• 2 مئی, 2024

حضرت بابو وزیر خان ؓ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت بابو وزیر خان ؓ۔ بلب گڑھ (انڈیا)

حضرت بابو عبدالرؤف عرف وزیر خان رضی اللہ عنہ ولد میاں لال محمد خان صاحب قوم افغان غوری اصل میں بلب گڑھ ضلع ہریانہ (اُس زمانے میں بلب گڑھ ضلع دہلی میں تھا) کے رہنے والے تھے۔ آپ 21؍مئی 1867ء بروز منگل بلب گڑھ میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ناگہ ہل علاقہ منی پور ریاست آسام (اب ناگالینڈ، منی پور اور آسام تینوں الگ الگ ریاستیں ہیں) میں بسلسلہ ملازمت سب اوورسیئر متعین ہوئے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام سے تعارف شروع میں ہی تھا جبکہ ہمارے ایک استاد حافظ امیر علی صاحب مرحوم کے پاس حضور کے الہامات کے اشتہار جایا کرتے تھے، انہی دنوں میں لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ لکھی تھی اور بہت بحث مباحثے ہماری بستی میں ہوتے تھے، اس لحاظ سے بھی حضرت صاحب سے شناسائی تھی۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر11 صفحہ181) جب آپ منی پور اور آسام کے علاقے میں گئے تو وہاں آپ کی ملاقات حضرت سردار خان صاحب (بیعت: 26؍اپریل 1892ء بذریعہ خط) سے ہوئی جن سے آپ کو احمدیت کا مزید تعارف ہوا اور پھروہیں ایک اور بزرگ حضرت مولوی غلام امام عزیز الواعظین رضی اللہ عنہ یکے از 313 صحابہ (وفات: 12؍اکتوبر 1931ء) کی معرفت اپنی بیعت کا خط لکھ دیا، آپ نے 24؍اگست 1892ء کو بذریعہ خط بیعت کی اور اس سے اگلے سال 1893ء میں قادیان حاضر ہوکر حضرت اقدسؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ647)

قادیان میں پہلی آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ بیان کرتے ہیں: ’’پہلی دفعہ جو حضرت صاحب کی زیارت ہوئی تو مسجد مبارک کے ساتھ کے چھوٹے کمرہ میں وضو کر رہا تھا کہ حضرت اقدس اندر سے تشریف لائے۔ جونہی حضور کا چہرہ دیکھا تو عقل حیران ہو گئی اور خدا کے سچے بندوں کی سی حالت دیکھ کر بے خود ہو گیا۔ جمعہ کے دن میں کچھ ایسی حالت میں تھا کہ حضرت صاحب کے نزدیک کھڑے ہو کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ اس وقت حضرت صاحب کی ایک توجہ ہوئی اس کے بعد میں بہت سخت رویا۔ نماز میں بھی اور نماز سے پہلے بھی۔ صوفیا کے مذہب میں یہ ’’غسل‘‘ کہلاتا ہے۔ عصر کے وقت جب حضور سے پھر ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ کیا حال ہے میں نے عرض کیا حضور اب اچھا ہو گیا ہوں۔ پہلے وقت جب ہم قادیان آئے تو اس وقت کوئی لنگرخانہ نہیں تھا۔ حضرت صاحب کے گھر سے روٹی اور اچار آیا وہ کھایا۔اس وقت وہ کمرہ جس میں آجکل موٹر ہے اس میں پریس تھا مہمان بھی وہیں ٹھہر جاتے تھے۔ میں وہیں ٹھہرا تھا۔ بعض وقت حضرت صاحب کسی فرمے کی تصحیح کے واسطے تشریف لاتے تھے تو بعض آدمی منجیوں پر بیٹھے ہوتے تھے حضور ان کو فرماتے کہ بالکل نیچے نہ اترو۔ اس کے بعد میں چلا گیا۔ پھر تھوڑے عرصہ کے بعد آیا تو یہاں ایک شخص سیٹھ موسیٰ عثمان گجرات کے علاقہ کے جو پہلے منی پور میں ہماری جماعت کے دوست تھے۔ یعنی ہم تین آدمی تھے۔ مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین۔ سیٹھ موسیٰ عثمان اور خاکسار وزیر خان۔ وہی شخص مجھے یہاں مل گئے اور میں ان کے ہمراہ پھر منی پور چلا گیا۔

