اسلام کی فتح عظیم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت مباہلہ میں ڈوئی کی ہلاکت
آج 09؍مارچ کی مناسبت سے ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی کی پیشگوئی کے مطابق ہلاکت پر ایک خصوصی تحریر ہدیہ قارئین ہے۔
اس آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کے غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی۔ بانیٔ جماعت احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا تا آپ پیاسی روحوں کے لئے آبِ بقا مہیا فرمائیں۔ اور جیسا کہ سنت اللہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو بھی آئے گا اسکے ساتھ دنیا ٹھٹھا کرے گی اس کی مخالفت کرے گی۔ لیکن انجام کار خدائی وعدہ کے مطابق كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ۔ ترجمہ: خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ہی ہمیشہ غالب رہے ہیں۔ ان چند سطور میں خاکسار صداقت اسلام کو بیان کرنے کے لئے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا ایک نشان مباہلہ کا ذکر کرنے لگا ہے۔
یہ تو ظاہر ہی ہے جو بھی خدا کی طرف سے آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو قبولیت دعا کا بھی نشان عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ آپ کی قبولیت دعا اور صداقت اسلام اور اسلام کی فتح عظیم کے لئے یہ حیرت انگیز واقعہ جو دنیا کی نگاہ میں بہت عجیب تھا رونما ہوا میری مراد اس سے ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی کو حضور علیہ السلام کی دعوت مباہلہ اور اس کے نتیجہ میں ڈوئی کی ہلاکت کے نشان کا بیان ہے۔
ڈاکٹر ڈوئی کون تھا؟
سب سے پہلے خاکسار ڈاکٹر ڈوئی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہے۔ تاریخ احمدیت میں ڈاکٹر ڈوئی کے بارے میں لکھا ہے کہ:
سکاٹ لینڈ کا ایک شخص جان الیگزینڈر ڈوئی (1847۔1907) تھا جو بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ آسٹریلیا چلاگیا جہاں 1872ء کے قریب وہ ایک کامیاب مقرراورپادری کی حیثیت سے پبلک کے سامنے آیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے یہ اعلان کیا کہ یسوع مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے بیماروں کو شفا دینے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے اوریہ طاقت اس زمانہ میں اسے بھی عطا کی گئی ہے۔1888ء میں وہ امریکہ کی نئی دنیا میں اپنے خیالات پھیلانے کے لئے سان فرانسکو آگیا۔ سان فرانسکو کے قرب وجوار اوردوسری مغربی ریاستوں میں کامیاب جلسے کرنے کے بعد اس نے 1893ء میں شکا گومیں اپنی خاص سرگرمیاں شروع کردیں ایک مکان کرایہ پر لیا جس کا نام ’’زائن روم‘‘ رکھا۔ ایک اوربلڈنگ میں ’’زائن پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ ہاؤس‘‘ کھولا۔ اور ایک اخبار ’’لیوز آف ہیلنگ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔تھوڑے ہی عرصہ میں امریکہ کے طول وعرض میں اسے بڑی شہرت حاصل ہوئی اور اس کے ماننے والوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ ڈوئی نے یہ کامیابی دیکھ کر 22 فروری 1896ء کو ایک نئے فرقہ کی بنیاد رکھی اوراس کانام ’’کرسچن کیتھو لک چرچ‘‘ رکھا۔1899ء یا1900ء میں اس نے پیغمبری کادعویٰ کیا اور اس فرقہ کو ’’کرسچن کیتھو لک اپاسٹلک چرچ‘‘ کا نام دے دیا۔
اپنی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لئے اس نے ایک صیحون نامی شہر کی بنیاد رکھی اورظاہر کیا کہ مسیح اسی شہر میں نازل ہوگا۔ اس طریق سے اس کے مریدوں کی تعداد بھی بڑھ گئی اور مالی آمد میں یہاں تک اضافہ ہواکہ سال کے شروع میں اسے دس لاکھ ڈالر اپنے مریدوں سے نئے سال کے تحفہ کے طورپرملنے لگا اوروہ ملک میں شہزادوں کی طر ح زندگی بسر کرنے لگا۔ انہی ترقیات کو دیکھ کر اس نے اپنے اخبار ’’لیوز آف ہیلنگ‘‘ میں لکھا۔ ’’اگر یہ ترقی اس طرح جاری رہی توہم بیس 20سال کے عرصے میں ساری دنیا کو فتح کرلیں گے‘‘۔
ڈاکٹر ڈوئی اسلام کا بدترین دشمن
ڈوئی کی باتیں اور تقاریر، اسلام دشمنی سے بھرپور تھیں۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا اور مفتری خیال کرتا تھا۔ بلکہ اپنی خباثت اور گندی گالیوں سے اپنی تقاریر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م لیتا تھا اور کہتا تھا کہ اسلام کو ضرور ہلاک ہونا چاہیئے۔
یہ باتیں وہ نہ صرف اپنی تقاریر میں بیان کرتا بلکہ اپنے اخبار میں بھی شائع کرتا۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے حقیقۃ الوحی میں نشان 196کے تحت لکھا آپ فرماتے ہیں:۔
واضح ہو کہ یہ شخص جس کانام عنوان میں درج ہے۔ (ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی امریکہ کا جھوٹا نبی) اسلام کا سخت درجہ پر دشمن تھا اور علاوہ اس کے اس نے جھوٹا دعویٰ پیغمبری کا کیا اور حضرت سیّد النبیّین و اصدق الصادقین وخیر المرسلین وامام الطیّبین جناب تقدّس مآب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور فحش کلمات سے آنجناب کو یاد کرتا تھا۔ غرض بُغض دینِ متین کی وجہ سے اُس کے اندر سخت ناپاک خصلتیں موجود تھیں اور جیسا کہ خنزیروں کے آگے موتیوں کا کچھ قدر نہیں ایسا ہی وہ توحیدِ اسلام کو بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اس کا استیصال چاہتا تھا۔ اور حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا جانتا تھا اور تثلیث کو تمام دنیا میں پھیلانے کے لئے اتنا جوش رکھتا تھا کہ میں نے باوجود اس کے کہ صدہا کتابیں پادریوں کی دیکھیں مگر ایسا جوش کسی میں نہ پایا چنانچہ اس کے اخبار لیئوز آف ہیلنگ موٴرخہ19؍دسمبر1903ء اور14؍فروری 1907ء میں یہ فقرے ہیں۔ ’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابودہوجاوے اے خدا تو ایسا ہی کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کر دے‘‘
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’اور پھر اپنے پرچہ اخبار 12؍دسمبر 1903ء میں اپنے تئیں سچا رسول اور سچا نبی قرار دے کر کہتا ہے کہ ’’اگر میں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر رُوئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو خدا کا نبی ہو۔‘‘
