• 29 اپریل, 2024

’’ابراہیم بنو‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’ابراہیم بنو‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
(حج اور عید الاضحیہ کی مناسبت سے دو اقساط پر مشتمل یہ آرٹیکل بطور اداریہ یکجائی طور پر ہدیہ قارئین کیا جارہا ہے)

خاکسار کو امسال 2022ء میں جمعۃ الوداع کا خطبہ مسجد مبارک میں سننے اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتداء میں نماز جمعہ پڑھنے کی توفیق ملی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

اس خطبہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت 201 فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد پڑھا ’’اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ189 ایڈیشن1984ء)

یہ ارشاد سنتے ہی خاکسار کے ذہن میں قارئین الفضل کے لئے ایک مضمون ابھرنے لگا۔ خاکسار اپنے مضمون کا آغاز حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے بیان فرمودہ ارشاد سے کرنا چاہے گا جس میں حضور نے حضرت مسیح موعودؑ کے اس ارشاد کو بیان فرما کر ساتھ کے ساتھ اس کی تشریح بھی فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’پھر خدا تعالیٰ کی محبت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ نے فرمایا ’’خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس غرض ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔

فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا

(البقرہ: 201)

یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو…‘‘

فرمایا کہ ’’اصل توحید کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔‘‘ عملی طور پر بھی محبت کرنی ہو گی، اظہار کرنا ہو گا۔ ’’نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے۔‘‘ اس کا منہ میٹھا نہیں ہو جاتا اگر صرف چینی کا نام لے لے، شوگر کا نام لے لے تو میٹھا ہو جائے گا۔ نہیں۔ ’’یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اوروقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔ نہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق بھی لازمی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو اور یہی اسلام ہے۔ یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے جاری کیا ہے وہ یقیناً بے نصیب رہتا ہے۔ اگرکچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالبِ صادق کو چاہئے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمۂ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیریت کا چولہ اتار کر آستانہ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ ا لسلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔

اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔‘‘

یہی اللہ تعالیٰ نے، قرآن شریف نے ابراہیم کی خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ وفا دار تھے۔ ’’پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ

ولی پرست نہ بنو۔ بلکہ ولی بنو
اور پیر پرست نہ بنو۔ بلکہ پیر بنو

تم ان راہوں سے آؤ۔‘‘ پیر بن کے یہ نہیں کہ پیروں کی طرح نخوت اور تکبر پیدا ہو جائے بلکہ عاجزی انکساری پیدا کرو، وفا داری پیدا کرو۔ یہ مراد ہے اس سے۔ آج کل کے پیروں کی طرح دنیا داری کے اظہار اس سے مراد نہیں ہے۔ فرمایا کہ ’’بے شک وہ تنگ راہیں ہیں‘‘ تم ان راہوں سے آؤ ’’لیکن ان سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے۔ اگر گزرنا چاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو پھینک دے۔ تم یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم میں وفا داری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے۔ ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفا داری کو چھوڑ کر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھا سکتا اور نہ کوئی اسے فریب دے سکتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ188-190 ایڈیشن1984ء)

(الفضل آن لائن 23 مئی 2022ء)

حضرت ابراہیم علیہ السلام جدّ امجد یعنی نبیوں کے باپ کہلاتے ہیں۔ آپؑ کی اولاد اور نسل سے کثرت سے انبیاء پیدا ہوئے حتٰی کہ نبیوں کے سردار، محسن انسانیت، خاتم الانبیاء سیدنا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپؑ ہی کی نسل میں سے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد ’’ابراہیم بنو‘‘ کے تحت حضرت ابراہیمؑ کے بہت سے خصائل، خوبیاں اور محاسن پیش ہو سکتے ہیں جس کے لئے ایک دفتر چاہئے۔ خاکسار یہاں ایک مختصر سے آرٹیکل میں قرآن کریم میں موجود حضرت ابراہیمؑ کی سیرت کے چند پہلو اور تعلیم کے چند حصے بیان کرنے کی کوشش کرے گا۔

• اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

فَاتَّبِعُوۡا مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَمَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ

(آل عمران: 96)

پس ابراہیمِ حنیف کی ملت کی پیروی کرو اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا۔

• حضرت ابراہیمؑ کی ملت کی پیروی کی اس لئے تلقین کی گئی کیونکہ خود اللہ کے سب سے برگزیدہ نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؑ کی ملت کی پیروی کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا

(النساء: 126)

اور اس نے ابراہیمِ حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو۔

• اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل آیت124 میں حکم دے کر یوں بیان کیا کہ تو ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر اور وہ مشرکین میں سے نہ تھا۔

ایسا کیوں ہے اس کی وجہ بھی بتا دی۔

دِیۡنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ۚ وَمَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ

(الانعام: 162)

ایک قائم رہنے والا دین، ابراہیمِ حنیف کی ملت (بنایا ہے) اور وہ ہرگز مشرکین میں سے نہ تھا۔

• ملت ابراہیم کی اتنی تاکید کرنے کے بعد انتباہ بھی ان الفاظ میں فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَمَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَلَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَاِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ

(البقرہ: 131)

اور کون ابراہیم کی ملّت سے اِعراض کرتا ہے سوائے اس کے جس نے اپنے نفس کو بے وقوف بنا دیا۔ اور یقیناً ہم نے اُس (یعنی ابراہیم) کو دنیا میں بھی چُن لیا اور یقیناً آخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہوگا۔

حضرت ابراہیم کا بلند مقام و مرتبہ

• اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنا خلیل اور دوست بنایا جیسا کہ فرمایا

وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا

(النساء: 126)

اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا تھا۔

خلیل، گوڑے دوست کو کہتے ہیں۔

• اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بار بار ’’حنیف‘‘ یعنی سیدھے راستہ پر چلنے والا کہہ کر پکارا۔ آپؑ کی ملت کی پیروی کرنے والا بھی ’’حنیف‘‘ کہلایا۔ جیسے فرمایا

بَلۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہٖمَ حَنِیۡفًا

(البقرہ: 136)

