• 22 مئی, 2024

معلمین وقفِ جدید کے لئے مشعلِ راہ (قسط سوم)

معلمین وقفِ جدید کے لئے مشعلِ راہ
شہاب الدین سہر وردیؒ
قسط سوم

شہاب الدین سہر وردیؒ

آپ چھٹی صدی ہجری کے نامور صوفی ہیں آپ کا پورا نام ابو حفص شہاب الدین عمر بن محمد سہر وردی تھا آپ کو شیخ الشیوخ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا آپ کے والد کا نام محمد قریش تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب (بعض کے نزدیک 12 بعض کے نزدیک 13 بعض کے نزدیک 16 واسطوں سے (بحوالہ عوارف المعارف مقدمہ مترجم شمس بریلوی) حضرت ابوبکر صدیقؓ سے جا کر ملتا تھا۔ آپ کے نسب کے تمام آباؤ و اجداد اوپر سے نیچے تک خدا رسیدہ بزرگ اور عالم باعمل تھے۔ آپ کے والدین کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی اور وہ اولاد کی خواہش دل میں ہی لئے ہوئے اپنی عمر کا ایک طویل عرصہ گزار چکے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کے والدین سیدنا حضرت عبد القادر جیلانیؒ کے پاس گئے اور اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی۔ حضرت عبد القادر جیلانیؒ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اور فرمایا کہ خدا تمہیں ایسا بیٹا دے گا جس کا چرچا قیامت تک جاری رہے گا۔

آپ کی ولادت 536ہجری ماہ رجب کے آخر میں بمطابق 1141 عیسوی میں زنجان (آذر بائیجان کے دار الحکومت) کے نواحی قصبہ سہر ورد میں ہوئی اور اسی قصبہ کی نسبت سے آپ سہر وردی مشہور ہوئے۔

تعلیم وتربیت

حضرت شہاب الدین سہر وردیؒ کا کم سنی میں ہی بغداد آنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اپنے چچا سے تحصیل علم ہو چنانچہ آپ بغداد میں اپنے چچا کے زیر تربیت رہ کر تعلیم حاصل کرنےلگے۔ ظاہری و باطنی تعلیم میں آپ کے سب سے بڑے استاد آپ کے چچا شیخ ضیاء الدین ابو نجیب عبدالقاہرؒ تھے گیارہ سال کی عمر میں آپ نے ان سے علم الحدیث کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ تفسیر، فقہ اور دوسرے علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کرتے رہے۔

حضرت شہاب الدین سہر وردیؒ اپنے جوانی کے زمانہ سے ہی علم الکلام میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے اور بہت ساری کتب آپ کے زیر مطالعہ تھیں مگر آپ کے چچا جان اس کو پسند نہ کرتے تھے چنانچہ وہ آپ کو لے کر حضرت عبد القادر جیلانیؒ کے پاس گئے اور ان کی صحبت کی برکت سے خدا تعالیٰ نے آپ کو علم الکلام کی بجائے علوم باطنی سے آشنا کردیا اور حضرت عبد القادر جیلانیؒ نے فرمایا کہ ’’اے عمر تم عراق کے مشاہیر کے آخر ہو۔‘‘

بہت ہی مختصر سے عرصہ میں آپ نے تفسیر و حدیث اور فقہ اور دیگر علوم دینہ پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ آپ ا پنے دور کے عظیم المرتبت محدث و فقیہ شمار کئے جاتے تھے۔ فقہ میں آپ شافعی مسلک کے پیروکار تھے مگر وسعت نظر میں آپ ایک مجتہدانہ انداز رکھتے تھے اور عقائد میں آپ امام ابو الحسن اشعریؒ کے متبع تھے۔ شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ حضرت جنید بغدادیؒ کے مکتب خیال سے متاثر تھے۔

