• 26 مئی, 2025

غزوہ بدرتعارف، تجزیہ اور دور رس اثرات

حالات
(PREVAILING ENVIRONMENT)

عسکری مہمات پر ان حالات کا بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر ہوتا ہے جو اس وقت موجود ہوتے ہیں۔ غزوہ بدر ہجرت کے صرف دو سال کے بعد ہوئی۔ اس عرصہ کے دوران مسلمانوں اور کفار کے درمیان غزوات اور سرایا ہوئے لیکن سب میں لڑائی نہیں ہوئی۔ گو کہ کفار مکہ کئی وجوہ سے مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتے تھے مگر جو دو مرکزی وجوہات ابھر کر سامنے آتی ہیں جن کے سبب بدر میں دونوں کی فوجوں کا آمنا سامنا ہوا ذیل میں درج ہیں۔

تبلیغ

رسول پاکﷺکے مدینہ پہنچتے ہی مسلمانوں کا ایک مرکز وجود میں آ گیا اور ایک لمبے عرصے سے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے تھے وہ کم ہو گئے اور ایک ایسی جگہ پیدا ہو گئی جہاں پر وہ ظلم کی صورت میں پناہ لے سکتے تھے۔ قریش مکہ تک مسلمانوں کی تبلیغی سرگرمیوں کی خبریں بھی پہنچ رہی تھیں جن کی وجہ سے انہیں خوف پیدا ہو رہا تھا کہ کہیں مسلمان ایک بڑی طاقت بن کر ان کے سامنے نہ کھڑے ہو جائیں۔

تجارتی راستوں کا غیرمحفوظ (VULNERABLE) ہونا

مکہ سے شام جانے کے راستے مدینہ کے جنوب مغرب یا مغرب سے گزرتے تھے۔ ان راستوں کو وہ تمام تجارتی قافلے استعمال کرتے تھے جو مکہ سے شام اور شام سے مکہ تجارتی سامان لے کر جاتے تھے۔ تجارت مکہ والوں کی life line تھی۔ مسلمانوں کا مدینہ میں اپنے آپ کو مستحکم کرنے اور اپنی طاقت کو اطراف میں project کرنے سے یہ تجارتی راستے خودبخود غیرمحفوظ اور مسلمانوں کے زیر اثر آ جاتے تھے۔ مکہ والوں کیلئے ان حالات میں بہت سے خطرات درپیش تھے جن کا براہ راست اثر ان کی معاشی حالت پر پڑ سکتا تھا۔

پس منظر

رمضان2 ہجری میں رسول پاکؐ کو قریش کے ایک بڑے قافلے کی اطلاع ملی کہ وہ شام سے مکہ جانے کے لئے تیار ہے اور اس کا امیر ابو سفیان ہے۔ آپؐ نے اس قافلے کو intercept کرنے کا پلان بنایا۔ مکہ سے ابوجہل بھی قافلے کی مسلمانوں سے حفاظت کے لئے ایک بڑا لشکر لے کر نکلا اور دونوں افواج کا آمنا سامنا رمضان 2ہجری (مارچ 624 ء ) کو بدر کے مقام پر ہوا۔ جب قریش کا لشکر جحفہ کے مقام پر پہنچا جو کہ بدر کے جنوب میں نزدیک ہی واقعہ ہے انہیں ابو سفیان کا پیغام ملا کہ قریش کا تجارتی قافلہ خیریت سے مکہ پہنچ گیا ہے اور وہ واپس آ جائیں۔مگر ابوجہل نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جبکہ مکہ کے زیادہ تر سردار مسلمانوں سے لڑائی کے حق میں نہیں تھے۔ اسی دوران ابوسفیان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ لشکر سے آ ملا۔

دونوں افواج کا تقابلی جائزہ

مسلمان قریش
کمانڈر ۔ رسول پاکؐ
نفری ۔ 313
گھڑ سوار ۔ 2
انتظامی صیغے۔ 70
سامان۔ بہت قلیل مقدار
ہتھیار۔ ادنیٰ
کیفیت ۔ دفاعی
ابوجہل
1000
200۔تعداد میں اختلاف
700
وافر مقدار
اعلیٰ
جارحانہ

اسلامی فوج کی مدینہ سے بدر تک کی حرکت (MOVEMENT)

