• 21 مئی, 2024

ٹڈی دَل

ٹڈی دَل
اس چھوٹے سے پتنگے کا شمار معاشیات کے لیے سب سے زیادہ تباہ کن جانداروں میں ہوتا ہے

ہم میں سے ہر ایک کاواسطہ ٹڈی دَل سے زندگی میں کبھی نا کبھی ضرور پڑا ہوگا۔ بالخصوص صحرائی علاقوں یا ان کے قرب و جوار کے دیہات میں رہنے والے کاشتکاری سے وابستہ لوگ اس عذاب سے ضرور دو چار ہوئے ہوں گے۔

قرآن کریم اور دیگر کتب سماوی میں اس کا ذکر موجود ہے جس کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ایک عذاب کی صورت میں بھی زمین پر نازل کیا۔

یہ ٹڈیاں آخر ہیں کیا، اچانک کہاں سے اتنی بڑی تعداد میں نمودار ہو کر کیوں یہ پیڑ، پودوں اور فصلوں پر حملہ کر کے انہیں چٹ کر جاتی ہیں؟

انگریزی زبان میں انہیں لوکس کہا جاہے اور بائیولوجیکلی یہ گراس ہوپر اور کرکٹ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ لوکس بالعموم صحرائی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ اپنے خاندان کے باقی دو کی نسبت یہ دو مختلف حالتوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت اکیلے گزارتے ہیں اور اس دوران بالکل سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔

اس حالت میں ان کی خوارک بہت معمولی اور حرکات و سکنات میں کوئی ہیجان نہیں ہوتا۔ اس حالت کو SOLITARY PHASE کہتے ہیں۔ جب ماحول سازگار ہو، بارش ہوئی ہو، ہوا میں نمی ہو اور پیڑ پودے خوب پھل پھول رہے ہوں تو ان کا روپ یکسر بدل جاتا ہے۔ ان کا رنگ سبز سے بالکل پیلا ہو جاتا ہے، ان کی اس حالت کو GREGARIOUS PHASE کہتے ہیں۔ اس فیز میں آتے ہی ان کا نہ صرف رنگ بدل جاتا ہے بلکہ عادات و اطوار اور جسامت میں بھی بہت زیادہ تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس فیز میں داخل ہوتے ہی ہجوم کی صورت میں اکھٹے ہونے لگتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات میں بہت تیزی آجاتی ہے اور ان کا مزاج بہت جارحانہ ہو جاتا ہے۔ یہ تیزی سے سفر کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ان کی بھوک بہت بڑھ جاتی ہے۔ اسی کیفیت میں یہ جتھوں کی صورت میں سبزے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو چٹ کر جاتے ہیں۔

صرف یہی نہیں ان کے دماغ کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ اپنی زندگی میں پہلے سے دوسرے فیز میں کبھی بھی خود کو ڈھالنے پر قادر ہوتے ہیں بشرطیکہ ماحول سازگار ہو۔ GREGARIOUS PHASE میں یہ جھنڈ کی صورت میں اکھٹا ہونا شروع ہوتے ہیں اور ہر چیز کو کھانے لگتے ہیں جن میں پتے، پھل، پھول، بیج حتٰی کہ کھجور جیسے سخت پتوں والے درخت کو بھی نہیں چھوڑتے۔ معلوم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ٹڈی دَل کینیا میں دیکھا گیا جو 2400 مربع کلیومیٹر کے علاقہ پر محیط تھا۔ ایک دَل میں ان کی تعداد کتنی زیادہ ہو سکتی ہے کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایک مربع کلومیٹر کے اندر ایک سو پچاس ملین تک ٹڈیاں ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک دَل ایک دن میں 2500 لوگوں کی خوراک کے برابر کھا نا کھا جاتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چھوٹا سا یہ کیڑا کتنی بڑی تباہی پھیلانے پر قادر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جاندار کی نسبت معاشیات کو نقصان پہنچانے میں ان کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ یہ زیادہ تر افریقہ، مڈل ایسٹ اور پاکستان اور ہندوستان کے صحرائی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ دو سال قبل ہونے والا ٹڈی دَل کا حملہ پچھلے ستائیس سال میں سب سے بد ترین حملہ تھا۔ لیکن یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصر میں ملنے والے آثار میں اہل مصر نے جابجا دیواروں اور پتھر کی سلوں پر ٹڈیوں کی تصاویر بنائی ہیں۔ یہ آثار ظاہر کرتے ہیں کہ قریب 2400 سال قبل مسیح کے لوگوں کا واسطہ ان سے پڑاتھا۔ بائبل میں ٹڈی دَل کے جس عذاب کا ذکر ہے اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 1400 سال قبل مسیح میں مصر میں ہوا تھا۔