حالات زندگی

آپ زہد و تقوی میں بے مثال تھے ہمہ وقت عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے تھے۔ آپ نے خلیج فارس جزیرہ عبادان میں گوشہ نشینی اختیار کی اور عرصہ دراز تک ذکر و فکر عبادت و ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے۔ آپ نے متعدد حج کئے اور کئی سال تک خانہ کعبہ میں رہے۔ پھر آپ واپس بغداد تشریف لے گئے۔ سیدنا حضرت عبد القادر جیلانیؒ کی وفات کے بعد بغداد کی روحانی مسند پر شیخ عبد القاہر ابو النجیب سہر وردیؒ بیٹھے آپ شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ کے چچا تھے اور تصوف میں طریقہ سہروردیہ کے بانی تھے آپ بھی شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی رحلت کے بعد دار فانی سے کوچ کر گئے اور آپ کے کوچ کر جانے کے بعد آپ کی مسند پر شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ جلوہ افراز ہوئے اور سلسلہ سہروردیہ کے مؤسس ثانی کے طور پر آپ جانے گئے۔ جہاں ناصرف آپ کی خانقاہ کے درویش فیض اٹھاتے تھے بلکہ آپ اپنے اثر و رسوخ سے قوم اور ملک کو بھی فائدہ پہنچاتے تھے۔ بالخصوص اسلامی ممالک کے درمیان مصالحت کروانے میں آپ کا بہت کردار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خلفائے بغداد اور اسلامی ممالک کے امراء اور حکام آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ دربار خلافت کے سفیر بھی تھے اسی واسطے جب کوئی بڑی علمی یا روحانی شخصیت بغدار کا رخ کرتی تو سرکاری طور پر آپ ہی ان کے استقبال کے لئے جاتے تھے۔

واقعات زندگی

614ہجری میں سلطان محمد بن خوارزم نے عباسی خلیفہ کی بیعت سے روگردانی اختیار کی اور اپنی تمام مملکت میں خلیفہ ناصر کا سکہ اور خطبہ بند کر کے علاؤ الدین ترمذی سے بیعت کی۔ اس نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تین لاکھ سوار لے کر خلیفہ ناصر کو معزول کرنے کے لئے بغداد کی طرف روانہ ہوا۔ جب اس آمد کی خبر ناصر کو ہوئی تو اس نے آپ کو بطور سفیر اس کی طرف روانہ کیا۔ چنانچہ ہمدان کے قریب آپ نے سلطان محمد سے ملاقات کی اور فصیح و بلیغ تقریر کی۔ وہ آپ کی پر معارف تقریر سے بہت متاثر ہوا مگر اپنے فیصلہ سے باز نہ آیا۔ چنانچہ آپ بہت مایوس ہو گئے اور دعا کی کہ اے باری تعالیٰ! خوارزم شاہ کو اپنے ادارے میں کامیاب نہ ہو نے دینا اور واپس آگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور ہوا یہ کہ جیسے ہی سلطان محمد اپنے لشکر کے ہمراہ عقبہ حلوان پہنچا آسمان پر شدید دھند چھاگئی اور شدید برف باری بیس دن تک جاری رہی اور سردی کی وجہ سے اس کا سارا لشکر تباہ ہو گیا اور وہ اپنے ارادہ میں ناکام ہو کر واپس ہو گیا۔

آپؒ کی نظر میں لوگوں کی عیب پوشی کی اس قدر اہمیت تھی کہ آپ خلائق پر سے ہمیشہ اپنی آنکھ بند رکھا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپ سے آپ کے اس طرز عمل کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ ’’خلق اللہ میں سے کسی کے عیب نظر نہ آئیں اس لئے آنکھ بند رکھتا ہوں۔ ‘‘

خدا تعالیٰ کے پیاروں پر تنگی و آسودگی کے حالات آتے رہتے ہیں مگر وہ ہر حال میں یاد ا لہٰی سے دل کو آباد رکھتے ہیں۔ ایک بار آپ پر تنگی کے حالات تھے مگر آپ یاد الٰہی سے غافل نہ تھے اور پھر وہ دن بھی آیا جب ہزاروں دینار آپ کے پاس آتے تھے مگر آپ سب کے سب راہِ خدا میں قربان کر دیتے تھے۔ حضرت فرید الدین گنج شکرؒ فرماتے ہیں:
’’میں چند روز شیخ شہاب الدین سہروردی ؒکی خانقاہ میں رہاہوں ہر روز تقریبا ً 10 ہزار دینار فتوح آتی تھی مگر شام تک ایک پیسہ بھی نہ بچتا تھا۔ سارے کا سارا حاجت مندوں، غرباء و مساکین میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔‘‘

