حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، حضرت مصلح موعود ؓ کے الفاظ میں ہی مزید بیان فرماتے ہیں:۔
پس خواہ حضرت خلیفہ اول ہوں یا مَیں ہوں یا کوئی بعد میں آنے والا خلیفہ، جب یہ بات پیش کر دی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے تو آگے سے یہ کہنا کہ فلاں خلیفہ نے یوں کہا ہے غلطی ہے۔ جو اگر عدم علم کی وجہ سے ہے تو سندنہیں ہو سکتی۔ (اگر علم نہیں ہے تو اس کی کوئی سندنہیں۔) اور اگر علم کی وجہ سے ہے تو گویا خلیفہ کو اس کے متبوع کے مقابل پر کھڑا کرنا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ اگر متبوع کے کسی حوالے کی تشریح خلیفہ نے کی ہے تو یہ کہا جائے کہ آپ اس کے معنی یہ کرتے ہیں لیکن فلاں خلیفہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں۔ اس طرح خلیفہ نبی کے مقابل پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کے مقابلے پر کھڑا ہوتا ہے جو نبی کے کلام کی تشریح کر رہا ہے۔ (حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ) یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ضروری نہیں کہ خلفاء کو سب باتیں معلوم ہوں۔ کیا حضرت ابوبکر اور عمر کو ساری احادیث یاد تھیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو ہم کو یادنہیں اور دوسرے آ کر بتاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں جن کے پاس یہ باتیں ہیں وہ اگر سنائیں تو بڑا احسان ہے۔ (فرمایا کہ) یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ سب باتوں سے واقف ہو۔ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول (اس زمانے میں صحابہ موجود تھے، انہوں نے حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہوا تھا اس لئے آپ ان کو فرما رہے ہیں کہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ خلیفہ اول) کتابیں بہت کم پڑھا کرتے تھے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو تازہ تازہ کتابیں شائع ہوتی تھیں ان میں سے بہت کم پڑھتے تھے۔ حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ) میرے سامنے یہ واقعہ ہوا کہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ آپ مولوی صاحب کو (یہ کتابیں) پروف پڑھنے کے لئے کیوں بھیجتے ہیں۔ وہ تو اس کے ماہر نہیں ہیں اور ان کو پروف دیکھنے کی کوئی مشق نہیں (ہے)۔ بعض لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) میں خطبہ دیکھتا ہوں مگر اس میں پھر بھی بیسیوں غلطیاں چھپ جاتی ہیں (اور ایک مثال آپ نے دی کہ) آج ہی جو خطبہ چھپا ہے اس میں ایک سخت غلطی ہو گئی۔ میں نے اصلاح تو کی تھی لیکن اصلاح کرتے وقت پہلے فقرے کا جو مفہوم میرے ذہن میں تھا وہ دراصل نہ تھا (اور اس کی وجہ سے غلطی ہوگئی۔ کہنا تو یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آسکتا بلکہ غیرشرعی نبی آسکتا ہے۔ اور میں نے اس کے بعد کے فقرے کو جس میں کچھ غلطی رہ گئی تھی یوں درست کر دیا کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنا دے۔ مگر چھپنے کے بعد (فرماتے ہیں ) جب میں نے پڑھا تو پہلا فقرہ بالکل اس کے الٹ تھا جو میں نے سمجھا تھا اور الفضل میں یہ فقرہ پڑھ کر میں بڑا حیران ہوگیا۔ (تو اصل میں لکھنا یہ چاہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شرعی نبی نہیں آ سکتا بلکہ غیر شرعی نبی آ سکتا ہے جو اسی نبوت کو آگے جاری رکھ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی نبوت کو قائم کرتا ہے۔ تو بہر حال جو فقرہ لکھا گیا اس سے الٹ یہ پڑھا گیا جس طرح کہ کوئی شرعی نبی کے رستے مسدودنہیں ہیں۔ بہرحال آپ نے اس کی تفسیر فرمائی۔ پھر آپ فرماتے ہیں) تو بعض لوگ پروف دیکھنے کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں ہوتے۔ … تو کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ مولوی صاحب تو اس کے ماہر نہیں ہیں آپ ان کو پروف کیوں دکھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے اور وہ بیمار وغیرہ دیکھتے رہتے ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پروف ہی پڑھ لیا کریں تا ہمارے خیالات سے واقفیت رہے۔ (اور پھر باوجود اس کے کہ حضرت خلیفہ اوّل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہ اندھا اعتقاد تھا۔ لیکن بعض دفعہ عدم علم ہوتا ہے اس لئے الٹ بات ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس لئے میں پروف پڑھنے کے لئے بھیجتا ہوں کہ کتابیں پڑھنے کی ان کو فرصت نہیں ہوتی تو پروف پڑھنے سے ہمارے خیالات سے ان کو واقفیت ہو جائے۔ اور پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) پڑھنے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ ہر بات یاد بھی ہو۔ مثلاً حضرت یحيٰ علیہ السلام کے قتل کے متعلق حوالے میں نہیں نکال سکا اور مولوی محمد اسماعیل صاحب کو کہلا بھیجا کہ نکال دیں۔ (حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ) میرا حافظہ اس قسم کا ہے کہ قرآن کریم کی وہ سورتیں بھی جو روز پڑھتا ہوں ان میں سے کسی کی آیت نہیں نکال سکتا لیکن دلیل کے ساتھ جس کا تعلق ہو وہ خواہ کتنا عرصہ گزر جائے مجھے یاد رہتی ہے۔ جن باتوں کا یاد رکھنا میرے کام سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ مجھے یادنہیں رہتیں۔ حوالے میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں سے نکلوا لوں گا اس لئے یادنہیں رکھ سکتا۔
(ماخوذ از الفضل 10 ؍ ستمبر 1938ء صفحہ 6، 7 جلد26 نمبر209)
تو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہو گئی کہ خلفاء اگر کوئی ایسی تشریح کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی واضح تشریح سے الٹ ہے تو اس کے بارے میں اطلاع کر دینی چاہئے اور اگر خلیفہ وقت سمجھے کہ یہ جو تشریح کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس سے اس کی یہ تشریح ہو سکتی تھی تو پھر وہی تسلیم ہو گی اور اگر نہیں تو پھر وہ اپنی بات کو درست کر لے گا۔ لیکن بہر حال یہ سمجھنا کہ اس نے یہ کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا۔ آپس میں تضاد کیوں ہے؟ یہ باتیں غلط ہیں۔ تضاد کوئی نہیں ہوتا، ہاں بعض دفعہ عدم علم ضرور ہوتا ہے۔
پھر ایک چاند اور سورج گرہن کے واقعہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کا یہ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مخالف مولوی جو غالباً گجرات کا رہنے والا تھا ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہتا تھا کہ مرزا صاحب کے دعوے سے بالکل دھوکہ نہ کھانا۔ حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ مہدی کی علامت یہ ہے کہ اس کے زمانے میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن لگے گا۔ جب تک یہ پیشگوئی پوری نہ ہو اور سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں گرہن نہ لگے ان کے دعوے کو ہرگز سچا نہیں سمجھا جا سکتا۔ اتفاق کی بات کہ وہ (مولوی) ابھی زندہ ہی تھا کہ سورج اور چاند کے گرہن کی پیشگوئی پوری ہو گئی۔ (گرہن لگ گیا تو) اس (مولوی) کے ہمسائے میں ایک احمدی رہتا تھا اس نے سنایا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو اس مولوی نے گھبراہٹ میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر ٹہلنا شروع کر دیا۔ وہ ٹہلتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا ’’ہُن لوگ گمراہ ہون گے۔ ہُن لوگ گمراہ ہون گے‘‘ یعنی اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے۔ اس نے یہ نہ سمجھا کہ جب پیشگوئی پوری ہو گئی ہے تو لوگ حضرت مرزا صاحب کو مان کر ہدایت پائیں گے۔ گمراہ نہیں ہوں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ عیسائی بھی ایک طرف تو یہ مانتے تھے کہ وہ تمام علامتیں پوری ہو گئی ہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں مگر دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ سن کر وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس وقت اتفاقی طور پر ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا۔ جیسے مسلمان کہتے ہیں علامتیں تو پوری ہو گئیں مگر اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس وقت ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ ایسا اتفاق ایک جھوٹے کو ہی نصیب ہوتا ہے (اور) سچے کو نصیب نہیں ہوتا‘‘۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ56) جھوٹے کے حق میں تو تائیدات ظاہر ہوتی ہیں اور سچوں کے حق میں آجکل کچھ نہیں ہو رہا۔
(خطبہ جمعہ 27؍ فروری 2015ء)