• 21 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 68)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 68

انڈیا ویسٹ

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 24؍ جون 2011ء میں صفحہ B-24 پر سامعین کی ایک تصویر کے ساتھ ہمارے جلسہ یوم خلافت کی خبر شائع کی ہے۔ جو کہ سٹاف رپورٹرکے حوالہ سے ہے جس میں لکھا گیا ہے۔ کہ جماعت احمدیہ کیلی فورنیا کی مسجد بیت الحمید میں22؍ مئی کو جلسہ یوم خلافت منایا گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے عرصہ 103سال سے (یہ 2011ءکی بات ہورہی ہے) جماعت میں خلافت کا بابرکت نظام جاری ہے۔ اس جلسہ میں خلافت سے متعلق مختلف عناوین پر مقررین نے تقاریر بھی کیں۔ اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ کے افراد اس نعرہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں کہ محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں۔

خاکسار کے حوالہ سے اخبار نے لکھا کہ امام ناصر نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کی ترقیات کا راز خلافت کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ خلافت ہمارا روحانی نظام ہے جو جماعت احمدیہ میں بانی جماعت کی وفات 1908ء سے قائم ہے۔ جماعت احمدیہ اس وقت 198ممالک میں پائی جاتی ہےجس کے کوئی سیاسی عزائم نہیں بلکہ خدمت انسانیت اولین ترجیح ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 24؍ جون 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’اسلام سے نہ بھاگو راہ ہدیٰ یہی ہے‘‘کی تیسری قسط شائع کی۔ اس کا خلاصہ اس سے قبل نیویارک عوام کے حوالہ سے آچکا ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے یکم جولائی 2011ء کی اشاعت میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان’’ہمارا جلسہ سالانہ و اغراض و مقاصد ‘‘ ایک تصویر کے ساتھ جس میں حضرت مصلح موعودؓ مسجد فضل لندن کی جگہ پر نماز باجماعت کی امامت فرما رہے ہیں شائع کیا۔

مضمون لمبا تھا۔ ایڈیٹر نے کافی کانٹ چھانٹ کی اور جلسہ کے بارے میں سب سے آخر میں تھوڑی سی بات لکھی۔ لیکن مضمون کا باقی حصہ خود دیا ہے۔ اس مضمون میں جماعت احمدیہ کی مخالفت، تعصب اور جماعت پر کئے گئے اعتراضات کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ کیوں کہ ایک اعتراض یہ بھی تو کیا جاتا ہے کہ احمدی حضرات حج کرنے قادیان جاتے ہیں وغیرہ۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے:’’برا ہو تعصب اور جہالت کا، جب کسی کے بارے میں دل میں تعصب پیدا ہوجائے اور پھر اوپر سے جہالت کا لبادہ بھی اوڑھ لیا جائے تو انسان دیکھتے ہوئے بھی حقیقت کو نہیں دیکھ سکتا۔ یہی کچھ جہالت جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی وطن عزیز میں ہو رہی ہے اور دیگر ممالک میں بھی جہاں علمی پستی ہے۔ گزشتہ 120 سال سے احمدیوں پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جا رہےہیں اور ہمارا لٹریچر ان الزامات اور اعتراضات کے جواب میں بھرا پڑا ہے، مگر عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی وجہ سے آئے دن وہی پرانے اعتراضات کو دشمنوں کی کتب سے لے کر پھر شائع کردیا جاتا ہے گویا یہ اعتراضات ایسے ہیں کہ کسی قادیانی کے پاس ان کا جواب نہیں ہے۔

میڈیا بھی پھر انہی کی مدد کرتا ہے خصوصاً پاکستان میں۔ یہاں امریکہ میں چونکہ مذہبی آزادی بھی ہے اور میڈیا کو آزادی ہے اور اس وجہ سے بعض شرفاء ہماری باتوں کو شائع کرنے میں عار نہیں سمجھتے بلکہ اخلاقی فرض سمجھتے ہیں ہم میڈیا کے تمام ایسے لوگوں کے شکر گزار ہیں۔

