• 8 مئی, 2024

راستی اور صداقت کو اختیار کرنے کا راستہ

راستی اور صداقت کو اختیار کرنے کا راستہ
’’قائل کی بجائے قول کی طرف دیکھو‘‘ (حضرت مسیح موعود ؑ)

ہمارے آقا و مولیٰ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَآ لَّۃُ الْمُؤْ مِنِ فَحَیْثُمَا وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقٌّۢ بِھَا

(جامع ترمذی)

ترجمہ: حکمت اور دانائی کی بات تو مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے۔ اسے چاہئے کہ جہاں بھی اسے پائے، لے لے کیونکہ وہی اس کا بہتر حقدار ہے۔

خاکسار نے کچھ عرصہ قبل دو آرٹیکلز یکے بعد دیگرے استاد اور شاگرد کے تعلق میں لکھے تھے جو روزنامہ الفضل آن لائن کی زینت بنے تھے۔ ان میں خاکسار نے بتایا تھا کہ ایک تو شاگردی درسی نظام کے تحت اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور مدرسوں کے ذریعہ حصّہ میں آتی ہے۔ لیکن استاد اور شاگرد کا ایک تعلق اور رشتہ ہم اپنے گھروں اور اپنے ماحول میں اس وقت قائم کرتے ہیں جب ہم گھروں میں اپنے بچوں، نونہالوں سے روزانہ ہی سیکھتے ہیں۔ بچے بالخصوص آج کے واقفین ِ نو بچے کچھ انجانے میں اور معصومیت میں اپنے بڑوں کو اپنے فعل سے ایسے سبق دے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بڑے شاگرد بن جاتے ہیں۔ ان پر مندرجہ بالا حدیث دو اور دو،چار کی طرح لاگو ہوتی ہے۔ یہی کیفیت معاشرے میں آئے روز دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر انسانوں کے آپس کے اس تعلق کو بغور دیکھا جائے تو ایک بندہ ایک وقت میں استاد ہوتا ہے اور دوسرے وقت میں وہ شاگرد بھی بن جاتا ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک وقت میں شاگرد اوردوسرے میں استاد ہوتا ہے۔ اگر اس رشتہ کو بر وقت بروئے کار رکھا جائے تو آپس کے تعلقات مؤدب ہو جائیں۔

حضرت مرزا بشیر احمد ؓ ایم اے قمر الانبیاء اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’ہمارے آقا (فِدَاہُ نَفْسِیْ) صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ علم و حکمت کی بات مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہے۔ اسے چاہئے کہ جہاں بھی اسے پائے، لے لے اور اپنے دل و دماغ کی کھڑکیوں کو اس طرح کھول کر رکھے کہ کوئی علمی بات جو اس کے سامنے آتی ہے۔ اس کے دل و دماغ کے خزانے میں داخل ہونے سے باہر نہ رہے۔ یہ وہ علم کی وسعت ہے جس کی طرف یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے۔ اور حق یہ ہے کہ اگر انسان کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلی ہوں تو بسا اوقات ایک عالم انسان ایک بچہ سے بھی علم حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے ایک بچے کو بارش اور کیچڑ میں بھاگتے ہوئے دیکھا اور اسے آواز دی کہ میاں بچے! ذرا سنبھل کر چلو تا ایسا نہ ہو کہ گر جاؤ۔ بچے نے گھوم کر جواب دیا۔ امام صاحب ! آپ اپنی فکر کریں کیونکہ میں تو ایک معمولی بچہ ہوں۔ اگر میں گرا تو میرے گرنے کا اثر صرف میری ذات تک محدود رہے گا لیکن آپ دین کے امام ہیں اگر آپ پھسلے تو قوم کی خیر نہیں۔ امام صاحب کی طبیعت بڑی نکتہ شناس تھی فوراً فرمایا کہ‘‘ اس بچہ نے تو آج مجھے بڑا قیمتی سبق دیا ہے۔‘‘

(چالیس جواہر پارے صفحہ146 از نشر و اشاعت قادیان)

ہم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے ساتھ تعصب، نفرت یا حسد ہو تو ہم کہتے ہیں کیا سننا ہے اس کو؟ حالانکہ بعض اوقات بہت اچھی اور حکمت و دانائی کی باتیں اس سے مل سکتی ہیں۔ لہٰذا اگر ہم نے اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا لبادہ پہنانا ہے اور لازماً پہنانا ہے تو ہم میں ہر ایک پر لازم ہے کہ حکمت و دانائی کی بات جہاں سے بھی ملے اسے لے لینی چاہیے اور اپنی زندگی پر اسے لاگو کرنا چاہئے۔ حضرت علی ؓ نے بھی فرمایا ہے:

لَا تَنْظُرْ اِلیٰ مَنْ قَالَ وَ انْظُرْ اِلیٰ مَا قَالَ

(شرح کلمات علی بن طالب صفحہ12)

