• 26 اپریل, 2024

مخالفین احمدیت کے جواب میں صبر اور حوصلہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر ایک روایت حضرت میاں عبدالمجید خان صاحب کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ مخالفوں نے ایک بھاری جلسہ کر کے بہت شور مچایا اور ہنگامہ برپا کیا۔ جس میں نشانہ عداوت و بغض صرف یہ عاجز تھا۔ (یعنی حضرت میاں عبدالمجید خان صاحب۔ اُن کو ساری دشمنی کا نشانہ بنایا۔) انہوں نے میرے خلاف بہت سی تجاویز کیں۔ بائیکاٹ کا خوف دلایا۔ پولیس تک کو میرے خلاف بھڑکایا اور مجھے ایک فسادی اور باغی کے نام سے یاد کر کے جاہل لوگوں کو میرے خلاف اس رنگ میں بھڑکایا کہ میری جان کے لالے پڑ گئے۔ اُن حالات سے متاثر ہوکر (اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک بیان کرتے ہیں کہ کیا تھا؟) کہ میں ایک رات جنگل میں نکل گیا۔ قبلہ رُخ ہو کر دست بستہ کھڑا ہو گیا اور اپنے طریق سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عالمِ خیال میں مخاطب کرکے عرض کیا کہ حضور اس خطرناک موقع میں دست گیری اور رہنمائی کا کوئی سامان فرمائیں۔ اور میں نے یہ التجا اور دعا اس الحاح اور سوز و گداز سے کی اور رو رو کر عرض حال اور مشکل پیش آمدہ کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کو سنا۔ (یہاں میں وضاحت کر دوں کہ یہ کوئی شرک والی حالت نہیں تھی جس طرح پیر وں فقیروں پہ جا کے مانگا جاتا ہے، سجدے کئے جاتے ہیں یا اُن کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔ بہر حال ان کا اپنا ایک انداز تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ذہن میں لائے کہ ظلم سے اللہ تعالیٰ بچائے۔ اس بات کی وضاحت کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نہیں مانگا جا رہا تھا، اللہ تعالیٰ سے ہی مانگا جا رہا تھا، اُن کا یہ فقرہ ہے جو اس کی وضاحت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کو سنا۔ حضرت مسیح موعود کا حوالہ دیا تو یہ نہیں کہا کہ حضرت مسیح موعودنے سنا۔ جس طرح ہمارے ہاں عام طورپر لوگ پیروں فقیروں کی قبروں پر جا کر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں پیر صاحب نے ہماری بات سن لی اور ہمیں فلاں چیز عنایت کر دی۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری آہ و بکا کو سنا۔ خیر) رات اُسی حالت میں اور فکر میں سو گیا۔ (خواب میں) کیا دیکھتا ہوں کہ مخالفوں نے میرے مکان کا گھیرا کر لیا ہے۔ اور چاروں طرف سے آوازیں کَس رہے ہیں کہ اس شخص کو اب جان ہی سے مار ڈالو۔ اسی اثناء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھ پر نمودار ہوئے اور میرے بازؤوں کو اپنے دستہائے مبارک سے پکڑ کر میرا منہ آسمان کی طرف کرایا اور فرمایا کہ آسمان کی طرف اُڑ جاؤ۔ چنانچہ حضور کی قوتِ قدسیہ ہی کے سہارے میرے جیسا بے پر انسان زمین سے اُڑ کر آسمان کی طرف چلا گیا۔ مخالفین اپنے ارادے میں ناکام حیران کھڑے دیکھتے رہے۔ اُس وقت خواب کے بعد میری آنکھ خوشی کے مارے کھل گئی اور مجھے یقینِ کامل ہو گیا کہ واقعی سیدنا حضرت اقدس خدا کے ایک راستباز اور صادق فرستادے ہیں۔ چنانچہ دوسرے روز صبح کو جب پھر مخالف لوگ میرے گرد جمع ہوئے تو میں نے اُن سے صاف کہہ دیا کہ خدا نے اپنی قدرت نمائی سے اب مجھے وہ طاقت بخش دی ہے کہ اگر تم لوگ آروں سے بھی میرے جسم کو چیر دو تو یہ دل اور یہ منہ اس صداقت سے اب پھر نہیں سکتے۔ (کہتے ہیں) دوسری رات کو پھر خواب میں دیکھتا ہوں کہ پولیس نے میرے مکان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (یہ دشمنی تو ختم نہیں ہو رہی تھی۔ روز اُن کے خلاف جلسے جلوس ہو رہے تھے۔ ) اور پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ پبلک سے تو یہ شخص بچ گیا مگر چونکہ اس نے ایک قسم کا فساد اور بدامنی پھیلا رکھی ہے، اب حکومت اُس کو اپنے انتظام سے دبائے گی اور اگر یہ باز نہ آیا تو اُس کو جان سے مار دیا جائے گا۔ پولیس کے اس حملے اور گھیرے سے میں (خواب میں) سخت پریشان ہوا۔ (کہتے ہیں) مگر اچانک پھر کل رات کی طرح میرے آقا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھ پر ظاہر ہوئے اور اسی طرح میرے دونوں بازو اپنی شفقت سے پکڑے۔ میرا منہ آسمان کی طرف کیا اور فرمایا کہ آسمان کی طرف اُڑ جاؤ۔ چنانچہ میں پھر کل کی طرح زمین سے آسمان کو اُڑنے لگا اور پولیس وغیرہ کے حملے سے نجات پاگیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ چنانچہ دونوں رؤیا میں میرا ایمان میخ آہن کی طرح مضبوط اور پہاڑ کی چٹان کی طرح راسخ ہو گیا۔ اور حضور پُر نور کی صداقت ایسے رنگ سے دل میں گَڑ گئی کہ کاٹے کٹے نہ توڑے ٹوٹے۔ (اب اس کو کوئی نہ توڑ سکتا ہے نہ کاٹ سکتا ہے۔) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ (کہتے ہیں کہ) اب دل میں ایک جوش اور اُمنگ پیدا ہوئی کہ اس فرستادہ الٰہی کی زیارت سے بھی مشرف ہو سکوں۔ (اُس وقت تک آپ نے دیکھا نہیں تھا) چنانچہ میں نے حضرت کے حضور خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے رقم فرمایا کہ میاں عبدالمجید آپ فوراً قادیان چلے آئیں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی ایمانوں کو مضبوط کرتا ہے اور یہ کیفیت آج بھی بہت سارے لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن میں پیدا کرتا ہے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد12 صفحہ278-279)