(سیارہ ڈائجسٹ اولیاء کرام نمبر 462)

آپ کا یہ معمول تھا کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے تو خدا تعالیٰ اس مشکل کو دور کردیتا تھا۔

حضرت امام نقی الدین سبکیؒ طبقات شافیعہ میں رقمطراز ہیں کہ حضرت شیخ الشیوخ ظاہری تحمل اور عزت کے باوجود نہایت فقر اور تنگ دستی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے دنیاوی مال و متاع سے کوئی رغبت و دلچسپی نہیں تھی۔ جو فتوحات آتی تھیں وہ سب راہ خدا میں دے دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کے بوقت وصال تجہیز و تکفین کے لئے بھی ضروری رقم موجود نہ تھی۔

(سیارہ ڈائجسٹ اولیاء کرام نمبر 463)

آپ کے دل میں دوسرے علماء کی کس قدر عزت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ حضرت شہاب الدین سہر وردیؒ اور شیخ محی الدین ابن عربیؒ دونوں بزرگ دو مختلف مکتبہ فکر سے تھے مگر ایک دوسرے کی حد درجہ عزت کرتے تھے۔

وفات

آپ آخری عمر میں معذورہوگئے تھے۔ بصارت بھی جاتی رہی تھی لیکن خانقاہ کا نظام اسی شان و شوکت سے چلتا رہا۔ نوے سال کی عمر پاکر آپ کا وصال یکم محرم 632 ھ بمطابق 1234 عیسوی میں ہوا۔

کتب و شاگرد

حضرت شہاب الدین سہروردیؒ نے بہت ساری کتب اور رسائل تصنیف فرمائےمگر شہرت دوام آپ کی علم الاخلاق اور علم تصوف پر لکھی کتاب ’’عوارف المعارف‘‘ کے حصہ میں آئی۔ عوارف المعارف آپ نے علم الاخلاق اور علم تصوف پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں تحریر فرمائی تھی۔ اس کتاب میں آپ نے تصوف کے بنیادی اعتقادات اور خانقاہوں کی تنظیم اور تصوف کی اصطلاحات کے معنی مختصر لیکن جامع انداز میں بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کو جب حضرت نجم الدین کبری نے دیکھا تو فرمایا تھا کہ ’’جس نے اس کتاب کو نہیں پڑھا وہ صوفی نہیں ہو سکتا۔‘‘

مناقب الاصفیاء میں لکھا ہے:
’’شیخ الشیوخ شیخ شہاب الدین سہروردی چوں عوارف را تصنیف کرد گفت گفت پرخواجم عرض کنید۔ یعنی بر خواجہ نجم الدین کبری عرض کنید۔ اگر او قبول کند، بدادندوگر نہ بشوئند، خواجہ نجم الدین کبری چوں عوارف رو دید گفت صوفی را ازیں چارہ نیست۔ بر صوفی ایں کتاب مخدوم زادہ نداند صوفی پاشد‘‘

(مناقب الاصفیاء مصنفہ حضرت مخدوم شعیب فردوسی صفحہ 100)

سلسلہ سہروردیہ کے علاوہ اس کتاب سے سلسلہ چشتیہ، قادریہ، فردوسیہ نے بھی استفادہ کیا اور نظام الدین اولیاء کی خانقاہ میں اس کے تدریس کا سلسلہ رہا اور بابا فرید گنج شکر نے تو اس کتاب کا درس بھی اپنےاعلیٰ مریدوں اور خلفاء کو دیا اور اس کتاب پر ایک حاشیہ بھی تحریر کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ آپ کی اولاد اور آپ کے شاگرد آکر ہندوستان کے علاقوں میں آباد ہوئے اور آپ سے فیض حاصل کرنے والے شاگردوں نے بر صغیر میں آکر اشاعت اسلام کی۔ آپ کے شاگردوں میں سے چند مشہور شاگرد شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی، شیخ حمید الدین ناگوری، شیخ نجیب الدین علی وغیرہ ہیں۔

