رُوح کا رشتہ تو روح دینے والے کے ساتھ ہی ہے، اور اُن محبوب ہستیوں کے ساتھ بھی روح کا رشتہ ہے جن کے لئے یہ زمین وآسامان وجود میں آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جیسے ہمارے خون کے رشتے،رحمی رشتے، خاندانی رشتے، پیار کے رشتے، محبت کے رشتے، یہ انمول رشتے، اسی طرح بیشمار رشتے ہیں جو ہر انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
لیکن آج میںاُن روحوں کی بات کروں گی جو قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی ہیں۔ کیا رشتہ تھا اُس روح سے جب رخصت ہوئی تودنیا میں پھیلے کروڑوں فرزندانِ اسلام کی آنکھوں کو اشکبار کر گئی۔ وہ دن، وہ گھڑی مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میرے بیٹے نے فون کر کے مجھے ہمارے پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی اندوہناک خبر سنائی۔ تھوڑی دیر کے لئے تو سکتہ طاری ہوگیا۔ یہ خبر سننے کے لئے کوئی بھی ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔ باوجود اس کے کہ کافی دنوں سے ناسازیٔ طبع کی خبریں دلوں کو ہلا رہی تھیں۔ پھر بھی جیسے ہی یہ خبر کانوں تک پہنچی پہلے تو یقین ہی نہیں آیا پھر جلدی سے ایم ٹی اے لگایا۔ کاش یہ خبر غلط ہو دل تھا کہ بھاگ کر مسجد پہنچنے کے لئے بے چین تھا۔ لیکن جا نہیں سکتی تھی کہ اُس وقت مجھے کوئی لے کر جانے والا نہیں تھا۔
اشکبار آنکھیں بند کیں تو ماضی میں کھو گئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی رحلت یاد آئی ان کی بیماری کے بارے میں کافی پریشانی کی خبریں آرہی تھیں… ایک دن شام کو قریباً سات یا آٹھ بجے سامی صاحب نے ریڈیو لگایا تو پہلی خبر ہی یہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی وفات ہو گئی ہے یہ خبر ہم پر بجلی بن کر گری تھی ۔ ہم اتنی اندوہ ناک خبر سننے کے لئے تیار نہیں تھے اُس وقت ہم پشاور میں مقیم تھے۔ گود میں پہلی بیٹی لبنیٰ لیے ربوہ سے آئے ابھی پندرہ بیس دن ہی ہوئے ہونگے، بچی دو ماہ کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ سامی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ بتاؤ اب ہم کیا کریں جبکہ اس وقت کوئی ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہے، بچی بھی بہت چھوٹی ہے کیا تم اس چھوٹی بچی کے ساتھ بسوں کو بدل بدل کر رات بھر کا سفر کر لو گی؟ میرا جواب تھا :جی ہاں میں ہر حال میں ربوہ جانا چاہتی ہوں اور پیارے آقاؓ کا دیدار کرنا اور جنازہ میں شامل ہونا چاہتی ہوں۔
نومبر کے مہینہ میں سردی ہوتی ہے ۔ویسے بھی پشاور میں پنجاب کی نسبت کچھ زیادہ ہی سردی ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی ننھی بچی کو کمبل میں لپیٹا اور اپنے بھی موسم کے لحاظ سے چند کپڑے لئے اور ٹیکسی لے کر رات کوراولپنڈی پہنچے۔ وہاں سے بس پر سرگودہا اور سرگودہا سے ربوہ پہنچے۔ مسجد مبارک ربوہ کی صبح کی اذان سُنی جس کی گونج آج تک محسوس کر سکتی ہوں۔وہ سوز و گداز میں ڈوبی اذان جو میرے کانوں تک آئی، وہ غم بھری رات کا سفر ہمیشہ مجھے یاد رہے گا۔ یہ روحانی رشتوں کے غم ہمیں کہاں چین لینے دیتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے زخموں پر فوراً مرہم لگا دیتا ہے جب ہم آنے والے خلیفہ کی بیعت کرتے ہیں تو۔الحمد للہ ! ہمارے روحانی رشتے، ساری وفائیں، اور اطاعت سب اُس امام کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثالثؒ کے پورے دور میں مَیں اپنے وطن سے دور رہی لیکن جب بھی آپؒ کا لندن کا دورہ ہوا۔ الحمد للہ! ہماری اور سب بچوں کی بہت یادگار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ لندن جب آپ کی وفات کی اچانک خبر ملی تو وہ گھڑی بھی قیامت سے کم نہیں تھی ہم سب لندن مسجد میں جمع ہو گئے۔ جب تک نئے خلیفہ کی خوشخبری نہیں سنی، ہم سب دعاؤں میں لگے رہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے روشنی کی نئی کرن دکھائی جو دیکھتے دیکھتے آسمان پر چاند اور سورج کی طرح چمکی اور ساری دنیا کو روشن کر دیا۔ جی ہاں میں ذکر کر رہی ہوں حضرت خلیفتہ المسیح الرابع ؒکا اُنہوں نے خلافت کی قبا پہن کر بہت کم عرصہ ربوہ میں گزا را اور پھر لندن تشریف لے آئے۔ یہ ہجرت اہل پاکستان کے لیے تکلیف دہ تھی مگر ہماری خوش نصیبی کہ وہ ہمارےپاس لندن تشریف لے آئے۔
اور۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔
اُن کے ساتھ رُوح کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا رشتہ قائم ہوا۔ پیارے آقا حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ 19 اپریل 2003ء کو کروڑوں لوگوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
وہ جو اپنی جماعت کے ہر فرد کو دعاؤں کا تحفہ دیتے تھے، روحانی سکون دیتے، جماعت کے ہر فرد کو اتنا پیار کرتے کہ ہر فرد کو یہ ہی احساس ہوتا کہ حضور ؒسب سے زیادہ مجھ سے ہی پیار کرتے ہیں۔ مَیں اور میری فیملی بھی اُن خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جو پیارے آقا ؒ کی زیارت، پیار، دعاؤں سے ہر آن سیراب ہوتے رہے۔ پیارے آقا ؒ کے آنے سے ہماری مسجد فضل لندن میں رونقیں بڑھ گئیں۔ خطبات، تقاریر اور مجالس عر فان کا ایک سلسلہ تھا جس کے فیض سے لندن کا ہر احمدی سیراب ہو رہا تھا۔ ہم اُس وقت مسجد فضل لندن سے کافی دور رہتے تھے اس وجہ سے ہر پراگرام میں شامل ہونا مشکل ہوتا جس کا ہمیں اور بچوں کو شدت سے احساس تھا بچے تو اختتام ہفتہ اپنے نانا نانی جان اور ماموں کے پاس رہ جاتے جو مسجد کے بالکل قریب رہتے تھے ان کے ساتھ پروگراموں بھی حصہ لے لیتے لیکن یہ کوئی ہمیشہ کے لئے حل نہیں تھا۔ سامی صاحب نے اُس کے لئے یہ حل نکالا کہ ہم گھر بدل کر مسجد کے قریب کوئی ٹھکانا ڈھونڈ لیتے ہیں۔
