• 25 اپریل, 2024

جنگ بدر میں صحابہ کی جاں نثاری اور وفاداری از افاضات حضرت مصلح موعودؓ

اس آیت کے متعلق بھی جس کو میں ابھی بیان کرنے لگا ہوں مفسرین کو اسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہوا اور ان کے دل میں اس کے متعلق شبہات پیدا ہوئے لیکن انہوں نے اس کے کچھ حصہ کو حل کرنے کی کوشش کی اور باقی سے یونہی گزر گئے اور انہوں نے اس امر کو ملحوظ نہیں رکھا کہ اس آیت کے سارے پہلوؤں پر جتنے شبہات پیدا ہو سکتے تھے یا جتنے اعتراضات اس پر وارد ہو سکتے تھے ان سب کا کوئی حل سوچا جائے۔

یہ آیتیں سورہ انفال کی ہیں اور جنگ بدر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَمَا أَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِن بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِہُونَ۔یُجَادِلُونَکَ فِیْ الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ کَأَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَی الْمَوْتِ وَہُمْ یَنظُرُونَ۔(الانفال:6و7) فرماتاہے کہ چونکہ تیرے ربّ نے تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا اور مؤمنوں میں سے ایک فریق اسے ناپسند کرتا تھا وہ تجھ سے حق کے معاملہ میں بحث کرتے ہیں بعد اس کے کہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے اور اس بحث میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آرہی ہے۔ ان آیات کے متعلق جوسوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ صحابہؓ حق کے کھل جانے کے بعد کس طرح بحث کر سکتے تھے اور ان کو حق کی طرف جانا موت کیوں معلوم ہوتا تھا اور کیوں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو اپنے سامنے موت نظر آرہی تھی۔ یہ معنے تو صحابہؓ کی شان کے بالکل خلاف ہیں کیونکہ صحابہ نے دین کے لئے جو قربانیاں کیں اور اپنی جان ،مال اور عزت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کیں ان کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ صحابہؓ حق کو قبول کرنے سے جی چراتے تھے اور حق کی طرف جانا ان کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا نَعُوْذُ بِاللّٰہ وہ موت کی طرف دھکیلے جار ہے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آرہی ہے، اسی طرح یہ کہنا کہ صحابہؓ جنگ کو ناپسند کرتے اور اس سے جی چراتے تھے یہ معنی بھی ایسے ہیں جو صحابہؓ کی تنقیص کرنے والے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک ناپسندیدگی کا سوال ہے ایک مؤمن کبھی جنگ اور کشت وخون کو پسند نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہے کہ جنگ وجدال اور شرارت اور فساد کو چھوڑ کر صلح کر لے لیکن اگر کوئی ایسا موقع آجائے کہ جنگ ناگزیر ہو جائے تو مومن جیسا بہادر اور نڈر بھی کوئی نہیں ہوتا اور وہ موت کی کبھی پرواہ نہیں کرتا بلکہ وہ موت کو اپنے لئے خوشی کا موجب سمجھتا ہے اور یہی حالت صحابہؓ کی تھی۔

ہمیں تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ جنگوں میں اس طرح جاتے تھے کہ ان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جنگ میں شہید ہونا ان کے لئے عین راحت اور خوشی کا موجب ہے اور اگر ان کو لڑائی میں کوئی دکھ پہنچتا تھا تو وہ اس کو دکھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ سُکھ خیال کرتے تھے۔ چنانچہ صحابہؓ کے کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا۔ مثلاً وہ حفاظ جو رسول کریم ﷺ نے وسطِ عرب کے ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجے تھے ان میں سے حرام بن ملحان اسلام کا پیغام لیکر قبیلۂ عامر کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس گئے اور باقی صحابہؓ پیچھے رہے۔ شروع میں تو عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں نے منافقانہ طور پر ان کی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے ایک خبیث کو اشارہ کیا اور اس نے اشارہ پاتے ہی حرام بن ملحان پر پیچھے سے نیزہ کا وار کیا اور وہ گرگئے۔ گرتے وقت ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ یعنی مجھے کعبہ کے ربّ کی قسم میں نجات پا گیا۔ پھر ان شریروں نے باقی صحابہؓ کا محاصرہ کیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے اس موقع پر حضرت ابو بکر ؓ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہؓ جو ہجرت کے سفر میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ تھے ان کے متعلق ذکرآتا ہے بلکہ خود ان کا قاتل جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فہیرہ ؓ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا فُزْتُ وَاللّٰہِ یعنی خدا کی قسم! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہؓ کے لئے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی۔