یعنی ابراہیم حنیف کی امت ہو جاؤ۔

• حضرت ابراہیمؑ مشرکوں میں ہر گز نہ تھے جیسے وَمَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ کے الفاظ بار بار قرآن میں آئے یعنی شرک کا شائبہ تک اس میں نہ تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ آپؑ کی بت پرستی سے بیزاری کاایک بہت دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’حضرت ابراہیم ایک بُت پرست بلکہ بت ساز گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ اور چلڈیا کے ایک شہر اُورکسدیم کے رہنے والے تھے۔ ان کے خاندان کے لوگوں کا گزارہ ہی بتوں کے چڑھاووں اور بت فروشی پر تھا۔ والد بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ اور چچا کی آغوش میں انہوں نے پرورش پائی تھی جس نے ان کے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بیٹوں کے ساتھ آپ کو بھی بت فروشی کے کام پر لگا دیا تھا۔ حقیقت سے نا آشنا چچا کو یہ معلوم نہ تھا کہ جس دل کو خالقِ کون و مکاں چُن چکا ہے اُس میں بتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ پہلے ہی دن ایک امیر گاہک جو اپنی عمر کی انتہائی منزلیں طے کر رہا تھا اور تھا بھی مالدار، بُت خریدنے کے لئے آیا۔ بت فروش چچا کے بیٹے خوش ہوئے کہ آج اچھی قیمت پر سودا ہو گا۔ بوڑھے امیر نے ایک اچھا سا بُت چنا اور قیمت دینے ہی لگا تھا کہ اس بچہ کی توجہ اُس گاہک کی طرف ہوئی۔ اُس نے سوال کیا۔ میاں بوڑھے! تم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو۔ تم اس چیز کا کیا کرو گے؟ اُس نے جواب دیا کہ گھر لے جاؤں گا اور ایک صاف اور مطہر جگہ میں رکھ کر اس کی عبادت کروں گا۔ یہ سعید بچہ اس خیال پر اپنے جذبات نہ روک سکا اور پوچھا۔ تمہاری عمر کیا ہو گی؟۔ اُس نے اپنی عمر بتائی اور اس بچہ نے نہایت حقارت آ میز ہنسی ہنس کر کہا کہ تم اتنے بڑے ہو اور یہ بُت تو ابھی چند دن ہوئے میرے چچا نے بنوایا ہے کیا تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے شرم نہ آئے گی۔ نہ معلوم اس بوڑھے کے دل پر توحید کی کوئی چنگاری گری یا نہ گری لیکن اُس وقت اس بت کا خریدنا اُس کے لئے مشکل ہو گیا اور وہ بت وہیں پھینک کر واپس چلا گیا۔ اس طرح ایک اچھے گاہک کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر بھائی سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنے باپ تارہ کو اطلاع دی جس نے اس بچہ کی خوب خبر لی۔ یہ پہلی تکلیف تھی جو اس پاکباز ہستی نے توحید کے لئے اٹھائی مگر باوجود چھوٹی عمر اور کم سنی کے زمانہ کے یہ سزا جوشِ توحید کو سرد کرنے کی بجائے اُسے اور بھڑکا نے کا موجب ہوئی۔ سزا نے فکر کا دروازہ کھولا اور فکر نے عرفان کی کھڑکیاں کھول دیں۔ یہاں تک کہ بچپن کی طبعی سعادت جوانی کا پختہ عقیدہ بن گئی۔ اور آخر اللہ تعالیٰ کا نور ذہنی نور پر گر کر الہام کی روشنی پیدا کرنے کا موجب ہو گیا۔ اور خدا تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے نبوت کے مقام پر سرفراز فرما دیا۔

چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام خاندان کا گزارہ ہی بتوں کی فروخت پر تھا اور تارہ خود بت پرست تھا جیسا کہ بائبل کی کتاب یشوع باب 24 آیت2 سے ثابت ہوتا ہے اس لئے ان کے چچا اور چچا زاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم پروہت ہیں اور ہمارا گزارہ ہی اس پر ہے۔ اگر تم نے بتوں کی پر ستش نہ کی تو ہمارا رزق بند ہو جائے گا۔ مگر آپ نے نہایت دلیری سے جواب دیا کہ جن بتوں کو انسان اپنے ہاتھ سے گھڑتا ہے ان کو میں ہر گز سجدہ نہیں کر سکتا۔

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ153-154)

حضرت ابراہیمؑ بھی اسوہٴ حسنہ ہیں

اللہ تعالیٰ آپؑ اور آپؑ کی ملت کو اسوہ حسنہ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے

قَدۡ کَانَتۡ لَکُمۡ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗ

(الممتحنہ: 5)

یقیناً تمہارے لئے ابراہیم اور ان لوگوں میں جو اُس کے ساتھ تھے ایک اُسوہ حسنہ ہے۔

آپؑ کی ذات کو ایک امت کہہ کر پکارنا

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیۡفًا ؕ وَلَمۡ یَکُ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۲۱﴾ۙ شَاکِرًا لِّاَنۡعُمِہٖ ؕ اِجۡتَبٰہُ وَہَدٰٮہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۲۲﴾وَاٰتَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ؕ وَاِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۲۳﴾ؕ

(النحل: 121-123)

یقیناً ابراہیم (فی ذاتہ) ایک امت تھا جو ہمیشہ اللہ کا فرمانبردار، اسی کی طرف جھکا رہنے والا تھا اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھا۔

اس کی نعمتوں کا شکر کرنے والا تھا۔ اُس (اللہ) نے اسے چن لیا اور اسے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دی۔

