• 18 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 6)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 6

خدا تعالیٰ سے صلح و موافقت پیدا کرو
اور دعاوٴں میں مصروف رہو

’’… میرے نزدیک تو استغفار سے بڑھ کر کوئی تعویذ و حرز اور کوئی احتیاط و دوا نہیں۔ میں تو اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے صلح و موافقت پیدا کرو اور دعاؤں میں مصروف رہو‘‘ فرمایا ’’میں تو بڑی آرزو رکھتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوں کہ میرے دوستوں کی عمریں لمبی ہوں تاکہ اس حدیث کی خبر پوری ہوجائے جس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں چالیس برس موت دنیا سے اٹھ جائے گی‘‘ فرمایا ’’اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ تمام جانداروں سے اس عرصہ میں موت کا پیالہ ٹل جائے گا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جو نافع الناس اور کام کے آدمی ہوں گے اللہ تعالےٰ ان کی زندگی میں برکت بخشے گا۔‘‘

(از خط مولوی عبدالکریم صاحبؓ یکم جولائی 1899ء مندرجہ الحکم جلد3 نمبر23 صفحہ5) (ملفوظات جلد اول صفحہ305)

نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے

نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے۔ اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بیقرار ہوکر اس کو دودھ دیتی ہے۔ الوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے۔ جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر گر پڑتا ہے۔ اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے۔ تو الوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے۔ اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے۔ اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے۔

بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اللہ تعالےٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا۔ بالکل غلط اور باطل ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کے صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے۔ اگر ان میں حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ایسا کہنے کی جرأت نہ کرتے۔ جب کبھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس پر اپنا فضل کیا ہے۔ یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے

عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ درد نیست و گرنہ طبیب ہست

خدا تعالیٰ توچاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آجاؤ۔ صرف اتنی شرط ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ۔ اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنادیتی ہے اپنے اندر کر کے دکھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالےٰ میں عجیب در عجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل و برکات ہیں۔ مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو۔ اگر سچی محبت ہو۔ تو خدا تعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہے اور تائیدیں کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ352-353، آن لائن ایڈیشن 1984)

خدا کے حضور اس کی خشیت سے متاثر ہوکر رونا دوزخ کو حرام کردیتا ہے

ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اور اس کی خشیت کا غلبہ دل پر ہو۔ اور اس میں ایک رقت اور گدازش پیدا ہو کر خدا کے لئے ایک قطرہ بھی آنکھ سے نکلے۔ تو وہ یقیناً دوزخ کو حرام کردیتا ہے۔ پس انسان اس سے دھوکہ نہ کھائے کہ میں بہت روتا ہوں۔ اس کا فائدہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آنکھ دکھنے آجائے گی۔ اور یوں امراض چشم میں مبتلا ہوجائیگا۔

میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے حضور اس کی خشیت سے متاثر ہوکر رونا دوزخ کو حرام کردیتا ہے۔ لیکن یہ گریہ و بکا نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ خدا کو خدا اور اس کے رسول کو رسول نہ سمجھے اور اس کی سچی کتاب پر اطلاع نہ ہو نہ صرف اطلاع بلکہ ایمان۔

طبیب جیسے ایک مریض کو جلاب دیتا ہے اور اس کو ہلکے ہلکے دست آتے ہیں وہ مرض کو ضائع نہیں کرتے۔ جبتک جگری دست نہ آویں جو اپنے ساتھ تمام مواد ردیہ اور فاسدہ کو لے کر نکلتے ہیں اور ہر قسم کی عفونتیں اور زہریں جنہوں نے مریض کو اندر ہی اندر مضمحل اور مضطرب کر رکھا تھا۔ ان کے ساتھ نکل جاتی ہیں۔ تب اس کو شفا ہوتی ہے۔ اسی طرح پر جگری گریہ و بکا آستانۂ الوہیت پر ہر ایک قسم کی نفسانی گندگیوں اور مفسد مواد کو لے کر نکل جاتا ہے۔ اور اس کو پاک و صاف بنادیتا ہے۔ اہل اللہ کا ایک آنسو جو توبۃ النصوح کے وقت نکلتا ہے۔ ہوا وہوس کے بندے اور ریاکار اور ظلمتوں کے گرفتار کے ایک دریا بہا دینے سے افضل اور اعلیٰ ہے کیونکہ وہ خدا کےلئے ہے۔ اور یہ خلق کے لئے یا اپنے نفس کے واسطے۔

اس بات کو کبھی اپنے دل سے محو نہ کرو۔ کہ خدا تعالےٰ کے حضور اخلاص اور راستبازی کی قدر ہے۔ تکلف اور بناوٹ اس کے حضور کچھ کام نہیں دے سکتی۔

اب اگر یہ سوال ہو کہ پھر اس درجہ کے حصول کے لئے کیا کیا جائے اور قرآن کریم نے اس درجہ پر پہنچنے کا کیا ذریعہ بتایا ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کیلئے دو باتیں بطور اصول کے رکھی ہیں۔ اول یہ کہ دعا کرو۔ یہ سچی بات ہے۔ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا۔ (النساء: 29) انسان کمزور مخلوق ہے۔ وہ اللہ تعالےٰ کے فضل اور کرم کے بدوں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔اس کا وجود اور اس کی پرورش اور بقاء کے سامان سب کے سب اللہ تعالےٰ کے فضل پر موقوف ہیں۔ احمق ہے وہ انسان جو اپنی عقل و دانش یا اپنے مال و دولت پر ناز کرتا ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا عطیہ ہے۔ وہ کہاں سے لایا۔ اور دعاء کے لئے یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنے ضعف اور کمزوری کا پورا خیال اور تصور کرے جوں جوں وہ اپنی کمزوری پر غور کریگا۔ اسی قدر اپنے آپ کو اللہ تعالےٰ کی مدد کا محتاج پائے گا۔ اور اس طرح پر دعا کے لئے اس کے اندر ایک جوش پیدا ہوگا۔ جیسے انسان جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور دکھ یا تنگی محسوس کرتا ہے۔ تو بڑے زور کے ساتھ پکارتا اور چلاتا ہے اور دوسرے سے مدد مانگتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ اپنی کمزوریوں اور لغزشوں پر غور کریگا۔ اور اپنے آپ کو ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج پائیگا۔ تو اس کی روح پورےجوش اور درد سے بیقرار ہو کر آستانۂ الوہیت پر گریگی اور چلائے گی اور یارب یارب کہہ کر پکارے گی۔ غور سے قرآن کریم کو دیکھو۔ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پہلی ہی سورت میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی تعلیم دی ہے۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ ﴿۷﴾ (الفاتحہ: 6-7)

دعا تب ہی جامع ہوسکتی ہے کہ وہ تمام منافع اور مفاد کو اپنے اندر رکھتی ہو اور تمام نقصانوں اور مضرتوں سے بچاتی ہو۔ پس اس دعا میں تمام بہترین منافع جو ہو سکتے ہیں اور ممکن ہیں وہ اس دعا میں مطلوب ہیں۔ اور بڑی سے بڑی نقصان رساں چیز جو انسان کو ہلاک کردیتی ہے اس سے بچنے کی دعا ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ410-412، آن لائن ایڈیشن 1984)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ ہنڈورس

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اپریل 2022