اسی طرح ایک اور صحابیؓ کا واقعہ تاریخوں میں آتا ہے ان کا نام ضرار تھا رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جو جنگیں ہوئیں ان میں سے ایک جنگ میں یہ صحابی شریک ہوئے ۔ عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ تھا ایک عیسائی جرنیل جو بڑا بہادر اور جنگجو مشہور تھا اس نے مبارز طلبی میں مسلمانوں کے دو آدمی مار دئیے تھے۔ اُس وقت لڑائی میں یہ رواج تھا کہ فریقین کے بہادر فرداً فرداً نکلتے تھے اور مقابلہ کرتے تھے اس مقابلہ کو مبارز طلبی کہا جاتا ہے یعنی ایک فریق کا کوئی آدمی میدان میں آجاتا تھا اور وہ دوسرے فریق کے کسی نامی بہادر کو چیلنج دیتا تھا ان دونوں میں سے جو شخص جیت جاتا تھا اس کی قوم خوشی کے نعرے لگاتی تھی۔ جب عیسائی جرنیل کے ہاتھوں مبارز طلبی میں دو آدمی شہید ہو چکے تو حضرت ضرارؓ اس کے مقابلہ کے لئے نکلے۔ یہ چوٹی کے جرنیلوں میں سے تھے اور بڑے دلیر اور بہادر تھے جب یہ مقابلہ کے لئے نکلے تو مسلمانوں نے خیال کیا کہ اب یہ عیسائی جرنیل سے بدلہ لے لیں گے اور عیسائی جرنیل کا جو رُعب قائم ہو چکا ہے وہ جاتا رہے گا۔ مگر جب ضرارؓ اس عیسائی کے سامنے پہنچے تو ابھی مقابلہ شروع نہیں ہوا تھا کہ بھاگ کر اپنے خیمے میں آگئے وہ چونکہ مسلمانوں کے چوٹی کے جرنیل تھے اور بڑے بہادر اور آزمودہ کارتھے ان کے اس طرح بھاگنے سے مسلمانوں کو بڑی ذلّت محسوس ہوئی اور وہ حیران وششد ر رہ گئے کہ اتنا بڑا بہادر بغیر مقابلہ کے بھاگ آیا یہ دیکھ کر مسلمانوں کے کمانڈر نے ایک شخص کو دَوڑایاکہ جا کر ان سے پوچھے کہ ان کے بھاگنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ شخص جب خیمہ کے پاس پہنچا تو حضرت ضرارؓ خیمہ سے نکل رہے تھے اس شخص نے جاتے ہی ان سے کہا یہ آپ نے کیا کیا کہ اس طرح بغیر لڑائی کے بھاگ آئے تمام اسلامی لشکر پر سکتہ عالَم طاری ہے اور آپ کے اس طرح بھاگ نکلنے نے مسلمانوں کو سخت بے چینی اور اضطراب میں مبتلاکر دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ضرارؓ مسکرائے اور انہوں نے کہا شاید تم لوگوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ میں موت سے ڈر کر بھاگاہوں خدا کی قسم! ہر گز نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ یہ عیسائی جرنیل جو بڑا جری اور بہادر مشہور ہے اس نے ہمارے دو آدمی ماردئیے ہیں اس کے بعد میں اس کے مقابلہ کے لئے نکلا اور اس کے سامنے پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ میں نے زرہ پہنی ہوئی ہے یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے نفس کو ملامت کی کہ تو نے زرہ پہن رکھی ہے تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دے گا جب خداتعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ ضرار کیا تم موت سے اتنے ڈرتے تھے کہ تم نے زرہ پہن لی تھی تو اُس وقت میں کیا جواب دوں گا اس لئے میں وہاں سے بھاگا کہ جاکر زرہ اُتار آؤں چنانچہ اب میں زرہ اُتار کر مقابلہ کے لئے جا رہا ہوں تاکہ اگر میں مارا جاؤں تو خدا تعالیٰ کو کہہ سکوں کہ مجھے آپ سے ملنے کا اِس قدر شوق تھا کہ میں نے جنگ میں مقابلہ کے وقت زرہ بھی اُتار دی تھی۔

اسی طرح حضرت خالدبن ولید کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب وہ فوت ہونے لگے تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ زارزار رورہے تھے۔ کسی نے ان سے کہا خالد! یہ آپ کے لئے رونے کا کونسا موقع ہے؟ آپ نے اسلام کی بیش بہا خدمات سر انجام دی ہیں اور قابل قدر قربانیاں کی ہیں اس لئے یہ موقع آپ کے رونے کا نہیں بلکہ اِس وقت تو آپ خدا کے پاس جا رہے ہیں آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ آپ خدا تعالیٰ سے انعامات پائیں گے۔حضرت خالدؓ نے یہ سُن کر جواب دیا میں اس لئے نہیں رورہا کہ میں اس دنیا کو چھوڑنے لگا ہوں یا موت سے ڈر رہا ہوں بلکہ میرے رونے کی اور ہی وجہ ہے، ذرا میری دائیں ٹانگ سے پاجامہ اُٹھا کر دیکھو کیا کوئی جگہ ایسی نظر آتی ہے جہاں تلواروں کے نشان نہ ہوں، اس شخص نے پاجامہ اُٹھا کر دیکھا اور کہا آپ کی ساری ٹانگ پر زخموں کے نشان ہیں، خالدؓنے کہا اب میری بائیں ٹانگ بھی دیکھو کہ کیا کوئی جگہ ایسی ہے جہاں تلوار کے نشان نہ ہوں۔ اس نے پاجامہ اُٹھایا اور دیکھ کر کہا واقعی اس ٹانگ پر بھی کوئی جگہ زخموں سے خالی نہیں ہے۔ خالدؓ نے کہا اچھا اب تم میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا کر دیکھو کہ کیا کوئی جگہ زخموں سے خالی نظر آتی ہے؟ اس نے پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا اور دیکھ کر کہا نہیں کوئی جگہ خالی نہیں۔ خالدؓ نے کہا اب میری چھاتی پر سے کپڑا اُٹھا کر دیکھو کہ کیا کوئی جگہ زخموں سے خالی ہے؟ اس نے کپڑا ہٹایا اور دیکھ کر کہا نہیں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار کے نشان نہ ہوں۔ اس پر خالدؓ اور بھی زیادہ زور سے رونے لگ گئے اور پھر انہوں نے اسی حالت میں روتے ہوئے کہا کہ میں نے شہادت کے شوق میں اپنے آپ کو اسلامی جنگوں میں ہر خطرناک مقام پر کھڑا کیا، جس جگہ بھی زورکا رَن پڑتا میں دوڑتے ہوئے وہاں پہنچ جاتا اور میری ہمیشہ یہ تمنا رہی کہ میں لڑتے لڑتے اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو جاؤں مگر نامعلوم میری کون سی شامتِ اعمال تھی کہ جس کے نتیجہ میں مَیں شہادت سے محروم رہا۔ میرے جسم پر ایک انچ جگہ بھی ایسی نہیں جہاں تلواروں کے نشان نہ ہوں مگر باوجود اس کے کہ میں ایسی بے جگری سے لڑا اور باوجود اِس کے کہ میری خواہش تھی کہ میں شہید ہو جاؤں آج یہ حالت ہے کہ بجائے میدانِ جنگ کے میں بستر پر پڑا جان دے رہا ہوں اور یہی چیز ہے جو مجھے رُلا رہی ہے ان واقعات کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی شخص یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ صحابہؓ موت سے ڈرتے تھے۔

