• 16 اپریل, 2024

اگر ماں باپ ہی نمازوں کے پاپند نہ ہوں گے تو بچوں کو کیسے کہہ سکتے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں پر نماز فرض ہے۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ نماز کی اہمیت مختلف حوالوں سے بیان کر کے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ نماز عبادت کا مغز ہے۔

(ماخوذ ازسنن الترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی فضل الدعاء حدیث3371)

بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے قریب کر دیتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفرعلی من ترک الصلاۃ حدیث149)

پھر آپؐ نے نماز کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیاجائے گا وہ نماز ہے۔ اگر تو یہ حساب ٹھیک رہا تو کامیاب ہو گیا اور نجات پا لی ورنہ گھاٹا پایا، نقصان اٹھایا۔

(سنن الترمذی ابواب الصلاۃ باب ماجاء ان اول ما یحاسب… حدیث 413)

پھر بچوں کو بھی نماز کا پابند بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ سات سال کی عمر کو پہنچنے پر بچے کو نماز کی تلقین کرو اور دس سال کی عمر میں اس کو نماز کا پابند کرنے کے لئے کوئی سختی بھی کرنی پڑے تو کرو۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ حدیث495)

اگر ماں باپ ہی نمازوں کے پابندنہ ہوں گے تو بچوں کو کس طرح کہہ سکتے ہیں یا اگر بچے اپنے اجلاسوں یا مختلف ذریعوں سے یہ حدیث سن لیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن لیں لیکن گھر میں وہ اپنے باپوں کو نمازوں کا پابندنہ دیکھیں تو ان پر کیا اثر ہو گا؟ یقینا ایسے باپوں کے بچے یہ خیال کریں گے کہ اس حکم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بلکہ ایک حکم کی اہمیت کو نظر انداز کرنے سے بچے کے دل پر ہر اسلامی حکم کی اہمیت کا اثر ختم ہو جائے گا۔ ایسے لوگ نہ صرف پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق خود گھاٹا پانے والوں میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی گھاٹا پانے والوں میں شامل کروا رہے ہوتے ہیں۔ دنیاوی خواہشات کے پورا کرنے کے لئے بچوں کی دنیاوی ترقی کے لئے تو ماں باپ فکر کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں لیکن جو اصل فکر کا مقام ہے اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی۔

پھر ایک حقیقی مومن کے لئے صرف نماز ہی ضروری نہیں ہے جس سے اس کا روحانی میل کچیل دُور ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں پانچ بار روزانہ نہائے تو اس کے جسم پر کوئی میل رہ جائے گی؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یقینا کوئی میل نہیں رہے گی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہ معاف کرتا اور کمزوریاں دور کرتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب الصلوات الخمس کفارۃحدیث528)۔ پانچ نمازیں پڑھنے والے کی روح پر کوئی میل نہیں رہتی۔

پس یہ ہے نماز کی اہمیت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خوبصورت مثال کے ذریعہ بیان فرمائی ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا صرف نماز پڑھنے کا ہی حکم نہیں ہے بلکہ حقیقی مومن مردوں کو اس روح کی میل اتارنے کے لئے مزید وضاحت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے گھر سے وضو کیا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے گھر یعنی مسجد کی طرف گیا تا کہ وہاں فرض نماز ادا کرے تو مسجد کی طرف جاتے ہوئے جتنے قدم اس نے اٹھائے ان میں سے اگر ایک قدم سے اس کا ایک گناہ معاف ہو گا تو دوسرے قدم سے اس کا ایک درجہ بلند ہوگا۔ یعنی ہر قدم ہی اسے ثواب دینے والا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب المشی الیٰ الصلاۃ … حدیث1406)

پھر ایک موقع پر باجماعت نماز کی اہمیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا کہ کیا مَیں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جو ہر وقت اس بات کے لئے بے چین تھے کہ ہمیں کب کوئی موقع ملے اور ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں، اس کو راضی کرنے کے طریقے سیکھیں، اس کا قرب حاصل کریں، اپنے گناہوں سے دوریاں پیدا کریں، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا اور مسجد میں دُور سے چل کر آنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہ گناہوں سے دُوریاں پیدا کرتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اتنا ہی نہیں یہ ایک قسم کا رباط ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطھارۃ باب فضل اسباغ الوضوء علی المکارہ حدیث475)۔ یعنی سرحد پر چھاؤنیاں قائم کرنے کے برابر ہے۔ جس طرح ملک اپنی حفاظت کے لئے سرحدوں پر چھاؤنیاں بناتے ہیں، فوجیں رکھتے ہیں یہ اسی طرح ہے۔

سرحدوں پر چھاؤنیاں کیوں قائم کی جاتی ہیں؟ جیسا کہ مَیں نے کہا اپنے ملک کی حفاظت کے لئے۔ اس لئے تا کہ دشمن کے حملے سے محفوظ رہا جائے اور حملے کی صورت میں فوراً مقابلے کے لئے تیار ہوا جا سکے۔

( خطبہ جمعہ 20؍ جنوری 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ جرمنی کی دوسری صدی کا پہلاآن لائن اجلاس

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2023