تعلیمات

• شیخ شہاب الدین سہر وردی ؒکی تعلیم کا نچوڑ یہ تھا کہ نہ کبھی انسان کو ’’خودبین‘‘ بننا چاہئے اور نہ ’’بد بین‘‘ ہونا چاہئے۔ شیخ سعدی جو کہ ان کے مخصوص مریدوں میں سے تھے اپنے پیر کی اس تعلیم کو اپنی مشہور کتاب بوستان میں ان دو نصائح کو دو اشعار میں بیان کیا ہے:

مرا پیر دانائے فرخ شہاب
فرمودہ بروئے آب
یکے آنکہ برخویش ’’خود بین‘‘ مباش
دگرانکہ بر غیر ’’بدیں‘‘ مباش

(یعنی مجھ کو میرے مرشد حضرت شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ نے ساحل دریا پر (جبکہ وہ غالباً دریائی سفر کے لئے کشتی میں سوار تھے یا سوار ہونے والے تھے) یہ دو نصیحتیں فرمائیں۔

• خود بینی کا نہ کرنا یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر غرور و تکبر کا کرنا۔

• دوسروں کو برا نہ سمجھنا اور خوامخواہ ان کے عیب تلاش کرنے کا طریقہ اختیار نہ کرنا۔

• آپ کو ایک شخص نے لکھا کہ یا سیدی! اگر میں عمل چھوڑ دوں تو ڈرتا ہوں (تعطل و بیکاری کی طرف نہ چلا جاؤں گا اور اگر عمل کروں تو یہ ڈر ہے کہ مجھ میں تکبر و غرور آجائے گا۔ آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ

• نیک عمل کر اور تکبر غرور سے استغفار کر۔

• آپ اپنے مریدین کو شکر گزاری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’شکر‘‘ اشرف الاعمال ہے اور سب اعمال کے مقابلہ میں کم پایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ میرے بندوں میں سے شکر گزار بندے کم ہیں… شکر (قلب کا) ایک مستقل عمل ہے۔ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا اے داؤد کے گھر والو شکر کا عمل جاری رکھو۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ10)

• اگر بندہ بالفرض کسی مکروہ جگہ بھی ہومگر اس کا قلب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو تو وہ اللہ کے قریب ہے اور اگر وہ کعبہ میں ہو اور اس کا دل اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو تو وہ اللہ سے بعید ہے۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ11)

• اللہ تعالیٰ اس قلب کو پسند نہیں کرتا جس میں تفرقہ ہو۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ11)

• بندے کو لازم ہے کہ اپنے اوقات کو غنیمت سمجھے اور اپنے ایام و ساعات کو اوراد سے مزین کرے۔

• ریا، نفاق اور مخلوق کے سامنے سجاوٹ اور بناوٹ کو بھی اپنے آپ سے دور رکھے۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ13)

• آپ کے نزدیک والدین کی خدمت کی کیا اہمیت تھی کہ آپ نے اپنے طالب علم کو اس لئے اپنے وطن جانے کی اجازت دی تا کہ وہ اپنے والدین کے حقوق ادا کر یں۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ14)

• انسان اپنے اعضاء و جوارح پر پورا کنٹرول اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک قلب ایسا بیدار نہ ہو جائے جو برابر محاسبہ کرتا رہے۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ15)

• انسان… اپنے نفس پر اس وقت تک غلبہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک اپنے اوقات کی حفاظت نہ کرے۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ16-17)

• آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر ہوا اور آپ سے نصیحت طلب کی۔ آپ نے منجملہ اور نصائح کے زبان کو قابو رکھنے کی تاکید فرمائی۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ28)