خاکسار نے مزید لکھا کہ ایک دوست نے کچھ دن پہلے مجھے ای میل بھیجی جس میں جماعت احمدیہ کی اسرائیل میں موجودگی اور ہمارے عقائد کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہوا تھا میں اس دوست کا مشکور ہوں اس ای میل میں بہت سے پرانے اور معاندین کی کتب سے لئے گئے اعتراضات تھے مثلاً جماعت احمدیہ ختم نبوت کی منکر ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) نے نبوت کا دعویٰ کر کے ختم نبوت کے عقیدہ کو پاش پاش کر دیاہے۔ پھر یہ کہ یہ لوگ مکّہ کی بجائے قادیان میں حج کرتے ہیں جو کہ ان کا ساتھ سالانہ جلسہ ہوتا ہے غرض یہ اور اس قسم کے دوسرے سوالات تھے۔

امریکہ میں چونکہ یکم تا 3؍ جولائی ہمارا جلسہ ہو رہا ہے۔ (یعنی سال 2011ء میں) اور اسی حوالے سے اس ہفتے جرمنی میں ہو رہا ہے اور کینیڈا کا جلسہ بھی یکم تا 3؍ جولائی ہے اور پھر برطانیہ کا جلسہ سالانہ 24 تا 27؍ جولائی 2011ء ہورہا ہے جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے وفود آکر شامل ہوں گے۔ اس لئے خاکسار مناسب سمجھتا ہے کہ خاکسار اس اعتراض کا جواب دے کر جماعت احمدیہ کے افراد مکّہ کی بجائے قادیان میں یا جہاں جہاں جلسہ ہوتا ہے حج کرتے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بالکل غلط ہے کہ احمدی حضرات مکہ نہیں جاتے اور قادیان کے جلسہ میں حاضر ہو کر حج کرتے ہیں۔ جماعت احمدیہ 5 ارکان اسلام پر بدل و جان ایمان لاتی اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے۔ جب ہم 5 ارکان اسلام پر ایمان لاتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حج مکہ کی بجائے قادیان میں کرلیں؟

ایسے معاندین احمدیت جو یہ اعتراض کرتے ہیں ذرا انصاف سے کام لیں۔ یہ ایک طرف تو ہمیں کافر ٹھہراتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستانی پاسپورٹ پر مذہب کے خانے میں احمدیت /قادیانیت لکھتے ہیں پھر ایک حلف نامہ بھی پُر کرنے کے لئے دیتے ہیں کہ ہم مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام ) کو جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ پھر سعودی حکومت کے قانون کے مطابق بھی غیر مسلم وہاں نہیں جاسکتے۔ ہمارا داخلہ ممنوع کرایا ہوا ہے۔ ایک طرف تو ہمارے خلاف یہ سب اقدام تو دوسری طرف یہ الزام کہ ہم حج پر نہیں جاتے۔ ایسے معاندین کو تو ہم یہی کہتے ہیں کہ خدا کے لئے کچھ تو انصاف سے کام لو کہ تمہارا اسلام تمہیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاؤ اور ہمارے خلاف مکرو فریب سے کام لو۔ بہرحال یہ جھوٹا پروپیگنڈا جماعت کے خلاف ہوتا چلا آرہا ہے۔

ہمارے پہلے خلیفہ (حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ) نے بھی حج کیا اور دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد(رضی اللہ عنہ) نے بھی حج کیا۔ آپ تو بانیٔ جماعت احمدیہ کے بیٹے تھے۔ 1974ء سے پہلے سینکڑوں احمدیوں نے حج کیا۔