اور ہم نے اُسے دنیا میں حَسَنہ عطا کی اور آخرت میں وہ یقیناً صالحین میں سے ہوگا۔

اب ان آیات میں حضرت ابراہیمؑ کی بہت سی خوبیاں بیان ہوئی ہیں۔ ایک تو وہ اپنی ذات میں امت تھے۔ وہ خود ایک جماعت تھے۔ یکجائیت کی علامت تھے۔ آج حضرت ابراہیمؑ کی اس علامت یا خوبی کو لے کر ہم میں سے ہر ایک کو Unity کی علامت بننا ہے اور شجر خلافت کے سائے تلے رہ کر خود بھی اس سائے سے فائدہ اٹھانا ہے اور اپنے ارد گرد بسنے والے عزیزو اقارب و دیگر احباب کو بھی اس گھنے سائے تلے رکھنا ہے۔

پھر دوسری خوبی قانتاً کے الفاظ میں ہے۔ جس کے ایک معنی تو جھکے رہنے کے ہیں۔ حنیف اور شرک نہ کرنے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ تاہم اللہ کی نعماء پر شکر گزاری کا ایک بہت بڑا پہلو جسے آج معاشرے میں ہوا دینے کی بہت ضرورت ہے۔ اس خوبی کا ذکر سورہ الشعراء آیت 79 تا 86 میں بھی تفصیل سے ملتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان آیات کے حوالہ سے سورہ النحل کے تعارفی نوٹ میں فرمایا ہے۔
’’اس سورت کے آخری رکوع میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو ایک فرد تھے، پوری امّت کے طور پرپیش کیا گیا ہے کیونکہ آپ ہی سے بہت سی امّتوں نے پیدا ہونا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ کر یہ مضمون اپنے معراج تک پہنچ جاتا ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وحی فرمائی گئی کہ اس ابراہیمی سنت پر عمل پیرا ہو اور اس کا خلاصہ یہ پیش فرما دیا گیا کہ اپنے ربّ کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ سے بلاؤ۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ438)

تعمیر کعبہ

آپؑ کی سیرت کا یک بہت اہم پہلو اپنی ذریّت کو وادی غیر ذی زرع میں آباد کرنا، خانہ کعبہ کی تعمیراسے پاک و صاف رکھنے کی تلقین اور مکّہ کو پُر امن شہر بنائے رکھے جانے کے لئے دعائیں ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر ملتا ہے جیسے سورۃ ابراہیم: 36-38، البقرہ: 126-130، الشعراء: 84-88۔