آپ نے اپنے ایک شاگردکو فرمایا:
• مراقبہ یہ ہے کہ بندے کے قلب میں علم راسخ ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کے ضمیر کی پوشیدہ باتوں پر بھی مطلع ہے۔ جب ان امور سے فارغ ہو جائے تو سو جائے۔ پس نیند میں بھی سلامتی ہے یہ بات بھی مناسب ہے کہ ہمیشہ طہارت پر رہے اور جب وضو ٹوٹے دوبارہ وضو کر لے اور اس بات کی حتیٰ الامکان کوشش کرے کہ قبلہ رخ بیٹھے اور اپنے دل میں اس بات کا تصور کرے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا ہے یہاں تک کہ اس کو سکینہ اور وقار حاصل ہو جائے۔ مخلوق کی تکلیف دہی کا تحمل کرے اور بد سلوکی کرنے والے سے انتقاماً بدسلوکی نہ کرے بلکہ بد سلوکی کرنے والے کو معاف کر دے اپنے علم و فضل پر نازاں نہ ہو اپنے آپ کو چشم حقارت سے اور تمام مسلمانوں کو چشمِ احترام و تعظیم سے دیکھے۔ ہر عاقل کو چاہئے کہ وہ تہجد بھی پڑھے۔ اگر ممکن ہوتو مغرب و عشاء اور ظہر وعصر کے درمیان بھی نوافل پڑھ لے۔ چاشت کی نماز کا بھی خیال رکھے۔ غسل جمعہ کا اور طہارت کی حالت پر سونے کا بھی لحاظ رکھے۔ جمعہ کےدن جامع مسجد کو جلد چلا جائے اور اس جمعہ کے دن کو خاص طور پر آخرت کے لئے بنادے( کم ازکم) اس دن میں تو امر دنیا کی آمیزش نہ کرے۔ ہر روز صدقہ دے جتنا بھی ہو، کم یا زیادہ، زیادہ نہ ہنسے، معدہ کو ہلکا رکھنےکی کو شش کرے، نفلی روزے بھی رکھے، ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھے اور اس میں اضافہ کر لے تو اچھا ہے ورنہ ہر ایام بیض (15.14.13 تاریخ) کے روزے رکھے اور یہ کم سے کم ہیں۔ اپنے تمام جوارح کو مخالفتِ شرع سے محفوظ رکھے۔ خاص طور پر آنکھ اور زبان کو قابو میں رکھے کہ آنکھ سے کسی ناجائز چیز کو نہ دیکھے اور زبان سے غیبت نہ کرے۔ بد نظری اور غیبت ان دونوں چیزوں میں لوگ زیادہ مبتلا ہیں۔ راستے میں جب چل رہا ہو تو ذکر قلبی کرتا رہے۔ کوئی قدم غفلت کے ساتھ نہ اٹھائے۔ میں نے جتنی باتیں ذکر کی ہیں ان کو پورا کرنے پر وہی لوگ قادر ہوتے ہیں جو دنیا سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں (اور آخرت کا دھیان رکھتےہیں)۔ انسان کو چاہئے کہ تضرع وزاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان باتوں کو طلب کرے اور یہ بھی جان لے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی موجود ہیں جن کو ان باتوں پر عمل کرنا نصیب ہے ان کا نصب العین ایک ہی نصب العین ہے (اللہ کو راضی کرنا اور آخرت کی تیاری)۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ30)

اپنے ایک مرید کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
• صحت ایمان کے ساتھ اپنے اوپر تین چیزیں لازم کر لے۔ تقوی اللہ (سے دل کینہ، جھوٹ، تکبر، ریا، دکھاوٹ، بناوٹ، تصنع سے پاک صاف ہو جاتا ہے)

زہد فی الدنیا (نفس غذا، لباس، اور مکان میں بقدرِ حاجات سے زائد مطالبے کو ساقط کر دے)

دوام عمل (اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کبھی قلب اور جوارح دونوں سے اور کبھی فقط قلب سے)

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ31)

• میں اپنے دینی بھائیوں کو ہمیشہ طہارت پر رہنے کا حکم دیتا ہوں۔۔۔ وضو مومن کا ہتھیار ہے۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ32)

• میں وصیت کرتا ہوں کہ کسی مسلمان کا ذکر ہوتو خیر کے ساتھ ہو۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ33)

• ریاست وامارت کو طلب نہ کرنا اس لئے کہ جو ریاست و امارت کو پسند کرتا ہے وہ کبھی فلاح یاب نہ ہوگا۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ35)

