• 18 مئی, 2024

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی
تو اس نے اس عقل کو استعمال کر کے اپنی آسانیوں کے سامان پیدا کئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی تو اس نے اس عقل کو استعمال کر کے اپنی آسانیوں کے سامان پیدا کئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی الۡاَرۡضِ زِیۡنَۃً لَّہَا لِنَبۡلُوَہُمۡ اَیُّہُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ﴿۸﴾ (الکہف: 8) یعنی زمین پر جو کچھ ہے اُسے یقیناً ہم نے زینت بنایا ہے تا کہ ہم اُنہیں آزمائیں کہ کون بہترین عمل کرتا ہے۔

پس یہاں زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دے کر اُس کی اہمیت بھی بیان فرما دی۔ ہر نئی ایجاد جو ہم کرتے ہیں اُس کو بھی زینت بتا دیا، اُس کی اہمیت بیان فرمائی لیکن فرمایا کہ ہر چیز کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن اس کا فائدہ تبھی ہے جب احسن عمل کے ساتھ یہ وابستہ ہو۔ پس ہمیں نصیحت ہے کہ ان ایجادات سے فائدہ اُٹھاؤ لیکن احسن عمل مدّنظر رہے۔ یہ ایجادات ہیں، ان کی خوبصورتی تبھی ہے جب اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کام کیا جائے یا کام لیا جائے، نہ کہ فتنہ و فساد پیدا ہو۔ اگر احسن عمل نہیں تو یہ چیزیں ابتلا بن جاتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے میں نے مثالیں دیں۔ یہ ٹیلی ویژن ہی ہے جو فائدہ بھی دے رہا ہے اور ابتلا بھی بن رہا ہے۔ بہت سے گھر انٹرنیٹ اور چیٹنگ کی وجہ سے برباد ہو رہے ہیں۔ بچے خراب ہو رہے ہیں اس لئے کہ آزادی کے نام پر اللہ تعالیٰ کی مہیا کی گئی چیزوں کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ حقیقی عبد کے لئے حکم ہے کہ ہمیشہ احسن قول اور احسن عمل کو سامنے رکھو اور کام کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ بہر حال قرآنِ شریف کے بے شمار حکم ہیں ہر حکم کی تفصیل یہاں بیان نہیں ہو سکتی۔ ایک بات ہے جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور اس بارے میں شروع میں بھی میں کچھ کہہ آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے جو احسن قول کے بارے میں ہمیشہ مدّنظر رکھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بہت پسند ہے، فرمایا کہ وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۴﴾ (حٰمٓ السجدہ: 34) اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ پس یہ خوبصورت تعلیم اور بات ہے جو ایک حقیقی بندے سے جس کی توقع کی جاتی ہے، کی جانی چاہئے۔ جو آیت میں نے شروع میں تلاوت کی تھی اُس میں فرمایا تھا کہ یَقُوْلُ الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کہ ایسی بات کیا کرو جو سب سے اچھی ہو۔ اور سب سے اچھی وہ باتیں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ لیکن اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب اچھی باتیں سمٹ کر اس ایک بات میں آ جاتی ہیں، اس آیت میں ان کا خلاصہ ہے اور یہی سب سے احسن قول ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف بلاؤ۔ اب خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو خود بھی اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ خود کس حد تک ان باتوں پر عمل کر رہا ہے جن کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ میں نے شروع میں بھی کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم وہ بات نہ کہو جو تم کرتے نہیں کیونکہ یہ گناہ ہے۔

پس جیسا کہ مَیں تفصیل سے ذکر کر آیا ہوں، اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو اپنے قول و فعل کو ایک کرنا ہو گا اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کرنا ہوگا۔ یہ ہے اعلیٰ ترین مثال اسلامی تعلیم کی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤ کہ اس سے بڑا قول اور احسن قول کوئی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسندیدہ ہے۔ لیکن بلانے کے لئے اپنے عمل بھی وہ بناؤ جو عمل صالح ہیں۔ عمل صالح وہ عمل ہے جو خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ہے، نیکیوں کو پھیلانے والا ہے، وقت کی ضرورت کے مطابق ہے اور اصلاح کا موجب ہے۔ یہاں عملِ صالح کی ایک مثال دیتا ہوں جس کا براہِ راست اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن آپ کے لئے واضح کرنے کے لئے ضروری بھی ہے۔

(خطبہ جمعہ 18؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا (قسط دوم)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 ستمبر 2022