ٹڈی دَل کے ان حالیہ حملوں کی وجہ عالمی موسمیاتی منظر نامہ میں تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہےجس کی وجہ سے بارشیں معمول کی نسبت زیادہ ہورہی ہیں۔ دسمبر 2019 ء میں مشرقی افریقہ میں غیر معمولی بارشیں ہوئی جس کے نتیجے میں سیلاب بھی آئے۔ بارشیں اور سیلاب ٹڈیوں کے گریگیرئیس حالت میں تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔ مٹی نم ہوجاتی ہے، ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے اور بارشوں کے باعث سبزہ بہت زیادہ اگنے لگتا ہے۔ ٹڈیوں کے لیے یہ بہت اچھا موقع ہوتا ہے کہ وہ گریگیرئیس فیز میں خود کو ڈھال کر خوب سبزہ کھائیں اور اپنی نسل کو بڑھائیں۔ چنانچہ یہی ہوا، افریقہ سے نکلنے والے اس ٹڈی دَل نے افریقہ میں تباہی مچانے کے بعد مشرق کی طرف سفر کرنا شروع کیا اور ایران سے ہوتے ہوئے پاکستان اور پھر بھارت میں داخل ہوا۔ سمندری ہواؤں نے اس دَل کو بھارت کی طرف دھکیلنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

سدباب

اکثر ممالک میں ٹڈی دَل کے حملہ کے بعد ان پر فضاء سے زہریلی ادویات کا چھڑکاؤ کیا جا تا ہے۔ گوکہ اس سے کافی حد تک ان پر قابو تو پایا جاسکتا ہے لیکن اس زہریلی اسپرے کے فصلوں پر گرنے سے سبزیاں اور جانوروں کا چارہ آلودہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ماحول بھی آلودہ ہوتا ہے۔

ٹڈی دَل شور سے گھبراتے ہیں، چنانچہ کسان مختلف آلات کی مدد سے بلندآواز یں پیدا کرکے اپنی فصلوں سے انہیں بھگاتے ہیں۔ ٹڈی دَل رات کے وقت سفر نہیں کرتے چنانچہ انہیں رات کے وقت پکڑنا بہت آسان رہتا ہے۔ ان میں پروٹین کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے انہیں پکڑ کر فارمی مرغیوں کی فیڈ بھی بنائی جاتی ہے۔ سویابین کی نسبت ٹڈیوں میں پروٹین کی مقدار ستر فیصد ہوتی ہےجبکہ سویابین صرف 50 فیصد پروٹین ہی رکھتے ہیں۔

ان کے سدباب کے طور پر انسان کا انہیں اپنی خوراک میں استعمال کرنا بھی ہے۔ قدیم مصری بھی ٹڈی دَل کے حملوں کے وقت انہیں پکڑ کر کھا لیا کرتے تھے۔ نیزاور بھی کئی ممالک میں انہیں کھایا جاتا ہے۔ پاکستان کے علاقہ ننگر پار کر میں ہوٹلوں پر ٹڈیوں سے بنی ہوئی ڈش ملتی تھیں جس دوران ٹڈی دَل کاحملہ ہوا تھا۔ صرف کھا لینا ہی ان کے سدباب کے لیے کافی نہیں ہے۔ ٹڈیوں کے ایک دَل میں قریب 80 ملین کی تعداد میں ٹڈیاں ہو سکتی ہیں جنہیں خوراک کے طور پر استعمال کرکے ختم کرنا تقریباً نا ممکن سی بات ہے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 11)