• 4 مئی, 2024

یہ وہ مقام ہے جو ہمیں اعتقادی اور عملی طور پر حاصل کرنا ہے…

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ عنوان بالا کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ:
’’واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طا لب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں۔‘‘ اسلام یہ ہے۔ یہ چار چیزیں ہیں کہ کسی چیز کی قیمت پیشگی کے طور پر دی جائے، کسی کو اپنا کام سپرد کیا جائے، صلح کے لئے کوشش کی جائے اور ہر قسم کے جھگڑے والی باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور فرمایا کہ ’’اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اِس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرہ: 113) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہوجاوے۔‘‘ فرمایا ’’اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصاً لِلّٰہی حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوّت سے متعلق اور ہریک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے۔ مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبودِ حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ57-58)

پس یہ وہ مقام ہے جو ہمیں اعتقادی اور عملی طور پر حاصل کرنا ہے۔ اگر ہماری اپنی اصلاح ہے، اگر ہم اپنے ایمان میں مضبوط ہیں، اگر ہم اپنے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ یہ خدا کی رضا کے مطابق ہیں یا نہیں اور اُنہیں خدا کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، دعاؤں پر زور دے رہے ہیں تو پھر دنیا داروں کے دنیاوی قانون یا قانون کی آڑ میں ظلم ہمیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے یا ظاہری طور پر شاید دنیاوی لحاظ سے نقصان پہنچا دیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم مقبول ہوں گے۔

قرآنِ کریم نے ان ظلم کرنے والوں کی مثالیں دے کر پہلے ہی ہمارے دلوں کو مضبوط فرما دیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں میں ساحر تھے یا بن کے جو آئے تھے اور پھر قائل ہو گئے، انہوں نے یہی جواب دیا تھا کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ (طہ: 73) کہ پس تیرا جو زور لگتا ہے لگا لے۔ اِنَّمَا تَقۡضِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا (طہ: 73) تو صرف اس دنیا کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے اسے ختم کر سکتا ہے۔ پس اگر کوئی بھی حکومت ظلم کرنا چاہتی ہے تو اُن کے سامنے مومنوں کا انجام بھی ہے اور فرعونوں کا انجام بھی ہے۔ آخری فتح ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومنوں کی ہی ہوتی ہے اور یہاں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ہو گی۔

پس ہم نے تو اس ایمان کا مظاہرہ کرنا ہے جو دنیا والوں سے خوف کھانے والا نہ ہو بلکہ اگر کوئی خوف اور غم ہو تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو کس طرح حاصل کرنا ہے، اُس کے قرب کو کس طرح حاصل کرنا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان اور مسلمان ہونے کی اعلان کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والوں کے جس معیار کا ذکر فرمایا ہے، وہ سورۃ نساء کی اس آیت میں ہے کہ وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِیۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا (النساء: 126) اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کر دے۔ اور وہ احسان کرنے والا ہو اور اُس نے ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو۔ اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا تھا۔ پس ابراہیم کی ملّت کی پیروی کی ضرورت ہے، اگر اللہ تعالیٰ کا دوست بننا ہے۔ ملّت کے مختلف معنی ہیں۔ ایک معنی طریق اور راستے کے بھی ہیں۔ اس کے معنی مذہب کے بھی ہیں۔ (اقرب الموارد زیرمادہ ’’ملل‘‘) اور اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خصوصیت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی (النجم: 38)

(خطبہ جمعہ 14؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2022