ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام عاجزانہ راہیں
(قسط نمبر1)
نوٹ از ایڈیٹر :۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزنامہ الفضل آن لائن میں جاری قسط وار سلسلوں کو( جن کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے) قارئین کے دربار میں غیر معمولی پذیرائی مل رہی ہے اور قارئین کی طرف سے بے شمار تربیتی، علمی اور تحقیقی عناوین پر قسط وار سلسلوں کی آمد ہو رہی ہے اور اپنے پیارے اخبار الفضل میں جگہ پانے کے منتظر ہیں جن کی تعداد 6 کے قریب ہے اور 9 سلسلے اس وقت الفضل کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ 7 سلسلے مکمل ہو کر قارئین سے داد پا چکے ہیں۔ فاالحمدللّٰہ علی ذالک۔
ہماری ایک مستقل قاری، شاعرہ نثر نگار اور بے شمار کتب کی مصنفہ مکرمہ امۃ الباری ناصر آف امریکہ ’’ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام‘‘ کے عنوان سے قسط وار ایک سلسلہ شروع کرنے جا رہی ہیں جو ہر منگل کو الفضل کی زینت بنا کرے گا۔ ان شاء اللہ
موصوفہ اس روحانی، اخلاقی اور علمی مائدہ میں سیدنا حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے درمیان یعنی سراج منیر اور بدر منیر میں مماثلتیں دیں گی جو لازما ازدیاد ایمان و ایقان کا مؤجب ہو گی۔ فجزاہا اللّٰہ تعالیٰ خیرا
اسلام اور احمدیت میں ایک ہی طرز پر رونما ہونے والے واقعات کو ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کے عنوان پر مضامین بااقساط الگ سے طبع ہو رہے ہیں۔ امید ہے قارئین کو یہ نیا سلسلہ بھی پسند آئے گا اور ایمانوں میں اضافہ کا مؤجب ہو گا۔ کان اللّٰہ معکم وایدکم۔
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِيۡ يُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ
(آل عمران: 32)
تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو ميري پيروي کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
اللہ تبارک تعاليٰ نے حضرت محمد مصطفي ﷺ کو اپني طرف آنے کا جو راستہ قرآن کريم ميں ارشاد فرمايا اس پر آپؐ کي اُمّت ميں سب سے زيادہ عمل کرنے والا وجود، پيروي کا حقيقي حق ادا کرنے والا، ہمہ وقت آپؐ پر درود و سلام بھيجنے والا، آپؐ کے دين کي اشاعت کو مقصد حيات بنانے والا، فنا في اللہ اور فنا في الرسولؐ بزرگ حضرت مرزا غلام احمد مسيح موعود و مہدي معہود عليہ السلام ہيں۔ آپؑ کا قلب صافي اپنے محبوب کا آئينہ بن گيا۔ ايک ہي سرچشمہ ٔ نور سے فيض يابي نے دونوں کو يک رنگ بنا ديا۔ سراجِ منيرکي روشني کا دلفريب عکس اس چودھويں کے چاندکي ہر ادا ميں جھلکتا ہے۔ دونوں ميں دوئي نہ رہي۔ غلام احمد عليہ السلام نے احمدﷺ کي غلامي ميں محمدي نور کے دل نشين جلوے دکھائے۔
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام تحرير فرماتے ہيں:
’’ہم کيا چيز ہيں اور ہماري حقيقت کيا ہے ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کريں کہ توحيد حقيقي ہم نے اسي نبيؐ کے ذريعہ سے پائي اور زندہ خدا کي شناخت ہميں اسي کامل نبي کے ذريعہ سے اور اس کے نور سے ملي ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھي جس سے ہم اس کا چہرہ ديکھتے ہيں اسي بزرگ نبي کے ذريعہ سے ہميں ميسر آيا ہے۔ اس آفتاب ہدايت کي شعاع دھوپ کي طرح ہم پر پڑتي ہے اور اسي وقت تک ہم منور رہ سکتے ہيں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہيں‘‘
(حقيقة الوحي، روحاني خزائن جلد 22 صفحہ 119)
يَا حِبِّ اِنَّکَ قَدْ دَّخَلْتَ مَحَبَّةً
فِيْ مُھْجَتِيْ وَمَدَارِکِيْ وَ جَنَانِيْ
جِسْمِيْ يَطِيْرُ اِلَيْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا
يَا لَيْتَ کَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانٖ
(آئينہ کمالات اسلام، روحاني خزائن جلد5 صفحہ594)
اے مرے محبوب! ميري جان اور ميرے حواس اور ميرے دل ميں تيري محبت سرايت کرچکي ہے۔
(اے مرے معشوق!) تيرا عشق ميرے جسم پر (کچھ) اس طرح غلبہ پا چکا ہے (کہ وفور جذبات کي وجہ سے) وہ تيري طرف اڑا جاتا ہے۔ کاش مجھ ميں اڑنے کي طاقت ہوتي (اور ميں اڑ کر تيرے پاس پہنچ جاتا)
اس نادر خزانے سے ہم رنگ موتي ہاتھ آتے ہيں۔ قارئين کي خدمت ميں چند جھلکياں پيش ہيں :
اپنا کام خود کرنا
ايک دفعہ رسول اللہ ﷺ سفر پر جارہے تھے کہ راستے ميں ايک منزل پر پہنچ کر ڈيرے لگا ئے گئے اور صحابہ ؓميدان ميں پھيل گئے تاکہ خيمے لگائيں اور دوسرے کام جو کيمپ لگانے کے ليے ضروري ہوتے ہيں وہ بجا لائيں۔انہوں نے سب کام آپس ميں تقسيم کرليے اور رسول اللہ ﷺ کے ذمے کوئي کام نہ لگايا۔ رسول اللہﷺ نے فرمايا تم نے ميرے ذمے کوئي کام نہيں لگايا؟ ميں لکڑياں چنوں گا تاکہ اس سے کھانا پکايا جاسکے۔ صحابہ ؓ نے عرض کيا يا رسول اللہﷺ! ہم جو کام کرنے والے موجود ہيں آپؐ کو کيا ضرورت ہے؟
آپؐ نے فرمايا نہيں نہيں ميرا بھي فرض ہے کہ ميں کام ميں حصہ لوں۔ چنانچہ آپؐ نے جنگل سے لکڑياں جمع کيں تاکہ صحابہؓ اس سے کھانا پکا سکيں۔
(زرقاني)
حضرت عائشہؓ فرماتي ہيں کہ جس وقت آپؐ گھر پر ہوتے گھر والوں کي مدد اور خدمت ميں مصروف رہتے يہاں تک کہ آپؐ کو نماز کا بلاوا آجاتا اور آپؐ نماز کے ليے تشريف لے جاتے۔ (بخاري، کتاب الاذان)
حضر ت مسيح موعود عليہ السلام بھي اپنا کام خود کرنا پسند فرماتے تھے اور اس ميں کوئي عار محسوس نہيں فرماتے تھے۔
حضرت منشي ظفر عليؓ روايت فرماتے ہيں:
ايک دفعہ حضورؑ دہلي سے واپسي پر امرتسر اترے۔ حضرت اماں جانؓ بھي ساتھ تھيں۔ حضور نے ايک صاحبزادے کو جو غالباً حضرت مياں بشير احمد تھے گود ميں ليا اور ايک وزني بيگ دوسري بغل ميں ليا۔ميں نے عرض کيا حضور يہ بيگ مجھے ديديں۔ فرمايا نہيں۔ ايک دو دفعہ ميرے کہنے پر حضورؑ نے يہي فرمايا۔ ہم چل پڑے اتنے ميں دو تين نوجوان انگريز جو اسٹيشن پر تھے انہوں نے مجھے کہا کہ حضور سے کہوں کہ ذرا ٹھہر جائيں۔ چنانچہ ميں نے عرض کيا کہ حضور يہ چاہتے ہيں کہ حضور ذرا کھڑے ہوجائيں۔ حضور کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اسي حالت ميں حضور کا فوٹو لے ليا۔
(روايات ظفر صفحہ64)
عاجزانہ راہيں