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس کے میرے دل کو دُکھ دینے والی ایک یہ بات تھی جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ وہ نہایت درجہ پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا اور میں اس کا پرچہ اخبار لیئوز آف ہیلنگ لیتا تھا اور اُس کی بد زبانی پر ہمیشہ مجھے اطلاع ملتی تھی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 504-505)
حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے ڈوئی کو مباہلہ کا چیلنج
جب ڈوئی اپنی شوخیوں اوربے باکیوں میں یہاں تک پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کا ایک زبردست جوش پیدا کیا۔ چنانچہ حضور ؑ نے ستمبر1902ء کو ایک مفصل اشتہار لکھا جس میں حضور ؑ نے تثلیث پرستی پر تنقید کرنے اور اپنے دعویٰ مسیحیت کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا۔
’’حال میں ملک امریکہ میں یسوع مسیح کا ایک رسول پیدا ہواہے جس کا نام ڈوئی ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ یسوع مسیح نے بحیثیت خدائی دنیا میں اس کو بھیجا ہے تاسب کو اس بات کی طرف کھینچے کہ بجز مسیح کے اور کوئی خدا نہیں …… اور بار بار اپنے اخبار میں لکھتا ہے کہ اس کے خدا یسوع مسیح نے اس کو خبر دی ہے کہ تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہوجائیں گے اور دنیا میں کوئی زندہ نہیں رہے گا بجزان لوگوں کے جو مریم ؑ کے بیٹے کو خدا سمجھ لیں اور ڈوئی کو اس مصنوعی خدا کا رسول قرار دیں۔‘‘
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’سوہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں بادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہوجائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا ہے یا ہماراخدا۔ وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو باربار موت کی پیش گوئی نہ سناویں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کردیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے کیوں کہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدامانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی مانتا ہوں۔اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے۔چاہیئے کہ اس دعاکو چھاپ دے اورکم سے کم ہزار آ دمی کی اس پر گواہی لکھے۔ اورجب وہ اخبار شائع ہوکر میرے پاس پہنچے گی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعاکروں گا اور ان شاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہو ں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے تمام عیسائیوں کے لئے حق کی شناخت کے لئے راہ نکل آئے گی۔ میں نے ایسی دعاکے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے کی۔ اس سبقت کو دیکھ کر غیور خدانے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا۔ اوریادرہے کہ میں اس ملک میں معمولی انسان نہیں ہوں میں وہی مسیح موعود ہوں جس کا ڈوئی انتظا رکررہا ہے۔ صرف یہ فرق ہے کہ ڈوئی کہتا ہے کہ مسیح موعود پچیس برس کے اندراندر پیدا ہو جائے گا اورمیں بشارت دیتا ہوں کہ وہ مسیح پیدا ہوگیا اور وہ میں ہی ہوں۔ صدہا نشان زمین سے اور آسمان سے میرے لئے ظاہرہوچکے۔ ایک لاکھ کے قریب میرے ساتھ جماعت ہے جو زور سے ترقی کر رہی ہے۔‘‘
پھر فرمایا: ’’اگر ڈوئی اپنے دعویٰ میں سچاہے اور درحقیقت یسوع مسیح خداہے تو یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہوجائے گا۔کیا حاجت ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے لیکن اگر اس نے نوٹس کا جواب نہ دیا یا اپنے لاف وگزاف کے مطابق دعاکردی۔اورپھر دنیا سے قبل میری وفات کے اٹھایا گیا تو یہ تمام امریکہ کے لئے ایک نشان ہوگا۔مگر یہ شرط ہے کہ کسی کی موت انسانی ہاتھوں سے نہ ہوبلکہ کسی بیماری سے بجلی سے یا سانپ کے کانٹے سے یا کسی درندہ کے پھاڑ نے سے ہواور ہم اس جواب کے لئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خداسچوں کے ساتھ ہو۔ آمین۔‘‘
حضرت اقدس ؑ نے یہ اشتہار براہ راست ڈوئی کو بھیجوادیا لیکن ڈوئی نے اس طریق فیصلہ کی طرف بھی ذرا توجہ نہ کی بلکہ حضور کو براہ راست اس کا جواب تک نہ دیا۔ اس پر مستزادیہ کہ اسلام کے خلاف پہلے سے زیادہ بدزبانی شروع کردی۔ چنانچہ اپنے ستمبر 1902ء کے پرچہ میں لکھا کہ:۔
’’میرا کام یہ ہے کہ میں مشرق اورمغرب اورشمال اورجنوب سے لوگو ں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس شہر اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آجائے کہ مذہب محمد ی دنیا سے مٹا دیا جائے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 242-243)
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مباہلہ کے چیلنج کو امریکہ کے اخبارات میں بھی شائع کرایا اور اس کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہوئی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ آپ کی دعوت مباہلہ کی دھوم امریکہ و یورپ ہر جگہ مچ گئی۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حقیقۃ الوحی صفحہ 505تا 508 پر 32 اخبارات کا ذکر فرمایا ہے جن میں حضور علیہ السلام کی دعوت مباہلہ اور آپ کے چیلنج کا ذکر ہے نیز فرمایا کہ یہ اخبار صرف وہ ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں۔ اس کثرت سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں اخباروں میں یہ ذکر ہوا ہوگا۔ چند اخبارات کے نام یہ ہیں۔
(1) شکاگو انٹرپریٹر 28؍جون 1903ء۔ عنوان کیا ڈوئی اِس مقابلہ میں نکلے گا؟ دونوں تصویریں پہلو بہ پہلو دے کر لکھتا ہے کہ مرزا صاحب کہتے ہیں ڈوئی مفتری ہے اور میں دعا کرنے والا ہوں کہ وہ اُسے میری زندگی میں نیست و نابود کردے اور پھر کہتے ہیں کہ جھوٹے اور سچے میں فیصلہ کا یہ طریق ہے کہ خدا سے دعا کی جاوے کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاوے۔
(2) ٹیلیگراف 5؍جولائی 1903ء۔ مرزا غلام احمد صاحب پنجاب سے ڈوئی کو چیلنج بھیجتے ہیں کہ اے وہ شخص جو مدعیٔ نبوت ہے آ۔ اور میرے ساتھ مباہلہ کر۔ ہمارا مقابلہ دعا سے ہوگا اور ہم دونوں خدا تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذّاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو۔