رسول پاکﷺکی قیادت میں مسلمانوں نے 12رمضان 2 ہجری (مارچ 624 AD)کو مدینہ سے کوچ کیا۔اسلامی لشکر نے مدینہ سے بدر تک کا فاصلہ اس طریقے سے طے کیا جو عصر حاضر کی صحرائی اور میدانی جنگوں کے مطابق اور ہم آہنگ ہے۔ آپؐ نے فوج کی movementکے دوران اس کے آگے ایک advance partyبھجوائی تاکہ دشمن کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں اور فوج movementکے دوران دشمن کے ممکنہ اچانک حملے سے محفوظ رہے۔آپؐ نے اسلامی لشکر کو دستوں اور گروپس میں تقسیم کیا اور ان کے کمانڈر مقرر کئے۔ آپؐ نے مہاجرین اور انصار کو بھی الگ الگ دستوں میں ترتیب دیا۔آپؐ نے لشکر کے عقب (rear) اور پہلوؤں (flanks) کی حفاظت کے لئے بھی دستے مامور کئے۔

آپؐ نے عام استعمال والے راستے کو چھوڑ کر ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جو کہ بہت کم استعمال ہوتا تھا تاکہ مسلمانوں کی حرکت پوشیدہ رہے۔ مسلمان کامیابی کے ساتھ ذافران (بدر کے نزدیک) پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر آپؐ نے ایک دستہ بدر کی سمت اور ایک دستہ شام سے مکہ کے راستے کی سمت بطور Intelligence collecting patrols روانہ کئے تاکہ دشمن (تعداد، ہتھیار،گھوڑے، ساز و سامان، رسد و رسائل وغیرہ، زمین (layout، پانی، رکاوٹیں، چھپنے کی جگہیں وغیرہ) اور تجارتی قافلے کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔

اگلے روز اسلامی دستوں نے قریش کے دو غلام پکڑے جو ان کے لئے پانی لے کر جا رہے تھے۔ ان سے آپؐ نے خود تفتیش کی جس پر یہ بات سامنے آئی کہ قریش ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے نکلے ہیں اور انہوں نے بدر سے جنوب مغرب میں پڑاؤ ڈالا ہوا ہے۔ بدر میں پہنچ کر آپؐ نے مشاورت سے اسلامی لشکر کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو انچائی (dominating) پر تھی اور ساتھ ہی پانی کے ذرائع پر کنٹرول حاصل کیا۔

میدان جنگ کا جائزہ (APPRECIATION OF THE BATTLE FIELD)

بدر مدینہ سے تقریباً 45 میل کے فاصلے پر مکہ سے شام کے راستے پر واقعہ ہے۔ بدر کا میدان تقریباً 5میل لمبا اور4 میل چوڑا ہے۔ میدان کی سطح عمومی طور پر سخت لیکن چند جگہوں پر ریتلی (sandy) ہے۔ شمال اور مشرقی علاقے چھوٹی پہاڑیوں پر مشتمل ہیں۔ جنوب میں بھی ایک پہاڑی ہے جبکہ مغرب کی طرف ساحل کے نزدیک ریت کے ٹیلے ہیں۔ قریش کے لشکر نے بدر کے جنوب مغرب کی جانب کیمپ کیا۔ مسلمانوں نے بدر کے چشموں کے نزدیک سخت زمین پر ڈیرہ ڈالا۔ چشموں تک جانے کے لئے قریش کو کافی فاصلہ ریت کے ٹیلوں اور نرم زمین پر طے کرنا پڑتا تھا جو کہ انفنٹری اور گھوڑوں کے لئے مشکل تھا۔ چشموں کے عقب کا علاقہ اونچا اور دفاعی نکتہ نظر سے نہایت موزوں تھا۔

مسلمانوں کی جنگی منصوبہ بندی اور حکمت عملی

رسول پاکؐ نے اپنی فوج کے لئے اونچی جگہ کا انتخاب کیا۔ آپؐنے اپنی فوج کے استعمال کے لئے ایک کنواں چھوڑ کر باقی تمام کو ریت سے بھر دیا یا بنیرے بنوا کر پانی کا رخ موڑ دیا۔چونکہ مسلمانوں کے پاس کیولری (گھوڑ سوار دستے)کی کمی تھی اس لئے آپؐ نے دفاعی حالت (defensive posture) اپنانے کا فیصلہ کیا۔آپؐنے اپنی فوج کو اس طرح ترتیب (deploy) دیا کہ اس کی دونوں اطراف (flanks) اور عقب (rear) کو بدر کی پہاڑیاں cover مہیا کر رہی تھیں۔

