• 25 اپریل, 2024

ہمیں ہدایت پہ چلنے کی ضرورت ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
لیکن اس ضمن میں یہ بھی بتا دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک اور شخص کا معاملہ پیش ہوا کہ وہ کہتا ہے کہ میرے لئے دعا کریں بیٹا پیدا ہو یا اولاد ہو تب مَیں احمدی ہو جاؤں گا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے۔ مَیں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ لوگوں کے ہاں بچے پیدا کروانے کے لئے مَیں آیا ہوں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 115۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اس کے حالات بالکل مختلف تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو بہرحال نبی تھے ان کی نظر اس کے بارہ میں وہاں تک پہنچی کہ یہ شرط ایسی ہے کہ جو ٹھوکر کا بھی موجب ہو سکتی ہے لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا انجام بخیر بھی کرنا تھا اور کوئی نیکی بھی ہو گی تو یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کر کے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکے اس کو بیٹے کی خبر بھی دے دی۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہر چیز کو ہر چیز سے مشروط نہیں کیا جاتا۔ احمدی ہونے کو دعا سے مشروط نہیں کیا جاتا۔ بعض دفعہ لوگ مجھے بھی لکھتے ہیں کہ یہ ہو گا تو تب ہم احمدی ہوں گے۔ تو شرطیں لگا کے احمدی ہونا کوئی دین کو قبول کرنے والی بات نہیں ہے بلکہ اپنی شرائط پر اللہ تعالیٰ کو منوانا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تو کسی کی شرطوں پر کسی کی ہدایت کا سامان پیدا نہیں کرتا۔ ہمیں ہدایت پہ چلنے کی ضرورت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ جہاں ہم اپنی اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں وہاں ہمیں اپنے اندر بھی پاک تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

قرآن کریم میں حضرت زکریا کے حوالے سے سورۃ الانبیاء میں اس دعا کا بھی ذکر ملتا ہے کہ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًاوَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ (الانبیاء:90) کہ اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے۔اس دعا میں بھی جب اللہ تعالیٰ کو خیر الوارثین کہا ہے تو واضح ہے کہ اولاد کی دعا صرف اس لئے نہیں کہ اولاد ہو جائے اور وارث پیدا ہو جائیں جو دنیاوی معاملات کے وارث ہوں بلکہ ایسے وارث اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوں جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہوں اور ظاہر ہے ایسی دعا وہی لوگ مانگ سکتے ہیں جو خود بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہیں۔ اگر دنیا داری میں انسان ڈوبا ہوا ہے تو نیک وارث کس طرح مانگے گا۔ اگر کوئی عورت صرف اس لئے اولاد کی خواہش کر رہی ہے کہ عورت کا اولاد کی خواہش کرنا ایک فطری تقاضا ہے یا پھر بعض اوقات اس لئے خواہش کر رہی ہے کہ خاوند کی خواہش ہوتی ہے تو ایسی اولاد پھر بعض دفعہ ابتلا کا موجب بن جاتی ہے۔ اولاد کی خواہش بڑی جائز خواہش ہے لیکن ساتھ ہی نیک وارث پیدا ہونے کی بھی دعا کرنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ اولاد کی خواہش صرف وارث بنانے کے لئے نہ کرو بلکہ نیک، صالح اور خادم دین وارث بنانے کے لئے کرو ورنہ اولاد بھی ابتلاء کا باعث بن سکتی ہے، ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ :
’’اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے۔ اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف:197) یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولّی اور متکفّل ہو تا ہے۔ (انسان) اگر بدبخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لئے چھوڑ جاؤ‘‘ (یا اولاد بدبخت ہے تو لاکھوں روپیہ اس کے لئے چھوڑ جاؤ) ’’وہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلّاش ہو جائے گی اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لئے لازمی ہیں۔ جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشاء سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ کی رائے اور منشا کیا ہے؟ یہی کہ دین کو دنیا پر مقدم کرو۔ اگر یہ ہو گا تو پھر آپ نے فرمایا کہ اولاد کی طرف سے پھر مطمئن ہو جاتا ہے کیونکہ پھر ایسا انسان اپنی اولاد کے لئے دعا بھی کرتا ہے اور اس کی تربیت کی کوشش بھی کرتا ہے۔) آپ فرماتے ہیں ’’اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لئے کوشش کرے اور دعائیں کرے۔ اس صورت میں خود اللہ تعالیٰ اس کا تکفّل کرے گا اور اگر بدچلن ہے تو پھر جائے جہنم میں۔ اس کی پرواہ تک نہ کرے۔‘‘

پھر ایک جگہ آپ اسی اولاد کے ضمن میں (اسی مضمون) کو جاری رکھتے ہوئے) نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’پس خودنیک بنو اور اور اپنی اولاد کے لئے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لئے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لئے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ109۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

(خطبہ جمعہ 14؍ جولائی 2017ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

سکول جانے والے بچوں کے لئے Coronavirus کی دوائیں