(3) ارگوناٹ سان فرانسسکو یکم دسمبر1902ء۔ عنوان انگریزی اور عربی (یعنی عیسائیت اور اسلام) کا مقابلہ دعا۔ مرزا صاحب کے مضمون کا خلاصہ جو ڈوئی کو لکھا ہے یہ ہے کہ تم ایک جماعت کے لیڈر ہو اور میرے بھی بہت سے پیرو ہیں۔ پس اس بات کا فیصلہ کہ خدا کی طرف سے کون ہے ہم میں اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے خدا سے دعا کرے۔ اور جس کی دعا قبول ہو۔ وہ سچے خدا کی طرف سے سمجھا جاوے۔ دعا یہ ہوگی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اُسے پہلے ہلاک کرے۔ یقینا ً یہ ایک معقول اور منصفانہ تجویز ہے۔
(4)نیویارک کمرشل ایڈورٹائزر 26؍اکتوبر 1903ء۔ اگر ڈوئی اشارتاً یا صراحتاً اس چیلنج کو منظور کرے گا تو بڑے دکھ اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہوگا اور اگر وہ اس چیلنج کو قبول نہ کرے گا تو بھی اس کے صیحون پر سخت آفت آئے گی۔
(جو دوست تفصیل کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہوں وہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتاب حقیقۃ الوحی میں سے تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔)
ڈوئی کا چیلنج
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوت مباہلہ میں یہ بھی لکھا تھا کہ اسلام سچا ہے اور عیسائی مذہب کا عقیدہ جھوٹا ہے اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی مسیح موعود ہوں جو آخری زمانے میں آنے والا تھا اور نبیوں کے نوشتوں میں اس کا وعدہ تھا۔ نیز حضور علیہ السلام نے یہ لکھا کہ ڈوئی اپنے دعویٰ رسول ہونے اور تثلیث کے عقیدہ میں جھوٹا ہے اگر وہ مجھ سے مباہلہ کرے تو میری زندگی میں ہی بہت سی حسرت اوردکھ کے ساتھ مرے گا اور اگر مباہلہ بھی نہ کرے تب بھی وہ خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتا۔
چنانچہ اس کے جواب میں بدقسمت ڈوئی نے دسمبر 1903ء کے کسی پرچہ میں اور نیز 26ستمبر 1903ء وغیرہ کے اپنے پرچوں میں اپنی طرف سے یہ چند سطریں انگریری میں شائع کیں۔ جن کا ترجمہ ذیل میں ہے۔
’’ہندوستان میں ایک بے وقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا اور کہ تو کیوں اس شخص کا جواب نہیں دیتا مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا۔‘‘
یہ وہ متکبرانہ رویہ تھا جو ڈوئی نے دکھایا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :۔
’’میں ہمیشہ اسبارہ میں خدا تعالیٰ سے دُعا کرتا تھا اور کاذب کی موت چاہتا تھا چنانچہ کئی دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تو غالب ہوگا اور دشمن ہلاک کیا جائے گا اور پھر ڈوئی کے مرنے سے قریباً پندرہ 15دن پہلے خدا تعالیٰ نے اپنی کلام کے ذریعہ مجھے میری فتح کی اطلاع بخشی جس کو میں اس رسالہ میں جس کا نام ہے ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ اس کے ٹائٹل پیج کے پہلے ورق کے دوسرے صفحہ میں ڈوئی کی موت سے قریباً دو ہفتہ پہلے شائع کر چکا ہوں اور وہ یہ ہے:۔
تازہ نشان کی پیشگوئی
خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا (یعنی ظہور اس کا صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہوگا) اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا چاہئے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے۔ کیونکہ خدا اس کو عنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اس کی طرف سے ہے مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے‘‘
(20؍فروری 1907ء)
مباہلہ کے نتیجہ میں ڈوئی کی ذلت آمیز اور عبرتناک موت اور ہلاکت
حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی اور مباہلہ کا چیلنج۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی میں بیٹھ کر آپ نے امریکہ کے ڈوئی کو یہ چیلنج دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کی اشاعت کے سامان تمام دنیا خصوصاً امریکہ اور یورپ میں کر دیئےیہ بھی خدا ہی کا کام تھا۔ کوئی انسان ہرگز ایسا نہ کر سکتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کو خداتعالیٰ نےسنا اور اس جھوٹے نبی کو ذلت آمیز اور عبرتناک سزا۔ اور اس کےسارے کاموں پر تباہی آئی۔ اس کی تفصیل تاریخ احمدیت یوں بیان کرتی ہے:۔
ڈوئی کی اخلاقی موت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش گوئی کے مطابق ڈوئی کے خدائی قہر کی زد میں آنے کی اولین صورت خود اس کے ہاتھوں یہ پیدا ہوئی کہ اس کی پیدائش ناجائز نکلی اور وہ ولد الحرام ثابت ہوا۔ یہ حقیقت اخبار ’’نیویارک ورلڈ‘‘ کے ذریعہ سے منکشف ہوئی جس نے ڈوئی کے سات خطوط شائع کئے جو اس نے اپنے باپ ’’جان مرے ڈوئی‘‘ کو اپنی ناجائز ولدیت کے بارہ میں لکھے تھے۔ جب ملک میں اس امر کا چرچا ہونے لگا تو خود ’’ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی‘‘ نے 25؍ستمبر 1904ء کو اعلان کیا کہ وہ چونکہ ڈوئی کا بیٹا نہیں اس لئے ’’ڈوئی‘‘ کا لفظ اس کے نام کے ساتھ ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔
فالج کا حملہ
اس اخلاقی موت کے ایک سال کے بعد یکم اکتوبر 1905ء کو اس پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔ ابھی اس کے اثرات چل رہے تھے کہ 19؍دسمبر 1905ء کو اس پر دوبارہ فالج گرا اور وہ اس سخت بیماری سے لاچار ہو کر صیحون سے ایک جزیرہ کی طرف چلا گیا۔
مریدوں کی کھلم کھلا بغاوت
جوں ہی ڈوئی نے صیحون سے باہر قدم رکھا اس کے مریدوں کو تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک نہایت ناپاک اور سیاہ کار انسان ہے۔ وہ مریدوں کو شراب بلکہ تمباکو نوشی سے بھی روکتا تھا مگر خود گھر جا کر مزے سے شراب پیا کرتا تھا۔ چنانچہ اس کے پرائیویٹ کمرہ سے شراب برآمد ہوئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے تعلقات بعض کنواری لڑکیوں سے تھے۔ قریباً پچاسی لاکھ روپے کی اس کی خیانت بھی ثابت ہوئی کیوں کہ یہ روپیہ صیحون کے حساب میں کم تھا۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اس نے صرف بطور تحائف صیحون کی خوبصورت عورتوں کو دے دیا تھا۔ ان الزامات سے ڈوئی اپنی بریت ثابت نہ کرسکا۔ اب نتیجہ یہ ہوا کہ اپریل 1906ء کو اس کی کیبنٹ کے نمائندوں کی طرف سے ڈوئی کو تار دیا گیا۔ کہ ہم تمہاری بجائے والوا کی قیادت کو تسلیم کرتے ہیں اور تمہاری منافقت، جھوٹ، غلط بیانیوں، فضول خرچیوں، مبالغہ آمیزیوں اور ظلم و استبداد کے خلاف زبردست احتجاج کرتے ہیں۔ اس تار میں اسے متنبہ کیا گیا کہ اگر اس نے نئے انتظام میں کوئی مداخلت کی تو اس کے تمام اندرونی رازوں کا پردہ چاک کر دیا جائے گا اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
موت