تیر اندازوں کو flanks پر اور پیچھے کی جانب اور اونچی جگہ پر deploy کیا۔

اچھےwarriorsکو درمیان میں سامنے والے دستوں میں رکھا تاکہ وہ حملے کے ابتدائی shock کو absorb کر لیں۔

اسلامی لشکر کا ہیڈکوارٹر پیچھے کی جانب اونچی جگہ پر بنایا گیا تاکہ جنگ پر visual observation کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکے۔

ایک چھوٹی سی فورس جس کی تعداد کا صحیح علم تو نہیں ہے لیکن اندازاً30-25،افراد پر مشتمل کو reserve کے طور پر رکھا گیا تاکہ ناگہانی حالت میں یا حملے کی صورت میں استعمال ہو سکے۔

جنگ والے دن آپؐ نے خود اسلامی فوج کو deploy کیا اور تفصیلی coordination instructions دیں اور موقع پر جا کر final adjustments کیں۔

فوج کے آخری معائنے کے دوران آپؐنے لشکر سے خطاب فرمایا اور انہیں جہاد کیلئے motivate کیا۔

آپؐ نے لشکر کو لڑائی کا طریق سمجھایا کہ اپنی جگہ قائم رہتے ہوئے دشمن کو پہلے اپنے ہتھیاروں کا ان کی range کے مطابق استعمال کر کے روکنا ہے اور تیر برسا کر اس کے حملے کو منتشر (disrupt) کرنا ہے۔ آپؐ نے سخت تاکید فرمائی کہ جب تک آپؐ کی طرف سے حکم نہ آئے مسلمان اپنے حملے کا آغاز نہیں کریں گے۔

Unity of command کے اصول پر عمل کرتے ہوئے پوری اسلامی فوج کی قیادت صرف آپؐ کے ہاتھ میں تھی۔

قریش کی مکہ سے بدر تک کی حرکت اور ان کی جنگی منصوبہ بندی

مسلمانوں کے برخلاف قریش کی مکہ سے بدر تک کی حرکت کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔قریش کی ایک ہزار افراد پر مشتمل ساز وسامان سے لیس فوج ابو جہل کی قیادت میں قافلے کی حفاظت اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے نکلی۔ بدر کے مقام سے پہلے جہاں پر قریش کے لشکر نے پڑاؤ کیا تھا جب ان کے غلاموں نے انہیں مسلمانوں کی بدر کے مقام پر موجودگی کی اطلاع دی اور یہ بھی بتایا کہ آپؐ نے قریش کی فوج اور ان کے ارادوں کے بارے میں تمام معلومات حاصل کر لیں ہیں تو وہ بہت upset ہوئے۔

انہیں تجارتی قافلے کی خیریت سے مکہ پہنچنے کی اطلاع مل چکی تھی۔ ابو جہل لڑائی کے حق میں جبکہ زیادہ تر سردار واپس جانے کے حق میں تھے۔

قریش کے سرداروں نے تمام رات اسی بحث مباحثے میں گزاری۔

قریش کی فوج کے پاس پانی کی کمی تھی جبکہ لوکل resources مسلمانوں کے زیراثر تھے۔

جنگ سے ایک رات قبل قریش نے اپنا کیمپ توڑا اور بدر کی سمت چلے۔ گزشتہ روز کی بارش کے سبب ان کے گھوڑوں اور اونٹوں کو زمین کے نرم ہونے کے سبب چلنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ انہوں نے بدر کی وادی میں پڑائو ڈالا اور مسلمانوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

قریش کا انداز جنگ رسول اللہ ؐکے پلان کے برعکس قدیم اور فرسودہ تھا۔ ان کی قیادت محکم اور منظم نہیں تھی۔ روایتاً ان کی لڑائی کا انداز ایک جماعت یا گروپ کی طرح نہیں تھا بلکہ وہ اس طرح لڑتے تھے جیسے فرد فرد سے لڑتا ہے۔ انہوں نے اس لڑائی کے لئے خصوصی طور پر کوئی strategy بھی نہیں بنائی تھی۔ انہیں بظاہر اپنی تعداد اور ساز و سامان پر بھروسہ تھا۔