میں اصل میں رہنے والا بلب گڑھ ضلع دہلی کا ہوں۔ اور ایک استاد حافظ امیر علی صاحب مرحوم کے پاس حضور کے الہامات کے اشتہار پہلے سے جایا کرتے تھے کسی نے مجھ سے کہا۔ کہ مرزا صاحب کو الہام ہوتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ خدا کی دین ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ چاہے قبول کر لے۔ انہی دنوں میں لیکھرام نے تکذیب براہین احمدیہ لکھی تھی۔ اور آریہ لوگ ہماری بستی میں تھے۔ بہت بحث مباحثے ہوتے تھے۔ اس لحاظ سے بھی حضرت صاحب کی شناسائی تھی اور ان کے اعتراضات نعوذ باللہ وَجَدَکَ ضَالًا فَھَدٰی وغیرہ آنحضرتﷺ کی بابت تھے۔ ان کا جواب حضرت صاحب نے اس زمانہ میں دیا تھا کہ ضال کے معنے گمراہ کے نہیں ہیں بلکہ عاشق لوجہ اللہ کے ہیں۔ ان سے اور بھی شوق پیدا ہوا۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر11 صفحہ179-180)

آپ کی بیان کردہ روایات رجسٹر روایات صحابہ نمبر 14 میں محفوظ ہیں جس میں آپ کا حضور علیہ السلام کی زیارت کرنا، قبولیت دعا کے واقعات، تبلیغی واقعات وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام سے ملاقات کے بعد پھر بڑھ چڑھ کر دعوت الی اللہ میں حصہ لینے لگے، اس ضمن میں آپ بیان کرتے ہیں:
’’جس وقت ہم موسیٰ سیٹھ کے ساتھ منی پور جا رہے تھے رستہ مَیں سل چڑھ کچھار (Silchar Cachar۔ ناقل) کی مسجد میں جمعہ پڑھا اور بعد میں مَیں نے لوگوں سے عرض کی کہ مَیں نے کچھ کہنا ہے۔ پھر مَیں نے کہا کہ جو مہدی اور مسیح آنے والا تھا وہ آگیا ہے جس کا جی چاہے وہ ہم سے باتیں کرلیں۔ اس پر انہوں نے کہا پرسوں ہم آپ سے باتیں کریں گے۔ اتوار کے دن بہت سے آدمی جمع ہوگئے۔ موسیٰ سیٹھ مجھ سے کچھ دور فاصلہ پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھتے رہے اور مَیں گفتگو کرتا رہا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ میرے مارنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں تو اُٹھ کر میرے پاس آئے اور کہا کہ میاں جو کچھ تم نے کہنا تھا وہ کہہ لیا اب چلو اٹھو، بس پھر مَیں ان کے ساتھ اُٹھ کر چل پڑا اور جائے قیام پر آگیا پھر وہاں سے ان کے ساتھ منی پور آگیا تھا ….اسی زمانے میں حافظ شریف شاہ جو حافظ فتح شاہ کا چھوٹا بھائی تھا جو انگہ ضلع شاہ پور کے رہنے والے ہیں اور فتح شاہ کو فوج والوں نے لڑائی کے دوران میں کوئی سفارش کرا کر وہاں جاگیر دلا دی تھی اور انہوں نے ایک مسجد بنا رکھی تھی اس میں نماز پڑھا کرتے تھے جس وقت مجھے حکم ملا کہ فتح شاہ کی زمین کی پیمائش کر آؤ …. جب ہم وہاں سے واپس آئے ایک حافظ مولوی جمعہ کچھار کے رہنے والے اس مسجد میں آئے اور نماز پڑھائی اور بہت زور سے اللہ اکبر کہتے رہے اور ہم لوگوں کے ساتھ بڑا جھگڑا کیا۔ آخر کو ہم سب نے دعا کی اور وہ جاتے ہوئے ریاست کے حکام کے ہاتھ گرفتار ہوگیا۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر14 صفحہ361)