پھر یہ سوال کہ بدر کی جنگ کے وقت صحابہؓ حق کے کھل جانے پر آپ کے ساتھ بحث کرتے تھے اور وہ یوں سمجھتے تھے کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آرہی ہے ایک ایسی بات ہے جو صحابہؓ کی طرف قطعاً منسوب نہیں ہو سکتی۔ بدر کی جنگ کے متعلق تو متواتر حدیثوں سے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور تمام حدیثیں اس پر متفق ہیں کہ صحابہؓ جب مدینہ سے نکلے تو ان کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ کوئی جنگ پیش آنے والی ہے وہ تو اس قافلہ کی روک تھام کے لئے نکلے تھے جو ابوسفیان کی سرداری میں شام کی طرف سے واپس مکہ آرہا تھا اور اس قسم کے قافلوں کی روک تھام اس لئے ضروری تھی کہ یہ قافلے مسلح ہوتے تھے اور مدینہ سے بالکل قریب ہو کر گزرتے تھے اور وہ مسلمانوں کے خلاف قبائلِ عرب میں سخت اشتعال انگیزی کرتے اور اردگرد کے علاقہ کو مرعوب کرتے تھے۔ اس دفعہ ابوسفیان چونکہ ایک بڑے قافلہ کے ساتھ گیا تھا اور بہت بڑی تجارت کر کے کافی نفع حاصل کر کے واپس آرہا تھا اس کے متعلق خبریں پہنچ رہی تھیں کہ وہ کوئی شرارت کرے گا اس لئے صحابہؓ جنگ کے خیال سے نہیں بلکہ اس قافلہ کی شرارتوں کی روک تھام کے لئے مدینہ سے نکلے تھے اور پھر سارے صحابہؓ مدینہ سے نکلے بھی نہ تھے بلکہ وہی تعداد جس کو بعد میں لشکرِ قریش کا مقابلہ کرنا پڑا نکلی تھی اور باقی صحابہؓ مدینہ میں ہی رہ گئے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ قافلہ کی روک تھام کے لئے اسی قدر تعدادکافی ہے۔ تمام تاریخیں اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہؓ جنگ کے خیال سے نہیں نکلے تھے بلکہ جنگ کی خبر انہیں اس وقت ہوئی جب رسول کریم ﷺ نے ان کو بتایا کہ ہمیں قافلہ کانہیں بلکہ لشکر کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یا تو مدینہ میں ہی اور یا مدینہ سے نکلتے وقت رسول کریم ﷺ کو الہاماً بتا دیا تھا کہ جنگ پیش آنے والی ہے مگر صحابہؓ کو اِس کے متعلق کوئی علم نہ تھا۔ غرض جب تاریخ کہتی ہے کہ صحابہؓ کو جنگ کے متعلق کوئی علم ہی نہ تھا، احادیث کہتی ہیں کہ صحابہؓ کوجنگ کا کوئی علم نہ تھا تو اس آیت میں کٰرِھُوْنَ کا کیا مطلب ہوا۔ عیسائی مؤرخین کہتے ہیں کہ صحابہؓ مدینہ سے اس لئے نکلے تھے کہ وہ قافلہ کو لوٹیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ قافلہ کو لوٹنے کے خیال سے نکلے تھے تو ان کوخوشی ہونی چاہئے تھی نہ کہ رنج اور اس آیت میں کٰرِھُوْنَ نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ فٰرِحُوْنَ ہونا چاہئے تھا کٰرِھُوْنَ کا لفظ بتاتا ہے کہ عیسائی مؤرخین کا یہ خیال کہ صحابہؓ نَعُوْذُ بِاللّٰہ اس لئے گئے تھے کہ قافلہ کو لوٹیں گے بالکل غلط ثابت ہوتا ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ یہاں جو کٰرِھُوْنَ کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال فرمایاہے اس کا کیا مطلب ہے اور اس کی ضمیر کس طرف جاتی ہے؟ یہ کہنا بالکل غلط اور خلافِ واقعہ بات ہے کہ صحابہؓ لڑائی سے گھبراتے تھے اور اس کو ناپسند کرتے تھے کیونکہ اُس وقت لڑائی کا تو کوئی سوال ہی نہ تھاوہ تو قافلہ کی روک تھام کے لئے نکلے تھے کیونکہ قافلہ والے ہمیشہ مدینہ کے قریب پہنچ کر بہت بڑا جشن منایا کرتے اور قبائل کے اندر اشتعال پھیلاتے تھے اورکہتے تھے مدینہ والے ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتے۔ پس یہاں کَرْھًا کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَأَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَی الْمَوْتِ وَہُمْ یَنظُرُون کہ وہ حق کے بارے میں جبکہ حق کھل چکا تھا اس طرح جھگڑتے اور بحث کرتے تھے کہ گویاوہ موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں اور موت اُن کو سامنے نظر آرہی تھی حالانکہ تاریخ سے جو کچھ پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ نہ صحابہؓ نے کبھی رسول کریم ﷺ سے مجادلہ کیا اور نہ وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے تھے بلکہ وہ تو ایک قافلہ کی روک تھام کے لئے گئے تھے۔ یہ ساری مشکلات ایسی ہیں جو اس آیت کے معنی کرنے میں اُلجھن پیدا کر دیتی ہیں۔ مفسرین کو اس آیت کے معنی کرتے وقت بھی یہ مشکلات پیش آئیں اور ان کے دل میں اِس آیت پر سوالات بھی پیدا ہوئے مگر انہوں نے اس مشکل کا حل باوجود کوشش کے کوئی نہ نکالا۔ ابن حیان نے اس پر بڑا غور کیا ہے وہ نیک آدمی تھے اور ان کی تفسیر رطب ویابس سے پاک ہے، وہ فطرت کے مطابق چلتے تھے۔جب وہ اِس آیت پر پہنچے تو اُن کو یہ آیت چبھی اور اُنہوں نے اس پرغور کیا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ آخر انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں کہ اے اللہ! یہ مشکل مجھ سے تو حل نہیں ہو سکتی اب تو ہی بتا کہ اس آیت کا کیا مفہوم ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کیں تو مجھے رؤیا میں بتایا گیا کہ یہاں نَصْرَکَ کا لفظ محذوف ہے اور انہوں نے اسی کے مطابق معنی کر دیئے لیکن چونکہ اُس زمانہ میں اسلام غالب تھا اور اسلام پر دشمنوں کی طرف سے اعتراضات نہ ہوتے تھے اس لئے انہوں نے اس تھوڑے سے حل پر ہی اکتفا کر لیا اور سمجھنے لگ گئے کہ اب یہ مشکل حل ہوگئی ہے۔ مگر اب ہمارے سامنے دشمن کے اعتراضات کے انبار لگے ہیں اور دشمنوں نے قرآن کریم کے ہر ایسے مقام پر جہاں پُرانے مفسرین کو معنی کرنے میں مشکل پیش آتی تھی اعتراض کر دیئے ہیں ۔پُرانے زمانہ کے عیسائی تو قرآن کریم نہ پڑھتے تھے اس لئے وہ اعتراض نہیں کر سکتے تھے لیکن اب بیسیوں عیسائیوں نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور تفسیریں لکھی ہیں اور وہ ایسے مقامات پر جی بھر کے اعتراض کرتے ہیں اس لئے جس رنگ میں آجکل اسلام کے خلاف اعتراضات ہوتے ہیں اُس زمانہ میں نہ تھے اسی لئے ان مفسرین کے لئے یہ دقتیں بھی نہ تھیں جو ہم کو اس زمانہ میں پیش آرہی ہیں۔ پُرانے مفسرین کے سامنے چونکہ اعتراضات نہ ہوتے تھے اس لئے وہ لفظی ترجمہ کر کے یا کسی آیت کے متعلق دقت پیش آنے پر اس کے ایک ٹکڑے کو حل کر کے گزر جاتے تھے مگر اِس زمانہ میں جب عیسائیوں نے قرآن کریم کو پڑھا اور اس کے ترجمے کئے تو انہوں نے اس قسم کے مقامات پر پہنچ کر بے شمار اعتراضات کر ڈالے اور بال کی کھال اُتار لی۔ عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے بلکہ قرآن کریم کے عربی زبان میں نازل ہونے کی وجہ ہی یہی ہے کہ اس کے اندر بہت سے الفاظ محذوف ہیں اور اس اختصار کی وجہ سے تھوڑی سی عبارت میں بہت بڑے مضامین بیان کر دئیے گئے ہیں۔ اگر انسان محذوف عبارت کی طرف توجہ نہ کرے تو وہ سخت مشکل میں پڑجاتا ہے۔ مثلاً کَمَا کا ترجمہ ’’جس طرح‘‘ بھی ہے اور ’’چونکہ‘‘ بھی اور ’’جس طرح‘‘ اور ’’چونکہ‘‘ ایسے الفاظ ہیں کہ اگر ان کا جواب نہ آئے تو دوسرا فقرہ چل ہی نہیں سکتا۔ مثلاً ہم اگر یہ کہیں کہ جس طرح تمہارے ساتھ فلاں معاملہ گزرا تھا اور اتنا کہہ کر ہم چپ ہو جائیں تو یہ فقرہ نامکمل رہے گا۔ پھر ’’چونکہ‘‘ کا لفظ بھی اسی طرح کا ہے اور جس فقرہ میں یہ لفظ استعمال ہوگا اس کے آگے اسی فقرہ میں اس کا جواب بھی ہونا چاہئے۔ مثلاً کوئی شخص کہے کہ چونکہ میرے پاس روپیہ نہ تھا اور اس کے بعد وہ چپ ہو جائے تو اس فقرہ کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے اس لئے یہ فقرے اس طرح ہوںگے کہ جس طرح تمہارے ساتھ فلاں معاملہ گزرا تھا اسی طرح زید کے ساتھ بھی یہ معاملہ گزرا یاچونکہ میرے پاس روپیہ نہ تھا اس لئے میں سامان نہ خرید سکا۔ پس جس فقرہ کے اندر ’’جس طرح‘‘ اور ’’چونکہ‘‘ کے الفاظ آجائیں ان کا جواب بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ فقرہ بالکل بے معنی ہو جاتا ہے۔

