اَللّٰهُمَّ إِنِّيْٓ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔ اَللّٰهُمَّ اٰتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا وَزَكِّهَآ أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَٓا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا۔ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْٓ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَّا يَخْشَعُ وَمِنْ نَّفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَعِلْمٍ لَّا يَنْفَعُ وَدَعْوَةٍ لَّا يُسْتَجَابُ لَهَا
(سنن نسائی، كِتَابُ الِاسْتِعَاذَةِ،اَلْاِسْتِعَاذَةُ مِنَ الْعَجْزِ حدیث: 5460)
ترجمہ: اے اللہ!میں نکمے پن، کاہلی، کنجوسی، بزدلی، شدید بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ !میرے نفس کو تقوٰی عطا فرما اور اس کو پاکیزہ فرما تو ہی بہترین پاکیزہ فرمانے والا ہے۔ تو ہی اس کا مدد گار اور مالک ہے۔ اے اللہ !تیری پناہ کا طلب گار ہوں اس دل سے جو تیرےسامنے عاجز نہ ہو، اس نفس سے جو سیر نہ ہو، اس علم سے جو مفید نہ ہو اور دعا سے جو قبول نہ ہو۔
ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
پھر حدیث میں شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے یہ دعا سکھائی ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ فرمایا کیا مَیں تمہیں ایک ایسی دعا نہ بتاؤں جو ہمیں رسول اللہﷺ سکھایا کرتے تھے۔
وہ یہ دعا تھی کہ (مندرجہ بالا دعا)
اب یہ بھی ایک بڑی جامع دعا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو پاک کرتی ہے اور پاک رکھتی ہے، شیطان کے حملوں سے بچاتی ہے۔ کوئی شخص اپنے زور بازو سے کبھی بھی پاک صاف نہیں ہو سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جسے چاہتی ہے پاک کرتی ہے اور پاک کرنے کے لئے بھی ایک مُزَکِّی کی ضرورت ہے۔ جو پاک کرنے والاہو۔ اور جماعت سے علیحدہ ہوکر کوئی جتنا مرضی دعویٰ کرے کہ ہم بہت پاکیزہ ہو گئے ہیں اور شکرہے ہم آزاد ہوگئے جماعت سے، یہ سب ان کے دعوے ہیں اور جاکر دیکھنے سے پاکیزگی ان کے گھرمیں کبھی نظر نہیں آئے گی۔ تو مُزَکِّی بھی اللہ تعالیٰ کے خاص لوگ ہوتے ہیں، انبیاء ہوتے ہیں۔ تو ان کے ساتھ تعلق جوڑنے والے بھی پاک ہو سکتے ہیں۔ جو ان سے تعلق نہ جوڑے وہ کبھی بھی پاک نہیں کہلا سکتے۔ تو اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی اس میں یہ جو فرمایاہے کہ جس کو چاہتاہے پاک کرتاہے حضرت مصلح موعودؓ نے لکھاہے کہ اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اندھا دھند جس کو چاہے پاک کردے گا اور جس کو نہیں چاہے گا نہیں پاک کرے گا۔ پھر تو نیکیاں کرنے کا، اس کا فضل مانگنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں رہتا۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو خدا کا پسندیدہ ہو جاتاہے اور اس کے احکام پرعمل کرنے والا ہوجاتا ہے اسے خدا اپنا محبوب بنا لیتاہے۔ اور اسے پاک کر دیتاہے۔ تو اس زمانہ میں محبوب وہی ہیں جواس کے محبوب کے محبوب ہیں۔ جو اس کے محبوب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ تو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق رکھنے والے ہی اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے پاکیزگی کا تعلق رہنا چاہئے اور شیطان سے بچنے کے لئے، پاک ہونے کے لئے ہر وقت سمیع وعلیم خدا سے اس کا فضل مانگتے رہنا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: فَلَا تُزَکُّوْآ اَنْفُسَکُمْ سے بھی یہی ثابت ہوتاہے کہ معصوم اور محفوظ ہونا تمہارا کام نہیں ہے خداکاہے۔ ہرایک نور اور طاقت آسمان سے ہی آتی ہے۔
(البدر جلد2 نمبر44 مؤرخہ 19؍جون 1903ء)
(خطبہ جمعہ 12؍دسمبر 2003ء)
(مرسلہ: مریم رحمٰن)