• 20 مئی, 2024

حضرت مولوی علی احمد حقانی کلانوری ؓ۔ راولپنڈی

حضرت مولوی علی احمد حقانی صاحبؓ اصل میں موضع کلانور ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔ آپ اندازًا 1865ء میں پیدا ہوئے۔ 1905ء سے پہلے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگئے تھے۔ آپ محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے اور اس ملازمت کے سلسلے میں راولپنڈی میں مقیم رہے۔ آپ ایک نیک سیرت اور منکسر المزاج انسان تھے۔ اسی طرح ایک اچھے شاعر تھے، آپ کا کلام جماعتی لٹریچر میں شائع شدہ ہے۔ آپ کی ایک نظم ‘‘گذارش بحضور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام’’ اخبار الحکم میں شائع ہوئی، جس کے شروع میں ایڈیٹر صاحب الحکم نے لکھا: ‘‘مندرجہ ذیل نظم مولوی علی احمد صاحب حقانی کلانوری نے جوش محبت اور حسن ارادت سے لکھی ہے جو اپنی سلاست اور عمدگی مضمون سے قابل قدر ہے۔ افسوس ہے ہماری جماعت میں اکثر لوگ نظم لکھتے ہیں لیکن وہ اس خدا داد ملکہ سے کام نہیں لیتے۔ نظم انسان کو فطرتًا پسند ہوتی ہے اور وہ مؤثر ہوتی ہے۔ اگر سلسلہ عالیہ کی سچائی کے دلائل نظم میں لکھے جاویں تو بہت مفید ہو سکتے ہیں۔’’

اے سایۂ رحمتِ خدائی
اے نورِ ظہور مصطفائی
مقبول جناب کبریائی
محبوب حضورِ مجتبائی
اے زینتِ مسندِ خلافت
اے زیورِ تختِ اولیائی
صدیوں رہے انتظار میں ہم
تب قرنِ سعید تیری پائی

(الحکم 10؍اکتوبر 1905ء صفحہ 3 کالم 1)