جنگ کی حالت
(CONDUCT OF BATTLE)

غزوہ بدر اسلام اور کفر کے درمیان پہلی تاریخی جنگ تھی۔ یہ7 رمضان 2 ہجری (مارچ 624 ء) کو بدر کے مقام پر لڑی گئی۔

مبارزت طلبی

قریش مکہ کے لئے جنگ کا آغاز ہی ذلت آمیز تھا کیونکہ ان کے کئی بہادر اور بڑے لوگ جنگ سے پہلے ہی مبارزت کے مرحلے میں مارے گئے۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق اسود بن عبدالاسدالمخزومی نے اپنی صف سے آگے نکل کر مسلمانوں کو للکارا جس پر حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب رسول پاک ؐکی اجازت سے آگے بڑھے اور اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد قریش کی طرف سے عتبہ، ولید اور شیبہ نکلے جن کے مقابلے پر حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ نکلے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے مقابل عتبہ اور ولید کو فوری ڈھیر کر دیا جبکہ شیبہ نے حضرت عبیدہؓ کو زخمی کر دیا بعد میں اسے حضرت علیؓ نے قتل کر دیا۔

اعلان جنگ

اس کے بعد قریش کے تیراندازوں نے لمبے فاصلے سے مسلمانوں پر تیر برسا کرجنگ کا آغاز کیا۔ رسول پاکؐ نے اپنے تیراندازوں کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک قریش کا لشکر نزدیک نہیں پہنچ جاتا۔ اس کے بعد تیروں کی اچانک بوچھاڑ قریش کے لشکر پر بہت کارگر ثابت ہوئی۔ قریش کے لشکر کیلئے اونچائی کی طرف ایڈوانس کرتے ہوئے اپنے زور (momentum)کو قائم رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔

نرم اور دلدلی زمین کے سبب قریش کی کیولری بھی بااثر طور پر کام نہ کر سکی۔

مسلمانوں کے تیر انداز بہت پراثر اور کارگر رہے۔

دوپہر تک قریش کے لشکر پر پانی کی کمی کے نمایاں اثرات مرتب ہو چکے تھے۔

قریش کے لشکر کا سالار ابوجہل لڑائی میں مارا گیا۔

مسلمانوں کے جوابی حملے (counter attack) سے قریش کا جھنڈا گر گیا اور اسی دوران ریت کا طوفان آ گیا۔ قریش کے قدم اس طرح اکھڑے کہ وہ دوبارہ گروہ بندی (re-grouping) نہ کر سکے۔

جانی نقصان، جنگی قیدی

اس جنگ میں قریش کے 70 آدمی مارے گئے اور 70 ہی جنگی قیدی بنے جبکہ مسلمانوں کے 14 آدمی شہید ہوئے۔

غزوہ بدر کے بعد جنگی قیدیوں کو رسول پاکؐ نے اپنے صحابہ کے درمیان تقسیم فرمایا اور ہدایت دی کہ:

قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے۔

امیر قیدیوں کو رسول پاکؐ نے فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔

نادار اور تنگ دست قیدیوں کو آپؐ نے فدیہ کے بغیر ہی رہائی عطا فرما دی۔

پڑھے لکھے قیدیوں کا آپؐ نے صرف یہ فدیہ مقرر فرمایا کہ وہ مدینہ کے دس دس لڑکوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔آپؐ نے اس زمانے کی پرانی رسم کو کہ قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا مکمل طور پر ختم کر دیا۔

غزوہ بدر کا عسکری نقطہ نظر سے تجزیہ

قریش کےStrategic balanceکو منتشر(disrupt) کیا۔

آپؐ نے قریش کے تجارتی راستوں کو خطرے میں ڈالا جوکہ ان کی life line تھے اور جن کے سبب ان کی معیشت خطرے میں پڑ گئی تھی۔

