• 22 جولائی, 2025

تیسری شرط بیعت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پھر تیسری شرط بیعت کی یہ ہے:
‘‘یہ کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ (باقاعدگی رکھے گا۔) اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اُس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اے وے تمام لوگو !جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤگے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پور ے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہوکر ترک کرو۔ یقیناً یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ15)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ بہت قریب آ جاتا ہے اگر اُس کا حق ادا کیا جائے) ’’نماز کا حق ادا کر نے والا یہ خیال کرتا ہے کہ مَیں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گرِپڑی ہے۔ …… جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تبا ہ نہ ہو گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوحؑ کے وقت میں نماز ہو تی تو وہ قوم کبھی تبا ہ نہ ہو تی۔ حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے، روزہ بھی مشروط ہے، زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں۔ سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں مگر اس کا حکم ہر روز پا نچ دفعہ ادا کرنے کا ہے۔ اس لیے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ بر کات بھی نہ ہوں گی جو اس سے حاصل ہو تی ہے اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہو گا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ627 ایڈیشن 1988ء)

پھر تہجد کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:
’’راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔ وہ پہلے کیا تھے۔ ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔ آپ نے ان کے لیے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا۔ جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اُسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یارات کا انتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو، تہجدمیں اٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو، کمزوریوں کو چھوڑ دو اور خدا تعالی کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کو بناؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ28 ایڈیشن 1988ء)

پھر آپ درود کے بارہ میں بتاتے ہیں کہ:
’’انسان تو دراصل بندہ یعنی غلام ہے۔ غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اُسے قبول کرے۔ اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہوجاؤ۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ (الزمر: 54) اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپؐ پر درود پڑھو۔ اور آپؐ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو۔ سب حکموں پر کار بند رہو۔‘‘

(البدرجلد2، نمبر14۔ 24 اپریل 1903ء صفحہ109)

پھر استغفار کے بارے میں آپ فرماتے ہیں:
’’جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے اُن کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ ہیں کہ گناہگار ہو چکے ہیں تو استغفار اُن کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں۔‘‘ (اگر غلطی سے گناہ ہو گیا تو انسان استغفار کرنے سے اُس کے بدنتائج سے بچ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ جاتا ہے) ’’کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی۔ اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے، یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے، وہ اپنے جرائم کی سزا پاتے رہتے ہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ34)

(خطبہ جمعہ 23؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اظہار تشکر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 ستمبر 2021