خلافت ثانیہ کے انتخاب کے موقع پر آپ قادیان میں ہی تھے لیکن غیر مبائعین کے زیر اثر خلافت سے الگ رہے، بعد ازاں حقیقت حال کھل جانے پر خلافت کی بیعت میں آگئے۔ حضرت شیخ فضل احمد بٹالوی رضی اللہ عنہ (وفات: 30؍اگست 1968ء۔ مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) جو اُن دنوں راولپنڈی میں تھے، بیان کرتے ہیں:
’’مارچ 1914ء میں ہمیں اطلاعات قادیان سے ملنے لگیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی طبیعت علیل ہے ….. ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کو تو مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے خاص اطلاع ملتی تھی، وہ مولوی علی احمد صاحب حقانی کو ساتھ لے کر قادیان چلے گئے اور وہاں ان کو مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر ہی رکھا ….. مولوی علی احمد صاحب حقانی جو عالم متبحر اور خاکسارانہ طرز کے انسان تھے اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کے ساتھ قادیان گئے تھے اور انہی کا اثر لے کر واپس آئے تھے ….. ملاقات میں معلوم ہوا کہ حقانی صاحب پیغامی حضرت کو راہ راست پر سمجھتے ہیں …. مَیں نے پوچھا کہ کیا آپ نے اُس شخص سے ملاقات کی جو اپنے آپ کو خلیفۃ المسیح کہتا ہے اور ببانگ دُہل اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہے کہ میرے منکر خدا تعالیٰ کی گرفت میں آ جائیں گے؟ کہنے لگے نہیں! اُنہیں تو مَیں نہیں مل سکا۔ مَیں نے کہا آپ تب تک صبر کریں جب تک میں آپ کی ان سے علیحدگی میں ملاقات نہ کرادوں۔ وہ مان گئےاور وعدہ کیا کہ قادیان جائیں گے۔ مَیں اور سید محمد اشرف صاحب ان کو اپریل 1914ء میں قادیان لے گئے۔ مَیں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں مولوی علی احمد صاحب حقانی کو اس وعدہ پر لایا ہوں کہ حضور سے علیحدگی میں ان کی ملاقات کرائی جائے گی۔ حضور نے فرمایا میں آج رات آپ دونوں کو بلاؤں گا، مسجد مبارک میں رات کے وقت انتظار کریں۔ ہم لوگ بڑی رات تک بیٹھے رہے مگر ہمیں کسی نے نہ بلایا۔ دوسرے دن عرض کیا کہ ہمیں نہیں بلایا گیا۔ فرمایا آج رات بلاؤں گا مگر وہ رات بھی گزر گئی اور ہم دونوں انتظار میں بڑی دیر تک مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے رہے۔ اب تیسرا دن آیا تو مَیں نے عرض کیا کہ ہماری رخصت کا یہ آخری دن ہے، کل صبح ہم نے ضرور واپس جانا ہے۔ فرمایا آج رات ضرور بلایا جائے گا۔ غالبًا 20؍اپریل تیسری رات تھی۔ ہم دونوں پھر مسجد مبارک میں انتظار میں بیٹھے رہے …. کسی نے کہا فضل احمد صاحب کون ہیں؟ ان کو حضرت نے بلایا ہے۔ خوشی خوشی ہم دونوں گئے، دستک دینے پر حضور نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں کو اپنے پاس بیٹھنے کا ارشاد فرمایا …. اب میں نے مولوی علی احمد صاحب سے کہا کہ لیجیے مولوی صاحب! مَیں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ….. مولوی صاحب نے کہا کہ میں تین روز تقریریں سنتا رہا ہوں، میرا دل صاف ہوگیا ہے اور کوئی بات پوچھنے والی باقی نہیں رہی ….. حضور نے ان کی بیعت بھی قبول فرمائی اور دعا کی۔ اب میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ….. مَیں نے حضرت کے حضور کسی وقت عرض کیا کہ مولوی صاحب میں سادگی بہت ہے، مجھے ڈر رہتا ہے کہ کبھی پیغامی انہیں دھوکا نہ دے دیں۔ ان دنوں نماز جمعہ میں ہی پڑھایا کرتا تھا۔ حضور نے فرمایا ان کو امام بنا لو۔ مجھے اور بھی خوشی ہوئی اور مولوی صاحب موصوف کو نمازوں میں امام بنا دیا گیا۔‘‘

(اصحاب احمد جلد سوم صفحہ 111تا 116مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)

اس کے بعد نہ صرف یہ کہ آپ مخلصانہ طور پر خلافت سے وابستہ رہے بلکہ تردّد میں پڑے دوسرے لوگوں کو بھی واپس خلافت کے سائے میں لانے کا باعث بنے۔آپ نے خلافت کی تائید میں خطوط لکھ کر دوستوں کو اس نعمت الٰہی سے وابستہ ہونے کی تلقین کی چنانچہ آپ کے ہم وطن حضرت مرزا رسول بیگ صاحب کو خلافت کی تائید میں خطوط لکھے جو الحمدللہ ان کی ہدایت پر منتج ہوئے۔

(اصحاب احمد جلد اول صفحہ 83از ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نیو ایڈیشن)

جیسا کہ شروع میں ذکر ہوا آپ کو شعر گوئی کا بڑا ملکہ تھا، آپ کا شعری کلام ’’گلدستہ حقانی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ (تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ478) آپ کی بعض نظمیں جماعتی لٹریچر میں شائع شدہ ہیں، مثلًا ایک نظم ’’یاران قدیم! بات سُن لو‘‘ کے عنوان سے الفضل میں شائع ہوئی ہے جس کے ابتدائی شعر یوں ہیں:

حُسن پر اپنے مری جان تو دیوانہ نہ ہو
شعلۂ شمع میں سوز پر پروانہ نہ ہو
صورت عکس پہ آئینہ کو الٹا ہے غرور
مُنہ تو دکھلائے اِدھر جب رُخ جاناں نہ ہو

(الفضل 25؍مئی 1914ء صفحہ 1)