• اللہ کی تمام مخلوق کو نظر رحمت سے دیکھ۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ35)

• تیرا عمل خالص، تیری آنکھ رونے والی، تیری دعا جدوجہد و سعی عمل ہو، تیرے کپڑے پرانے، تیرے رفقا فقراء ہوں، تیرا گھر مسجد، تیرا مال فقہ، تیری زینت زہد، تیرا مونس کریم ہو۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ37)

• کسی سے بھائی چارہ اور دوستانہ اس وقت تک نہ کرنا جب تک اس میں پانچ خصلتوں کو نہ پالے۔

• وہ مال داری کے مقابلہ میں فقر کو مقدم رکھنے والا ہو۔

• جہالت کے مقابلہ میں علم کو اختیار کرنے والا ہو۔

• علم کے مقابلہ میں عمل کو زیادہ پسند کرنے والا ہو۔

• دنیا پر آخرت کو فوقیت دینے والا ہو۔

• اللہ کے راستے کی ذلت کو دنیاوی عزت پر ترجیح دینے والا ہو۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ37)

• میں نے کوئی شئے عمر اور دنیا سے زیادہ جلد زوال پذیر ہونے والی نہیں دیکھی… میں نے قناعت کے اندر دنیا و آخرت کی بھلائی اور طمع کے اندر تمام جہاں کی برائی دیکھی۔ میں نے سب سے زیادہ نقصان والااس شخص کو دیکھا جو اپنے اوقات کو لیت ولعل میں گزارتا ہے۔ میں نے سب سے اچھی زینت تواضع کو پایا، اور سب سے بری چیز بخل کو پایا۔ میں نے وہ چیز جو جامع شر ہو حسد کو پایا اور کسی شخص کے سامنے دست سوال دراز کرنے میں ذلت کی موت پائی۔ مجھے حیات ابدی سوال سے بچنے اور اپنے حالات پوشیدہ رکھنے میں نظر آئی۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ39)

• ذلت اور خواری میں نے ان لوگوں میں مشاہدہ کی جو اطاعت مخلوق میں اپنی زندگی گزارتے ہیں اور عزت و شرف ان لوگوں میں دیکھا جو اطاعت خالق میں مصروف ہیں۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ40)

• تیرا زاد راہ تقویٰ ہو… تیری مجلس مسجد ہو… تیری محافظ حیا ہو۔ تیری عادت حسن خلق ہو۔ تیری معلم قناعت ہو۔ تیرا ہتھیار وضو ہو۔ تیری سواری پرہیزگاری ہو۔ تیرا دشمن شیطان ہو۔ تیرا عدو نفس ہو۔ دنیا تیرے نزدیک ایک قید خانہ ہو اور خواہش نفس تیری نظر میں دروغہ جیل ہو۔ تیرا قلعہ دین ہو۔ تیری محبوب کتاب اللہ ہو۔ تیری انیس سنت رسول ہو۔ تیرا مشغلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دردور بھیجنا…تو نفس کے منہ میں تقویٰ کی لگام دے اور اس کو تواضع اور انکساری کی زنجیروں میں جکڑ دے… عبادات کو اس کا دروغہ بنا دے۔

(وصایا شیخ شہاب الدین سہر وردی از مولانا نسیم احمد فریدی امروہی صفحہ40-41)

• شیخ کو چاہئےکہ وہ مریدوں کے ساتھ ایسا ناصحانہ اور محبت بھرا کلام کرے جیسا ایک شفیق باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرتا ہے جو اس کی دین و دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتا ہے۔

(عوارف المعارف باب 52)

• شکم پری نفس کی ایسی نہر ہے جس سے شیطان کا گزر ہوتا ہے اور بھوک ایسی نہر ہے جس پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔

(عوارف المعارف باب 39)

• جو شخص کھانے پینے میں فضول خرچی اور اسراف کرتا ہے اس کو بہت جلد آخرت سے پہلے ہی دنیا میں ذلت و خواری اٹھانا پڑتی ہے۔

(عوارف المعارف باب 39)

(باقی آئندہ بدھ کو ان شاءاللّٰہ)

(ندیم احمد فرخ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 11)