذمہ داریاں کم نہیں ہو گئیں۔‘‘

بچوں میں نماز کی عادت راسخ کرنے کا گُر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ یوں بتاتے ہیں:
’’اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کی کوشش کریں۔ ان کو باربار یہ بتائیں کہ عبادت کے بغیر تمہاری زندگی بالکل بے معنی اور بے حقیقت، بلکہ باطل ہے … یہ شعور ہے جسے ہمیں اگلی نسلوں میں پیدا کرنا ہے… جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کو بتائیں کہ تم جو اٹھے ہو توخدا کی خاطر اٹھے ہو اور ان سے یہ گفتگو کیا کریں کہ بتاؤ! آج نماز میں تم نے کیا کیا۔ کیا اللہ سے باتیں کیں ، کیا دعائیں کیں اور اس طریق پر ان کے دل میں بچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے بیج مضبوطی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں ان کی مضبوط ہوں گی۔ ان میں وہ تمام صلاحیتیں جو خدا کی محبت کے بیج میں ہوا کرتی ہیں وہ نشوونما پاکر کونپلیں نکالیں گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جنوری 1997ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد16 صفحہ39-41)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’آپ، جن کے ہاتھ میں مستقبل کی نسلوں کو سنوارنے کی ذمہ داری ہے، آپ کا کام ہے کہ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کریں۔ اپنے آپ کو بھی ایک خدا کی عبادت کرنے و الا بنائیں اور اپنے بچوں کے لئے یہ نیک نمونے قائم کرتے ہوئے ان کی بھی نگرانی کریں کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہورہا ہے (کہ نہیں)۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2015ء صفحہ15)

قرآن کریم جو ہماری ہدایت کا ذریعہ ہے، اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کے سلسلہ میں حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’قرآن کو غور سے پڑھیں۔ قرآن کریم کی تمام تعلیمات کی پیروی کریں۔ قرآن کو اپنا رہنما بنائیں، اس کی عطا کردہ ہدایات پر توجہ سے عمل کریں اور یاد رکھیں کہ ہمیں قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی طاقت تب ہی حاصل ہو گی جب ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو ہمارے دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور ہر وقت قربانی کے لیے تیار رہنے کے دعوے جھوٹے اور بے معنی اور کھوکھلے ہوں گے۔‘‘

(سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے 12 تا 15؍ستمبر 2019ء)

جماعت احمدیہ کو ایک بات جو تمام باقی مسلمانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے خلافت۔ اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’آج دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کو خلافت کا بابرکت نظام عطا ہوا ہے۔ پس اس کی برکات سے دائمی حصہ پانے کے لئے، اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے خلافت کے ساتھ چمٹے رہیں۔ یہی دین ہے۔ یہی توحید ہے۔ یہی مرکزیت ہے اور اس کے ساتھ وابستگی میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے۔ اس لیے اس نعمت کی قدر کریں۔ خدا کا شکر بجالائیں اور خلیفۂ وقت کے ساتھ ادب، احترام، اطاعت اور وفا اور اخلاص کا تعلق مضبوط تر کرتی چلی جائیں۔‘‘

حضور انور مزید فرماتے ہیں:
’’آج اسلام کا غلبہ خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہو چکا ہے ….. اس لئے اس مقدس و بابرکت نظام کے معین و مددگار بن جائیں اور آنے والی نسلوں کو بھی نظام خلافت کے ساتھ وابستہ کرنے کی ہر ممکن جدوجہد کریں۔‘‘

(روزنامہ الفضل 14؍مارچ 2014ء)

تبلیغ ہر احمدی کے لئے ایک اہم فریضہ ہے۔ اسلام احمدیت کا پیغام تمام دنیا میں پھیلانے کے لیے احمدی خواتین نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ اس بارہ میں راہ نمائی فرماتے ہوئے حضرت امیر الموٴمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یہاں کی پلی بڑھی بچیاں ہیں یا پڑھی لکھی عورتیں ہیں، ان کو تو زبان کی آسانی ہے۔ لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی را بطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہییں یا عورتوں سے ہونے چاہییں۔ بعض لوگوں کے رابطے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں۔‘‘

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد سوم حصہ دوم صفحہ29)

خلفائے احمدیت کی احمدی ماؤں سے توقعات

تربیتِ اولاد والدین، بالخصوص ماؤں کا اہم فریضہ ہے۔ حضور انور فرماتے ہیں:
’’کسی بھی قوم کے بنانے یا بگاڑنے میں عورت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ مستقبل کی نسلیں اس کی گود میں پرورش پارہی ہوتی ہیں۔‘‘