اس نے یہ کوشش کی کہ عدالتوں کے ذریعہ صیحون پر اور روپے پر قبضہ حاصل کر لے مگر اس میں بھی اسے ناکامی ہوئی۔ وہ صیحون کے شہر میں جہاں ہزاروں آدمی اس کے ادنیٰ اشارے پر چلتے تھے واپس آیا تو ایک بھی آدمی اس کے استقبال کے لئے موجود نہ تھا۔ اس نے چاہا کہ اپنے مریدوں کے سامنے اپیل کر کے ان کو پھر اپنا مطیع کر لے مگر چاروں طرف سے اس کے لئے مایوسی ہی مایوسی تھی۔ جسمانی طور پر اس کی حالت ایسی خراب ہوگئی کہ وہ خود اٹھ کر ایک قدم بھی نہ چل سکتا تھا بلکہ اس کے حبشی ملازم اسے ایک جگہ سےاٹھا کر دوسری جگہ لے جارہے تھے۔ اسی حالت میں وہ دیوانہ ہوگیا اور بالآخر 9؍مارچ 1907ء کی صبح کو بڑے دکھ اور حسرت کے ساتھ دنیا سے کوچ کر گیا۔ اور خدا کے مقدس مسیح موعودؑ کے یہ الفاظ ’’کہ وہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس دنیائے فانی کو چھوڑ دے گا‘‘۔ عبرتناک رنگ میں پورے ہوگئے۔
امریکہ اور یورپ کے پریس کا تبصرہ ڈوئی کی ہلاکت پر
ڈوئی کی ہلاکت کا نشان دنیا کی تاریخ میں ایک غیر معمولی نوعیت کا نشان تھا جس نے مغرب کی مادیت پرست دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور امریکہ اور یورپ کے بعض اخبارات کو تسلیم کرنا پڑا کہ محمدی مسیح کی پیشگوئی ایسی شان سے پوری ہوئی ہے جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔
(1) چنانچہ ’’شکاگوٹریبیون‘‘ (10؍مارچ 1907ء) نے لکھا:۔ ’’ڈوئی کل صبح 7بج کر40 منٹ پر شیلو ہاؤس میں مرگیا۔ اس وقت اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہ تھا۔‘‘
’’ڈوئی کے مرنے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کی آراستہ وپیراستہ اقامت گاہ اور اس کے سار ے سامان پر سرکاری ریسیور مسٹرجان ہارٹلے نے صیحون کے قرض خواہوں کے نام پر قبضہ کرلیا۔ جب ڈوئی کی نعش صندوق میں پڑی ہوئی تھی اس وقت سرکاری کسٹوڈین مکان کے احاطہ میں جائداد کی نگرانی کرتا رہا۔
یہ خود مصنوعی پیغمبر کسی اعزاز کے بغیر بالکل کس مپرسی کے عالم میں مرگیا۔ اس وقت اس کے پاس نصف درجن سے بھی کم وفادار پیرو موجود تھے جن میں باتنخواہ ملازمین من جملہ ایک حبشی کے شامل تھے۔ اس کے بستر موت پر کوئی قریبی عزیز نہ آیا۔ اس کی بیوی اور لڑکا جیمل مشی گن کے دوسری طرف والے مکان بین مکدو ہی میں اس عرصہ میں مقیم رہے۔
وہ آدمی جس نے دوسروں کو شفا دینے کا پیشہ اختیار کیا وہ خود کو شفانہ دے سکا۔ اس کی غیر مطیع سپرٹ کو اس بیماری کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑا جو اس کو قریباً دوسال سے دبوچے ہوئے تھی۔ اس کا شفا دینے کا ایمان اس کے فالج اور دوسری پیچیدہ امراض کے سامنے بالکل بے طاقت ثابت ہوا۔‘‘ (ترجمہ)
(2) رسالہ ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ (14؍مارچ 1907ء) نے لکھا۔
’’ڈوئی اپنی مذہبی اورمالی طاقت میں آنکھوں کو خیرہ کردینے والے کمال تک پہنچامگر پھر یک لخت نیچے آگرا۔ اس حال میں اس کی بیوی، اس اس کا لڑکا،اس کا چرچ سب اس کو چھوڑ چکے تھے۔ اس نے اپنے مزعومہ پیغمبر ی مرتبہ کے لئے رنگارنگ کا ایسا لباس بنایا ہوا تھا جو یوسف یا ہارون نے کبھی نہ پہنا ہوگا …… شہر صیحون کے لئے اوراپنی ذاتی شان وشوکت کے لئے اس نے ان اموال کو جو اس کی تحویل میں دئیے گئے ناجائز طورپر استعمال کیا۔ ایسے آدمی سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے ناجائز کام کرنا بھی مناسب ہے کیوں کہ ان کو یہ زعم ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ اخلاق دنیا کے مسلمہ نظریات سے بہت بلند ہے۔‘‘
(3) امریکن اخبار ’’ٹروتھ سیکر‘‘ (15؍جون 1907ء) نے ’’مرسلین کی جنگ‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا۔
’’ڈوئی (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مفتر یوں کا بادشاہ سمجھتا تھا۔ اس نے نہ صرف یہ پیش گوئی کی کہ اسلام صیحون کے ذریعہ سے تباہ کردیا جائے گا بلکہ وہ ہر روزیہ دعابھی کیا کرتا تھا کہ ہلال (اسلامی نشان) جلد ازجلد نابود ہوجائے۔ جب اس کی خبر ہندوستانی مسیح کو پہنچی تواس نے اس ایلیاء ثانی کوللکارا کہ وہ مقابلہ کونکلے اور دعاکریں کہ ’’جو ہم میں سے جھوٹا ہووہ سچے کی زندگی میں مرجائے۔‘‘ قادیانی صاحب نے پیش گوئی کی کہ اگر ڈوئی نے اس چیلنج کو قبول کرلیا تو وہ میری آنکھوں کے سامنے بڑے دکھ اورذلت کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کرجائے گا۔ اور اگر اس نے چیلنج کو قبول نہ کیا تو تب اس کا اختتام صرف کچھ توقف اختیار کرجائے گا۔ موت اس کو پھر بھی جلد پالے گی اوراس کے صیحون پر بھی تباہی آجائے گی۔ یہ ایک عظیم الشان پیش گوئی تھی کہ صیحون تباہ جائے اور ڈوئی (حضرت) احمد (علیہ السلام) کی زندگی میں مرجائے۔ ’’مسیح موعود‘‘ کے لئے یہ ایک خطرے کا قدم تھا کہ وہ لمبی زندگی کے امتحان میں اس ’’ایلیا ثانی‘‘ کو بلائیں۔ کیونکہ چیلنج کرنے والا ہر دومیں سے کم وبیش پندرہ سال زیادہ عمر رسیدہ تھا۔ ایک ایسے ملک میں جو پلیگ اورمذہبی دیوانوں کا گھر ہو۔حالات اس کے مخالف تھے مگر آخر کاروہ جیت گیا۔‘‘
(4) ’’بوسٹن ہیرلڈ‘‘ نے اپنے سنڈے ایڈیشن (مورخہ23؍جون 1907ء) کے ایک پورے صفحے میں اس پیش گوئی کی تفصیلات درج کیں اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پورے قد کا بڑافوٹو بھی شائع کیا اور مندرجہ ذیل دوہرے عنوان کے ساتھ اپنے مضمون کو شروع کیا۔ ’’مرزا غلام احمد المسیح ایک عظیم الشان انسان ہے‘‘۔ ’’آ پ نے پہلے ڈوئی کی حسرت ناک موت کی پیش گوئی کی اور اب طاعون طوفان اور زلازل کی خبر دیتے ہیں’’۔ ’’23؍اگست 1903ء کو مرزاغلام احمد صاحب قادیانی نے الیگزینڈرڈوئی موسوم بہ ایلیا سوم کی موت کی پیش گوئی کی جو اس مارچ میں پوری ہوگئی۔‘‘ نیز لکھا۔
’’یہ ہندوستانی صاحب مشرقی دنیا میں کئی برس سے مشہور ہیں۔ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ ہی وہ مسیح صادق ہیں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھا۔ اور یہ کہ خداتعالیٰ نے آپ کو اپنی تائید سے نوازا ہے۔ امریکہ میں آپ کا تعارف1903ء میں ہوا جب کہ آپ نے ڈوئی سے مقابلہ کیا …… آپ نے نہ صرف ڈوئی کی موت کی پیش گوئی کی تھی بلکہ یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ آپ کی زندگی میں مرے گا اور بڑی حسرت اور درد اور دکھ کے ساتھ مرے گا‘‘. ’’اس وقت ڈوئی59 سال کا تھا اوریہ نبی75 سال کا۔‘‘
