• 26 اپریل, 2024

نور سے کیا مراد ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

قرآن مجید کی رو سے نور کی مختصرتفصیل کچھ اس طرح ہے۔

نور سے مراد وہ علوم ہیں جو نبوت سے وابستہ ہیں اور اسی کے ذریعے دنیا میں آتے ہیں۔ چنانچہ سورۃ الاعراف آیت 158 میں ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے فرمایا فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے عزت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

نور سے مراد مذہب یا دین ہے

چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت 32میں فرماتا ہے یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ (ہر دوسری بات) ردّ کرتا ہے سوائے اس کے کہ اپنے نور کو مکمل کر دے خواہ کافر کیسا ہی ناپسند کریں۔

حضرت مسیح موعودؑ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’یہ لوگ اپنے منہ کی لاف گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہوگی یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہوجاوے گا لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اور نہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے۔‘‘

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6 صفحہ290۔291)

نور سے مراد وحی سے پھوٹنے والی حکمت ،فلسفہ اور بصیرت بھی ہے جو محض انبیاء کے لئے مخصوص ہے

اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ آیت 16۔17 میں فرماتا ہے۔

یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ کَثِیۡرًا مِّمَّا کُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ۬ؕ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ یَّہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذۡنِہٖ وَ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’وجود مبارک حضرت خاتم الانبیاء ﷺ میں کئی نور جمع تھے سو ان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جو وحی الہٰی ہے وارد ہوگیا اور اس نور کے وارد ہونے سے وجود باوجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔‘‘

مزید فرمایا: ’’یہی حکمت ہے کہ نور وحی جس کے لئے نورفطرتی کا کامل اور عظیم الشان ہونا شرط ہے صرف انبیاء کو ملا اور انہیں سے مخصوص ہوا۔‘‘

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ195۔196)

نور الہٰی سے مراد خدا کا رسول اور اس کی کتاب ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’ظلمانی زمانہ کے تدارک کےلئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے وہ نور اس کا رسول اور اس کی کتاب ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ248)

حضرت مسیح موعودؑ اس زمانہ میں امام مہدی، مسیح موعودؑ اور امتی نبی و رسول بن کر مبعوث ہوئے۔ خدا تعالیٰ کے مامورین اور اولیاء اللہ کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں حضرت امام المہدی ؑ فرماتے ہیں۔

’’سو چونکہ اُس کی عادت ہو جاتی ہے کہ خواہ نخواہ ہر ایک ایسی سچائی کوردّ کرتاہے جو اس وَلی کے منہ سے نکلتی ہے اور جس قدر اس کی تائید میں نشان ظاہر ہوتے ہیں یہ خیال کرلیتا ہے کہ ایسا ہونا جھوٹوں سے ممکن ہے۔ اِس لئے رفتہ رفتہ سلسلۂ نبوت بھی اُس پر مشتبہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انجام کار اس مخالفت کے پردہ میں اس کی ایمانی عمارت کی اینٹیں گرنی شروع ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ کسی دن کسی ایسے عظیم الشّان مسئلہ کی مخالفت یانشان کاانکار کر بیٹھتا ہے جس سے ایمان جاتارہتاہے ہاں اگر کسی کاکوئی سابق نیک عمل ہو جو حضرت احدیّت میں محفوظ ہو توممکن ہے کہ آخرکار عنایت ازلی اُس کو تھام لے اور وہ رات کو یا دن کو یکدفعہ اپنی حالت کا مطالعہ کرے یا بعض ایسے اُمور اُس کی آنکھ روشن کرنے کے لئے پیدا ہو جائیں جن سے یکدفعہ وہ خوابِ غفلت سے جاگ اُٹھے۔ وذالک فضل اللّٰہ یُؤتیہ من یشاء واللّٰہ ذو الفضل العظیم۔ منہ‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ435)

(وقاص آصف)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 09۔مئی2020ء