حضرت امیر خان صاحب کی روایت ہے۔ اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ ’’جب میں بیعت کر کے دارالامان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اہرانہ آیا تو مسمٰی مہتاب خان جو ایک کھڑپینچ تھا (اور کچھ بڑا اپنے آپ کو سمجھتا تھا) اور کچھ معمولی نوشت و خواند کی وجہ سے پرلے درجے کا مغرور تھا (یعنی معمولی پڑھا لکھا آدمی تھا۔) اور ہمہ دانی کا مدعی تھا۔ (یعنی بہت کچھ اب اُس کو آتا ہے۔ ہر چیز میں اپنے آپ کو ماہر سمجھتا تھا) میری مخالفت پر تل گیا اور زبان درازی میں حد سے گزر گیا۔ مگر میں صبر سے کام لیتا رہا۔ آخرکار اُس کے کنبے میں طاعون پھوٹ پڑی اور اس قدر تباہی ہوئی کہ بہو اور بھابھی اور جوان لڑکا جو ایک ہی تھا وہ سب کے سب چند دنوں میں پلیگ کا شکار ہو گئے اور کوئی روٹی پکانے والا بھی نہ رہا۔ اُس کی ایک لڑکی جو نزدیک ہی دوسرے گاؤں میں بیاہی ہوئی تھی، اُس کے جاکر وہ روزانہ روٹی کھاتا مگر شریکوں کی روٹی کھانا، (یعنی بیٹی کے سسرال میں جا کر روٹی کھانا) اُس کے لئے موت سے بدتر تھا۔ مہتاب خان مذکور کی عمر اُس وقت ساٹھ سال سے کچھ اوپر ہو گی اور جائیداد غیر منقولہ صرف ڈیڑھ گھماؤں کے قریب باقی ہو گی۔ (یہ ڈیڑھ گھماؤں ایکڑ سے بھی کم ہوتا ہے) ایک دن صبح کے وقت نماز فجر کے بعد میں ایک مسجد میں قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہا تھا کہ وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ دیکھ میری حالت کیا ہے؟ اور کعبے کی طرف ہاتھ کر کے کہنے لگا کہ مجھے کوئی مرزا صاحب سے عنادنہیں ہے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد6 صفحہ126-127)۔

(کوئی دشمنی نہیں ہے۔ یہ حالت ہوئی تو تب اُس کو خیال بھی پیدا ہوا۔)

صحابہ کی استقامت کے یہ چند واقعات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسی جماعت عطا فرمائی ہے جو ثابت قدمی اور استقامت میں آج بھی غیر معمولی نمونے دکھانے والی ہے۔ کئی خطوط مجھے آتے ہیں، کئی لوگ مجھے ملتے ہیں اور اپنے واقعات سناتے ہیں۔ یہ نمونے دکھانے والے جہاں مرد ہیں، وہاں عورتیں بھی ہیں۔ پس جو جاگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوتِ قدسی کی وجہ سے صحابہ میں لگی تھی اللہ تعالیٰ نے اب تک اُسے جاری فرمایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن صحابہ کے بھی درجات بلند فرمائے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول فرمایا اور استقامت سے ثابت قدمی دکھائی اور اُن کی اولادوں کو بھی استقامت بخشے۔ اور اب شامل ہونے والوں، جو ہم میں موجود ہیں اور آئندہ شامل ہونے والوں کے ایمانوں کو بھی قوت اور طاقت بخشے اور استقامت بخشے۔

(خطبہ جمعہ 20 ؍ اپریل 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

کیادعویٰ نبوّت کی دلیل طلب کرنا کفر ہے؟

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اکتوبر 2021