پھر حج پر جانے کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ راستہ کا امن میسر ہو۔ جماعت احمدیہ کے افراد کے لئے راستہ کا امن نہیں ہے بلکہ ہمارے خلاف ایسے ایسے فتوے ہیں ’’جوں ہی انہیں دیکھو جان سے مار دو‘‘ اور بھرے بازار میں انہیں قتل کر دو۔ حال ہی میں پاکستان کی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، آل پاکستان سٹوڈنٹس ختم نبوت فیڈریشن کی طرف سے فیصل آباد شہر اور دیگر علاقوں میں یہ پمفلٹ تقسیم کیا گیا جس میں احمدیوں کے بارے میں لکھا گیا کہ ’’ایسے لوگوں کو بھرے بازار میں گولی مارنا جہا د ہے۔ ان کو مارنا بھی ثواب ہے۔ لہٰذا اپنے ضمیر کو جگائیں اور ختم نبوت کے نڈر مجاہد ہو کر ان کو قتل کر کے شہادت کا رتبہ حاصل کریں۔‘‘

یہ خلاصہ ہے پمفلٹ کا، ساتھ ہی لکھا ہے کہ قادیانیت زہر قاتل ہے پھر اسی اشتہار میں اس علاقے کے نمایاں 30-40 احمدیوں کے نام شائع کئے ہیں تاکہ انہیں قتل کرنے میں آسانی ہو۔ اس پمفلٹ میں احمدیوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ کچھ 1974ء کے بعد قومی اسمبلی میں ہمارے خلاف قانون پاس کرنے کی وجہ سے اور پھر یہ دشمنی 1984ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اپنے عروج کو پہنچی۔ جوں ہی کوئی شخص احمدی کو قتل کرتا ہے اسے قانون کا سہارا مل جاتا ہے اور وہ قاتل جنت کا پروانہ حاصل کرلیتا ہے۔

جماعت احمدیہ کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) نے تمام دنیا کے احمدیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دعائیں کریں اور خدا سے مدد چاہیں کہ خدا تعالیٰ ان کے شر سے جماعت کے افراد کو محفوظ رکھے اور یہ ہدایت بھی کی ہے کہ تمام احمدی صرف اور صرف خدا سے دعا مانگیں یہی قرآن کی تعلیم ہے۔

خاکسار بات کر رہا تھا جلسہ سالانہ کی اور اس اعتراض کا جواب دینے کی کہ احمدیوں کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں اور نہ رہا ہے کہ حج قادیان میں ہوجاتا ہے مکہ جانے کی ضرورت نہیں جیسا کہ لکھ چکا ہوں کہ حج کی کچھ شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط راستہ کا امن ہے’’یہ مسلمان حضرات‘‘ ہمارے لئے راستہ کا امن خراب کر رہے ہیں۔

ڈیلی بلٹن

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 22؍ جون 2011ء میں صفحہ 9A پر خاکسار کا ایک مضمون شائع کیا ہے۔ جس کا عنوان ہے:

Murders in Pakistan should concern Americans

پاکستان میں جو قتل ہو رہے ہیں امریکہ کو اس پر تشویش ہونی چاہیئے۔ یا پاکستان میں جو قتل ہو رہے ہیں امریکنوں کو اسے سمجھنا چاہیئے۔ 14؍ جون کو انڈو ایشین نیوز سروس کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی دہشتگردوں نے یہ کہتے ہوئے ممتاز، احمدی مسلمان، کاروباری افراد کی ’’ہٹ لسٹ‘‘ جاری کی ہے کہ مسلمانوں کو ’’گمراہ‘‘ کرنے والوں کو موت کی سزا دی جائے گی۔

پچھلے ایک ہفتہ سے پنجاب کے شہر فیصل آباد میں انتہاء پسند مسلمان پمفلٹ تقسیم کر رہے ہیں۔ جس میں وہ مخصوص احمدیوں کی ٹارگٹ کلنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک احمدی کے قتل کے عمل سے انسان ایک مقدس جنگجو بن جاتا ہے اور جو بھی ایسا کرے گا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے دن مبارک باد پائے گا۔

