• 20 مئی, 2024

گھوڑے پالنے کی تحریک اور کتاب الخیل کا قلمی نسخہ

گھوڑے پالنے کی تحریک اور کتاب الخیل کا قلمی نسخہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دور اندیشی

گھوڑا بطور سواری

قرآن کریم میں پانچ چھ مقامات پر گھوڑوں کا ذکر آیا ہے لیکن سورۃ لنحل آیت 9 میں خاص طور پر گھوڑے کے بطور سواری ذکر ملتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ سورۃ البقرہ آیت 240 (او رکبانا)
2۔ سورۃ آل عمران آیت 15 ( والخیل المسومۃ)
3۔ سورۃ الانفال آیت 61 (رباط الخیل)
4۔سورۃ النحل آیت 9 (والخیل)

اور اس نے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو (بھی) تمہاری سواری کے لئے اور (نیز )زینت (و شان )کے لئے( پیدا کیا ہے) اور( آئندہ بھی) وہ( تمہارے لئے سواری کا مزید سامان) جسے تم (ابھی) نہیں جانتے پیدا کرے گا۔

(تفسیر صغیرصفحہ 430)

5۔ سورۃ ص آیت 32 ( الصفنت الجیاد)
6۔ سورۃ الحشر آیت 7 ( من خیل)

ایک جگہ لکھا ہے:

Humans began to domesticate horses about 6000 years ago in the grasslands of Ukraine. Overtimes, these domesticated horses bred with wild horses. Eventually they spread throughout Europe and Asia, and then the rest of the world. So, the horse is an important figure in the mythology and folklore of many cultures. (Uniguide)

یعنی گھوڑے پالنے کا رواج چھ ہزار سال پہلے یوکرین کے سبزہ زاروں سے شروع ہوا۔ سالہا سال تک جنگلی گھوڑوں سے افزائش نسل کی جاتی رہی۔ حتی کہ گھوڑے سارے پورپ اور ایشیاء میں پھیل گئے اور پھر ساری دنیا میں۔ کئی تہذیبوں میں گھوڑوں کی دیومالی روایات اور روایتی قصے پھیل گئے۔

عمومًا ان گھوڑوں کو گھڑ سواری اور دیگر خصوصی مقاصد کے لئے الگ الگ نسلوں کے ملاپ سے پیدا کیا جاتا ہے۔ دنیا میں اس وقت گھوڑوں کی تین سو سے زیادہ اقسام ہیں۔ گھوڑے پر سواری نہ بھی کی جائے تو بھی گھوڑے کو بطور ساتھی سمجھ کر اس سے نفسیاتی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

گھوڑا عزم، برداشت، شجاعت، دفاع اور جہاد، سواری، خوبصورتی اور عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ انسان گھوڑوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور گھوڑے کو آزادی کا یونیورسل نشان گردانتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہی: ’’یہ ایک عجیب بات ہے کہ گھوڑے وہی کام کرتے ہیں جو سدھائے ہوئے اور تعلیم یافتہ ہوں۔ آج کل گھوڑوں کی تعلیم و تربیت کا اسی انداز پر لحاظ رکھا جاتا ہے اور اسی طرح ان کو سدھایا سکھایا جاتا ہے جس طرح بچوں کو سکولوں میں خاص احتیاط اور اہتمام سے تعلیم دی جاتی ہے اگر ان کو تعلیم نہ دی جائے اور وہ سدھائے نہ جائیں تو وہ بالکل نکمے ہوں اور وہ بجائے مفید ہونے کے خوفناک اور مضر ثابت ہوں۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودجلد 3 صفحہ 199)

حضرت مسیح موعودؑ کا ایک کشف

1868ء یا 1869ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا اور عالم کشف میں گھوڑوں پر سوار وہ بادشاہ دکھائے گئے جو آپ کی تصدیق کریں گے حضورؑ نے چار پانچ جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے عربی تصنیف لجۃ النور میں بھی اس کا ذکر فرمایا جس کا اردو ترجمہ یہ ہے۔

’’میں نے ایک مبشر خواب میں مخلص مومنوں اور عادل اور نیکو کار بادشاہوں کی ایک جماعت دیکھی۔ جن میں سے بعض اسی ملک (ہند) کے تھے اور بعض عرب کے۔ بعض فارس کے اور بعض شام کے بعض روم کے اور بعض دوسرے بلاد کے تھے۔ جن کو میں نہیں جانتا۔ اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے بہت برکتیں دوں گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور میں ان کو مخلصوں میں داخل کروں گا۔ یہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علام کی طرف سے مجھے ہوا۔‘‘

