سورۃ یونس، ھود اور یوسف کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
سورۃ یونس
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو دس آیات ہیں۔
سورۃ البقرہ اور سورۃ آل ِ عمران میں الٓمّٓ کے مقطعات مذکور ہیں جبکہ اس سورت میں میم کی بجائے را فرمایا گیا ہے۔ گویا سابقہ ترجمہ کی طرز کو اختیار کرتے ہوئے اس کا یہ ترجمہ کیا جا سکتا ہےکہ اَنَا اللّٰہُ اَرٰی کہ میں اللہ ہوں، میَں دیکھتا ہوں۔
اس سورت کا مرکزی نکتہ حضرت یونس علیہ الصلوٰۃ والسلام پر آنے والا ابتلاء ہے، اسی لئے اس سورت کا نام یونس رکھا گیا ہے۔ اس کے آغاز میں ہی اللہ تعالیٰ ایک سوال اٹھاتا ہے کہ کیا لوگوں کے لئے یہ بات تعجب انگیز ہے کہ انہی میں سے ایک شخص پر ہم نے وحی فرمائی ہے۔ اس کا جواب جو اس میں مضمر ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کا تعجب دراصل ان کے اپنے ہی نفوس کی گواہی ہے کیونکہ وہ لوگ سراسر دنیا کے کیڑے بن گئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان پر وحی نازل نہیں فرماتا۔ دراصل وہ اپنے پیمانے پر جانچتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے پر بھی وحی نازل نہیں فرما سکتا۔
اس کے معاً بعد اللہ تعالیٰ یہ ذکر فرماتا ہے کہ وہ اللہ جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا اور ہر امر میں ایک عمدہ تدبیر اختیار فرمائی کیا وہ اس فعل کو محض رائیگاں جانے دے گا؟ اس تدبیر کا منتہیٰ یہ ہے کہ ایسا شفیع پیدا کیا جانے والا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ جو اللہ کے اذن کے ساتھ اپنی امت کے ہی مستحق بندوں کی شفاعت نہیں کرے گا بلکہ تمام گزشتہ امتوں میں سے نیک بندوں کے حق میں شفاعت کرے گا۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ایک سورج سے دی گئی ہے جس کی روشنی سے دنیا میں زندگی کا نظام فیض اٹھا رہا ہے اور اس کے فیض سے ایک بدرِ کامل نے پیدا ہونا ہے جو رات کے اندھیروں میں بھی اس نور کا فیض زمین تک پہنچاتا رہے گا۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ مادی عالم میں بھی چاند کی روشنی میں بعض سبزیاں اس تیزی سے بڑھتی ہیں کہ ان کے بڑھنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔چنانچہ ککڑیوں کے متعلق سائنس دان بتاتے ہیں کہ ان کے بڑھنے کی رفتار کی وجہ سے ایک آواز پیدا ہوتی ہے جسے انسانی کان سن سکتے ہیں۔ پس وہی اللہ ہے جس نے دن کو بھی زندگی کا ذریعہ بنایا اور رات کو بھی۔
سورت یونس میں ایسی قوم کا ذکر ہے جو اس دنیا میں کلیتہ ً اس عذاب سے بچا لی گئی جس کا وعید انہیں دیا گیا تھا۔اور اس کے بعدمیں آنے والی سورت ہود میں ان قوموں کا ذکر ہے جو انکار کی وجہ سے کلیتہ ً ہلاک کر دی گئیں۔
سورۃ ھود
یہ مکی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو چوبیس آیات ہیں۔
اس کا گزشتہ سورت سے جو تعلق ہے اسے گزشتہ سورت کے تبصرہ میں واضح کر دیا گیا ہے۔ اس سورت کا یہ پہلو بہت نمایاں ہے کہ اس کی آیت نمبر113 فَاسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ وَ مَنۡ تَابَ مَعَکَ کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی بھاری ذمہ داری آ پڑی کہ آپؐ نے فرمایا:
شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدُ
کہ مجھے تو سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا۔
نیز اس سورت میں ان قوموں کا ذکر ہے جو انکار کی وجہ سے ہلاک کر دی گئیں۔ ان لوگوں کے غم کی وجہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دکھ پہنچا۔