انگریزی میں اردو کا ترجمہ کر کے ایک پمفلٹ میں کچھ اس طرح ہے کہ ’’اے مسلمان بھائیو، ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمیں گمراہ کر رہے ہیں اور ان کی سزا موت ہے‘‘۔ ایک اور پمفلٹ میں پوچھا گیا ہے کہ ’’کیا کوئی ایسا شخص ہے جس میں احمدیوں کو سبق سکھانے کی ہمت ہے؟‘‘ ایک سال پہلے 28؍ مئی کو متعدد پاکستانی طالبان نے مشین گن، دستی بم اور خودکش جیکٹوں سے لیس ہو کر نماز جمعہ کے دوران لاہور میں دو احمدی مساجد پر حملہ کیا تھا۔ جس میں 86 نمازی ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

ایک دہشت گرد کو خود احمدیوں نے پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کردیا لیکن حکام کا کہنا ہے کہ وہ مشتبہ شخص اب ان کی تحویل میں نہیں اور انہیں اندازہ بھی نہیں کہ وہ اب کہاں ہے؟

پاکستان، انڈونیشیا اور کہیں بھی، یکساں طور پر غیر متشدد پُر امن احمدی مسلمانوں پر، مذہبی جنونیوں کے ظلم و ستم اور قتل کے سانحات کو اجاگر کیا گیا ہے اور یہاں تک کہ اسے پوری دنیا کے مسلمانوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس سے امریکیوں اور دیگر مغربی اقوام کی بے حسی اور لاعلمی نے مزید شدت اختیار کر لی ہے۔ جو کہ شاید اس کو اپنا مسئلہ نہیں سمجھتے لیکن جن کے فوجی بیٹے اور بیٹیاں افغانستان اور عراق میں متاثر ہو رہےہیں اور نتیجةً وہ لوگ بھی ان ہزاروں بے گناہ شہریوں کے ساتھ مشکلوں کا شکار ہیں۔ جو مسلمان، احمدیوں کی صورتحال سے واقف ہیں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان پر حملہ کرنا اور ان کا قتل کرنا درست نہیں ہے لیکن ان ہی مسلمانوں میں سے بہت سے لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ احمدی غیر مسلم ہیں یا اس سے بھی زیادہ بدتر ہیں اور جیسا کہ تاریخ واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔ جب کبھی بھی کسی گروہ کو پسماندہ کر دیا جاتا ہے اور قانون کے تحت اس کے حقوق اور تحفظ سےانکار کیاجاتا ہے۔ یہ عدم رواداری سے لے کر شیطانیت تک کی پیش گوئی ہے جس سے پرتشدد ہجوم اور ریاستی پابندیوں اور ظلم و ستم، قتل کو بڑھاوا ملتا ہے۔ پاکستان میں 1974ء میں ایسا ہی ہوا تھا۔ جب اسلامی علماء اور ان کے سیاسی حلیفوں نے ایک آئینی ترمیم کر کے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے کا اعلان کیا تھا۔

توہین مذہب کے خلاف قانون کو انیسویں صدی میں برطانوی حکمرانی کے تحت نافذ کیا گیا تھا جو اصل میں بین المذاہب نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لئے بنایا گیا تھا اور سن 1980ء کی دہائی کے وسط میں احمدیوں کے لئے اسلام کے مطابق عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کے عمل کو اختیار کرنے کے جرم میں جرمانے، قید اور یہاں تک کہ موت کی سزا مقرر ہوئی۔ توہین رسالت کے یہ قوانین تیزی سے احمدیوں، شیعوں، مسیحیوں، ہندوؤں اور دیگر لوگوں کو مرکزی سنی مسلمانوں کے ظلم و ستم اور قتل کا نشانہ بنائے جانے کا ذریعہ بن گئے۔ اسی حکومت نے پاکستان میں احمدی مسلم اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف لا قانونیت اور نفرت، تعصب اور عدم رواداری کی منظوری دے دی ہے جو مسلم انتہا پسندوں کی پُرتشدد اور مہلک حملے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ خوف اور انتشار کی یہ کیفیت پاکستان میں تمام اقلیتوں کو متاثر کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر سال کئی اموات واقع ہوتی ہیں۔ ان قاتلوں کو عام طور پر سزا بھی نہیں دی جاتی اور معاشرے کی مرکزی اکثریت ان کی تعریف کرتی ہے اور جشن منایا جاتا ہے جیسا کہ اس وقت ہوا جب پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو جنوری میں ان کے اپنے ہی محافظ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس قاتل پر عدالت کے باہر جہاں اسے پیش کیا گیا تھا گلاب کے پھول نچھاور کئے گئے اور بڑے پیمانے پر ہجوم نے مبارکباد پیش کی۔

