• 4 مئی, 2024

ربط ہے جان ِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 36)

ربط ہے جان ِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
والدین کے احترام کی تلقین اور عمل
قسط 36

وہ ہستی جس کے لئے یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے بھی مثالی ہے کہ اپنے عمل سے احترام انسانیت کا درس دیا آپؐ اتنے خدا ترس اور مخلوق خدا کی ہمدرد ی کرنے والے تھے کہ رنگ ونسل ’ قوم وقبیلہ مذہب و ملت میں کسی قسم کی تفریق کے بغیر ہر انسان کو انسان سمجھا۔ اللہ تعالیٰ نے جو رتبۂ بلند آپؐ کو عطا فرمایا تھا اس نے آپؐ کو عاجزی اور خاکساری میں بڑھایا، کبھی کوئی امتیاز یا پروٹوکول اپنے لئے پسند نہ فرمایا۔ آپ ؐ خود کو کسی سے برتر خیال نہیں فرماتے تھے۔ آپؐ کا دستور’ منشور اور عمل آپؐ کے اس قول پر تھا جو آپ ؐ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا تھا کہ سب انسان برابر ہیں ’’جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔ خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔‘‘

آنحضرت ﷺ کمزوروں، محروموں، غریبوں، حاجت مندوں، بیماروں کا زیادہ خیال فرماتے۔ آج ہم آپؐ کے سفر کے ہمراہیوں اور ساتھیوں سے آپؐ کے حسن اخلاق کی مثالیں پیش کریں گے۔

آنحضرت ﷺ جب غزوہ بدر کےلئے مدینہ سے نکلے تو سواریاں بہت کم تھیں تین تین آدمیوں کے حصے میں ایک ایک اونٹ آیا۔ آنحضرت ﷺ خود بھی اس تقسیم میں شامل تھے اور آپ کے حصہ میں جو اونٹ آیا اس میں آپ کے ساتھ حضرت علیؓ اور حضرت ابولبابہؓ بھی شریک تھے اور سب باری باری سوا ر ہوئے۔ جب رسول کریم ﷺ کے اترنے کی باری آتی تودونوں جانثار عرض کرتے یا رسول اللہ ﷺ آپ سوار رہیں ہم پیدل چلیں گے مگر آپ فرماتے تم دونوں مجھ سے زیادہ پیدل چلنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ میں تم دونوں سے زیادہ ثواب سے مستغنی ہوں۔

(مسند احمدبن حنبل جلد1 صفحہ411 المکتب الاسلامی للطباعہ و النشربیروت)

حضور ﷺ ایک دفعہ سواری پر سوار ہو کر قباکی طرف جانے لگے۔ ابوہریرہؓ ساتھ تھے۔ حضورؐ نے ان سے فرمایا کیا میں تمہیں بھی سوار کرلوں انہوں نے عرض کیا جیسے حضورؐ کی مرضی تو فرمایا آؤ تم بھی سوار ہوجاؤ۔ حضرت ابوہریرہؓ نے سوا ر ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے اور گرتے گرتے حضور کو پکڑلیا اور حضورؐ کے ساتھ گرپڑے۔

حضورؐ پھر سوار ہوئے اور ابوہریرہؓ کو سوار ہونے کی دعوت دی مگر وہ دوسری دفعہ بھی حضورؐ کو لے کر گر پڑے۔ حضورؐ پھر سوار ہوئے اور ابوہریرہؓ سے پوچھا کیا تمہیں بھی سوار کرلوں تو کہنے لگے اب میں آپ کو تیسری دفعہ نہیں گراناچاہتا۔

(المواہب اللدنیہ۔زرقانی جلد4 صفحہ265 دارلمعرفہ بیروت)

حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ ایک مرتبہ سفر میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضورؐ نے اپنی سواری بٹھا دی اور اتر کر فرمایا اب تم سوار ہوجاؤ۔ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کی سواری پر سوار ہوجاؤں اور آپؐ پیدل چلیں۔ حضور ﷺ نے پھر وہی ارشاد فرمایا اور غلام کی طرف سے وہی جواب تھا۔ حضور ﷺ نے پھر اصرار فرمایا تو اطاعت کے خیال سے سواری پر سوار ہو گئے اور حضور ﷺ نے سوار ی کی باگ پکڑ کر اس کو چلانا شروع کردیا۔

(کتاب الولاۃ کندی بحوالہ سیرالصحابہ جلد2 صفحہ216 از شاہ معین الدین احمدندوی ادارہ اسلامیات لاہور)

اسوہ حسنہ کے یہ واقعات اس زاویہ سے بھی دیکھیں کہ یہ سفر کے ساتھی اپنی خوش قسمتی پر کیسے نازاں اور شکرگزار ہوتے ہوں گے۔ کسی کا اخلاق سے دل جیت لینا اسے محبت کا اسیر بنا دیتا ہے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے آقا و مطاع حضرت محمدﷺ کے ہر نقش قدم پر چلنے کی نعمت ملی۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں نے خدا کے فضل سے نہ کہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پا یا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے بر گزیدوں کو دی گئی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیّدومولا، فخرالانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پا یا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ64-65)

سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ لقا یہی ہے

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ حضرت اقدس ؑ کے اپنے والد صاحب کے مقدمات وغیرہ کی پیروی کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’باوجود اِس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے آپ سُست ہرگز نہ تھے بلکہ نہایت محنت کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باوجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کو جب کسی سفر پر جانا پڑتا تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آگے روانہ کر دیتے اور آپ پیادہ پا بیس پچیس کوس کا سفر طے کر کے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے۔ بلکہ اکثر اوقات آپ پیادہ ہی سفر کرتے تھے اور سواری پر کم چڑھتے تھے اور عادت پیادہ چلنے کی آپ کو آخر عمر تک تھی۔ ستر سال سے متجاوز عمر میں جب کہ بعض سخت بیماریاں آپ کو لاحق تھیں، اکثر روزانہ ہَوا خوری کے لیے جاتے تھے اور چار پانچ میل روزانہ پھر آتے اور بعض اوقات سات میل پیدل پھر لیتے تھے اور بڑھاپے سے پہلے کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے اُٹھ کر (نماز کا وقت سورج نکلنے سے سوا گھنٹہ پہلے ہوتا ہے) سَیر کے لیے چل پڑتے تھے اور وڈالہ تک پہنچ کر (جو بٹالہ سڑک پر قادیان سے قریباً ساڑھے پانچ میل پر ایک گاؤں ہے) صبح کی نماز کا وقت ہوتا تھا۔‘‘

(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صفحہ16)

مرزا دین محمد صاحب سے روایت ہے: ’’جن دنوں میری آمدو رفت حضرت صاحب کے پاس ہوئی۔ ان ایام میں حضرت صاحب اپنے موروثیوں وغیرہ کے ساتھ مقدمات کی پَیروی کے لئے جایا کرتے تھے۔ کیونکہ دادا صاحب نے یہ کام آپ کے سپرد کیا ہوا تھا۔ تایا صاحب باہر ملازم تھے۔ جب حضرت صاحب بٹالہ جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ جب گھر سے نکلتے تو گھوڑے پر مجھے سوار کر دیتے تھے۔ خود آگے آگے پیدل چلے جاتے۔ نوکر نے گھوڑا پکڑا ہوا ہوتا تھا۔ کبھی آپ بٹالہ کے راستہ والے موڑ پر سوار ہو جاتے اور کبھی نہر پر۔ مگر اس وقت مجھے اتارتے نہ تھے۔ بلکہ فرماتے تھے کہ تم بیٹھے رہو۔ مَیں آگے سوار ہو جاؤں گا۔ اس طرح ہم بٹالہ پہنچتے۔ ان ایّام میں بٹالہ میں حضرت صاحب کے خاندان کا ایک بڑا مکان تھا۔ یہ مکان یہاں محلہ اچری دروازے میں تھا۔ اُس میں آپ ٹھہرتے تھے۔ اس مکان میں ایک جولاہا حفاظت کے لئے رکھا ہوا تھا۔ مکان کے چوبارہ میں آپ رہتے تھے۔ شام کو اپنے کھانے کے لئے مجھے دو پیسے دیدیتے تھے۔ ان دنوں میں بھٹیاری جھیوری کی دکان سے دو پیسے میں دو روٹی اور دال مل جاتی تھی۔ وہ روٹیاں مَیں لا کر حضرت صاحب کے آگے رکھ دیتا تھا۔ آپ ایک روٹی کی چوتھائی یا اس سے کم کھاتے۔ باقی مجھے کہتے کہ اس جولاہے کو بلاؤ۔ اسے دیدیتے اور مجھے میرے کھانے لئے چار آنہ دیتے تھے اور سائیس کو دو آنہ دیتے تھے۔ اس وقت نرخ گندم کا روپیہ سوا روپیہ فی من تھا۔ بعض دفعہ جب تحصیل میں تشریف لے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ جب تین یا چار بجتے تو تحصیل سے باہر آتے تو مجھے بلا کر ایک روٹی کھانے کے ناشتہ کے لئے دیدیتے اور خود آپ اس وقت کچھ نہ کھاتے۔ تحصیل کے سامنے کنوئیں پر وضو کرکے نماز پڑھتے اور پھر تحصیلدار کے پاس چلے جاتے اور جب کچہری برخاست ہو جاتی تو واپس چلے آتے۔

جب بٹالہ سے روانہ ہوتے تو پھر بھی مجھے سارا رستہ سوار رکھتے۔ خود کبھی سوار ہوتے اور کبھی پیدل چلتے۔ پیشاب کی کثرت تھی۔ اس لئے گاہے بگاہے ٹھہر کر پیشاب کرتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر680)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ایک اور خادم مرزا اسماعیل بیگ صاحب کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدس اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمہ کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموماً ہم رکاب ہوتا تھا لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے۔ میں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شرم آتی ہے۔ آپ ؑ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی۔ تم کو سوار ہو کے کیوں شرم آتی ہے۔

(حیاتِ طیبہ صفحہ15)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاقِ کو بھر پور طریق پر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے اخلاق کا جو نمونہ ہمارے لئے چھوڑا ہے اگر ہم ان پر عمل کریں گے تو ہم اپنے اس معاشرے کو جنت نظیر معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے اخلاقِ حسنہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’مَیں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں۔کہ مَیں نے آپ سے بہتر، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دُنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کرگئی۔ اگر حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی۔کہ ’’کان خُلقُہُ القرآن‘‘ تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’کان خلُقُہُ حُبَّ محمدٍ واتباعہ علیہ الصّلٰوۃ والسلام‘‘

(سیر ت المہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ827 روایت نمبر975)

(امتہ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

خلیفہ کے ہم ہیں خلیفہ ہمارا (قسط دوم)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 ستمبر 2022