(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 11)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کا رؤیا

1972ء میں چین کے سفیر نے ربوہ کا دورہ کیا اور آپ سے شرف ملاقات حاصل کیا۔

اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ایک ملاقات میں (جس میں مولانا مبشر احمد صاحب کاہلوں جو اب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد اور مفتی سلسلہ بھی ہیں شامل تھے) اپنی ایک رؤیا کا ذکر کیا کہ آپ گھوڑوں پر کئی مر بیان کو چین بھجوا رہے ہیں۔

( کتابچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ صفحہ 28-29)

عالمی جنگ کا خطرہ اور گھوڑے پالنے کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اپنی خلافت کے آغاز سے آخر تک دنیا کو انذار فرماتے رہے کہ تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ نوع انسانی کے سر پر منڈلا رہا ہے۔

پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ عاجز سے (حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ) نے ایک دفعہ فرمایا کہ :
ہمیں گھوڑے سے اس لئے محبت ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محبت تھی چنانچہ اس محبت اور اس خطرہ کے پیش نظر کہ آئندہ ایٹمی جنگ کے نتیجے میں تمام سامان رسل و رسائل معدوم ہو جائیں گے حضور نے جماعت کو گھوڑے پالنے کی تحریک فرمائی۔ حضور نے فرمایا :
’’مجھے تو فکر ہے کہ جنگ اور ایٹمی لڑائی کے نتیجہ میں سب اسباب رسل و رسائل معدوم ہو جائیں گے اس لئے ابھی سے پاکستانیوں کو گھوڑوں میں دلچسپی لینی چاہئے تاکہ بوقت ضرورت سواری کا سامان میسر ہو۔ ‘‘

فرمایا :
’’ میری سکیم یہ ہے کہ جماعتیں کم از کم دس ہزار گھوڑے پاک عرب نسل کے رکھیں اس سکیم کو تکمیل تک پہنچانے کےلئے چند سال لگیں گے لیکن پاک عرب گھوڑوں کی نسل کی افزائش کا آغاز ہو چکا ہے۔

میرا ارادہ ہے کہ ربوہ میں بھی اور باہر کی جماعتوں میں بھی ایسے کلب جاری کروں جہاں گھوڑوں کی نگہداشت اور سواری وغیرہ کی تربیت دی جایا کرے۔

ایک شخص نے یہ اعتراض کیا ہے کہ خلیفۃ المسیح گھوڑوں کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور خود بھی گھوڑے پال رہے ہیں جب کہ گھوڑوں کی افزائش سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔

فرمایا :
معترض نے مذہب اسلام کو سمجھے بغیر اعتراض کر دیا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث صرف گھوڑوں کی افزائش، ان کی عادات کے مطالعہ اور ان کی نگہداشت کے بارہ میں ہیں۔میں نے ان احادیث کو اکٹھا کرنا شروع کیا ہے اور اس مجموعہ کا نام ’’کتاب الخیل‘‘ رکھا ہےاور یہ ایک ضخیم کتاب بنتی جا رہی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گھوڑے کی پیشانی میں تمہارے لئے قیامت تک برکت رکھی گئی ہے۔ کیا ایک بابرکت چیز کی نگہداشت مذہب کا حصہ نہیں ہے۔ پھر قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ وہ بھی گھوڑوں سے پیار کرتے تھے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی تلاش کرتے تھے۔ چنانچہ فرمایا:

اِذۡ عُرِضَ عَلَیۡہِ بِالۡعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الۡجِیَادُ فَقَالَ اِنِّیۡۤ اَحۡبَبۡتُ حُبَّ الۡخَیۡرِ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّیۡ ۚ حَتّٰی تَوَارَتۡ بِالۡحِجَابِ

(ص: 32-33)

ترجمہ: (اور یاد کر ) جب اس کے سامنے شام کے وقت اعلیٰ درجہ کے گھوڑے پیش کئے گئے تو اس نے کہا میں دنیا کی اچھی چیزوں سے اس لئے محبت رکھتا ہوں کہ وہ مجھے میرے رب کی یاد دلاتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے اوٹ میں آگئے پھر آگے چل کر آتا ہے کہ

رُدُّوۡہَا عَلَیَّ ؕ فَطَفِقَ مَسۡحًۢا بِالسُّوۡقِ وَالۡاَعۡنَاقِ

(ص: 34)