’’ڈوئی ایسی حالت میں مرگیا کہ اس کے دوست اس کو چھوڑ چکے تھے اوراس کی جائداد تباہ ہو چکی تھی۔ اس کو فالج اور دیوانگی کا حملہ ہوااور وہ ایسی حالت میں ایک دردناک موت مراکہ اس کا صیحون اندرونی تفرقات سے پارہ پارہ ہوچکا تھا۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 246-250)
یہ وہی خنزیر تھا
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس کی موت پر 17 اپریل 1907ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں اس عظیم الشان پیشگوئی کے ظہور اور ڈوئی کے مرنے کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے لکھا کہ:۔
پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا۔ اگر میں اُس کو مباہلہ کے لئے نہ بُلاتا اور اگر میں اُس پر بد دعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیّت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا لیکن چونکہ میں نے صدہا اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذّاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا۔ ا س سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہوگا؟ اب وہی اس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہوگا۔ وَالسَّلاَمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ نمبر515، 516 روحانی خزائن جلد22 ایڈیشن 2009ء)
مکرم محمد جاوید صاحب نے اس عنوان پر اپنا ایک مضمون لکھا اور جو الفضل ربوہ 9مارچ 2000ء میں شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب ڈوئی کی اس گستاخی کی اطلاع ملی تو آپؑ نے اللہ کے حضور اس فیصلے میں کامیابی کے لئے زیادہ توجہ اور الحاح سے دعائیں شروع کردیں۔
ڈوئی کی اخلاقی موت اس طرح ہوئی کہ کچھ ہی عرصہ بعد ایک شخص نے خود کو ڈوئی کے بیٹے کے طور پر پیش کردیا۔ 25؍ستمبر 1904ء کو ڈوئی نے اس کا انکار کیا۔ قریباً ایک سال بعد یکم اکتوبر 1905ء کو ڈوئی پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔ 19؍دسمبر کو دوسرا شدید حملہ ہوا اور وہ بیماری سے لاچار ہوکر صیحون سے ایک جزیرہ کی طرف چلا گیا۔ جونہی وہ صیحون سے نکلا تو مریدوں کو علم ہوا کہ وہ نہایت ناپاک، شرابی اور تمباکونوش انسان تھا۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ اُس نے ایک لاکھ سے زائد روپیہ صیحون کی خوبصورت عورتوں کو بطور تحائف دیدیا تھا۔ ڈوئی ان الزامات سے اپنی بریت ثابت نہ کرسکا۔ آخر اپریل 1906ء میں اس کی کونسل کے نمائندوں نے ہی اُس کو برطرف کرکے والوا کو اپنا قائد منتخب کرلیا۔ ڈوئی نے عدالتوں کے ذریعہ صیحون اور روپے پر قبضہ حاصل کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ جب وہ واپس صیحون آیا تو کوئی شخص بھی اُس کے استقبال کو موجود نہ تھا۔ جسمانی حالت ایسی تھی کہ خود ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکتا تھا اور اُس کے حبشی غلام اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتے تھے۔ اسی حالت میں وہ دیوانہ ہوگیا اور 9؍مارچ 1907ء کی صبح بڑی حسرت کے ساتھ دنیا سے کوچ کرگیا۔
اسی طرح الفضل 22 نومبر 2008ء میں ایک مضمون مکرم کریم ظفر ملک صاحب نے تحریر کیا جس میں یہ دلچسپ اور ایمان افروز بات بھی درج ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ 1972ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب جب عالمی بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے تو ایک دفعہ شکاگو تشریف لائے۔ خاکسار ان دنوں ILLINOIS سٹیٹ میں نیا نیا مقیم ہوا تھا اور بنک میں ملازم تھا۔ ایک دن محترم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم کا فون آیا کہ حضرت میاں صاحب ZOIN آرہے ہیں۔ اُسی روز ڈاکٹر صاحب ہمیں ایک بڑے Nursing Home میں لے گئے۔ اور ایک کمرہ میں لے جاکر ایک بوڑھے امریکی سے پوچھا کہ کیا تمہیں ڈاکٹر ڈوئی کے بارہ میں کچھ یاد ہے۔ تو اس نے برملا کہا کیوں نہیں میں خود اس کا پیروکار تھا اور ZOINکا ہی رہنے والا ہوں۔ وہ ہمارا مذہبی رہنما تھا اور بہت اثرو رسوخ والا اورمال دار انسان تھا اور ہزاروں اس کے مرید تھے۔ اسی اثنا میں دوسرے بستر والا شخص بھی ہماری گفتگو میں شامل ہو چکا تھا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے استفسا ر پر کہ آخر اس کا کیا ہوا؟ تو کہنے لگا کہ انڈیا کے کسی قصبے میں ایک شخص کے ساتھ اس کی خط و کتابت شروع ہوگئی تھی۔ اس نے مسیح ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ پھر کافی دیر اُن میں خط و کتابت رہی اور اخبارات کی سرخیاں بھی بنتی رہیں۔ بالآخر ڈاکٹر ڈوئی بہت ہی بیچارگی اور رنج و غم کی حالت میں مرگیا۔
اُس امریکی نے سوال کیا کہ ہم کیوں اس سے یہ پوچھ رہے ہیں اور کیا ہم اس انڈیا والے مہدی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ تو خاکسار نے برملا حضرت صاحبزادہ صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا کہ ہاں یہ بزرگ انسان اُنہی کا پوتا ہے جنہوں نے ڈاکٹر ڈوئی کے اس طرح ہلاک ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ وہ امریکی تو جہاں حیران ہوا۔ مگر میری نظر جب حضرت میاں صاحب کے چہرے پر پڑی تو ان کا ایسا چہرہ خاکسار نے زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک نور کا پیکر انکساری سے آنکھیں جھکی ہوئیں اور یقیناً خداتعالیٰ کے اس نشان سے انتہائی متاثر اور ان کا چہرہ اس طرح دکھائی دیا کہ خود چہرے کا نور حضرت اقدس کی سچائی کی گواہی دے رہا ہو۔
ڈوئی کی موت کا ذکر شکاگو کے ٹریبیون اخبار نے یو ں کیا تھا: ’’ڈوئی کل صبح 7 بجکر 40 منٹ پرشیلو ہاؤس میں مر گیا اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہ تھا۔ یہ خود ساختہ پیغمبر بغیر کسی اعزاز کے اور بالکل کسمپرسی میں مرگیا‘‘۔
نشان فتح عظیم اور زائن جماعت