اوّل۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو معزز گھر کے پاس اس لئے آباد کہ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ کہ وہ نماز قائم کریں۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے ہم میں سے جن کو توفیق ہو انہیں ضرور مساجد کے قریب حضرت ابراہیمؑ کی اقتداء میں گھر بنوانے چاہئیں۔ ہم میں سے بعض بہت شوق و ذوق کے ساتھ مساجد کے قریب گھر خریدتے یا بنواتے ہیں تا اولاد کی اصلاح ہو مگر وہ نمازوں میں سُستی کر جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی مثال دے کر، ان کا واقعہ بیان کر کے خدا تعالیٰ نے ہمیں اسی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان پر غور کریں تو یہی سبق ہے۔ جب یہ دونوں باپ بیٹا خدا تعالیٰ کے سب سے پہلے گھر کی دیواریں اور بنیادیں نئے سرے سے کھڑی کر رہے تھے تو کمال عاجزی اور انکسار سے یہی دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! ہماری اس قربانی کو قبول فرما جو ہم تیرے حکم کے مطابق کر رہے ہیں۔ یہ بھی کمال عاجزی ہے کہ ایک کام جس کے بارہ میں توان کو خودنہیں پتہ تھا۔ خانہ کعبہ کی بنیادوں کا علم تو اللہ تعالیٰ کی نشاندہی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہوا تھا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا تھا کہ یہ سب سے قدیم گھر ہے۔ اور یہ وہ گھر ہے جس نے اب رہتی دنیا تک وحدانیت کا نشان اور symbol بن کر قائم رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمارت کو اپنی توحید کا نشان بنانا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ دعا ہے کہ اے اللہ! ہم جو تیرے حکم سے اس کی تعمیر کر رہے ہیں تو اس تعمیر کے ساتھ ہماری قربانیوں کو بھی وابستہ کر دے۔۔۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول کر کے جن فضلوں کا تو وارث بنائے گاان کے مقابلے پر یہ قربانی بالکل حقیر قربانی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ قربانی کا قبول کرنا بھی تیرے فضل پر ہی منحصر ہے۔ ہم اگر سمجھ بھی رہے ہیں کہ ہم قربانی کر رہے ہیں تو ہمیں کیا پتہ کہ حقیقت کیا ہے؟ یہ قربانی ہے بھی کہ نہیں۔ پس تُو جو دعاؤں کا سننے والا ہے، تیرے سے ہم عاجزانہ طور پر یہ دعا کرتے ہیں کہ تیرا گھر جو تیرے حکم سے تعمیر ہو رہا ہے اس کی تعمیر میں جو کچھ بھی ہم نے پیش کیا ہے تُو محض اور محض اپنے فضل سے قبول فرما لے۔ اور قبول فرمانے کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہو کہ ہمارا نام بھی اس سے وابستہ ہو جائے۔۔۔۔ ہم یہ دعا کرتے تھے کہ اس گھر میں آکر دعائیں کرنے والے بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اور جوجو بھی ان سے وابستہ ہیں وہ بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ان باپ بیٹے نے وہ قربانیاں دی تھیں کہ آج تک ہم یاد رکھتے ہیں۔ مسلمان جب ہر نماز میں درود پڑھتے ہیں اور ہر نفل کی آخری رکعت میں جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی اور آپؑ کی آل پر بھی اس حوالہ سے درود بھیجتے ہیں۔ یہ اعزاز حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ کی وفا اور کامل طور پر خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لئے تیار ہونے کی وجہ سے ملا۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ وَاِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) اور ابراہیم جس نے وفا کی اور عہد پورا کیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17ستمبر 2010ء از الفضل آن لائن 25 مئی 2022ء)

دوم۔ اولاد کو وافر رزق دینے کی التجاء اللہ تعالیٰ سے یہ کہہ کر کی کہ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ (ابراہیم: 38) کہ خدا یا! وہ تیرا شکر کریں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو اپنے ایک خطبہ میں یوں بیان فرمایا ہے۔
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بھی اپنی اولاد کے لئے رزق کی دعا کی تو ساتھ ہی یہ عرض کی کہ وہ تیرے شکر گزار رہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر ملتا ہے وَارۡزُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ (ابراہیم: 38) یعنی انہیں پھلوں میں سے رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بنیں۔ پس کاروبار میں برکت، تجارتوں میں برکت، زارعت میں برکت، یہ سب پھل ہیں جو رزق میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور مومن جب ان فضلوں کو دیکھتا ہے تو شکر گزاری میں بڑھتا ہے اور یہ بات اس کے ایمان میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ اس کے تقویٰ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے اور بننی چاہئے۔ جب ایک مومن ایمان اور تقویٰ اور شکر گزاری میں بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید نعمتوں سے نوازتا ہے۔ اس کے پھلوں میں مزید برکت پڑتی ہے۔ اس کے رزق کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید بڑھاتا ہے۔ یہ سلوک اللہ تعالیٰ انہی سے فرماتا ہے جو ایمان میں بڑھے ہوئے ہیں یا بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ رزق کا اضافہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں کہ کسی نے لکھا کہ میرے رزق میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو گیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہے کہ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم: 8) یعنی اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔ ایک غیر مومن کے لئے تو کہا جا سکتا ہے کہ قانون قدرت کے تحت اس کی محنت کو اللہ تعالیٰ نے پھل لگایا لیکن ایک مومن کے لئے اس سے زائد چیز بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور ایمان اور تقویٰ میں بڑھنے کے ساتھ جب محنت ہو تو کئی گنا زیادہ پھل لگتا ہے اور پھر صرف محنت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پھر مومن کو اگر اس کی محنت میں کوئی کمی رہ بھی گئی ہو تو اپنے فضل سے اس کمی کو پورا کرتے ہوئے زائد بھی عطا فرماتا ہے یا اس کمی کو پور افرماتا ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر اُس کا خداتعالیٰ پر ایمان ہے تو خدائے تعالیٰ رزّاق ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کا ذمہ وار مَیں ہوں۔ پس یہ ہے اس خدا کااپنے بندوں سے سلوک جو رزّاق ہے کہ تھوڑی محنت میں بھی برکت ڈال دیتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13جون 2008ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