اپنی روایات میں حضور علیہ السلام کی قبولیت دعا کے ضمن میں آپ بیان کرتے ہیں: ’’مَیں کسی وجہ سے نہ معلوم ناراضگی یا ظہور النساء کی خواہش کے مطابق اس کو لے کر اس کے وطن منی پور پہنچانے کے واسطے روانہ ہوا۔ اتفاقًا یہ وہ دن تھا جس وقت پہلے سٹرائیک ہوئی ہے۔ جس گاڑی میں ہم سوار تھے وہ دیر سے کوئل جنکشن پہنچی اور کلکتہ کی ڈاک تیار تھی۔ مَیں نے ظہور النساء کو مع سامان کے جلدی سے ریل میں سوار کرا دیا اور جب مَیں چڑھنے لگا تو لوگوں نے دھکا دے کر نیچے اتار دیا اور گاڑی چلی گئی۔ کتنے ہی دن تک مَیں روز کوئل میں ہر ایک گاڑی دیکھتا تھا کہ کہیں سے واپس آئے۔ یہ واقعات مَیں نے حضرت صاحب کو لکھ کر تمام حالات درج کر کے بھیج دیے۔ نہ مجھے معلوم تھا کہ وہ کہاں ہیں اور نہ وہ جانتی تھی کہ مَیں کدھر رہ گیا۔ پھر ایک ہفتہ یا اسی کے قریب گزرا کہ اس نے یعنی ظہور النساء نے ایک خط میرے مکان پر دہلی میرے بہنوئی کے پاس لکھا اور اپنا تمام پتہ لکھ دیا کیونکہ وہ جس روز مجھ سے علیحدہ ہوکر گئی، سیدھی کلکتہ چلی گئی اور اس وقت تک ریل میں بیٹھی رہی کہ گاڑی خالی کر کے وہ لوگ جہاں گاڑی کی جگہ تھی وہاں لے جانے لگے، وہ میرے انتظار میں رہی کہ شاید ابھی آجائے تو ریل میں سے اتر کر نیچے جاؤں۔ خیر پھر اس کو اتار کر سٹیشن پر بٹھا دیا گیا وہ شام تک بیٹھی رہی، شام کو ایک ریلوے کا ملازم اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہ وہاں رہی، روز روتی رہی کہ اس کے پاس صرف ایک قرآن ہے، ایک مصلّی ہے اور کچھ نہیں ہے اور ٹکٹ بھی دونوں میرے پاس تھے۔ ایک تار مجھے دہلی سے گیا کہ فلاں شخص کے گھر میں کلکتہ میں تمہاری بیوی ظہور النساء ہے، اسے لے آؤ اور انہوں نے روپیہ گھر سے بھیج دیا۔ اب تعجب یہ ہے کہ جس روز میں یہاں سے یعنی کوئل سے کلکتہ کو سوار ہوا اُسی روز رات کو ظہور النساء کلکتہ سے دہلی روانہ ہوگئی مگر ریلوے ملازم نے گاڑی کا نمبر وغیرہ لکھا ہوا تھا۔ دوسرے روز کلکتہ پہنچا اور اس کو نہ پایا، افسوس ہوا۔ پھر سوگیا اور واپسی تار دیا کہ فلاں گاڑی سے ظہور النساء آ رہی ہے تم اسے اتار کر مجھے واپس تار دو کہ پہنچ گئی ہے تب مَیں یہاں سے روانہ ہوں گا۔ مَیں سو رہا تھا کہ مجھے گھر کا تار ملا کہ ظہور النساء آ گئی ہے، چلے آؤ۔ پھر مَیں کلکتہ سے دہلی واپس آگیا۔ یہ حضرت صاحب کی دعا کا نتیجہ تھا اس کے بعد میں ایک دفعہ جب حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے ملا تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے حضور سے عرض بھی کی تھی کہ اس بیچارہ کی بیوی چلی گئی ہے حضور دعا فرمائیں۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر14 صفحہ358 تا 360)

حضور علیہ السلام کی شفقت کا ذکر کرتے ہوئے آپ بیان کرتے ہیں: ’’ایک روز 1895ء یا 1896ء کی بات ہے حضرت صاحب اور مولوی صاحبان یعنی نور الدین صاحبؓ، مولوی عبدالکریم صاحبؓ، مولوی محمد احسن صاحب اور چند دوست جن میں مَیں بھی تھا، گول کمرے میں کھانا کھا رہے تھے کہ کھانے کے وقت قیمہ بھرے ہوئے کریلے آئے۔ حضرت صاحب نے ایک ایک کر کے تقسیم کر دیے، دو رہ گئے اور مجھے کوئی نہیں دیا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے تو نہیں دیا۔ حضرت صاحب نے معًا دونوں کریلے اٹھا کر میرے آگے رکھ دیے۔ مَیں نے عرض کی حضور بھی لے لیں۔ آپ نے فرمایا نہیں۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر14 صفحہ362-363)