ابن حیان بڑے نحوی آدمی تھے ان کا ذہن اس آیت کے معنوں میں مشکل پیش آنے پر اس طرف گیا کہ اس میں کچھ حصہ محذوف ہے اور اس کیلئے جب انہوں نے دعائیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نَصْرَکَ کا لفظ بتایا اور انہوں نے اسی کے مطابق معنی کردیئے لیکن اپنے زمانہ کی کم مشکلات اور شدتِ اعتراض نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اِس پر زیادہ غور نہ کیا اس لئے اُنہوں نے نَصْرَکَ کو ہُمْ یَنْظُرُوْنَ کے بعد لگایا ہے یعنی ہُمْ یَنْظُرُوْنَ نَصْرَکَ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صرف اتنا بتایا تھا کہ نَصْرَکَ کا لفظ محذوف ہے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ کونسے مقام پر چسپاں ہوتاہے مگر انہوں نے نَصْرَکَ کو ہُمْ یَنْظُرُوْنَ کے بعد رکھ دیا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہر زمانے کے لوگوں پر اپنے فضل نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علامہ ابن حیان کو تو بتایا کہ اس آیت میں نَصْرَکَ کا لفظ محذوف ہے مگر میں نے جب اس آیت پر غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ انکشاف فرمایاکہ یہاں خالی نَصْرَکَ محذوف نہیں بلکہ اس کے ساتھ عَلٰی اَعْدَآئِکَ بھی ہے یعنی تیرے دشمنوں پر تیرا غلبہ۔ ان الفاظ کو اس آیت میں لگانے سے یہ مشکل حل ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِہُونَ یعنی چونکہ تیرے رَبّ نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا تھا اس لئے ضروری تھا کہ وہی تجھے تیرے دشمنوں پر غلبہ بھی عطا فرماتا۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ جس نے گھر سے آپؐ کو نکالا تھا اُسی پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی تھی کہ وہ آپؐ کو دشمنوں پر غلبہ عطا فرماتا۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جب تم کوئی ایسا کام اپنے غلام کے سپرد کرو جو اُس کی طاقت سے باہر ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اس کی مدد کرو اور اس کام میں اس کا ہاتھ بٹاؤ۔ اگر ایک انسان پر یہ فرض ہے جو محدود طاقت رکھتا ہے کہ وہ اگر اپنے غلام کو کوئی ایسا کام سپرد کرے جو اُس کی طاقت سے بالا ہو تو اُس کام میں اس کا ہاتھ بٹائے تو خدا جو بہت بڑی اور بے شمار طاقتوں کا مالک ہے اُس پر اِس بات کی کیوں ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔ اگر وہ کوئی ایسا کام اپنے بندے کے سپرد کرے جو اُس کی طاقت سے بالا تر ہو تو اس کی مدد بھی فرمائے۔ اس طرح اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ چونکہ تیرے ربّ نے تجھے دشمنوں کے مقابلہ کے لئے تیرے گھر سے نکالا اس لئے لازمی تھا کہ وہ تیری مدد بھی کرتا اور تجھے دشمن پر غلبہ عطا کرتا۔ ان معنوں میں کسی قسم کی اُلجھن نہیں رہ جاتی اور مطلب بالکل صاف اور واضح ہو جاتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بدر کے موقع پر صحابہ 313 کی تعداد میں نکلے تھے اگر وہ بجائے 313 کے چھ یا سات سَو کی تعداد میں نکلتے اور وہ صحابہ بھی شامل ہو جاتے جو مدینہ میں ٹھہر گئے تھے تو لڑائی ان کے لئے زیادہ آسان ہو جاتی مگر خدا تعالیٰ نے محمدرسول اللہ ﷺ کو تو اس جنگ کے متعلق بتا دیا لیکن ساتھ ہی منع بھی فرما دیا کہ جنگ کے متعلق کسی کو بتانا نہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض گزشتہ پیشگوئیوں کو پورا کرنا چاہتا تھا مثلاً صحابہؓ کی تعداد تین سَو تیرہ تھی اور بائبل میں یہ پیشگوئی موجود تھی کہ جو واقعہ جدعون کے ساتھ ہوا تھا وہی واقعہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کو پیش آئے گا اور جب جدعون نبی اپنے دشمن سے لڑے تھے تو ان کی جماعت کی تعداد 313 تھی۔ اب اگر صحابہؓ کو معلوم ہو جاتا کہ ہم جنگ کے لئے مدینہ سے نکل رہے ہیں تو وہ سارے کے سارے نکل آتے اور ان کی تعداد 313 سے زیادہ ہو جاتی۔ اِسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اس امر کو مخفی رکھا تا کہ صحابہؓ کی تعداد 313 سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ 313 صحابہؓ کا جانا ہی پیشگوئی کو پورا کر سکتا تھا اس لئے ضروری تھا کہ جنگ کی خبر کو مخفی رکھا جاتا اور میدانِ جنگ میں پہنچ کر صحابہؓ کوبتایا گیا کہ تمہارا مقابلہ لشکرِ قریش سے ہوگا۔ اللہ نے اِس آیت میں کَمَا أَخْرَجَکَ رَبُّکَ کہہ کر بتا دیا کہ رسول کریم ﷺ کا مدینہ سے نکلنا خدا کے حکم کے ماتحت تھا نہ کہ اپنے طور پر۔ اب آگے جو فَرِیْقاً مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکَارِہُون کے الفاظ آئے ہیں اس کے لئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر مضمون کا تعلق پہلے مضمون کے ساتھ ہوتا ہے اب ہم سارے مضمون کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کٰرِھُوْنَ کا تعلق أَخْرَجَکَ کے ساتھ ہے کیونکہ أَخْرَجَکَ میں کُمْ کی ضمیر نہیں بلکہ کَ کی ضمیر ہے اس لئے کٰرِھُوْنَ کو أَخْرَجَکَ کے ساتھ چسپاں کیا جائے گا اور یہ اس طرح بن جائے گا کٰرِھُوْنَ عَلٰی خُرُوْجِکَ۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جہاں عشق ہوتا ہے وہاں کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ میرے محبوب کو کوئی تکلیف پہنچے اور کوئی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا محبوب لڑائی میں جائے بلکہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ محبوب لڑائی سے بچ جائے۔ اسی طرح صحابہؓ بھی اِس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ آپؐ لڑائی پر جائیں۔ صحابہؓ اِس بات کو نا پسند نہیں کرتے کہ ہم لڑائی پر کیوں جائیں بلکہ ان کو رسول کریم ﷺ کا لڑائی پر جانا ناپسند تھا اور یہ ان کی طبعی خواہش تھی جو ہر محب کو اپنے محبوب کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ بدر کے قریب پہنچے تو آپ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارا مقابلہ قافلہ سے نہیں بلکہ فوج کے ساتھ ہوگا۔ پھر آپ نے ان سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا صلاح ہے؟ جب اکابر صحابہؓ نے آپؐ کی یہ بات سُنی تو انہوں نے باری باری اُٹھ اُٹھ کر نہایت جاںنثار انہ تقریریں کیں اور عرض کیا ہم ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں۔ ایک اٹھتا ہے اور تقریر کر کے بیٹھ جاتا۔ پھر دوسرا اُٹھتا اور مشورہ دے کر بیٹھ جاتا غرض جتنے بھی اُٹھے انہوں نے یہی کہا کہ اگر ہمارا خدا ہمیں حکم دیتا ہے تو ہم ضرور لڑیں گے مگر جب کوئی مشورہ دے کر بیٹھ جاتا تو رسول کریم ﷺ فرماتے مجھے مشورہ دو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک جتنے صحابہؓ نے اُٹھ اُٹھ کر تقریریں کی تھیں اور مشورے دئیے تھے وہ سب مہاجرین میں سے تھے مگر جب آپؐ نے بار بار یہی فرمایا کہ مجھے مشورہ دیا جائے تو سعد بن معاذؓ رئیسِ اوس نے آپؐ کا منشاء سمجھا اور انصار کی طرف سے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ آپؐ کی خدمت میں مشورہ تو عرض کیا جا رہا ہے مگر آپؐ پھر بھی یہی فرماتے ہیں کہ مجھے مشورہ دد۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ انصار کی رائے پوچھنا چاہتے ہیں اِس وقت تک اگر ہم خاموش تھے تو صرف اس لئے کہ اگر ہم لڑنے کی تائید کریں گے تو شاید مہاجرین یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہماری قوم اور ہمارے بھائیوں سے لڑنا اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ !شاید آپ کا بیعت عقبہ کے اس معاہدہ کے متعلق کچھ خیال ہے جس میں ہماری طرف سے یہ شرط پیش کی گئی تھی کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو ہم اس کا دفاع کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔آپؐ نے فرمایا ہاں۔ سعد بن معاذؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اُس وقت جب کہ ہم آپؐ کو مدینہ لائے تھے ہمیں آپؐ کے بلند مقام اور مرتبہ کا علم نہیں تھا اب تو ہم نے اپنی آنکھوں سے آپؐ کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے اب اس معاہدے کی ہماری نظروں میں کچھ بھی حقیقت نہیں۔ اس لئے آپؐ جہاں چاہیں چلیں ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور خدا کی قسم! اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں تو ہم کود جائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم آپؐ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔

ان حالات کی موجودگی میں کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ کے متعلق ھُمْ کٰرِھُوْنَ کا لفظ آیا ہے وہ لڑائی کے متعلق ہے ہرگز نہیں بلکہ ان کو جو چیز نا پسند تھی وہ یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ تک کوئی دشمن نہ پہنچ جائے۔پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب جنگ بدر کے شروع ہونے سے پہلے قریش مکہ نے عمیر بن وہب کو بھیجا کہ جا کر پتہ لگائے کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کیا ہے اور وہ اندازہ لگاکر واپس گیا تو اس نے کہا اے قوم! میں تم لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرو۔ اُس کے الفاظ یہ تھے کہ اے معشرِ قریش! میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں گویا اونٹنیوں کے کجاووں نے اپنے اوپر آدمیوں کو نہیں بلکہ موتوں کو اُٹھایا ہوا ہے اس لئے میں تم کو مشورہ دیتا ہوں کہ ان سے لڑائی نہ کرو میں نے جتنے مسلمانوں کو دیکھا ہے ان کے چہروں سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ وہ مرنے کی نیت سے آئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا چہرہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ہم نے مرجانا ہے مگر میدان سے پیچھے نہیں ہٹنا۔یہ سن کر لوگوں کے دلوں میں تذبذب پیدا ہو گیا اور انہوں نے چاہا کہ لڑائی کا ارادہ ترک کر دیں مگر ابو جہل کے دل میں چونکہ مسلمانوں کے خلاف سخت بغض تھا اس لئے اس نے عمرو حضرمی جو مسلمانوں کے ہاتھوں ایک غزوہ میں قتل ہوا تھا اس کے بھائی عامر حضرمی کو بُلایا اور نہایت اشتعال انگیز الفاظ میں اس کو کہا اب جبکہ تمہارے مقتول بھائی کے بدلہ کا موقع آیا ہے تو لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ لڑنا نہیں چاہئے۔ یہ سُن کر عامر حضرمی کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اور اس نے عرب کے قدیم دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ کر اور ننگا ہو کر رونا اور چِلانا شروع کر دیا کہ ہائے افسوس! میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ پھر عامر نے اپنے بھائی کا نام لے کر کہا ۔ہائے افسوس! تو نے اپنی زندگی میں قوم کے لئے اتنی قربانیاں کی تھیں مگر آج کوئی نہیں جو تیرے قتل کا بدلہ لے۔ جب عامر نے اِس قسم کا نوحہ کیا تو لشکرِ قریش کو غیرت آگئی اور انتقام کی آگ کے شعلے اُن کے سینوں میں بھڑک اُٹھے۔ اس کے علاوہ لڑائی سے پیشتر عتبہ بن ربیع نے بھی قریش کو نصیحت کی کہ یہ مسلمان اور ہم آخر بھائی بھائی ہیں اور پھر دیکھو تو ان کے چہروں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ مرنے کے لئے آئے ہیں اور اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ تم بھی ان کے برابر ہی آدمی مارلو گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار سب مارے جائیں گے۔ اب کیا ان حالات کی موجودگی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کٰرِھُوْنَ کی ضمیر لڑائی کی طرف جاتی ہے، جہاں تک واقعات کا تعلق ہے یہ بات اس کے بالکل اُلٹ نظر آتی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب لڑائی کے لئے جگہ کا انتخاب ہو چکا تو وہی سعد بن معاذؓ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم آپؐ کیلئے ایک عرشہ بنا دیں اور اپنی تیز تر سواریاں وہاں باندھ دیں یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم نہیں چاہتے کہ آپؐ میدانِ جنگ میں خود بنفس نفیس تشریف لے جائیں۔ ہم خدا کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں اگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے اور اگر ہم مارے گئے تو آپؐ سواری لیکر جس طرح بھی ہوسکے مدینہ پہنچ جائیں وہاں ہمارے ایسے بھائی موجود ہیں جو گو لڑائی میں تو شریک نہیں ہو سکے مگر محبت اور اخلاص میں ہم سے کسی طرح کم نہیں ہیں اور وہ لڑائی میں صرف اس لئے نہیں آئے کہ اُن کو لڑائی کے متعلق علم نہ تھا ورنہ وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وہ آپؐ کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں تک لڑا دیں گے۔ پس یہ تھا خوف جو صحابہؓ کو تھا۔ یعنی رسول کریم ﷺ جنگ میں شریک نہ ہوں اور کٰرِھُوْنَ کا لفظ صَراحتاً عَلٰی خُرُوْجِکَ پر دلالت کرتا ہے یعنی صحابہؓ اِس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آپؐ لڑائی میں شریک ہوں اور وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں آپؐ کو کوئی گزند نہ پہنچ جاے۔