حضرت ابراہیمؑ کو اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اس قدر عزیز تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو امام بنانے کا وعدہ فرمایا تو آپؑ نے وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ (البقرہ: 125) کہہ کر اپنی اولاد سے بھی امام بنانے کی التجاء اللہ تعالیٰ کو کر دی۔ سورۃ البقرہ کی انہی آیات کی تفصیل میں ’’مقام ابراہیم‘‘ کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا کر اللہ کے گھر کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری بھی حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیل علیہما السلام کو سونپ دی۔ پھر خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کے لئے دعاؤں کا ذکر ہے۔ اور سب سے بڑھ کر حضرت محمدؐکے مبعوث کرنے کی دعا ہے۔ ایسے نبی کی جو آیات کی تلاوت کرے۔ کتاب کی تعلیم دے۔ حکمت سکھلائے اور تزکیہ کرے۔ اس نبی جو حضرت ابراہیمؑ کی ذریّت سے ہی ہے کی اقتداء میں یہ چاروں کام ہمارے فرائض میں شامل ہیں۔ جہاں تک مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنانے کا تعلق ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نیت نماز اور التحیات میں درود ابراہیمی لا کر ہمیں توجہ دلائی کہ حضرت ابراہیمؑ کو نہیں بھولنا بلکہ ابراہیمی نسل میں اپنے آپ کو شامل رکھنے کے لئے درود ابراہیمی کا ورد کرتے رہنا ہے۔

بیٹے کو ذبح کرنے سے متعلق رؤیا اور اس کی تعمیل

حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام نے احباب جماعت کو ابراہیم بننے کی جو تلقین فرمائی اس میں یہ بھی مد نظر تھا (جس کا ذکر آپؑ نے متعدد جگہوں پر کیا) کہ جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو ماتھے کے بل لٹا کر اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی کوشش کی۔ (الصافات: 104-106) اس طرح ہم میں سے ہر ایک کو ابراہیم بن کر اپنے اپنے اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اور دعوت الی اللہ و تبلیغ کا جو جذبہ باپ بیٹا میں موجود تھا وہی جذبہ ہمارے اندر بھی ہونا چاہئے۔

ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ ہم نہ صرف خود ابراہیم بنیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی ابراہیم بنانے کی سعی کریں۔ جس کے لئے ہمیں حضرت ابراہیمؑ کی سیرت کو پڑھتے رہنا چاہئے۔ ہم جب کہتے ہیں کہ ہم ابراہیم بنیں تو پھر آپ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے اوصاف اور زریت سے پیدا ہونے والے ذبح عظیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کرتے رہیں کیونکہ حضرت اسماعیلؑ ذبیح اللہ تھے۔ جنہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر میں اپنے ابا کا ہاتھ بٹایا اور پھر آپؑ کی ہی ذریّت سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے وقت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کی۔ جن کی قربانیوں کو بعد میں آنے والی اقوام یاد رکھتی ہیں اور ہر سال کروڑوں لوگ مکہ اور مدینہ حاضر ہو کر اس تاریخ کو نہ صرف دہراتے ہیں بلکہ ان کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔ جو مکہ مدینہ حاضر نہیں ہو سکتے وہ دنیا بھر میں لاکھوں مینڈھے حضرت ابراہیم و اسماعیل عیلھما السلام کی یاد میں ذبح کرتے ہیں۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جن انبیاء کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے آپ کی جسمانی اور روحانی ذریت میں سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طویل ذکر کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر طوالت سے ملتا ہے جس کو اللہ نے اس رنگ میں بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ صحیفوں کی ہر بہترین تعلیم کو اپنے (یعنی قرآن کریم) اندر جمع کر لیا ہے۔ صحف ابراہیمؑ میں سے بھی بہترین تعلیم اس میں موجود ہے اور صحف موسیٰ میں سے بھی۔‘‘