یعنی جو شخص کچھ کہہ رہا ہے اس کی طرف نہ دیکھوبلکہ جو کہاجا رہا ہے اس کی طرف دیکھو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اگر ایک آدمی اپنی ہی غرض و منشاء کے لئے کوئی بھلی بات کہے تو اس پر یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے اس لئے اعراض کیا جاوے کہ وہ اپنی کسی ذاتی غرض کی بناء پر کہہ رہا ہے۔ وہ بات جو کہتا ہے وہ تو بجائے خود ایک عمدہ بات ہے۔ نیک دل انسان کو لازم ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے جو وہ کہہ رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ان اغراض و مقاصد پر بحث کرتا رہے جن کو ملحوظ رکھ کر وعظ کہہ رہا ہے۔ سعدی نے کیا خوب کہا ہے۔

؎مرد باید کہ گیرو اندر گوش
گر نوشت است پند بر دیوار

(آدمی کو چاہئے کہ کان میں ڈال لے نصیحت اگرچہ دیوار پر لکھی ہو)

یہ بالکل سچی بات ہے کہ قول کی طرف دیکھو۔ قائل کی طرف مت خیال کرو۔ اس طرح پر انسان سچائی کے لینے سے محروم رہ سکتا ہے اوراندر ہی اندر ایک عجب نخوت کا بیج پرورش پا جاتا ہے، کیونکہ اگر یہ صرف سچائی اور صداقت کا طالب ہے تو پھر دوسروں کی عیب شماری سے اس کو کیا غرض؟

واعظ اپنے لئے کوئی ایک بات نکال لے، مگر تم کو اس سے کیا غرض۔ تمہارا مقصود اصلی تو طلب حق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ بےموقع، بے محل، بے ربط بات شروع کر دیتے ہیں اور پندو نصیحت کرتے وقت امور مقتضائے وقت کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ان امراض کا لحاظ رکھتے ہیں جن میں مخاطب مبتلا ہوتے ہیں بلکہ اپنے سوال کو ہی مختلف پیرایوں میں بیان کرتے ہیں۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ بیان کو اگر غور سے دیکھتے تو ان کو وعظ کہنے کا بھی ڈھنگ آجاتا۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ سب سے بہتر نیکی کیا ہے؟ آپؐ اس کو جواب دیتے ہیں کہ سخاوت۔ دوسرا آکر یہی سوال کرتا ہے تو اس کو جواب ملتا ہے۔ ماں باپ کی خدمت۔ تیسرا آتا ہے۔ اس کو جواب کچھ اور ملتا ہے۔ سوال ایک ہی ہوتا ہے۔ جواب مختلف۔ اکثر لوگوں نے یہاں پہنچ کر ٹھوکر کھائی ہے اور عیسائیوں نے بھی ایسی حدیثوں پر بڑے بڑے اعتراض کئے ہیں، مگر احمقوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مفید اور مبارک طرز جواب پر غور نہیں کیا۔

اس میں سرّ یہی تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس قسم کا مریض آتا تھا۔ اس کے حسبِ حال نسخہ شفا بتلا دیتے تھے۔ جس میں مثلاً بخل کی عادت تھی اس کے لئے بہترین نیکی یہی ہو سکتی تھی کہ اس کو ترک کرے، جو ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا تھا، بلکہ ان کے ساتھ سختی کےساتھ پیش آتا تھا، اس کو اسی قسم کی تعلیم کی ضرورت تھی کہ وہ ماں باپ کی خدمت کرے۔

طبیب کے لئے جیسا ضروری ہے کہ تشخیص عمدہ طور پر کرے۔ اسی طرح وعظ کے منصب کا یہ فرض ہے کہ وعظ و پند سے پہلے ان لوگوں کے امراض کو مدِ نظر رکھے جن میں وہ مبتلا ہیں۔ مگر مشکل تو یہی ہے کہ یہ فراست اوریہ معرفت حقانی واعظ کے سوا دوسرے کو ملتی ہی کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں با وصفیکہ سینکڑوں، ہزاروں واعظ پھرتے ہیں، لیکن عملی حالت دن بدن پستی کی طرف جا رہی ہے۔ ہر قسم کی اعتقادی، ایمانی، اخلاقی غلطیاں اور کمزوریاں اپنا اثر کرتی جاتی ہیں۔ یہ اس لئے کہ وعظوں میں حقانیت نہیں، روح نہیں۔ یہ سب کچھ ہے۔ مگر میں اس وقت اپنے دوستوں کو یہی بتلانا چاہتا ہوں کہ چونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے دلوں میں طلب حق کی پیاس کو محسوس کیا ہے۔ وہ راستی اور صداقت کے لینے میں مضائقہ نہ کریں۔ گو واعظ مختلف رنگوں اور پیرایوں میں اپنا سوال ہی پیش کرے، مگر تم کو نہیں چاہئے کہ صرف اس ایک وجہ سے اصل حکمت کو چھوڑ دو، کیونکہ جو ان کے سوال کو سن کر ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ بھی توغلطی پر ہے۔ کیا کسی لعل اور گوہر نایاب کو صرف اس لئے پھینک دیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بد بودار اور میلی کچیلی ٹلی (دھجی کپڑے کی) میں بندھا ہوا ہے؟ ہر گز نہیں۔

(ملفوظات جلد اوّل، صفحہ506۔ 507، ایڈیشن 2016ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان قیمتی ارشادات اور نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

کیادعویٰ نبوّت کی دلیل طلب کرنا کفر ہے؟

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 اکتوبر 2021