میں نے ایک واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ جنگِ اُحد میں ایک موقع پر ابی بن خلف نے جو کہ مکہ کا بہت بڑا رئیس تھا جب آواز دی کہ کہاں ہے محمد(ﷺ)؟ وہ شخص بہت بڑا جرنیل تھا اور ساتھ ہی وہ تیر انداز بھی اعلیٰ درجہ کا تھا جب اس نے پکارا کہ کہاں ہے محمد؟ تو رسول کریم ﷺ نے اس کی طرف بڑھنا چاہا مہاجرین چونکہ ابی بن خلف کی طاقت کو جانتے تھے اس لئے وہ آپؐ کے سامنے آگئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ ہماری موجودگی میں آپؐ آگے نہ جائیں آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا میرے راستہ سے ہٹ جاؤ مہاجرین نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ وہ بڑا تجربہ کار جنگجو ہے آپؐ نے فرمایا مجھے اس کی پرواہ نہیں تم میرے رستہ سے ہٹ جاؤ۔ اس واقعہ سے بھی پتہ لگتا ہے کہ صحابہؓ کے لئے کٰرِھُوْنَ کے لفظ کا مطلب کیا ہے؟ غرض آپؐ ابی بن خلف کی طرف بڑھے اور آپ نے اپنے نیزہ کی اَنِّی اس کے جسم میں چبھو دی جس سے اسے تھوڑا سا زخم ہو گیا اور وہ اتنے زخم سے ہی بھاگ نکلا۔ لوگوں نے کہا تم تو بڑے بہادر بنتے تھے اور یہ چھوٹا سا زخم کھا کر بھاگ رہے ہو اس نے کہا زخم تو چھوٹا ہے مگر مجھے یوں معلوم ہو رہا ہے کہ اس میں دنیا جہان کی آگ بھر دی گئی ہے۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہؓ کس بات کو نا پسند کرتے تھے۔