جس گھر میں ہم رہ رہے تھے کونسل نے ہمیں با لکل نیا بنا ہوا دیا تھا جو بہت مشکلوں کےبعد ملا تھا کافی بڑا گھر تھا جس میں ہم نے گھر کی ہر چیز نئی ڈلوائی تھی اوریہ گھر مجھے بہت پسند تھا۔ اتفاق سے اباجان کے ملنے والوں میں سے ایک صاحب نے مسجد کے قریب ایک گھر کی آفر دے دی جو سامی صاحب کو بہت پسند آئی تھی۔ مجھے کہا سوچ لو بچوں کا مستقبل سنوارنا چاہتی ہو یا اس گھر میں خوش رہنا تمہں پسند ہے۔ میں نے کہا مجھے کچھ دن دعا کے لئے دیں میں دعا کرتی ہوں پھر جو اللہ کو منظور ہوگا ویسے ہی کریں گے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے مطمئن کر دیا اور وہ گھر چھوڑ کر ہم پیارے آ قاؒ کے قدموں میں مسجد کے در پر آ بیٹھے۔ گھر چھوڑتے ہوئے اُس وقت تو بہت مشکل لگ رہا تھا، لیکن بعد میں جب روح کی غذا ملنا شروع ہوئی تو ہر بات بھول گئی۔ یاد رہا تو بس اتنا کہ صبح و شام ہم نوروں نہاتے رہے ہیں۔ نماز، تراویح، درس، خطبات جمعہ اور مجلسِ عرفان غرض سب کچھ ہماری دسترس میں تھا۔
اس کے علاوہ جس بات نے ہمیں حضور ؒکے بہت قریب کیا وہ تھا میری بیٹی کا حضور انور کے گھر ہر ہفتہ ڈیوٹی پر جانا۔ جہاں میری بیٹی لبنیٰ نے حضورؒ کا بہت پیار پایا وہاں ہمیں بھی اُس پیار کا کچھ نا کچھ حصہ ملتا رہا، کبھی کبھار میرا بھی اُس کے ساتھ جانا ہو جاتا اور پیارے آقاؒ کو بہت قریب سے ملنے اور دیکھنے اور بات کرنے کی سعادت مل جاتی۔ پھر یہ قربت بڑھتی گئی۔ میرے بیٹوں کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ حضور ؒ کے ساتھ صبح کی سیرپر جانے لگے۔ چھٹیوں میں میرے بیٹے منیر کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے ساتھ آفس میں ڈاک کی ڈیوٹی مل گئی، بلال سیکورٹی کی ڈیوٹی کرتا رہا۔ سامی صاحب بھی صبح و شام اپنی کسی نہ کسی ڈیوٹی پر رہتے۔ الحمد للہ کچھ عرصہ کے لئے مجھے اپنے حلقہ میں لجنہ کی صدارت کا عہدہ پر کام کی سعادت ملی۔ غرض ہم سب صبح و شام روحانی من و سلویٰ کھاتے رہے۔الحمد للہ
لبنیٰ کی شادی حضور انورؒ کی رضا مندی اور مشورہ سے ہوئی۔ اُس کے بعد میرے بیٹے کی منیر کی شادی کا وقت آیا اُس وقت منیر امریکہ میں تھا۔ ہم سب کی رضا مندی سے طے پایا رشتے کے لئے پاکستان جانے کا پروگرام بن رہا تھا ۔ مَیں اورسامی صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے پاس دعا کے لئے گئے اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ ہم اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور خواہش ہے کہ بہو پاکستان سے لیکر آئیں۔ ساتھ ہی حضور کو یہ بھی بتایا کہ میرا بیٹا جس کمپنی میں کام کرتا ہے اس نے شادی کے بعداُس کی بیوی کو اُسی وقت ویزا دینے کی حامی بھری ہے۔ یعنی بیوی لانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی ۔ یہ سب کام مجھے ایک ماہ میں ہی کرنے تھے اور پاکستان صرف میں نے اکیلے ہی جانا تھا۔ میرے بیٹے نے صرف پندرہ دن کی چھٹی پر آنا تھا۔ حضور انور نے میری ساری بات سُنی اور فر مایا :۔
ہاں ہاں کیوں نہیں تم جاؤ میں پاکستان میں منگلا صاحب کو فون کرواتا ہوں وہ آپ کی مدد کریں گے اور بی بی باچھی کو بھی اطلاع کروا دیتا ہوں۔ تم بے فکر ہو کر جاؤ۔ اُسی وقت پرائیویٹ سکرٹری صاحب کو بلایا اور تاکید کی کہ منگلا صاحب کو فون کر دیں اور ساتھ ہی بی بی باچھی صاحبہ کو اطلاع کر دیں جہاں تک ہو سکے مدد فر مائیں۔ آپ نے ربوہ میری قیام گاہ کا فون نمبر بھی لے لیا۔ (گو کہ پاکستان میں میری اپنی مصروفیت اور بی بی باچھی صاحبہ کا ساتھ ملنے سے مجھے منگلا صاحب سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا)