آپؐ نے پہلے پہنچ کر میدان بدر میں ایسی پوزیشن سنبھالی جس کے سبب بدر کے پانی کے کنوئیں مسلمانوں کے زیر اثر آگئے۔ اس طرح دشمن کی فوج کو صحرائی جنگ کی نازک ترین صورت حال (critical situation) کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔کم وقت میں دشمن کو زیادہ نقصان پہنچایا۔دشمن سے initiativeاور اچانک پن (surprise) لے لیا۔آپؐ نے مختلف عرب قبائل سے معاہدے کر کے درج ذیل strategic نتائج حاصل کئے:

قریش کو external bases سے محروم رکھا جن کو استعمال کر کے وہ مسلمانوں کے خلاف حملے کر سکتے تھے۔

قریش کو ایسی قوتوں سے محروم رکھا جن سے معاہدے کر کے وہ اپنی قوت میں اضافہ کر سکتے تھے۔

آپؐ نے اسلام کی تبلیغ کی آزادی حاصل کی جوکہ دشمن کے حال اور مستقبل کیلئے خطرہ بن گیا۔

جنگی منصوبہ بندی کے دوران زمین اور موسم کا صحیح جائزہ لینا

مسلمان بدر کے میدان میں قریش سے پہلے پہنچے، انہوں نے اپنی پسند کی جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور قریش کو مجبور کیا کہ وہ ناموافق اور غیر موزوں جگہ سے لڑائی کریں۔بدر کے علاقے میں اپریل کے مہینے میں بارشیں متوقع ہوتی ہیں۔ قریش نے نشیب میں پڑاؤ ڈالا۔ اسی دوران بارش ہوئی اور زمین دلدلی (marshy) ہو گئی جس کی وجہ سے حملے کے وقت قریش کے لشکر کو نقل و حرکت میں بہت مشکل پیش آئی۔باوجود اس کے کہ قریش کی کیولری superior تھی۔ آپؐ کا میدان جنگ کا چناؤ، اس کا استعمال اور موسم کا صحیح جائزہ لینے کی وجہ سے مسلمانوں نے ایک ایسی فوج کو شکست دی جو کہ تعداد، ہتھیاروں اور رسد و رسائل میں ان سے بہت بہتر تھی۔اس جنگ میں آپؐ نے ایسے نتائج حاصل کئے جو کہ عام حالات میں جانی اور مالی لحاظ سے بہت مہنگے پڑتے

فوج پر مکمل کنٹرول رکھنا

جو فوج اپنے سے طاقتور دشمن کا مقابلہ کر رہی ہو اس کے کمانڈر کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی سپاہ پر مکمل کنٹرول رکھے۔ اس طرح تمام وسائل کا موثر استعمال ہوتا ہے اور مقصد کم سے کم جانی، مالی اور وقت کے نقصان سے حاصل ہو جاتا ہے۔آپؐ نے اسلامی فوج کو صیغوں میں تقسیم کیا۔آپؐ نے ہر صیغے کو لائینوں میں ترتیب دیا۔یہ لائنوں والی جنگی ترتیب (linear combat formation) سپاہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے سلسلے میں عربوں کے روایتی hit and run کے طریقے سے زیادہ کارگر ثابت ہوئی۔

اس جنگی ترتیب کے سبب مسلمانوں کے درمیان نظم و ضبط بہتر ہوا، لڑنے والے صیغوں کے درمیان باہمی تعاون (mutual cooperation) پیدا ہوا جس کے نتیجے میں کمانڈروں کو مستحکم اور مستقل کنٹرول حاصل رہا۔

وسائل کا مناسب استعمال
(economy of effort)

یہ جنگ کا ایک ایسا اصول ہے جوکہ اپنے سے طاقتور دشمن سے مقابلے کے لئے ناگزیر ہے۔ اپنی سپاہ پر مستحکم کنٹرول حاصل کرنے کے علاوہ آپؐنے ایسے جنگی احکام (combat orders) جاری فرمائے جن کی مدد سے کافی حد تک محدود وسائل کو صحیح استعمال میں لایا گیا۔

آپؐ نے اپنی فوج سے ہتھیاروں کو ان کی قابلیت (capabilities) اور خصوصیات (characteristics) کے مطابق استعمال کروایا۔

آپؐ نے تیراندازوں کو حکم دیا کہ دشمن کے نزدیک آنے تک تیر نہیں پھینکے جائیں گے۔ اس کے درج ذیل فوائد سامنے آئے:

اسلامی فوج میں تیروں کی کمی کے باوجود ان کا استعمال باکفایت رہا۔تیراندازی کو موثر بنایا۔

دشمن پر اچانک پن حاصل کر کے اسے demoralise کیا، کم فاصلے سے زیادہ volume میں تیر برسا کر اسے بچنے کا موقع نہ دیا اور اس کا کم وقت میں بھاری نقصان کیا۔

اچانک پن (SURPRISE)

آپؐ نے اپنی اعلیٰ بصیرت اور حکمت عملی کے سبب قریش کی فوج پر موثر طور پر اچانک پن حاصل کیا۔ عسکری معاملات میں دشمن پر اچانک پن حاصل کرنے سے مراد ایسا کام کرنا ہے جس کی دشمن کو توقع نہ ہو اور جس کے خلاف اس نے کوئی پلان (contingency plan) نہ بنایا ہو۔

آپؐ اپنی فوج کو غیرمعروف راستوں سے لے کر قریش سے پہلے میدان بدر پہنچ گئے۔ اس دوران آپؐ نے ایسے اقدام کئے جن کے سبب قریش مسلمانوں کی نقل و حرکت سے مکمل طور پر لاعلم رہے۔

آپ ؐنے عرب کے مروجہ طریق کے برخلاف بہت ہی منظم طور پر قریش سے جنگ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ آپؐنے اپنی فوج کو دفاعی انداز میں ترتیب دیا۔ انصار اور مہاجرین کو الگ الگ صیغوں میں بانٹا اور دستوں کو لائنوں میں کھڑا کیا جبکہ قریش اپنے روایتی انداز جنگ میں کافی حد تک غیرمنظم تھے۔اسلامی لشکر کے تیراندازوں کی موثر کارکردگی نے قریش کو مکمل طور پر surprise کیا اور ان کو بہت نقصان پہنچایا۔قریش کے لشکر کو مسلمانوں کے خلاف ایڈوانس کے دوران بارش کے سبب نرم اور دلدلی زمین عبور کرنی پڑی جوکہ نہ صرف گھوڑوں کے لئے بلکہ پیدل فوج کے لئے بھی رکاوٹ بنی۔ چونکہ یہ ان کے لئے ایک نئی صورت حال تھی جس کے لئے انہوں نے کوئی متبادل پلان نہیں بنایا ہوا تھا اس لئے انہیں کافی پریشانی کا سامنہ کرنا پڑا۔

قیادت

رسول پاک ﷺ ہمیشہ فیصلہ کن وقت، مقام اور اقدام کے بارے میں خود فیصلہ فرماتے۔ میدان جنگ میں critical موقعوں پر سب کے درمیان موجود ہوتے جس کا اسلامی لشکر کے مورال پر بہت مثبت اثر ہوتا تھا۔ آپؐ ہر نازک مرحلے پر صحابہ کرام سے مشاورت کرتے اور ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے۔اس کے برعکس قریش میں قبیلوں کے اپنے لیڈر تھے۔ گو کہ ابوجہل قریش کے لشکر کا سردار تھا لیکن اس کا باقی سرداروں کے ساتھ مسلمانوں سے اس موقع پر جنگ کرنے کے معاملے میں اتفاق نہیں تھا اور آخری وقت تک وہ واپس جانا چاہتے تھے۔ لڑائی کے دوران بھی قریش کی لیڈرشپ نے کوئی خاص کام نہیں دکھایا۔

نتائج

جنگ بدر اسلامی تاریخ میں نقطہ انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ایک آزاد اور خود مختار اسلامی ریاست نے جنم لیا۔ اس جنگ میں ایک ایسی فوج نے جو اپنی تعداد، نقل و حرکت کی صلاحیت اور رسد و رسائل میں بظاہر کمزور نظر آتی تھی نے اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتوردشمن کو شکست دی۔ مسلمانوں کی فتح نے عرب میں قریش کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا اور تبلیغ کے دروازے کھول دئے۔ مسلمان اب ایک طاقت بن کر ابھرے اور بہت سارے قبائل نے ان سے معاہدے کئے۔ اس فتح نے مزید فتوحات کے دروازے بھی کھول دیئے۔

(روزنامہ الفضل 8نومبر 2014ء)


(بریگیڈئیر (ر) دبیر احمد پیر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 09۔مئی2020ء