اس سورت کی آیت نمبر18رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں آپؐ سے پہلے کی ایک گواہی کا بھی ذکر کرتی ہے یعنی حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گواہی اور ایک ایسے گواہ کا بھی ذکر کرتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والا ہے۔ اس گواہ کا ذکر سورۃ البروج میں ان الفاظ میں ملتا ہے وَشَا ھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ کہ ایک زمانہ ہو گا جس میں ایک عظیم شاہد ایک عظیم تر مشہود یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں آپ کی صداقت کی گواہی دے گا۔
اس کے بعد چونکہ سورۃ یوسف کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے جس میں قَصَص میں سے بہترین قصے کا بیان ہے اس لئے اس سورت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انبیاء کے جو قصص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کئے جا رہے ہیں وہ اس لئے ہیں کہ آپؐ کا دل ثبات پکڑے۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ سورۃ ہود میں ان قصص کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو صدمہ پہنچانا مقصود نہیں تھا۔
سورۃ یوسف
یہ مکی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو بارہ آیات ہیں۔
اس کا آغاز بھی الٓرٰ کے مقطعات سے ہو رہا ہے اور وہی معنے رکھتا ہے جو پہلے بیان کئے جا چکے ہیں۔
اس کے معاً بعد تمام قَصَص میں سے اُس بہترین قصے کا ذکر آیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشاشتِ قلب کا موجب بننا تھا۔ سورۃ ھود میں مذکور واقعات سے پہنچنے والے صدمہ کا یہ بہترین ازالہ ہے۔ضروری ہے کہ یہاں قَصَص کی وضاحت کی جائے۔
قصص سے مراد قِصہ کہانی نہیں بلکہ ماضی کے وہ واقعات ہیں جو کھوج لگانے پر بعینہٖ درست ثابت ہوتے ہیں۔
اس سورت کا آغاز حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک رؤیا کے ذکر سے کیا گیا ہے جس میں آپؑ کے ساتھ پیش آمدہ تمام واقعات کا ذکر موجود ہے اور جس کی تعبیر حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمائی کہ حضرت یوسف ؑ کو ان کے بھائیوں سے سخت نقصان کا خطرہ ہے۔ اس لئے آپؑ نے نصیحت فرمائی کہ یہ رؤیا اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہیں کرنی۔
یہ تمام سورت حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو تعبیر رؤیا کا علم دیا گیا تھا اس سے تعلق رکھتی ہے۔ مثلاً آپؑ کے ساتھ جو دو قیدی تھے ان دونوں کی رؤیا کی حضرت یوسف ؑ نے ایسی تعبیر فرمائی جو بعینہٖ پوری ہوئی اور اسی وجہ سے وہ قیدی جس کے بچنے کی خوشخبری دی گئی تھی وہ ذریعہ بن گیا کہ بادشاہ کی اس رؤیا کے متعلق حضرت یوسفؑ سے تعبیر طلب کرتا جس کو درباری علماء نے محض نفس کے خیالات سے تعبیر کیا تھا۔ اور حضرت یوسفؑ کی تعبیر ہی کے نتیجہ میں یہ عظیم الشان واقعہ ہوا کہ مصر اور اس کے ارد گرد ایسے غرباءجنہوں نے یقیناً فاقوں سے مر جانا تھا فاقہ کشی کے عذاب سے بچائے گئے اورمسلسل سات برس تک ان کو غذا مہیا کی گئی اور اس انتظام کے نگران خود حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام بنائے گئے اور اسی وجہ سے بالآخر آپؑ کے والدین اور بھائیوں کو آپؑ ہی کی پناہ میں آنا پڑا اور وہ آپؑ کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔
یہ تاریخ کے ایسے واقعات ہیں جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی صورت ذاتی علم نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے فرمایا کہ تُو ان لوگوں میں موجود نہیں تھا جب یہ سب کچھ رونما ہو رہا تھا۔ یہ محض ایک علیم و خبیر اللہ ہی ہے جو تجھے ان واقعات کی حقیقت سے آگاہ فرما رہا ہے۔
اس سورت کا اختتام اس آیت کریمہ پر کیا جا رہا ہے کہ ان واقعات کا بیان ایسا نہیں جیسے قصّے کہانیاں بیان کی جاتی ہیں بلکہ اہلِ عقل کے لئے ان واقعات میں بہت سی عبرتیں پو شیدہ ہیں۔
اور بلا شبہ سورۃ یوسف تمام تر اَن گنت عبرتوں کی طرف متوجہ کر رہی ہے۔
(عائشہ چوہدری۔جرمنی)