اسی طرح حضرت طلحہؓ کا واقعہ ہے کہ جب جنگِ اُحد میں دشمن کی طرف سے تیر برسنے لگے تو انہوں نے رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیا تا کہ آپؐ کے چہرہ پر کوئی تیر نہ لگنے پائے۔ ان کے ہاتھ پر اتنے تیرلگے کہ آخر ان کا ہاتھ شل ہو کر ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد خوارج انہیں ٹنڈا کہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت طلحہؓ سے کسی نے پوچھا کہ جب آپؐ کے ہاتھ پر تیر لگتے تھے تو کیا آپؐ کے منہ سے سی نہ نکلتی تھی کیونکہ زخم سے درد تو ضرور ہوتی ہے؟ حضرت طلحہؓ نے جواب دیا سی نکلنا تو چاہتی تھی مگر میں نکلنے نہ دیتا تھا تاکہ میری ذرا سی حرکت سے بھی رسول کریم ﷺ کے چہرہ پر کوئی تیر نہ لگ جائے۔

اب کیا ان صحابہؓ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ان کو لڑائی کے بارہ میں انقباض تھا۔ جب ہم ان واقعات کو اچھی طرح جانتے ہیں تو کیا خدا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ان واقعات کو نہ جانتا تھا وہ جانتا تھا اور یقیناً جانتا تھا اور اس نے کٰرِھُوْنَ ان معنوں میں استعمال نہیں فرمایا جن میں بعض لوگوں نے سمجھ لیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کٰرِھُوْنَ کی ضمیر أَخْرَجَکَ کی طرف جاتی ہے یعنی صحابہؓ آپ کے لڑائی پر جانے سے ڈرتے اور گھبراتے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان یا تو اپنے ارادہ سے کوئی کام کرتا ہے اور یا اپنے ساتھیوں کے ارادہ اور مشورہ سے کوئی کام کرتا ہے جب وہ خود اپنے ارادہ سے کوئی کام کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ اپنے ارادہ سے فلاں کام کر رہا ہے اور اگر وہ اپنے ساتھیوں کے ارادہ سے کوئی کام کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے ساتھیوں کے مشورہ سے فلاں کام کیا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس وقت حالت یہ تھی کہ تمہارا اپنا بھی مدینہ سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اور تمہارے ساتھی بھی تمہیں مشورہ دیتے تھے کہ تم خطرہ میں نہ پڑو اور تمہارا مدینہ سے نکلنا صرف ہمارے حکم کے ماتحت تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تمہارا اپنا بھی نکلنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اور تمہارے ساتھیوں کا بھی مشورہ یہی تھا کہ تم مدینہ سے نہ نکلو تا کہ آپ کو کوئی گزنذ نہ پہنچ جائے تو کیا میں جو قادر مطلق خدا ہوں تم کو دشمنوں پر غلبہ نہ دیتا جب کہ مَیں نے تمہارے ارادہ کے خلاف اور تمہارے ساتھیوں کے مشورہ کے خلاف تمہیں باہر نکلنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب جیسا کہ علامہ ابوحیان نے بھی لکھا ہے کہ یہاں نَصْرُکَ محذوف ہے تو یہ نَصْرُکَ کی ضمیردشمن کی طرف ہی جائے گی دوست کی طرف نہیں جاسکتی۔ کیا ہم نَصْرُکَ کے یہ معنی لیں گے کہ صحابہؓ پر غلبہ؟ غلبہ تو ہمیشہ دشمن پر ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارا تم کو غلبہ عطاء کرنا دو وجوہ سے تھا۔ ایک تو یہ کہ ہم نے چونکہ خود تم کو نکلنے کا حکم دیا تھا اس لئے ہمارے لئے ضروری تھا کہ تمہیں دشمن پر غلبہ دیتے، دوسرے چونکہ تمہارے ساتھی یعنی صحابہؓ اس بات میں راضی نہ تھے کہ تو لڑائی کے لئے نکلے اس لئے ہم ان کو بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اگر میں کسی خطرناک کام کا حکم دیتا ہوں تو بچاتا بھی ہوں اور اِدھر تیرا دشمن وہ تھا جو یُجَادِلُونَکَ فِیْ الْحَقِّ کا مصداق تھا یعنی اُس کو تیرے کسی اپنے کام کی وجہ سے تجھ سے دشمنی نہ تھی بلکہ وہ صرف اس لئے تیرا دشمن تھا کہ تو ہمارا حکم اُن کو پہنچاتا ہے اور ہماری طرف اُن کو بلاتا ہے اور دشمن کو تیرے ساتھ اتنی زیادہ دشمنی تھی کہ وہ حق کے غلبہ کو اپنی موت کے مترادف سمجھتا تھایعنی وہ ہماری خاطر تجھ سے دشمنی کر رہا تھا اور اسلام اُس کو موت نظر آتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان حالات کی موجودگی میں ہم کیوں نہ تمہاری مدد کرتے یہ معنی کرنے سے یہ آیت کتنی واضح اور صاف ہو جاتی ہے اور اس پر ان معنوں کی رو سے کوئی اعتراض بھی وارد نہیں ہو سکتا۔ علامہ ابوحیان کی خواب تو ٹھیک ہے مگر نَصْرُکَ عَلٰی اَعْدآئِکَ ہونا چاہئے تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیرا اپنا کوئی ارادہ نکلنے کا نہ تھا، دوست تمہیں نکلنے سے روکنا چاہتے تھے اور دشمن تم کو میری وجہ سے تباہ کرنا چاہتا تھا اس لئے میری ذمہ داری تم کو غلبہ دینے کی بحیثیت ایک دوست کے بھی تھی اور دشمن کی دشمنی کی وجہ سے بھی ہم نے یہ ذمہ داری پوری کر دی ہم تجھے خطرہ کے مقام پر لے بھی گئے اور صحیح سلامت واپس لا کر اور تجھے دشمن پر غلبہ دے کر اپنی ذمہ داری بھی پوری کر دی۔