بچے کی سب سے اعلیٰ تربیت گاہ اس کی ماں ہے۔ پس اس لئے ماؤں کو بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہماری ساری عورتیں یہ ذمہ داری ادا کرنے والی ہو جائیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ:
’’پچاس فیصد بھی ہو جائیں تو نسلوں کی حفاظت کی ضمانت بن جائیں گی۔ ان کے دین کو سنوارنے والی بن جائیں گی۔ ان کاخدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والی بن جائیں گی۔ اسی طرح اپنی اولاد میں اپنی قوم اور ملک کے لئے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا بھی ماؤں کا کام ہے اور یہ بھی عہد ہے۔ آپ کے عہد میں شامل ہے۔ ان کے ذہنوں کو مکمل طور پر قوانین کی پابندی کے لئے تیار کرنا ماؤں کا کام ہے۔ برائی اور اچھائی میں تمیز پیدا کروانا ماؤں کا کام ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا، اس کی طرف توجہ دلانا ماؤں کا کام ہے۔‘‘

عفت، پاکدامنی اور معاشرے میں امن و سکون کے حصول کے لئے پردہ بہت ضروری ہے۔ یہ اتنا اہم ہے کہ اس کا حکم قرآن کریم میں ملتا ہے، چنانچہ حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی لڑکی، لڑکے اور مرد اور عورت کو اپنی حیا کے معیار اونچے کرتے ہوئے معاشرے کے گند سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ یہ سوال یا اس بات پر احساس کمتری کا خیال کہ پردہ کیوں ضروری ہے؟ کیوں ہم ٹائٹ جِین اور بلاؤز نہیں پہن سکتیں؟ یہ والدین اور خاص طور پر ماؤں کا کام ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو اسلامی تعلیم اور معاشرے کی برائیوں کے بارے میں بتائیں تبھی ہماری نسلیں دین پر قائم رہ سکیں گی اور نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے زہر سے محفوظ رہ سکیں گی۔ ان ممالک میں رہ کر والدین کو بچوں کو دین سے جوڑنے اور حیا کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ جہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری 2017ء)

’’پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی بچی اور ایک احمدی عورت کا ایک تقدس ہے، اس کی حفاظت اس کا کام ہے۔ کوئی ایسا کام نہ کریں جو دین سے دور لے جانے والا ہو۔ کوئی ایساکام نہ کریں جس سے آپ کے تقدس پر حرف آتا ہو۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم صفحہ11-10
جلسہ سالانہ برطانیہ2006ء مستورات سے خطاب)

’’احمدی عورتوں اور بچیوں کو مغربی ممالک میں رہتے ہوئے صرف ایسے فیشن اختیار کرنے چاہییں جو انہیں غیر اخلاقی حالت اور بے حیائی کی طرف لے جانے والے نہ ہوں۔ ایسے فیشن کی پیروی نہ کریں، ایسے لباس نہ پہنیں جو آپ کے جسم کے خدّ و خال کو ظاہر کرنے والے ہوں… بعض اوقات بچیاں سرکو، یا اپنے بالوں کو، یا بعض اوقات فیشن کی وجہ سے اپنے سینے کو بھی نہیں ڈھانپتیں۔ بعض ایسے کوٹ برقعے کے طور پر پہنتی ہیں جو ان کے جسم کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ پردے کی شرائط کو پورا کرنے والا کوٹ پہننا چاہیے اور درست طریق سے سر کو سکارف سے ڈھانپنا چاہیے۔ ہمیشہ اتنے بہترین انداز میں لباس پہنیں کہ کسی کو آپ کی حیا داری اور عفّت پر سوال اٹھانے کا بھی موقع نہ ملے۔ آپ کو اپنے پردے پر مان ہونا چاہیے۔

(سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے 12 تا 15؍ستمبر 2019ء الفضل 17؍ستمبر 2019ء)

پھر معاشرہ میں کس حد تک مدغم ہونا ہے اور اس سلسلہ میں کس بات کا خیال رکھنا ہے، اس بارہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’دین کو ہر معاملے میں دنیا پر مقدم رکھنا آپ کا شعار ہونا چاہیے۔ آپ سب ایک اچھا شہری بننے کی کوشش کرتے ہوئے معاشرے کا صحت مند وجود بنیں۔ اس معاشرے میں Integrate ضرور ہوں لیکن اپنی دینی اور اخلاقی اقدار کو نہ بھولیں۔ Integration کا بہترین طریق یہ ہے کہ اس معاشرے کی بہتری کی خاطر کوشاں رہیں۔‘‘

(سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ 2021ء کے اختتامی اجلاس سے حضورِ انور کابصیرت افروز خطاب، اور مختصر رپورٹ)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ماں باپ کے ظاہررویّوں اور ایک دوسرے سے سلوک کا اثر بھی بچوں پر ہوتا ہے اور وہ ان کی ظاہری حالت اور اخلاق کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح لاشعوری طور پر بچوں پرماں باپ کی دوسری برائیوں اور میلانات کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے اور وہ ان کے میلانات سے اور برائیوں سے اثر لیتے ہیں۔ اس لئے ماں باپ کو اپنی اصلاح کرنے اور اپنی برائیوں سے اگلی نسل کو بچانے کے لئے کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔‘‘

