• 25 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک

حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا دل عطا کیا تھا جو محبت اور وفاداری کے جذبات سے معمور تھا ۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کسی محبت کی عمارت کو کھرا کرکے پھر اس کو گرانے میں کبھی پہل نہ کی۔ ایک صاحب مولوی محمد حسین بٹالوی آپ کے بچپن کے دوست اور ہم مجلس تھے گو آپ کے دعویٰ مسیحیت پر آکر انہیں ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے نہ صرف دوستی کے رشتہ کو توڑ دیا بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اشد ترین مخالفوں میں سے ہوگئے اور آپ ؑ کے خلاف کفر کا فتویٰ لگانے میں سب سے پہل کی ۔مگر حضرت مسیح موعودؑ کے دل میں آخر وقت تک ان کی دوستی کی یاد زندہ رہی۔اور گو آپ نے خدا کی خاطر ان سے قطع تعلق کرلیا اور ان کی فتنہ انگیزیوں کے ازالہ کے لئے ان کے اعتراضوں کے جواب میں زور دار مضامین بھی لکھے مگر ان کی دوستی کے زمانہ کو کبھی نہیں بھولے اور ان کے ساتھ قطع تعلق ہوجانے کو ہمیشہ تلخی کے ساتھ یاد رکھا ۔چنانچہ اپنے آخری زمانہ کے اشعار میں مولوی محمد حسین صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں ۔

قَطَعْتَ وُدَاداً قَدْ غَرَسْنَاۃَ فِی الصَّبَا
وَلَیْسَ فَوَادِیْ فِی الْوَدَادِ یُقَصِّرُ

یعنی تو نے اس محبت کے درخت کو کاٹ دیا جو ہم دونوں نے مل کر بچپن میں لگایا تھا ۔مگر میرا دل محبت کے معاملہ میں کوتاہی کرنے والا نہیں ہے۔

دوستی اور وفاداری کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل حقیقۃً بے نظیر جذبات کا حامل تھا ۔چنانچہ آپ ؑ کے مقرب حواری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب روایت کرتے ہیں کہ
’’حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دن فرمایا ۔میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہد دوستی باندھے مجھے اس کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کرسکتا ۔ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کردے تو ہم لاچار ہیں ۔ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو تو ہم بلاخوف لومہ لائم اسے اٹھاکر لے آئیں گے ۔فرمایا ۔عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع نہیں کردینا چاہیے اور دوستوں کی طرف سے کسی ہی ناگوار بات پیش آئے اس پر اغماض اور تحمل کا طریق اختیار کرنا چاہیے ۔

اس روایت کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت مخلص صحابی تھے بیان کرتے ہیں کہ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی فرمایا تھا اگر ایسا شخص شراب میں بے ہوش پڑا ہوتو ہم اسے اٹھاکر لے آئیں گے اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے اور جب وہ ہوش میں آنے لگے تو اس کے پاس سے اٹھ کر چلے جائیں گے تاکہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو ۔

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اپنی تصنیف ’’سیرت حضرت مسیح موعود‘‘ میں لکھتے ہیں ۔
’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘کا عربی حصہ لکھ رہے تھے حضور نے مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ اول) کو ایک بڑا دو ورقہ اس زیر تصنیف کتاب کے مسودہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے وہ ایسا مضمون تھا کہ اس خداداد فصاحت وبلاغت پر حضرت کو ناز تھا ۔مگر مولوی صاحب سے یہ دو ورقہ کہیں گر گیا ۔چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے اس لئے اس دن غیر معمولی دیر ہونے پر مجھے طبعاً فکر پیدا ہوا اور میں نے مولوی نور الدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت کی طرف سے مضمون نہیں آیا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہورہی ہے معلوم نہیں کیا بات ہے ۔یہ الفاظ میرے منہ سے نکلنے تھے کہ مولوی نور الدین صاحب کا رنگ فق ہوگیا ۔کیونہ دو ورقہ مولوی صاحب سے کہیں گر گیا تھا ۔بے حد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے ۔حضرت مسیح موعود کو اطلاع ہوئی تو حسب معمول ہشاش بشاش مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گھبراہٹ کا اظہار کرنا تو درکنار الٹاا پنی طرف سے معذرت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کو مسودہ کے گم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی مجھے مولوی صاحب کی تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے ۔میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گمشدہ کاغذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطاء فرمادے۔

جب کوئی دوست کچھ عرصہ کی جدائی کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ کو ملتا تو اسے دیکھ کر آپ کا چہرہ یوں شگفتہ ہوجاتا تھا جیسے کہ ایک بند کلی اچانک پھول کی صورت میں کھل جائے اور دوستوں کے رخصت ہونے پر آپ کے دل کو از حد صدمہ پہنچتا تھا ۔

آپ کو یہ بھی خواہش رہتی تھی کہ جو دوست قادیان آئیں وہ حتی الوسع آپؓ کے پاس آپ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی قیام کریں اور فرمایا کرتے تھے کہ زندگی کا اعتبار نہیں جتنا عرصہ پاس رہنے کا موقعہ مل سکے غنیمت سمجھنا چاہیے ۔اس طرح آپؑ کے مکان کا ہر حصہ گویا ایک مستقل مہمان خانہ بن گیا تھا اور کمرہ کمرہ مہمانوں میں بٹارہتا تھا۔ مگر جگہ کی تنگی کے باوجود آپ اس طرح دوستو ں کے ساتھ مل کر رہنے میں انتہائی راحت پاتے تھے ۔

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 589 تا 592)

(مرزا دانیال احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

سکول جانے والے بچوں کے لئے Coronavirus کی دوائیں