یہ ایک گہری جڑوں والے روحانی اور اخلاقی کینسر کی علامت ہے جو آہستہ آہستہ لیکن یقیناً پاکستان کو اندر سے ہی تباہ کر رہا ہے۔ تو پھر ان کروڑوں پاکستانی مسلمانوں کے دلوں میں ہمدردی، ضمیر، شائستگی اور انصاف کی بنیادی انسانی خوبیاں کہاں گئی ہیں؟اکثریت کی خاموشی کو آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر مرکزی سنی مسلمان یا تو سیاست اور طالبان اور اسی طرح کے جنونیوں کے طریق کار سے ہمدردی رکھتے ہیں یا پھر ایسے دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنا بھی وہی انجام ہونے سے ڈرتے ہیں جو انہوں نے احمدی، عیسائی اور دیگر اقلیتوں کا کیا۔

انڈیا پوسٹ

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت یکم جولائی 2011ء میں صفحہ 18 پر خاکسار کا یہی مندرجہ بالا مضمون من و عن شائع کیا۔

ہفت روزہ نیویارک عوام

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت یکم تا 7؍ جولائی 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’امریکہ میں میڈیا کی آزادی‘‘کے عنوان سے خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ دراصل یہ مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار میں ’’جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی غرض و غایت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ ایڈیٹر نے اس مضمون کا عنوان از خود تبدیل کردیا ہے۔ مضمون کے اندر اسی بات کا جواب ہے کہ احمدی حج کرنے کیوں نہیں جاتے۔ یا قادیان میں احمدی حضرات حج کرتے ہیں۔

الانتشار العربی

الانتشار العربی نے انگریزی سیکشن میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’پاکستان میں احمدیوں کا قتل امریکن لوگوں کے لئے کیوں باعث تشویش نہیں ہے‘‘خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل ڈیلی بلٹن اور انڈیا پوسٹ نے بھی شائع کیا ہے۔

پاکستان ایکسپریس

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 8؍ جولائی 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’امریکہ کی یوم آزادی کے موقع پر ‘‘خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے لکھا کہ:
4؍ جولائی کو ہر سال امریکہ میں یوم آزادی روایتی شان و شوکت کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک اپنی اپنی یوم آزادی کے موقعہ پر یوم آزادی مناتے اور خوشی کا اظہار کرتےہیں۔ یہ جائز ہے اور ضرورت بھی ہے تا ہر قوم کے لوگوں کو یہ احساس رہے کہ انہوں نے کتنی بڑی بڑی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی ہے اور آزادی کے بعد کیا ترقی کی اور کیا کھویا کیا پایا؟ گو یا تاریخ دہرانے سے تاریخ یاد رہتی ہے اور اسلاف کے کارناموں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ جس سے آگے ترقی کے میدان کھلتے ہیں۔

امریکہ میں اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے جو دوسرے ممالک سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں وہ امریکن شہریت حاصل کرنے پر خوش بھی ہوتے ہیں اور یہاں کی روایت کو بھی بڑی جلدی اپناتے ہیں۔ چنانچہ 4؍ جولائی اور یوم آزادی کی مناسبت سے ہم سب کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 11)