(جلسہ سالانہ برطانیہ 2018ء مستورات سے خطاب)

فرمایا:
’’پھر اس بات کو بھی تربیت کے نقطۂ نظر سے ماں باپ کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ گھر کا ماحول ایسا پاکیزہ اور سازگار ہو …ظاہر و باہر ایک ہو۔ دوعملی نظر نہ آئے۔ پھر ہی بچے صحیح طور پر تربیت حاصل کریں گے۔ سچائی ہو اور ہر معاملے میں قول سدید ہو۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے نمونے ظاہر ہوں۔‘‘

(جلسہ سالانہ برطانیہ مستورات سے خطاب 2018ء)

ایک اہم بات جس کا ہر ماں کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ صرف لڑکیوں کی تربیت پر توجہ نہیں دینی بلکہ لڑکوں کی تربیت کرنی بھی اتنی ہی اہم ہے، چنانچہ حضور اقدس فرماتے ہیں:
’’اگر لڑکے ہیں تو انہیں بتانا ہے کہ شریعت نے تم پر عورت کے حقوق کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ ہر ماں اپنے لڑکے کی، اپنے بچے کی اس طرح تربیت کرے تو بہت سارے مسائل گھروں کے بھی حل ہو جائیں گے کہ عورت کے حقوق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے، شریعت میں تم پر ڈالی ہے اور اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنا گناہ ہےتو آئندہ آنے والے احمدی مسلمان مردمسلمان عورت کے بلکہ ہر عورت کے حقوق کے، علمبردار بن جائیں گے۔

(الفضل انٹرنیشنل 16؍دسمبر 2016ء صفحہ17)

ایک دور رس قوم صرف اپنے حال پر ہی نظر نہیں رکھتی بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی ساتھ ساتھ کرتی رہتی ہے۔ دین کے ساتھ جڑے رہنے کے بارے میں حضور اقدسؑ کے پر حکمت الفاظ پیشِ خدمت ہیں:
’’وہ نوجوان بچیاں جو بلوغت کی عمر کو پہنچ رہی ہیں اور جن کی عقل اور سوچ پختہ ہو گئی ہے انہوں نے ان شاء اللّٰہ تعالیٰ مائیں بھی بننا ہے۔ ان کو بھی ابھی سے سوچنا چاہئے کہ ان کا مقام کیا ہے اور ان پر کس قسم کی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں۔ جہاں انہیں نیک نصیب ہونے اور اچھے خاوند ملنے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں وہاں انہیں ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے جو مستقبل میں ان پر پڑنے والی ہیں۔ پس چاہے یہ شادی شدہ عورتیں ہیں، بچوں کی مائیں ہیں یا لڑکیاں ہیں، اگر سب نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا تو ایسے ماحول میں رہتے ہوئے جہاں آزادی کے نام پر بے حیائیاں کی جاتی ہیں، جہاں مذہب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے خدا سے بھی دُوری پیدا ہوتی جا رہی ہے، جہاں خدا کے وجود پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے، یا اکثر خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکار کیا جا رہا ہے، تو پھر نہ آپ کے دین سے جڑے رہنے کی کوئی ضمانت ہے، نہ آئندہ نسلوں کے دین سے جڑے رہنے کی کوئی ضمانت ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 10؍اکتوبر 2014ء صفحہ2)

جس دور میں سے ہم گزر رہے ہیں اس میں سوشل میڈیا ایک ایسی حقیقت بن گیا ہے جس کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں بھی بار بار ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی بُرائیاں جنم لے رہی ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ماں باپ کے سامنے خاموشی سے چَیٹنگ کررہے ہوتے ہیں۔ پیغامات کا اور تصاویر کا تبادلہ ہورہا ہوتا ہے۔ نئے نئے پروگراموں میں اکاؤنٹ بنالیے جاتے ہیں اور سارا سارا دن فون، آئی پیڈ اور کمپیوٹر وغیرہ پر بیٹھ کر وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ اس سے اخلاق بگڑتے ہیں، مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہونے لگتا ہے اور بچے دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ ان ساری باتوں پر نظر رکھنے اور انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے آپ کو ان کے لیے متبادل مصروفیات بھی سوچنا ہوں گی۔ انہیں گھریلو کاموں میں مصروف کریں۔ جماعتی خدمات میں شامل کریں اور ایسی مصروفیات بنائیں جو ان کے لیے اور معاشرہ کے لیے مثبت اور مفید ہوں۔ یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جسے احمدی مستورات نے بجا لانا ہے۔‘‘