ترجمہ: (اس نے کہا )ان کو میری طرف واپس لاؤ (جب وہ آئے ) تو وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں کو تھپکنے لگا یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجھے ہر خوبصورت چیز اللہ کی یاد دلاتی ہے اور آپ نے ان گھوڑوں کو پیار کیا۔ تو کیا یہ قابل اعتراض بات ہے کہ خدا کا نبی گھوڑوں کو پیار کرتا پھرے ؟ ہر گز نہیں۔ فرمایا

معترض خود اسلام سے واقف نہیں ہے اس لئے بلا سوچے سمجھے اس کے دل میں وساوس پیدا ہو گئے۔

میں نے کچھ کتب جو گھوڑوں کے متعلق ہیں انگلستان سے منگوائی ہیں۔ ان سب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی عرب گھوڑوں کی افزائش پر منظم رنگ میں پہلی دفعہ توجہ فرمائی۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کی پرورش کے متعلق اتنی بیش بہا معلومات ہم کو دی ہیں کہ کئی انگریزی کتب میں بھی اتنی تفصیل موجود نہیں ہے۔

ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ایک عرب گھوڑا 900 میل تک بغیر پانی پئے چلتا چلا گیا۔

( حیات ناصر جلد اول صفحہ 628-631)

چستی اور جفا کشی کا سبق

’’حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے گھوڑوں کی افزائش سے یہ نتیجہ نکالا کہ عربی النسل گھوڑوں کی خوراک کم ہونے سے ان میں چستی اور جفاکشی باقی گھوڑوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اس لئے انسان کو بھی کم خوری کی عادت ڈالنی چاہئے تا کہ وہ صحت مند اور چاک و چوبند رہ سکے۔ ‘‘

حضورؒ نے اس سلسلہ میں فرمایا:
’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرمایا کرتے تھے کہ مومن کو کم کھانا چاہئے اور پر خوری سے بچنا چاہئے۔ اگر ہماری قوم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل پیرا ہو جائے تو علاوہ اعلیٰ صحت کے ملک سے غذائی قلت بھی جاتی رہے گی اور عوام کو اکثر بیماریوں سے نجات بھی مل جائے گی۔

ہمارے احمدیوں کو پر خوری سے اجتناب کرنا چاہئے اور ملک میں ایسی تحریک شروع کرنی چاہئے کہ یہ بات عوام کے ذہن نشین کرائی جائے کہ زیادہ کھانے سے نقصان ہی ہوتا ہے اپنی صحت کا بھی اور قومی معیشت کا بھی۔

کم کھانے سے بدن میں چستی اور جفاکشی کی عادت پیدا ہوتی ہے چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ عربی النسل گھوڑوں کی خوراک دوسرے گھوڑوں کی نسبت بہت ہی کم ہے لیکن ان میں چستی اور جفاکشی دوسرے گھوڑوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ ‘‘

(حیات ناصر جلد اول صفحہ 631)

آنحضرت ؐکے گھوڑے اور ان کے نام

سیرت نبوی کے مصنفین نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی سات گھوڑے، چھ خچر،دو گدھے اور سواری کے قابل تین اونٹ تھے۔

گھوڑوں کے نام یہ لکھے ہوئے ہیں:
السکب
المرتجز
اللحیف
اللزار۔ سلطان مقوقس نے ہدیہ بھیجا تھا
الظرف
الورد
سبحہ
کہا جاتا ہے ایک اور گھوڑا بھی تھا جس کا نام یعسوب تھا۔

(بحوالہ کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تالیف محمد رضا قاہرہ ترجمہ مولوی محمد عادل قدوس صفحہ765۔766)

سنت نبوی کی پیروی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بھی اپنے گھوڑوں کے نام رکھے ہوئے تھے: ورد، نسیم بخت، لبنی وغیرہ۔

اللہ داد صاحب سائیس کا بیان ہے کہ حضورؒ کو ان گھوڑوں سے اور گھوڑوں کوآپ سے بہت پیار تھا جب آپ اصطبل میں داخل ہوتے سب جانور دروازے پر آکر کھڑے ہو جاتے۔ آپ انہیں پیار کرتے اور اپنے ہاتھ سے چارہ ڈالتے۔

(حیات ناصر جلد اول صفحہ 632)

(انجینئر محمود مجیب اصغر۔ سویڈن)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ جرمنی کی دوسری صدی کا پہلاآن لائن اجلاس

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2023