(تفسیری فٹ نوٹ از ترجمۃ القرآن خلیفہ رابع صفحہ 1160 سورۃ الاعلیٰ آیات19-20)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’اس وقت خدا تعالیٰ پھر ایک قوم کو معزز بنانا چاہتا ہے اور اس پر اپنا فضل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے بھی وہی شرط اور امتحان ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے لئے تھا۔ وہ کیا؟ سچی اطاعت اور پوری فرمانبرداری۔ اس کو اپنا شعار بناؤ اور خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنی رضا پر مقدم کر لو۔ دین کو دنیا پر اپنے عمل اور چلن سے مقدم کر کے دکھاؤ۔ پھر خدا تعالیٰ کی نصرتیں تمہارے ساتھ ہوں گی۔ اس کے فضلوں کے وارث تم بنو گے۔‘‘

(خطبات نور صفحہ189 ایڈیشن چہارم، دسمبر2003ء)

ابراہیم وفا دار تھا

ہاں ایک اہم بات اور سیرت حضرت ابراہیمؑ کے حُسن کا ذکر ہونا ضروری ہے جسے اپنا کر ہم اپنے اندر حضرت ابراہیمؑ کی خوبیوں کو جمع کر سکتے ہیں اور وہ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) کہ ابراہیم وہ ہے جس نے وفا داری دکھلائی۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں
’’خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38)

ابراہیمؑ وہ ابراہیمؑ ہے جس نے وفاداری دکھائی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے۔ اور ہر ذلّت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو۔ یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی۔ بت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے۔ وہ بُت ہے اور اس قدر بت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہا ہوں۔ پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا۔ یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) آواز اس وقت آئی جبکہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے۔ اور عمل دکھ سے آتا ہے۔ لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ703 ایڈیشن 1988ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
’’یہ دعا کرتے تھے کہ اس گھر میں آکر دعائیں کرنے والے بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اور جوجو بھی ان سے وابستہ ہیں وہ بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ان باپ بیٹے نے وہ قربانیاں دی تھیں کہ آج تک ہم یاد رکھتے ہیں۔ مسلمان جب ہر نماز میں درود پڑھتے ہیں اور ہر نفل کی آخری رکعت میں جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی اور آپؑ کی آل پر بھی اس حوالہ سے درود بھیجتے ہیں۔ یہ اعزاز حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کی وفا اور کامل طور پر خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لئے تیار ہونے کی وجہ سے ملا۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ وَاِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی (النجم: 38) اور ابراہیم جس نے وفا کی اور عہد پورا کیا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد8 صفحہ488 خطبہ جمعہ 17ستمبر 2010ء)

حضرت ابراہیمؑ کے لئے آگ کا ٹھنڈا ہو جانا

آپؑ کو مخالفین نے آگ میں ڈالنے کی بھی کوشش کی جو اللہ تعالی نی ٹھنڈی کر دی۔ اس کا ذکر سورۃ انبیاء آیات 69-70 میں فرمایا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان آیات کے تحت فٹ نوٹ میں تحریر فرمایا ہے۔

یہاں آگ سے مراد مخالفت کی آگ بھی ہےاور حقیقی آگ بھی مراد ہو سکتی ہے چنانچہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ ’’مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘

(اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد17 صفحہ429)

اس ناطے جماعت پر آنے والے مصائب فطری ہیں۔ جنہیں اللہ تعالی ہمارے لئے ٹھنڈا کرتا رہے گا۔