مَیں اور سامی صاحب اپنی خوش نصیبی پر حیران کہ ہم تو صرف مشورہ کرنے کے لئے آئے تھے، اور ہم پر اتنا کرم ہو گیا جو سوچا بھی نہیں تھا۔ مَیں ابھی لندن میں ہی تھی کہ میرے جانے کی اطلاع پاکستان پہنچ چکی تھی۔
ہم نے جلدی جلدی سیٹ بُک کروائی۔ پھر بھی مجھے جانے میں تقریباً ایک ہفتہ لگ گیا۔ کچھ دن مجھے لاہور میں لگ گئے۔ میں لاہور میں ہی تھی کہ مجھے ربوہ سے فون آنے شروع ہو گئے کہ آپ کہاں ہیں ؟ منگلا صاحب کا فون اور بی بی باچھی صاحبہ کے فون آ رہے ہیں۔ مَیں لاہور سے بھاگی۔ مجھے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ سب اتنی جلدی ہوگا۔ بی بی باچھی صاحبہ سے اس سےقبل میری کوئی بہت زیادہ جان پہچان نہیں تھی۔ میری بیٹی لبنیٰ جب حضور ؒکے گھر ڈیوٹی دینے جاتی تو اس طرح وہاں بی بی صاحبہ کے ساتھ ایک دو بار مختصر سلام دعا ہوئی تھی۔ احترام کی وجہ سے میں بہت کُھل کر نہیں مل سکی تھی۔ مَیں قربان جاؤں اللہ تعالیٰ کے جس نے ہمیں ایسی جماعت عطا کی جو کسی رشتہ کے بغیر ہی تمام رشتوں میں بندھی ہوئی ہے اور یہ بے نام رشتے رُوح کے اندر تک سما جاتے ہیں۔
میری زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان سے باہر گزرا ہے۔ اسی وجہ سے اِن سب معززین کے ساتھ رابطہ کرنے میں مجھے بہت مشکل محسوس ہو رہی تھی۔مَیں بے تکلفی سے بات نہیں کر پا رہی تھی۔ مگر بی بی باچھی صاحبہ کی شفقت اور محبت نے مجھے حوصلہ دیا میری کمزوری کو بہت اچھی طرح سے سنبھال لیا۔ مَیں تو وہاں کسی کو بھی نہیں جانتی تھی لیکن بی بی باچھی صاحبہ نے میری راہنمائی فر مائی۔سب جگہ میرے ساتھ گئیں۔ الحمد للہ۔ایک ماہ کے اندر جس مقصدکو میں لندن سے لیکر گئی تھی کامیاب ہوگئی اور میرے بیٹے کی شادی اِن سب معزز اور قابل احترام محسنوں کی شرکت سے انجام پائی۔
یہ سب میری وجہ سے نہیں ہوا۔
یہاں پر ہم حضرت خلیفتہ الرابعؒ کی محبتوں اور شفقتوں سے تو مالا مال تھے ہی مگر پیارے حضور انور ؒ نے میرے لئے پاکستان میں بھی محبتوں کی بوچھاڑ کروادی جن کو بھی علم ہوتا کہ مجھے حضورؒ نے اس شادی کیلئے بھجوایا ہے میرا کام ہاتھوں ہاتھ ہو جاتا۔ سب لوگوں نے اتنی محبت دی کہ مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں نے شادی ا پنی فیملی کے بغیر اکیلے میں کی ہے۔بی بی باچھی صاحبہ کے ساتھ محبت اور شفقت کا ایسا تعلق بنا کہ اُس کے بعد میں جب بھی پاکستان جاتی اُن کو ملنے جاتی تو میرے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ تیار ہوتا، اور اُن کا جب بھی لندن آنا ہوتا اگر مجھے کسی وجہ سےملنے میں دیر ہو گئی تو پیغام آتا تم ملنے کیوں نہیں آئیں؟۔
