وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہو گا
قسط اوّل
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہو گا
کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو بُرا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا
پھل، شاخ اور باغبان( مالی) کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ گو بعض پھل خود بخود ہی زمین پر گر جاتے ہیں اور باغبان اُن سے مالی اور جسمانی فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن ایسے پھلوں میں کوئی نہ کوئی کمی رہ گئی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے اپنے وقت سے پہلے ہی شاخ سے جدا ہو جاتے ہیں۔ یا آندھی اور بارش یا کسی آسمانی و زمینی آفت سے زمین پر آگرتے ہیں۔ گو ایسے پھل بعض اوقات صحیح بھی ہوں مگر زمین پر آ گرنے سے وہ داغی ضرور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ترش بھی ہوتے ہیں۔ یا آج کل با غبان زیادہ کمائی کے لئے کچاپھل اُتار کر پیل ڈال لیتا ہے اور بد مزہ اور مہلک دوائیوں سے رچا بساپھل مارکیٹ میں آجاتا ہے۔
مگر اصل، مزیدار، تندرست اور صحت مندپھل وہی ہے جو شاخ پر پکنے کے بعد مالی وقت پر اِسے اُتارتا ہے، اِسے دھوتا اور بعض پھلوں پر ہلکا سا سرسوں کا تیل ملا کر دھو کر چمکا کر مارکیٹ میں لاتا ہے جو دیکھنے والوں کوبھلا اور خوبصورت لگتا ہے اور انسان کھاتے وقت بھی اس کی لذت شیرینی سے محظوظ ہورہا ہوتا ہے۔مختلف قسموں کےپھل باغوں سے اُتارنے کے مختلف طریق ہیں۔ ہم دنیا بھر میں دیکھتے ہیں کہ بعض جگہوں پر عورتوں نے اپنے پیچھے کپڑےکا تھیلا بنا رکھا ہوتا ہے جس میں وہ پھل توڑ توڑ کر ڈالتی جاتی ہیں۔بعضوں نے سروں پر ٹوکرے رکھے ہوتے ہیں۔ بعض درخت پر چڑھ کر کٹر (Cutter) سے پھل توڑتے ہیں۔ بعض درختوں سے سیڑھی لگا کر پھل توڑا جاتا ہے۔ بعض ممالک میں چھکو نما اشياءسےپھل کو بہت پیار سے اُتارا جاتا ہے اور ہم بچپن میں اپنے ملک میں کینو اور اس کی نسل سے تعلق رکھنے والے پھلوں کو درختوں کے نیچے چاروں کونوں سے چادر پکڑ کر توڑ کر گراتے ہوئے دیکھتےتھے۔لیکن ان تمام عوامل میں یہ بات مشتر کہ ہے کہ پھل ہماری خواہش سے زمین پر نہیں گرتے بلکہ شاخ کو ہر صورت خواہ تھوڑا یا زیادہ ہلانا پڑتا ہے۔
اگر اس مادی مضمون کو روحانی مضمون پر لاگو کریں تو ایک بہت ہی دلچسپ اور ایمان افروز مضمون سامنے آتا ہے اس پر جتنا بھی غور کریں نت نئے نکات انسان کے ذہن میں ابھرتے اور ازدیاد ایمان کا باعث بنتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی دو اہم صفات الرحیم اور الرحمٰن کا ذکر قرآن و احادیث میں ملتا ہے۔ صفت الرحمٰن کے تحت اللہ تعالیٰ نے انسان کی ضروریات کے مطابق اس کے جینے کے لئے بعض نعماء جیسے پانی، ہوا، زمین و آسمان بغیر مانگے مہیا کر دیں۔ لیکن بعض ضروریات کے حوالے سے یہ ہدایت دی گئی کہ الرحمان صفت کے دروازے کو کھٹکاؤ تا تمہاری دعاؤں سے یہ دروازہ تم پر کھولا جائے۔ ہم بالعموم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے خالق کی طرف جھکتا نہیں۔ اس کو سجدہ نہیں کرتا۔ اس سے دعائیں نہیں مانگتا۔ وقت کی شاخ کوہلا تانہیں اور بہت بڑے بڑے پھلوں کے حصول کی توقع رکھتا ہے۔پھر اسی وقت کی شاخ کے ذیل میں فرض اور نفلی عبادات آجاتی ہیں۔ تہجد، دعائیں، تلاوت قرآن پاک آتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا باعث بنتے ہیں۔
اسی روحانی مضمون کو آج کے دور کے حوالہ سے دیکھیں تو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نمائندہ کے طور پر وقت کے امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ موجود ہیں۔ یہی آج کے دور کے وقت کی شاخ ہے، وقت کی آواز ہے۔ اگر ہم روحانی انعامات اور افضال سے فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو لازما اس وقت کی شاخ سے اپنا اور اپنی اولاد بلکہ نسل کا مضبوط تعلق باندھنا ہو گا۔ اسی مضبوط کڑے کو پکڑ کر ہم ہر وہ پھل حاصل کر سکتے ہیں جن کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔ اس مبارک خلافت کے طفیل یا وقت کی اس مبارک شان کے طفیل ہمیں MTA کا ایک پھل ملا ہے۔ اس شاخ کو مضبوط رکھنے کے لئے ہمیں ایم ٹی اے کے ساتھ تعلق جوڑنا ہو گا۔ ہر جمعہ کو آپ کا خطبہ سُن کر اسے اپنی زندگیوں میں اُتارنا ہو گا تا کہ اس شان سے مضبوط تعلق رکھ کر جہاں ہم سر سبز و شاداب رہیں اور پھل حاصل کرتے رہیں وہاں اس تعلق کی وساطت سے جڑسے تعلق مضبوط کر سکیں۔ جو دراصل اسلام کی جڑ ہے۔ جو دراصل قرآن کی جڑ ہے جو دراصل سیدنا حضرت محمد مصطفیﷺ کی جڑ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جایا کرتی ہے‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ233)
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
شاعر کے اس لا جواب قطعہ کے دوسرے شعر پر ان شاء اللہ آئندہ قلم اٹھایا جائے گا۔
(ابو سعید)