حضرت ابراہیمؑ کی دعائیں

ابراہیم بننے کے لئے آپؑ کی دعاؤں کا جاننا بھی ضروری ہے۔

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے مولیٰ کے حضور سب کچھ پیش کرنے کی دُعاان الفاظ میں کی

رَبَّنَا عَلَیۡکَ تَوَکَّلۡنَا وَاِلَیۡکَ اَنَبۡنَا وَاِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ

(الممتحنہ: 5)

اے ہمارے ربّ! تجھ پر ہی ہم توکّل کرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہم جھکتے ہیں اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔

حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر بیت اللہ کے وقت شہر کے پُر امن رہنے اور باشندوں کو رزق ملنے کے بارہ میں یہ دُعا کی

رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ

(البقرہ: 127)

اے میرے ربّ! اس کو ایک پُرامن اور امن دینے والا شہر بنا دے اور اس کے بسنے والوں کو جو اُن میں سے اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لائے ہر قسم کے پھلوں میں سے رزق عطا کر۔

حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر بیت اللہ کے وقت بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے یہ عظیم الشان دُعا کی

رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ

(البقرہ: 130)

اور اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کر دے۔ یقینا تُو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

تعمیر بیت اللہ کے وقت
حضرت ابراہیمؑ کی ایک اور جامع دُعا

رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ

(البقرہ: 129)

اور اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنادے اور ہماری ذریّت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار اُمّت (پیدا کر دے)۔ اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جُھک جا۔ یقیناً تُو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

تعمیر بیت اللہ کے وقت عبادات اور دُعاؤں کی قبولیت کے لئے حضرت ابراہیمؑ نے یہ دُعا کی

رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡم

(البقرہ: 128)

اے ہمارے ربّ! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقینا تو ہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

حضرت ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کی دینی و دنیوی ترقیات کے لئے یہ دُعا کی

رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡزُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ

(ابراہیم: 38)

اے ہمارے ربّ! یقیناً میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب وگیاہ وادی میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے۔ اے ہمارے ربّ! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں میں سے رزق عطا کر تا کہ وہ شکر کریں۔

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور صالح اولاد کے حصول کی دُعا ان الفاظ میں کی

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ

(الصّٰفّٰت: 101)

اے میرے ربّ! مجھے صالحین میں سے (وارث) عطا کر۔

حضرت ابراہیمؑ نے اولاد کی دینی و دُنیوی ترقیات کے لئے یہ دُعا کی

رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجۡنُبۡنِیۡ وَبَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ

(ابراہیم: 36)

اے میرے ربّ! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے اور اولاد کے قیامِ عبادت اور والدین نیز تمام مردوں و عورتوں کے حق میں بخشش کی دُعا یوں کی

رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ ﴿۴۱﴾ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ ﴿۴۲﴾

(ابراہیم: 41-42)

اے میرے ربّ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔ اے ہمارے ربّ! اور میری دعا قبول کر۔

اے ہمارے ربّ! مجھے بخشش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی جس دن حساب برپا ہوگا۔

حضرت ابرا ہیمؑ کی قوت فیصلہ،صالحیت،
نیک شہرت اور جنت کے حصول کی دُعا

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّاَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾ وَاجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿ۙ۸۵﴾ وَاجۡعَلۡنِیۡ مِنۡ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیۡمِ

(الشعرآء: 84-86)

اے میرے ربّ! مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر۔ اور میرے لئے آخرین میں سچ کہنے والی زبان مقدّر کر دے۔ اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔

حضرت ابراہیمؑ نے آگ میں ڈالتے وقت خداتعالیٰ کی کفایت کے نصیب ہونے کی یہ دُعا کی:

وَّقَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَنِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ

(اٰل عمران: 174)

اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔

(700احکام خداوندی از حنیف احمد محمود، صفحہ540-542)

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

گھر سے باہر جانے کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جولائی 2022