• 29 اپریل, 2024

مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے اور یہ اُسوہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا۔ اب دیکھیں ہمارے مخالفین کا یہ اُسوہ ہے کہ وہ تو رحمت لے کر آئے تھے اور یہ لوگ کلمہ گوؤں کو بھی اذیتیں پہنچانے والے ہیں۔ پھر آپؐ کے فیض اور نبوت کی وسعت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’موسیٰ اور عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ایک ہی ہے۔ تین خدا نہیں ہیں۔ مگر مختلف تجلّیات کی رُو سے اُسی ایک خدا میں تین شانیں ظاہر ہو گئیں۔ چونکہ موسیٰ کی ہمّت صرف بنی اسرائیل اور فرعون تک ہی محدود تھی اِس لئے موسیٰ پر تجلّی قدرتِ الٰہی اُسی حد تک محدود رہی۔ اور اگر موسیٰ کی نظر اُس زمانہ اور آئندہ زمانوں کے تمام بنی آدم پر ہوتی تو توریت کی تعلیم بھی ایسی محدود اور ناقص نہ ہوتی جو اَب ہے۔

ایسا ہی حضرت عیسیٰ کی ہمّت صرف یہود کے چند فرقوں تک محدود تھی جو اُن کی نظر کے سامنے تھے اور دُوسری قوموں اور آئندہ زمانہ کے ساتھ اُن کی ہمدردی کا کچھ تعلق نہ تھا۔ اس لئے قدرت الٰہی کی تجلّی بھی اُن کے مذہب میں اُسی حد تک محدود رہی جس قدر اُن کی ہمّت تھی۔ اور آئندہ الہام اور وحی الٰہی پر مُہر لگ گئی۔ اور چونکہ انجیل کی تعلیم بھی صرف یہود کی عملی اور اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کے لئے تھی، تمام دُنیا کے مفاسد پر نظر نہ تھی اس لئے انجیل بھی عام اصلاح سے قاصر ہے۔ بلکہ وہ صرف ان یہودیوں کی موجودہ بد اخلاقی کی اصلاح کرتی ہے جو نظر کے سامنے تھے۔ اور جو دُوسرے ممالک کے رہنے والے یا آئندہ زمانہ کے لوگ ہیں اُن کے حالات سے انجیل کو کچھ سروکار نہیں۔ اور اگر انجیل کو تمام فرقوں اور مختلف طبائع کی اصلاح مدّ نظر ہوتی تو اس کی یہ تعلیم نہ ہوتی جو اَب موجود ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایک طرف تو انجیل کی تعلیم ہی ناقص تھی اور دُوسری طرف خود ایجاد غلطیوں نے بڑا نقصان پہنچایا جو ایک عاجز انسان کو خواہ نخواہ خدا بنایا گیا اور کفّارہ کا مَن گھڑت مسئلہ پیش کرکے عملی اصلاحوں کی کوششوں کا یکلخت دروازہ بند کر دیا گیا۔

اب عیسائی قوم دوگونہ بد قسمتی میں مبتلاہے۔ ایک تو اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اور الہام مددنہیں مل سکتی کیونکہ الہام پر جو مُہر لگ گئی۔ اور دُوسری یہ کہ وہ عملی طور پر آگے قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ کفّارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا۔ مگر جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اُس کی نظر محدودنہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا۔ بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان‘‘ (زمانے کے لحاظ سے بھی، جگہ کے لحاظ سے بھی) ’’اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی۔ اس لئے قدرت کی تجلّیات کا پُورا اور کامل حصّہ اُس کوملا اور وُہ خاتم الانبیاء بنے۔ مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی رُوحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتَم ہے بجُز اُس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بندنہ ہوگا۔ اور بجز اُس کے کوئی نبی صاحبِ خاتَم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمّتی ہونا لازمی ہے۔ اور اُس کی ہمّت اور ہمدردی نے اُمّت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا۔ اوراُن پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا۔ ہاں اپنی ختمِ رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیضِ وحی آپؐ کی پَیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اُمّتی نہ ہو اُس پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو۔ سو خدا نے اِن معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا۔ لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پَیروی سے اپنا اُمّتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل مُلہَم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی۔ مگر ظلّی نبوّت جس کے معنی ہیں کہ محض فیضِ محمدی سے وحی پاناوہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بندنہ ہو اور تا یہ نشان دُنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمّت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطباتِ الٰہیہ کے دروازے کُھلے رہیں اور معرفتِ الٰہیہ جو مدارِ نجات ہے مفقودنہ ہو جائے۔ کسی حدیث صحیح سے اِس بات کا پتہ نہیں ملے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے جو اُمّتی نہیں یعنی آپؐ کی پیروی سے فیض یاب نہیں‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 28تا 30)

یہ حوالہ حقیقۃ الوحی کا ہے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور تربیت کی وجہ سے صحابہ کرام کے مقام کی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوشِ عشقِ الٰہی پیدا ہوا اور توجہ قدسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاثیر اُن کے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سر کٹائے۔ کیا کوئی پہلی اُمّت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا دکھلایا‘‘

(خطبہ جمعہ یکم فروری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

کچرے سے بجلی بنانے والا ملک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2022