حضرت اقدس علیہ السلام کی کون سی ادا پیاری لگی؟ کے سوال پر آپ فرماتے ہیں: ’’حضور کا چہرہ اس قدر خوبصورت تھا کہ یہ خوبصورتی مَیں نے کسی انسان میں نہ دیکھی۔ حضور جب کلام کرتے تھے تو چاند کی طرح چمکتا ہوا چہرہ نظر آتا تھا۔ آج تک حضور کے پیارے چہرے کی یاد میرے دل میں دلنشین ہے اور میں اس منہ کی دید کا بھوکا ہوں۔‘‘

(الحکم 21/28؍مئی 1935ء صفحہ24)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں ’’کتاب البریہ‘‘ اور ’’تحفہ قیصریہ‘‘ میں درج شدہ اپنے صحابہ کی دو مختلف فہرستوں میں آپ کا نام بھی درج فرمایا ہے۔

آپ کی یہی خواہش تھی کہ ہجرت کرکے قادیان آجائیں بالآخر ستمبر 1912ء میں اپنی یہ خواہش پوری کرتے ہوئے مستقل طور پر قادیان آگئے، آپ کی ہجرت کی خبر اخبار بدر میں یوں درج ہے: ’’برادر وزیر خان صاحب احمدی اوورسیر وسط ہند سے تعلق ملازمت قطع کر کے قادیان آگئے ہیں۔‘‘ (بدر 19؍ستمبر 1912ء صفحہ2) اس کے بعد آپ تا وفات قادیان میں رہے۔ آپ نے 26؍فروری 1941ء کو بعمر 74 سال قادیان میں وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 5655) ہونے کے بہشتی مقبرہ میں دفن کیے گئے، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا: ’’نہایت افسوس سے لکھا جاتا ہے کہ بابو وزیر خان صاحب اوورسیر جو حضرت مسیح موعود ؑ کے نہایت قدیم صحابہ میں سےتھے، آج وفات پاگئے ہیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ عصر کے بعد سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کو مقبرہ بہشتی میں دفن کیا گیا۔ احباب بلندی درجات کے لیے دعا کریں۔‘‘

(الفضل 28؍فروری 1941ء صفحہ2)

آپ نے دو شادیاں کیں، پہلی شادی منی پور میں ہی 1896ء میں کی، یہ بیوی ہندوؤں سے مسلمان ہوئی تھیں اور اسلامی نام ظہور النساء رکھا گیا، یہ نکاح حضرت مولوی غلام امام عزیزالواعظینؓ نے پڑھایا تھا۔ حضرت ظہور النساء بیگم صاحبہ شادی کے بعد پہلے بلب گڑھ اور پھر قادیان میں رہیں اور حضرت اقدسؑ کے گھر میں خدمت کی بھی توفیق پائی، انہوں نے 18؍جولائی 1913ء کو بعمر 33 سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ اس بیوی سے آپ کا ایک بیٹا مسمّٰی عبدالحئی تھا جوکہ بچپن میں ہی فوت ہوگیا۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر14 صفحہ358) اس کے بعد آپ کی دوسری شادی محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت صوفی نبی بخش رضی اللہ عنہ یکے از 313 صحابہ سے ہوئی۔ (الفضل 29؍اگست 1916ء صفحہ1) محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ 1902ء میں پیدا ہوئیں اور 23؍ستمبر 1974ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ اس بیوی سے آپ کے 9 بچے تھے جن میں سے پانچ کم عمری میں ہی وفات پاگئے، باقی چار میں امۃ المنان صاحبہ، محمد سعید خان غوری صاحب، امۃ الکریم خانم رحمان صاحبہ اور محمد رشید خان غوری صاحب تھے۔ محترمہ امۃ الکریم خانم رحمان صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب مرحوم آف یوکے نے 16؍نومبر 2021ء کو بعمر 86 سال وفات پائی، آپ جماعت کے معروف شاعر محترم جمیل الرحمان صاحب کی والدہ تھیں۔

(نوٹ: آپ کی تصویر محترم جمیل الرحمان صاحب نے مہیا کی ہے، فَجَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآء۔)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جون 2022