پھر اِن محبت کے رشتوں کو مزید تقویت سعدیہ خان (بی بی جمیل صاحبہ کی بیٹی) کی وجہ سے ملی۔سعدیہ بی بی میرے گھر کے قریب رہتی تھیں اور اُن کے بچے اُس وقت جس سکول میں جاتے تھے وہ میرے گھر کے سامنے ہی تھا، اس طرح ہم ایک دوسرے کی ضرورت بھی بن گئے تھے۔ سامی صاحب (مرحوم) سعدیہ کو اپنی بیٹیوں ہی کی طرح پیار کرتے تھے، اور سعدیہ بی بی کے لئے ہمارا گھر کوئی غیر نہیں تھا۔ اُن دنوں جب بی بی باچھی صاحبہ پاکستان سے تشریف لائیں تو سعدیہ کے گھر قیام کیا۔ محترمہ بی بی جمیل صاحبہ اور اُن کی بیٹی (بی بی صوفیہ) کا قیام بھی سعدیہ کے گھر ہی تھا۔ ظاہر ہے میری خوش نصیبی تھی کہ اکثر ملنا ہو جاتا تھا۔
سامی صاحب کا جماعتی کاموں کی وجہ سے ہر روز ہی مسجد جانا ہوتا، اس طرح اِن معزز مہمانوں کو کار میں لے جانے کا اعزاز بھی مل جاتا۔ ایک دن سعدیہ بی بی کا فون آیا کہ کیا آپ نے جمعہ پر جانا ہے ؟ اور اگر جانا ہے تو اُمی کو بھی ساتھ لے جائیں مَیں نے کہا کیوں نہیں ضرور سو ہمارے ساتھ محترمہ بی بی باچھی صاحبہ، محترمہ بی بی جمیل صاحبہ اور اُنکی بیٹی بی بی صوفیہ صاحبہ جمعہ پر گئے اور واپسی بھی ہمارے ساتھ ہی ہوئی۔ واپسی پر میں نے دعوت دی کہ آج توآپ سب میرے ساتھ ہی ہیں ہمارے گھر چلیں، کہنے لگیں آج نہیں پھر کبھی آئیں گے، میرا جواب تھا یہ توآپ ہمیشہ ہی کہتی ہیں ، آج میں نے کوئی خاص چیز نہیں پکائی گوبھی گوشت بنایا ہے کھانا کھا لیں۔ ہم نے بھی ابھی نہیں کھایا آئیں ہم سب مل کر کھانا کھاتے ہیں۔معزز مہمانوں نے پھر کبھی آنے کا کہہ کر مجھے چُپ کروا دیا مَیں احترام کی وجہ سے زیادہ اصرار نہ کر سکی۔ سا می صاحب مجھے اُتار کر اُن کو چھوڑنے چلے گئے۔
مَیں ابھی کوٹ وغیرہ اُتار کر کچن میں آئی ہی تھی کہ دروازہ کھٹکا، کھولا تو سب بیگمات مسکراتے ہوئے سامنے کھڑی تھیں۔ محترمہ بی بی باچھی صاحبہ اور محترمہ بی بی جمیل صاحبہ اور اُن کی بیٹی بی بی صوفیہ صاحبہ کہنے لگیں، لو اللہ میاں نے تمہاری بات سُن لی ہے۔ سعدیہ تو گھر پہ نہیں ہے تمہاری بھی خواہش پوری ہو گئی۔ میری تو خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ مگر ساتھ گھبراہٹ بھی ہوئی کہ معزز مہمانوں کی خاطر داری کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ پہلے سے ہی تیار شامی کباب، پودینے کی چٹنی، گوبھی گوشت اور گرما گرم پھُلکے مکھن لگا کر پیش کئے۔ مَیں دل میں شرمندہ سی تھی مگر معزز مہمانوں نے میری اتنی دلجوئی فر مائی کہ میں کبھی بھول نہ پاؤں گی۔ اُس کے بعد جب بھی ملاقات ہوتی اُس سادہ سے کھانے کی تعریف ضرور ہوتی۔ اپنے محترم بھائی حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ کی طرح اُن معزز بہنوں کو بھی لوگوں کے دل جیتنے کا ہنر آتا تھا۔ اس لئے ہر وہ شخص جو ایک بار بی بی باچھی صاحبہ کو مل لیتا اُس کو یقین ہو جاتا کہ یہ معزز ہستی صرف اور صرف اتنا پیار مجھ سے ہی کرتی ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ اُن کی شخصیت اتنی دلربا اور پُر کشش تھی کہ دل چاہتا ہے کہا جائے کہ وہ صرف میرے ساتھ ہی پیار کرتی ہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ الحمد للہ مَیں خوش نصیب ہوں کہ میرے حصہ میں بھی آپ کا پیار آیا۔