آنحضرت ﷺ اپني ذات کے ليے احترام ميں کسي قسم کا تکلّف پسند نہ فرماتے۔ اول آپؐ کو ہر قسم کي مشرکانہ رسوم کا قلع قمع کرنا تھا دوسرے آپؐ کے مزاج ميں عاجزي اور انکساري تھي۔ ايک دفعہ ايک شخص آپؐ کے پاس آيا تو آپؐ کے رعب کي وجہ سے کانپ رہا تھا آپؐ نے فرمايا:
’’مجھ سے مت ڈرو ميں تو ايک قريش عورت کا بيٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھايا کرتي تھي‘‘
(شفا عياض، باب تواضعہ جلد اوّل صفحہ 87)
شرک کي گرفتار قوميں نئي نئي توحيد ميں داخل ہوئيں۔ ايک نے آکر کہا شاہانِ فارس اور روم کو ان کي رعايا سجدہ کرتي ہے کيا ہم آپؐ کو سجدہ نہ کريں ؟ آپ ؐنے فرمايا:
’’سجدہ صرف اللہ تعاليٰ کو کرو۔کسي دوسرے کو سجدہ نہ کرو۔‘‘
(فصل الخطاب، جلد اوّل الشرکة الاسلاميہ 1963ء صفحہ20)
آپؐ نے کبھي بھي اپنے ليے کوئي امتيازي نشان، وضع قطع،لباس اور نشست پسند نہيں فرمائي حتيٰ کہ ايک محفل ميں داخل ہونے پر احتراماًکھڑے ہونے سے بھي منع فرمايا:
’’ميرے ليے اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو جس طرح عجمي کھڑے ہوتے ہيں‘‘
(سنن ابي داؤد، کتاب الادب باب الرجل يقوم للرجل يعظمہ بذالک)
فتح مکہ کے دن مکہ کي بستي نعرہ ہائے تکبير سے گونجتي رہي کبھي فاتح مکہ محمد ﷺ کا نعرہ نہيں لگا۔آپؐ کا حال يہ تھا کہ خدا کے حضور حمد وشکر ميں جھکتے جھکتے سر اونٹني کے کجاوے سے لگ رہا تھا۔
(سيرت ابن ہشام)
فتح مکہ کے دن شام کو آپؐ حضرت ام ہاني ؓ بنت ِابي طالب کے ہاں تشريف لائے۔ بھوک محسوس ہوئي تو آپؐ نے ان سے پوچھا کھانے کو کچھ ہے؟ جواب ملا روٹي کا ايک ٹکڑا ہے۔آپؐ نے فرمايا وہي لے آؤ۔ آپؐ نے اس ٹکڑے کو توڑ کر پاني ميں ڈالا۔ اس پر نمک ڈالا اور سرکہ چھڑک کربطور سالن استعمال فرمايا۔
(ترمذي، ابواب الاطعمہ باب ما جاء في الخل)
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام اسي حصن حصين کا عکس حسين تھے۔اپني ذات، نام نمود، شہرت، عزت، ہر دنياوي وجاہت سے بے نياز در موليٰ کي گدائي ميں مگن رہتے۔ اللہ تعاليٰ نے يہ سند عطا فرمائي:
’’تيري عاجزانہ راہيں اس کوپسند آئيں‘‘
(تذکرہ صفحہ 595)
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کے ايک صحابي حضرت شيخ صاحب دينؓ کا بيان فرمودہ واقعہ درج ذيل ہے:
غالباً 1904ء ميں حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کے متعلق لاہور کي جماعت کو اطلاع ملي کہ حضور فلاں گاڑي پر لاہور پہنچ رہے ہيں۔ہم لوگ حضور ؑکي پيشوائي کے ليے ريلوے سٹيشن پرگئے ان دنوں دو گھوڑا فٹن گاڑي کا بڑا رواج تھا۔ ہم نے فٹن تيار کھڑي کردي۔ جب حضور سوار ہو ئے تو ہم نوجوانوں نے جيسا کہ عام رواج تھا گاڑي کے گھوڑے کھلوائے اور گاڑي کو خود کھنچنا چاہا۔ حضور ؑنے ہمارے اس فعل کو ديکھ کر فرمايا ہم انسانوں کو ترقي دے کر مدارج کے انسان بنانے آتے ہيں۔ نہ کہ بر عکس اس کے انسانوں کوگرا کر حيوان بناتے ہيں کہ وہ گاڑي کھينچنے کا کام ديں۔ مفہوم يہي ہے شايد الفاظ کم و بيش ہوں۔
(الفضل 8؍مئي 1938ء)
؎ اس نور پر فدا ہوں اُس کا ہي ميں ہوا ہوں
وہ ہے مَيں چيز کيا ہوں بس فيصلہ يہي ہے
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)