میں نے شروع میں کہا تھا کہ ان آیات کا تعلق اِس زمانہ سے بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ مؤمن کس طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے جہاں ایک مؤمن پُرامن ہوتا ہے اور وہ لڑائی اور فسادات سے حتیٰ الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہے وہاں وہ دلیر بھی اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔ یہی دو چیزیں ہیں جو مومن کو دوسروں سے ممتاز کر دیتی ہیں یعنی اول یہ کہ وہ لڑائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ لڑائی اور فساد نہ ہونے پائے بلکہ امن وامان رہے۔ دوسرے اس کی لڑائی سے بچنے کی تمام کوششوں کے باوجود اگر اس کے لئے جنگ ناگزیر ہو جائے تو اس جیسا بہادر، نڈر اور دلیر بھی کوئی نہیں ہوتا مگر یادرکھنا چاہئے کہ دلیری کے یہ معنی نہیں کہ مومن تہور پر عمل پیرا ہو جائے۔ تہور ایسے حملہ کو کہتے ہیں جیسے سؤر حملہ کرتا ہے اِس کو جرأت نہیں کہہ سکتے جرأت یہ ہوتی ہے کہ مومن لڑائی سے حتی الامکان گریز کرے، جھگڑا اور فساد نہ ہونے دے لیکن اگر دشمن اس کو لڑائی کے لئے مجبور کر دے تو وہ اس شان سے لڑے کہ سَو سَو میل تک لوگ اس سے کانپنے لگ جائیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ یعنی میری اللہ تعالیٰ نے رُعب سے نصرت فرمائی ہے اسی طرح آپؐ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک مہینے کے سفر تک رُعب عطا فرمایا ہے پہلے زمانہ کے لحاظ سے ایک مہینہ کا سفر 270 میل بنتا ہے کیونکہ عام طور پر اس زمانہ میں ایک منزل ۹ میل کی شمار کی جاتی تھی درحقیقت مکہ مکرمہ مدینہ سے اتنے ہی فاصلہ پر ہے اور رسول کریم ﷺ کے اس قول کا یہ مطلب ہے کہ میں مدینہ میں بیٹھا ہوا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا رُعب عطا فرمایا ہے کہ مکہ والے گھر بیٹھے مجھ سے کانپ رہے ہیں مگر چونکہ نبیوں کی پیشگوئیاں ہر زمانہ کے حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں اور یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ہوا ہے اس لئے پُرانے زمانہ میں تو اس سے مراد بیشک 270میل ہی تھے مگر آجکل تیز رفتار سواریاں آئی ہیں جو ایک ایک دن بلکہ ایک ایک گھنٹہ میں سینکڑوں میل کا سفر طے کرلیتی ہیں اس لئے آجکل تو ایک ماہ کا سفر ساری دنیا پر حاوی ہو گا اب ہم اس کو دوسرے رنگ میں لیں گے کہ اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ ﷺ کو اتنا رُعب دینے والا ہے کہ ساری دنیا آپؐ کے رُعب کی وجہ سے کانپے گی اور آپؐ کے انہی غلاموں کے ہاتھ سے جن کو اِس وقت لوگ چڑیا سمجھ رہے ہیں کیا انگلستان اور کیا امریکہ، کیا روس اور کیا جرمنی، کیا افریقہ اور کیا چین اور جاپان سب ممالک فتح ہوں گے اور تمام ملک ان سے اس طرح کانپیں گے جیسے گھاس ہوا سے کانپتا ہے۔ ہم تو محمدرسول اللہ ﷺ کی غلامی کر رہے ہیں اور شاگرد کی چیز اپنی نہیں ہوتی بلکہ استاد کی ہوتی ہے اس لئے ہماری فتح محمد رسول اللہ ﷺ کی فتح ہوگی۔ آج تو یہ حالت ہے کہ لوگ اسلام پر حملہ کرنا اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں لیکن ایک زمانہ ایساآنے والا ہے بلکہ ابھی آپ لوگوں میں سے کئی زندہ ہوں گے کہ لوگ دیکھیں گے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت ساری دنیا پر قائم ہو رہی ہے اور اسلام کے مخالف دم مارنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے مگر اس کے لئے ہمیں صحابہؓ والی قربانیاں بھی کرنی ہوں گی۔ پس ہماری جماعت کے دلوں سے موت کاڈر بالکل اُٹھ جانا چاہئے ایک مومن کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ پہلے وہ خود کسی پر ہاتھ نہ اُٹھائے اور حتی الوسع جنگ اور فسادات سے بچنے کی کوشش کرے وہاں اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر حالات اِس قسم کے پیدا ہو جائیں کہ اس کے لئے لڑائی کے سِوا اور کوئی چارہ نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیّت وہ وقت لے آئے تو مومن کو یوں معلوم ہونا چاہئے جیسے عید کا چاند نکل آیا۔ ان آیات میں مومن کا مقام بیان کیا گیا ہے کہ مومن یہ سمجھتا ہے کہ ساری بَلا، ساری تکلیفیں اور ساری مصیبتیں مجھ پر وارد ہو جائیں لیکن میرا محبوب کسی طرح ان سے بچ رہے۔ اب چونکہ ہمارا محبوب محمد رسول اللہ ﷺ ہم میں نہیں ہے اس لئے ہمارے محبوب کا قائم مقام اسلام ہمارے پاس موجود ہے۔ مؤمن چاہتا ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے اپنی جان، اپنے مال اور اپنے بیوی بچوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس طرح بھی ہو سکے اسلام کو کسی قسم کی گزندنہ پہنچنے دے۔

(ایک آیت کی پُر معارف تفسیر۔ انوارالعلوم جلد18 صفحہ611)


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 09۔مئی2020ء