اب میں دوبارہ اُسی مضمون کی طرف واپس آتی ہوں۔ جس روحانی رشتے کے ساتھ ہماری روحوں کا رشتہ بھی منسلک ہے۔ یعنی خلافت کا بابرکت وجود۔ مجھے یاد ہے حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ کے شروع شروع کے رمضان المبارک کی بات کر رہی ہوں، مسجد فضل لندن میں عصر کی نماز کے بعد درس پھر مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں ہی روزہ افطار ہوتا، عشاء کی نماز کے بعد تراویح۔ اس طرح رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹتے ہوئے صبح سحر کا وقت ہوجاتا روزہ رکھنے کے بعد پھر مسجد فضل لندن کی طرف بھاگتے۔ فجر کی نماز کے بعد جب نصرت ہال سے باہر نکلتے تو اُتنی دیر تک حضور انور ؒ نماز پڑھا کر اُپر اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے ہو جاتے۔ ہم سب کے مُنہ اُ وپر کو اُ ٹھے ہوئے ہوتے۔ جتنی دیر حضور ؒ بالکونی میں تشریف فر ما ہوتے ہم سب اس بابرکت نظارہ سے محظوظ ہوتے۔ اگلے دن جب لبنیٰ یا اور کوئی جس کی بھی ڈیوٹی ہوتی حضور اُس کو پوری تفصیل سے فر ماتے کہ آج تمہاری امی یا چھوٹی بہن بھی آئی تھی لیکن تمہارے بھائی کو نہیں دیکھا۔ غرض ہمیں دیکھ کر ایک کنبہ کی طرح پہچان جاتے تھے کہ کون آیا اور کون نہیں آیا۔ اُن دنوں ہماری باتوں کا موضوع تھا تو ایک ہی وہ تھے ہمارے پیارے آقاؒ، اُن کی ہی باتیں، اُن کا ہی ذکر ِ خیر یعنی ہماری زندگیوں کا محور حضورانور ؒ ہی ہوتے تھے۔
مجھ جیسی نا چیز بیمار ہوئی تو گھر فون کر کے خیریت دریافت کر کے مجھ پر احسان کیا۔ پھر جب بھی ملا قات ہوتی تو ایک ہی فقرہ دہراتے تم مرنے سے بچ گئی ہو۔ کیونکہ میرا ایک بہت بڑا اپریشن ہوا تھا جس کی ساری تفصیل سے پیارے آقاؒ کو آگاہ کیا گیا تھا اور پیارے آقا نے مجھے حفاظتی تدابیر بھی سمجھائی تھیں۔ یہ تو میں ہوں لیکن صرف میں ہی نہیں یہاں تو الحمد للہ ! ہر فرد ہی اس پیار کے چشمہ سے سیراب ہو رہا تھا۔
یہاں میں چند اشعار لکھوں گی جو ہم سب کے دلوں کی تر جمانی کرتے ہیں۔ ؎
جس کی الفت میں گر فتار تھے لاکھوں انساں
اور وہ ایسا تھا کہ لاکھوں پہ فدا رہتا تھا
ہاں وہی شخص جو رہتا تھا دلوں میں ہر دم
وہ جو ہر سانس کی ڈوری میں بندھا رہتا تھا
ہفت اقلیم میں پھلائے ہوئے دستِ دعا
بھیگی پلکوں سے ہر اِک وقفِ دعا رہتا تھا
’’مجھ سے ہی پیار وہ کرتا ہے‘‘ یہ تھا سب کو گماں
اس کا پیار ایسا تھا ہر دل میں بسا رہتا تھا
(عطاء المجیب راشد مورخہ ۲۲ ۔ اپریل ۲۰۰۳ء)
اور پھر یہ کروڑوں لوگوں کے دِلوں میں روحانی روح پھونک کر، پیار محبت کی جوت جگا کر، دین کی لگن لگا کر،سجدوں میں گریہ و زاری کا سبق سکھا کر، دُنیا جہاں میں مسجدوں کی تعمیر اور قرآن کریم کی اشاعت کی تکمیل کروا کر، قرآن کریم اور حدیث کا درس سناکر، سوال جواب کی مجالس سجا کر، اردو کلاس لگا کر، دُنیا جہان کے دل جیت کر، لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر کر، اپنی شاعری سے لوگوں کو گر ما کر، ہو میو پیتھی کی میٹھی گولیاں کھلا کر، تمام ذمہ دایوں کو نبھا کر، ایک بہت ہی متحرک رہبر اور رہنما، ہم سب کے غموں کو سینہ میں چھپا کر، ہم سب کو غم زدہ اور سوگوار چھوڑ کر خود اپنے ربّ رحیم کے گھر حاضر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ آپؒ پر ہزاروں رحمتیں اور بر کتیں نازل فر مائے آ مین۔