(پیغام برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی10؍جولائی 2016ء)

عفت، پاکدامنی اور معاشرے میں امن و سکون کے حصول کے لئے پردہ بہت ضروری ہے۔ یہ اتنا اہم ہے کہ اس کا حکم قرآن کریم میں ملتا ہے، چنانچہ حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی لڑکی، لڑکے اور مرد اور عورت کو اپنی حیا کے معیار اونچے کرتے ہوئے معاشرے کے گند سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ یہ سوال یا اس بات پر احساس کمتری کا خیال کہ پردہ کیوں ضروری ہے؟ کیوں ہم ٹائٹ جِین اور بلاؤز نہیں پہن سکتیں؟ یہ والدین اور خاص طور پر ماؤں کا کام ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو اسلامی تعلیم اور معاشرے کی برائیوں کے بارے میں بتائیں تبھی ہماری نسلیں دین پر قائم رہ سکیں گی اور نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے زہر سے محفوظ رہ سکیں گی۔ ان ممالک میں رہ کر والدین کو بچوں کو دین سے جوڑنے اور حیا کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ جہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری 2017ء)

’’ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایک احمدی بچی اور ایک احمدی عورت کا ایک تقدس ہے، اس کی حفاظت اس کا کام ہے۔ کوئی ایسا کام نہ کریں جو دین سے دور لے جانے والا ہو۔ کوئی ایساکام نہ کریں جس سے آپ کے تقدس پر حرف آتا ہو۔‘‘

(الازہا رلذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم صفحہ10-11
جلسہ سالانہ برطانیہ2006ء مستورات سے خطاب)

آخر میں لجنہ اماء اللہ کی سو سالہ جوبلی جو ہم منانے جا رہے ہیں، اس حوالہ سے لجنہ اماء اللہ جرمنی کی ایک عاملہ ممبر کے ایک سوال کے جواب میں حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو جواب ارشاد فرمایا، وہ پیشِ خدمت ہے۔ فرمایا:
’’اصل چیز یہ ہے کہ سو سال پورے ہونے پہ آپ کی لجنہ کی ہر ممبر جو ہے وہ سو فیصد، اور ناصرات کی ہر ممبر سو فیصد جماعتی معاملات میں Involve ہونی چاہیے ، جماعتی تعلیم پہ عمل کرنے والی ہونی چاہیے۔ سو فیصد جو ہے اللہ تعالیٰ کی صحیح عبادت گزار ہونی چاہیے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی اور اس پہ عمل کرنے والی ہونی چاہیے۔ جماعت کے ساتھ اس کا مضبوط تعلق ہونا چاہیے۔ یہ سب بنیادی چیزیں ہیں … اصل تو چیز یہ ہے کہ اس سو سال میں ہمیں کوئی شخص انگلی اٹھا کر یہ نہ کہے کہ سو سال تو پورے ہو گئے،بڑی جوبلیاں منا رہے ہیں ،لیکن ان کی 75 فیصد لجنہ صرف جو ہے جماعتی کاموں میں Involveہے یا 50فیصد Involve ہے اور باقی تو ان کے ایمان ایسے ہیں کہ قرآن کریم کا حکم ہے حیا دار لباس کا، ان کے حیا دار لباس نہیں ہوتے۔ قرآن کریم کا حکم ہے پردے کرنے کا، ان کے پردے بھی صحیح نہیں ہیں۔ قرآن کریم کا حکم ہے اللہ کے حق ادا کرنے کا، وہ تو بہت ساری ایسی ہیں جو حق ادا نہیں کر رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے بندوں کے حقوق ادا کرنے کا، اس میں بہت ساری ایسی ہیں جو بندوں کے حقوق ادا نہیں کر رہیں۔ تو اگر ہماری اکثریت، یا نصف بھی پوری طرح عمل نہیں کررہی ان چیزوں پہ جو بنیادی چیزیں ہیں اسلام کی تعلیم کی، تو پھر سو سالہ جوبلیاں منانے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ تو اصل میں یہی ہے کہ سو سال پورے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمانوں کی مضبوطی کا بھی جائزہ لیں۔ اس کے لئے بھی ایک سکیم بنائیں۔

(نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ جرمنی کے ساتھ Virtualملاقات 27؍مارچ 2021ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اپنے فرائض ادا کرنے والے ، خلیفۂ وقت کی توقعات پر پورا اترنے والے اور حضور اقدسؑ کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے بنائے اور خلیفۂ وقت ہمیشہ ہم سے خوش اور راضی ہوں۔ آمین

(انیق احمد رفیق)

پچھلا پڑھیں

تاریخ لجنہ اماء اللہ برازیل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 فروری 2023