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ بیان کرتے ہیں:
’’غالباً 1920ء میں حضرت خلیفہ ثانیؓ نے مجھے مخاطب کر کے حضرت مولوی علی احمد صاحب حقانی کا یہ شعر پڑھا

صورتِ عکس پر آئینہ کو الٹا ہے غرور
منہ تو دکھلائے اِدھر جب رُخ جاناں نہ ہو

اور فرمایا کہ حقانی صاحب کا یہ شعر بہت عمدہ ہے۔ خاکسار فضل احمد بیان کرتا ہے کہ حقانی صاحب نے اس شعر میں خواجہ کمال الدین صاحب کی تقاریر کی طرف اشارہ فرمایا ہےکہ اپنی تقاریر میں حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ مضامین کو چھوڑ کر کچھ بیان تو کر کے دیکھیں کہ کلام میں کوئی چاشنی بھی باقی رہ جاتی ہے۔‘‘

(اصحاب احمد جلد سوم صفحہ 117)

ایک نظم یوں ہے:

ہے آگ لگی ہوئی بجھائیں کیونکر
اُٹھتے ہیں دھوئیں، اُنہیں دبائیں کیونکر
کہنے میں نہ آئے اور نہ چپ رہنے دے
اس لذت درد کو بتائیں کیونکر

(الفضل 24؍مارچ 1917ء صفحہ 9)

ایک جگہ لکھتے ہیں:

دل درد مند باز آ بے اختیاریوں سے
ان ناصبوریوں سے، ان بے قراریوں سے
حقّانی! آ کہ جاں میں تری آگ اک لگاویں
گلزار اک کھلا دیں ان شعلہ کاریوں سے

(الفضل 17؍مارچ 1917ء صفحہ 2)

آپ نے 20؍فروری 1917ء کو وفات پائی، خبر وفات دیتے ہوئے اخبار الفضل نے لکھا:
’’ہمیں برادر بشیر احمد صاحب راولپنڈی کے خط سے یہ خبر معلوم ہوکر نہایت رنج اور افسوس ہوا کہ ان کے والد ماجد جناب مولوی علی احمد صاحب حقانی 20؍فروری کو ایک مدت مرض دق میں مبتلا رہ کر پروانہ عالم بقا ہوئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔ آپ نہایت مخلص، پُر جوش اور قابل احمدی ہونے کے ساتھ ہی نہایت بلند پایہ کے شاعر بھی تھے۔ آپ کا کلام بڑا مؤثر اور دلپذیر ہوتا تھا۔ ہمیں اس حادثہ جانکاہ میں آپ کے تمام خاندان سے دلی ہمدردی ہے۔‘‘

(الفضل 27؍فروری 1917ء صفحہ 2)

آپ کی وفات پر حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ سمیت جماعت کے دیگر بزرگان نے آپ کے متعلق نظمیں لکھیں۔

(الفضل 31؍مارچ 1917ء صفحہ 8۔ الفضل 10؍ مارچ 1917ء صفحہ 7۔
فاروق 29؍مارچ 1917ء صفحہ 2)

آپ کی اولاد میں دو بیٹوں کا علم ہوا ہے۔ ایک بیٹے محترم چوہدری بشیر احمد صاحب حقانی (لاہور) تھے جن کو کچھ عرصہ تک بطور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت مصلح موعودؓ خدمت کی توفیق ملی۔ ان کا شعری کلام اور مضامین بھی جماعتی لٹریچر میں شائع شدہ ہے۔ موٴرخہ 8؍نومبر 1967ء کو وفات پائی۔ دوسرے بیٹے محترم ماسٹر نذیر احمد رحمانی صاحب (وفات:8؍نومبر 1959ء) تھے جو تعلیم الاسلام ہائی سکول (قادیان و ربوہ) میں تیس سال تک تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ بہت علم دوست، سادہ طبیعت اور دعاؤں میں خاص شغف رکھنے والے تھے۔

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَھُمْ وَ ارْحَمْھُمْ

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ جرمنی کی دوسری صدی کا پہلاآن لائن اجلاس

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2023