خدا تعالیٰ کے فضل سے حق کا بول بالا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عظیم الشان نشان حضرت مسیح موعودؑ کی دعائے مباہلہ کا ذریعہ ظاہر فرمایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب آخری زمانے میں مسیح موعود اور امام مہدی آئیں گے تو حکم و عدل ہوں گے۔ ان کے ذریعہ صلیبی عقائد کو پاش پاش کر دیا جائےگا نیز خنزیر کو بھی وہ قتل کریں گے۔ اس حدیث کے صحیح مصداق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہیں جنہوں نے زائن میں ڈوئی کے ساتھ مباہلہ کر کے اس خنزیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مباہلہ کے ذریعہ ہلاک کر کے دکھایا۔ کیوں کہ یہ خبیث باطن ہمارے پیارے آقا سید الانبیاء کو گالیاں دیتا اور نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا سمجھتا تھا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی تبلیغ یہاں اس زائن میں پہنچی اور ڈوئی کی عبرتناک موت سے یہاں پر توحید باری تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند شان سے گاڑ دیا گیا اور اس کی آبیاری کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا فرمایا کہ امریکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک مخلص اور فدائی جماعت قائم ہوگئی۔ خاکسار امریکہ میں کئی جماعتوں کی دن دگنی ترقی کا ذکر کرنے سے پہلے زائن کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کی ترقی کی طرف آؤں گا۔ ان شاء اللہ
کچھ زائن جماعت کے متعلق
1965ء تک یہاں جماعت نہ تھی۔ شاید ہی یہاں کوئی احمدی آیا گیا ہو۔ جس وقت امریکہ میں صرف چند ایک مبلغین ہی کام کر رہے تھے۔ یہاں پر سب سے پہلے مولوی شکر الٰہی صاحب تشریف لائے۔ آپ 1945ء سے امریکہ میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ 1964ء میں مولوی شکر الٰہی صاحب نے شکاگو میں خدمت سرانجام دی اس کے بعد آپ زائن میں متعین ہوئے۔ اس کے بعد مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم ابن حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب خالد احمدیت یہاں آکر سیٹلڈ ہوگئے۔ آپ محترم فلاح الدین شمس صاحب نائب امیر امریکہ کے بڑے بھائی تھے۔ مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس پیشہ کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر تھے۔ آپ نے ڈوئی کے ماننے والے کچھ بوڑھے لوگوں کا علاج بھی کیا تھا۔ ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کی فیملیز اور بھائیوں کے علاوہ زائن کے اردگرد کچھ لوگ تھے جن کو ملا کر زائن کی جماعت بنی اور یہ سب زائن ہی میں اکٹھے ہو کر نمازیں پڑھتے اور میٹنگز کرتے تھے۔
محترم علی رضا صاحب اور ان کی اہلیہ ناصرہ رضا صاحبہ اس علاقہ کی مقامی احمدیوں میں ایسے ہیں جنہوں نے یہاں تبلیغ کی۔ اگرچہ یہ دونوں سینٹ لوئس سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر دو یہاں کے ہی اپنی وفات تک ہو کر رہ گئے تھے۔ محترم علی رضا صاحب نے 1947ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ناصرہ رضا صاحبہ کی والدہ صاحب محترمہ طاہرہ رشیدہ صاحبہ سب سے زیادہ عمر پانے والی خاتون تھیں جو کہ 103سال تک زندہ رہیں۔ اس کے بعد تبلیغ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں احمدیت کی محبت پیدا کر دی اور سکول و کالج کے طلباء اور دیگر لوگ احمدیت میں داخل ہوئے جن میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں۔
فضل عمر صاحب۔ احمد خالد صاحب۔ محمد رشید صاحب۔ بشیر محمود صاحب۔ صدیقہ محمود صاحبہ۔ عالیہ رشید صاحبہ۔ عبدالحکیم صاحب۔ حمیدہ حکیم صاحبہ۔ ناصر حکیم صاحب۔ حسن حکیم صاحب (صدر زائن رہے ہیں)۔ فضل کریم صاحب۔ عبدالکریم صاحب (یہ شکاگو جماعت کے بڑے عرصہ تک صدر جماعت رہے ہیں) بشیر داؤد صاحب۔ مصطفیٰ عبداللہ صاحب۔ قدیرہ عطاء صاحبہ۔ عزیز ڈار صاحب۔ ذکی ڈار صاحب۔ حافظ ڈار صاحب۔ فکیرہ احمد صاحبہ۔ امینہ حکیم صاحبہ۔ احمد نور الدین صاحب۔ احمد خالد صاحب اور محمد صادق صاحب۔ ان میں سے بعض احمدی احباب اپنی نمازوں، میٹنگز کے لئے احمدی گھروں میں اکٹھے ہوتے تھے۔ نمازیں بھی وہاں ہی جماعت کے ساتھ پڑھنے، تبلیغ کے پلان بھی بناتے اور اسی کے مطابق عمل ہوتا رہا۔ نماز جمعہ کے لئے احباب جماعت نے کرایہ پر جگہ حاصل کر نی شروع کی یہ ایک ہوٹل تھا اور گرانڈ ایونیو اور جے نی سی سٹریٹ پر واقع تھا۔ اب تو یہ ہوٹل وہاں نہیں رہا۔
زائن کی یہ جماعت واکیگن کی جماعت کہلاتی تھی۔ جو کہ آفیشل 1969ء میں بنی اور پھر اس میں عہدے داروں کا انتخاب مولوی شکر الٰہی صاحب نے کر ایا۔ فضل عمر صاحب اس جماعت کے پہلے صدر بنے۔ اور عالیہ رشید صاحبہ صدر لجنہ منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد یہاں کی احمدیہ کمیونٹی نے ریلوے سٹیشن کے قریب ڈاؤن ٹاؤن میں ایک جگہ اپنی تبلیغی، تربیتی سرگرمیوں کے لئے چنی۔
وسکانسن کے ساؤتھ ایسٹرن علاقہ کا ایک شہر Racine (رے سن) میں 1979ء میں یہ جماعت اکٹھی ہوئی تھی۔ جو بعد میں زائن کی جماعت کہلائی۔ یہ یاد رہے کہ شروع شروع میں اس بڑے ملک امریکہ میں لوگ کوئی کہیں تو کوئی کہیں رہتا تھا۔ اور اب بھی ایسے ہی ہے لیکن اب جماعت بڑی ہوئی ہے۔ لیکن اس وقت کوئی ایک سٹیٹ میں تو دوسرا کسی اور سٹیٹ میں پھر جو نزدیکی شہر بنتا اس میں سب اکٹھے ہوجاتے تھے۔ پھر خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آہستہ آہستہ احمدیوں کی تعداد تبلیغ کے ذریعہ بڑھنے لگی اور شہروں میں لوکل طور پر جماعتیں قائم ہوئیں جب یہ سب لوگ رے سن (Racine)میں اکٹھے ہونے لگے تو یہاں پر مکرم ابوبکر صاحب پہلے صدرمنتخب ہوئے۔ اس کے بعد دوسرے لوگ صدر بنے لیکن اس وقت بھی مکرم ابوبکر صاحب ہی زائن جماعت کے صدر ہیں۔ اور آپ کی اہلیہ سسٹر Dhiya Bakr۔ صدر لجنہ اماء اللہ یو ایس اے ہیں۔ ابوبکر صاحب کے بعد مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب صدر جماعت زائن منتخب ہوئے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب کے گھر پر نمازیں اور میٹنگز ہوتی رہیں۔ 1983ء میں جماعت نے یہاں پر مشن ہاؤس کے لئے ایک عمارت خریدی۔ یہ جگہ Gabriel Ave 2103 پر واقع ہے۔
اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ امریکہ کی قیادت میں ایک بڑی جگہ خریدی ہے۔ جس میں گذشتہ سال ایک بڑی مسجد کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اس وقت تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
(نوٹ: یہ بھی یاد رہے کہ مولوی شکر الٰہی صاحب جماعت سے خلافت ثالثہ میں الگ ہوگئے تھے۔)
جماعت احمدیہ امریکہ کی ترقی کی موجودہ صورت حال
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ امریکہ دن رات خلافت کے زیر سایہ ترقی کرتی چلی جارہی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اس وقت جماعت امریکہ کی ترقی کی مختصر سی جھلک پیش کرتا ہوں۔