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو
لیکن اس خبر سے ایک سیکنڈ کے لئے ہزاروں عقیدت مندوں کے دل کی دھڑکنیں بند ہو نے کو تھیں۔ جو لند ن سے باہر تھے وہ ٹی وی کھول کر بیٹھ گئے اور جو بھی مسجد فضل پہنچ سکتا تھا اُس نے وہاں پہنچنے میں دیر نہیں کی۔
پھر کون بھول سکتا ہے اُس آنسوؤں سے بھگی ہوئی شام کی خاموشی کو، اُس سکتہ کو،ایک عجیب سا ڈر اور خوف، ہزاروں عقیدت مند وں کا جمِ غفیر مسجد کے باہر دم سادھے بیٹھا تھا اور نئے چاند کے نکلنے کا منتظر تھا۔ مسجد کے اندر ہم ہاتھ اُٹھائے اپنی اپنی دُعاؤں کی دور بین لگائے اللہ تعالیٰ سے گریہ وزاری کرتے ہوئے نئے چاند کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ہم غمزدہ تھے، سوگوار تھے، بے چین تھے، خوف زدہ تھے، ہم سب دم سادھے بیٹھے تھے کہ بہت ہی مدبر و پُر سوز، غم اور خوشی میں ڈوبی ہوئی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی جس نے ایک دم خوف کو اور بے چینی کو امن میں بدل دیا۔ یہ آواز ہمارے لندن مسجد فضل کے امام صاحب جناب عطاء المجیب راشد صاحب کی تھی، جس سے الحمد للہ ہم سب مسرور ہو گئے۔ یعنی نیا چاند آسمان پر طلوع ہو چکا تھا۔ ہمارے نئے خلیفہ کا انتخاب بفضلہ تعالیٰ بخیرو خوبی انجام پا چُکا تھا۔الحمد للہ ! ہم ہزاروں لوگوں نے پیارے آقا حضرت خلیفتہ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزکے ہاتھ پر ایک ساتھ بیعت کی۔
(جہاں مجھے پیارے حضور خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزمرزا مسرور احمد صاحب کے خلیفہ ہونے کی خوشی تھی وہاں مجھے اس بات کی بھی خوشی تھی کہ سامی صاحب نے دنیا سے جاتے ہوئے میرے کان میں ایک بات کی تھی کہ کسی سے نہ کروں۔ سامی صاحب نے کہا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آئندہ ہمارے خلیفہ حضرت مرزامسرور احمد صاحب ہونگے۔ مگر یہ بات تم دل میں رکھنا کسی سے بھی ذکر نہ کرنا۔ مَیں نہیں جانتی یہ بات اُ نہوں نے کیوں کہی تھی۔ اب جب انتخاب کے مرحلہ سے ہم گزر رہے تھے تو سامی صاحب کی بات بھی میرے دل و دماغ میں موجود تھی۔ اس بات کا ذکر مَیں نے حضورؒ کی وفات کے بعد صرف اپنے چھوٹے بیٹے عکاشہ کے ساتھ ضرور کیا تھا کہ اگر میں نہ رہوں تو میرے بیٹے کو اپنے ابو کی بات کا علم ہو۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے انتخاب کے بعد میں نے اپنے بچوں کو یہ بات بتائی تھی لیکن آج پہلی بار کُھل کر اس کا اظہار کر رہی ہوں۔)
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ یہ رُوحانی رشتے ہمیشہ ہماری روحوں کو روحانی غذا پہنچاتے رہیں۔ مَیں اور میرے بچے اور میری آنے والی پوری نسلیں خلافت کی مضبوط ڈور سے بندھے رہیں اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا مبارک سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور خلافت کا یہ بابرکت سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہے۔ آ مین ثم آ مین۔
(صٍفیہ بشیر سامی۔ لندن)