- تعداد جماعت۔64۔ نوٹ اس سےقبل جماعتوں کی تعداد 74 بیان کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جماعتیں کم ہوگئی ہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو بڑی شہروں کی جماعتوں میں مدغم کر دیا گیا ہے۔ مثلاً لاس اینجلس، شکاگو، سان فرانسسکو، نیویارک، میری لینڈ، ورجینیا کی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں میں شامل ہوگئی ہیں۔ اس لئے تعداد میں کمی ہے لیکن تعداد کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد بڑھی ہے۔ الحمد للّٰہ۔
- تعداد مساجد۔ سن 2020ء تک مساجد کی تعدد 56 ہے۔
- تعداد مشن ہاؤسز۔ 60۔ اس میں 4 جگہیں کرایہ پر حاصل کی ہوئی ہیں۔
- مبلغین کی تعداد۔ 2020ء تک 35 تھی۔ لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے زیادہ ہوچکی ہے۔
زائن جماعت میں نئی مسجد ’’فتح عظیم‘‘ کا سنگ بنیاد
اللہ تعالیٰ کے فضل سے 10جولائی 2021ء کو زائن بینٹن ٹاؤن شپ ہائی سکول (Zion Benton Township High School) کے ایڈوٹوریم میں ایک عالی شان اور پروقار تقریب کا آغاز ہوا۔ جس میں ہمارے نائیجیرین بھائی مکرم حافظ مبارک احمد صاحب کو کوئی نے پرسوز آواز میں تلاوت قرآن کریم کی۔ اس کے بعد مکرم جنید لطیف صاحب نے تقریب کا تعارف کرایا۔ اور مکرم ابوبکر صاحب صدر جماعت زائن نے سب کو خوش آمدید کہا۔ مکرم فلاح الدین شمس صاحب نائب امیر امریکہ نے اس موقعہ پر زائن مسجد کے بارے میں تفصیلات بیان کیں۔
مکرم انور محمود خان صاحب نے جو ہمارے نیشنل سیکرٹری تحریک جدید ہیں نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانیوں کا ذکر کیا ہے کہ یہ رقم کس طرح حاصل ہوئی اور احباب جماعت کے ایمان افروز واقعات بیان کئے۔ اس کے بعد کانگرس کے ممبر جو الیناس سٹیٹ کے ڈسٹرکٹ8 سے تعلق رکھتے ہیں نے جماعت احمدیہ کی خدمات اور مسجد کی تعمیر پر جماعت کو مبارک باد دی۔ اس کے بعد زائن کے میئر نے تقریر کی۔ اور جماعت احمدیہ کی تاریخی خدمات کو سراہا اور خصوصاً زائن کے حوالہ سے مسجد کی تعمیر کو سراہا۔ ان کے بعد Mr. Joyce Mason اور پولیس کے انچارج لیک کونٹی الیناس نے تقاریر کیں۔
اس موقعہ پر ممبر آف کانگرس Ms Gwen Mooreکا پیغام خط کی صورت میں مکرم جنیدلطیف صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ اور پھر سب سے آخر میں مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمدصاحب امیر جماعت احمدیہ امریکہ نے تقریر فرمائی۔ سب کا اس خوشی اور بابرکت تقریب میں شامل ہونے پر شکریہ ادا کیا۔ اور اسلام میں مسجد کی اہمیت کوبیان کیا۔ یہاں پر ممبر آف کانگرس مِس گی ون مورکے خط اور ترجمہ دیا جارہا ہے۔
اس موقعہ پر ممبر آف کانگرس مِس گیون مُور(Gwen Moore) نے اپنے پیغام میں کہا۔
’’یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں امریکہ کی احمدیہ مسلم کمیونٹی کو 10 جولائی 2021ء کو زائن الینوائے میں پہلی بامقصد مسجد کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھنے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ جس طرح آپ نے صیحون میں پہلی بامقصد مسجد کی تعمیر کی بنیاد رکھی بالکل اسی طرح مذہبی کمیونٹیز، شہر ملواکی کو برقرار رکھنے کی ہی بنیاد ہیں۔ کسی بھی خاندان، کمیونٹی اور یہاں تک کہ فرد کی مضبوطی کی جڑ مذہبی استقامت اور عزم میں ہی پیوست ہیں۔
یہ اسلامی کمیونٹی، ملواکی شہر کی سب سے بڑی اور مضبوط ترین مذہبی برادریوں میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر میرے کانگریشنل ڈسٹرکٹ میں مجھے مختلف قوموں کے بہت سے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے۔ میرے ضلع کی احمدیہ مسلم کمیونٹی اور ملک بھر کی باقی تمام احمدیہ مسلم جماعتیں ان اقدار کی عکاسی کرتی ہیں جن کے لئے ہم بحیثیت قوم ہر روز کوشش کرتے ہیں۔ جیسے پڑوسیوں سے محبت، شہری کے فرائض، اور مصیبت میں مضبوط ایمان۔
میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اپنے چوتھے کانگریگیشنل وومن ہونے کے طور پر نمائندگی کا موقع دیا۔ میں خاص طور پر آپ کے نیشنل امیر مرزا مغفور احمد کو بھی سراہنا چاہوں گی۔ جو ہم میں آج موجود ہیں۔ میں آپ کے عالمی سربراہ مرزا مسرور احمد صاحب کی قیادت کو بھی خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ جنہوں نے اس ملک کی 60 سے زائد جماعتوں سمیت پوری دنیا میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کی ترقی کی قیادت کی ہے۔ انہوں نے عالمی امن اور بین المذاہب شراکت داری کے لئے انتھک جدوجہد کی ہے۔ ان تمام لوگوں کے لئے اونچی آواز بننے کے لئے انتھک جہدوجہد کی ہے۔ ان لوگوں کے لئے اونچی آواز بننے کے لئے آپ کا شکریہ جو اپنے لئے اور تمام لوگوں کے امن اور بہبود کے لئے نہیں بول سکتے۔
وسکانسن 4th کانگریشنل ڈسٹرکٹ کی جانب سے میں اور میرا عملہ پہلی بامقصد تعمیر شدہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
گیون مُور
ممبر آف کانگرس
مکرم ڈاکٹر محمود احمد صاحب ناگی کولمبس سے اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں جو الحکم کی اشاعت میں ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کی مباہلے کی دعا کے نتیجے میں ڈاکٹر ڈوئی 1907ء میں ایک اذیت ناک بیماری میں مبتلا ہو کر اُنسٹھ برس کی عمر میں ہلاک ہوا۔ سچائی کا بول بالا ہوا۔ ایوننگ امریکن شکاگو (Evening American Chicago) نے 9 مارچ 1907ء کی اشاعت میں ڈاکٹر ڈوئی کی کہانی کے خلاصہ کو مندرجہ ذیل الفاظ میں قلم بند کیا:۔
فتح عظیم اور المناک ناکامی نے ڈاکٹر ڈوئی کی زندگی کو داغدار کیا۔ اس نے چند بڑے کام انجام دیئے لیکن اس کے برعکس بدنامی کا باعث بننے والے کام اچھے کاموں سے کئی گنا زیادہ تھے۔ اس نے ایک عقیدہ روشناس کرایا لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس نے ایک شہر بسایا اور وہ اسی شہر سے دربدر کیا گیا۔ اس نے لاکھوں ڈالرز کی جائیدادیں بنائیں لیکن وہ شخص غربت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ طاقت کے نشہ نے جو وقت اسے بخشی اسی نے ہی اسے خوار کیا۔ اس کے مریدوں کی تعداد ہزاروں میں تھی لیکن جب وہ لقمہ اجل بنا تو سوائے چند وفاداروں کے سب اسے چھوڑ گئے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے اب اسلام کی تبلیغ اور ترقی کے لئے زائن شہر میں ایک الشان کمپلیکس تعمیر کر رہے ہیں۔ اس جگہ پر ایک مسجد تعمیر ہوگی جس کا نام ’’مسجد فتح اسلام‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس کمپلیکس کے سنگ بنیاد کی تقریب مورخہ 10 جولائی 2021ء تک پائے تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ یہ منصوبہ 8 ایکڑ راضی پر مشتمل ہے۔ اور لیوز ایونیو (Lewis Avenue) اور ستائیس سٹریٹ (27th Street) پر واقع ہے۔ اس منصوبےکی لاگت کا تخمینہ 50 لاکھ ڈالر لگایا گیا ہے۔ عمارت کا ڈیزائن جدید اور روایتی طرزِ تعمیر کا شاہکار ہوگا جو عمارتیں تعمیر ہوں گی۔ ان کا رقبہ تقریبًا 13000 مربع فٹ ہوگا۔ مرکزی جگہ پر نماز کے لے ایک بڑا ہال اور کمیونٹی روم (Community Room) بنے گا جبکہ باورچی خانہ تہ خانے میں بنے گا۔ اسلامی طرز کا ایک مینار اس کمپلیکس کی شان کو دوبالا کر دے گا۔ تمام عمارتیں تین ایکڑ رقبہ پر محیط ہوں گی جبکہ بقیہ سات ایکڑاراضی دوسرے کاموں کے لئے استعمال ہوگی۔ کافی بڑا حصہ گرین ایریا (Green Area) ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کمپلیکس کا ایک ضروری جزو ایک دوسرے ہال کی تعمیر ہے۔ جس میں تاریخی نوعیت کی دستاویز اور تصاویر کا اہتمام کیا جائے گا۔ یہ قیمتی نوادرات امریکی تاریخ احمدیت کو اجاگر کریں گے۔
سنگِ بنیاد کی تقریب زائن بینٹن ٹاؤن شپ سکول (Zion Benton Township School) میں منعقد ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کے سرکردہ عہدیدار، کانگرس کے چند شرکاء، کاونٹی (County) کے مقتدر اربابِ اختیار اور مقامی قانون نافذ کرنے والے احباب خاص طور پر مدعو کئے گئے تھے۔
زائن شہر کے میئر بلی میکینی (Billy McKinney) نے تقریب کے آغاز میں سپاس نامہ پیش کیا۔ امیر جماعت احمدیہ امریکہ مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب اس تقریب کے روحِ رواں اور کلیدی مقرر تھے انہوں نے اپنی تقریر میں کہا:۔
’’اسلام میں مسجد کا مقام صرف خدا کے گھر کا ہی نہیں جہاں مسلمان باجماعت عبادت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں بلکہ یہ جگہ امن و سلامتی اور اسلامی اخوت کے لئے مخصوص ہے۔ یہ مسجد احمدیہ جماعت زائن کو ایک خدائے واحد کی پرستش کی ذمہ داری اور اس کی مخلوق کی دیکھ بھال یاد دلاتی رہے گی۔‘‘
ظہرانے کے بعد کئی مہمانوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد احباب نے کمپلکس اور مسجد کی بنیادوں میں اینٹیں رکھیں۔ تقریب کے آخر میں احمدیہ مسلم کمیونٹی زائن کے صدر مکرم ابوبکر نے اپنی ٹیم کے احباب کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انتھک محنت سے اس منصوبے کے لئے دن رات کام کیا۔
مسجد کا نام مسجد فتح عظیم
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسجد کا نام ’’مسجد فتح عظیم‘‘ عطا فرمایا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اس خوشی اور بابرکت موقعہ پر تمام جماعت احمدیہ کو مبارکباد پیش ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِِ۔ 10جولائی 2021ء کو جو تقریب ہوئی اس سارے پروگرام کا انعقاد ہمارے نیشنل سیکرٹری امور خارجیہ مکرم امجد محمود خان صاحب اور ان کی ٹیم کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین
اس تقریب کے بعد مکرم امیر صاحب صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب تمام احباب کی معیت میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی جگہ کی جگہ پر تشریف لے گئے۔ اور سنگ بنیاد رکھا۔ امید ہے یہ مسجد اس سال کے پہلے چوتھائی حصہ میں ان شاء اللہ مکمل ہوگی۔ اور ہم انتظار کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس کا خود افتتاح فرمائیں گے۔ آمین
اس تقریب میں خاکسار کو بھی شامل ہونے کی سعادت ملی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔
زائن سے متعلق معلومات اور فوٹوز مکرم ناصر الدین شمس صاحب ابن مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم جو حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے پوتے ہیں نے مہیا فرمائیں۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا۔
خاکسار دوبارہ یہ بات دہرانا چاہتا ہے کہ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ڈوئی کتنا مشہور، امیر اور طاقتور انسان تھا۔ پوری دنیا اس کو جانتی تھی اور سیاستدان بھی اس کی تائید کرتے تھے۔ وہ ایک ایسا بافراست انسان تھا جس پر مذہبی حکومت کو قائم کرنے کے لئے اعتماد کیا جاتا تھا۔ وہ پرانے عہد نامہ کے قوانین کا سخت پیرو کار تھا۔ اس نے اپنے نمائندگان کو سور کا گوشت کھانے، شراب نوشی اور تمباکو نوشی کرنے سے سخت منع کر رکھا تھا اس کو یہ بھی لگتا تھا کہ تمام بیماریاں روحانی علاج سے ٹھیک ہوسکتی ہیں اور وہ ان کے لئے میڈیکل کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
اپنے نقطہ نگاہ سے جب اس نے زائن شہر کی منصوبہ بندی کی تو اس نے زمین کا ایک بڑا پلاٹ خریدا جو مشی گن جھیل پر تھا اور دو بڑے شہروں (شکاگو اور ملواکی) کے درمیان میں تھا اور ٹرین اسٹیشن اس سے آدھے راستے پر واقع تھا۔ اس نے شہر کو یونین جیک برطانیہ کے جھنڈے کی طرف پر وضع کیا اور اس نے گرجا گھر کو بالکل مرکز میں رکھا جہاں دونوں صلیبیں ملتی تھیں اور ہر گلی کا نام بائیبل سے رکھا۔ یعنی اس شہر کو مسیح کی دوسری آمدکے استقبال کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ڈوئی کو یقین تھا کہ وقت قریب ہے اور یہ پیشگوئی اس نے 1902ء میں کی تھی کہ یہ 25 سال کے اندر اندر ہوگا۔ شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خود کو ایلیا کہتا تھا جو آخری دنوں میں مسیحا کے ظاہر ہونے کا راستہ ہموار کرے گا۔ ہاں اس شخص نے غرور و تکبر سے مسیح محمدی کے بارے میں کہا تھا۔
’’ہندوستان کا ایک بے وقوف محمدی مسیح مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تُو کیوں اس شخص کو جواب نہیں دیتا۔ مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ مَیں ان مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں گا۔ اگر مَیں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو مَیں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا‘‘
(حقیقۃ الوحی صفحہ 509)
پس یہ وہی مسیح محمدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہے کہ جس کی دعا سے یہ شخص نابود اور ذلت کی موت سے مرا۔ اور اس طرح توحید باری تعالیٰ، اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند ہو کر ایک ’’فتح عظیم‘‘ کا نشان بن گیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ
(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ امریکہ)