حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت سید محمود عالم صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1903ء میں میرے بڑے بھائی سید محبوب عالم پٹنہ شہر میں کسی طرف جا رہے تھے کہ دو شخص یہ کہتے ہوئے گزر گئے کہ پنجاب میں کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بھائی صاحب کو بچپن سے قرآنِ شریف سے محبت ہے۔ اس لئے یہ سن کر حیران سے رہ گئے کہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں کہ دعویٰ کیا ہے؟ کہنے والے تو چلے گئے۔ شاید اسٹیشن ماسٹر کو معلوم ہو۔ چنانچہ اُن کا خیال درست نکلا۔ (سٹیشن ماسٹر کے پاس گئے۔) نام پتہ وغیرہ دریافت کر کے مکان پر آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک خط لکھا کہ مجھے آپ کے حالات معلوم نہیں۔ صرف نام سنا ہے۔ اگر براہِ کرم اپنی تصانیف بھیج دیا کریں تو پڑھ کر واپس کر دیا کروں گا۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتابیں بھجواتے رہے اور بھائی صاحب پڑھ پڑھ کر واپس کرتے رہے۔ لوگوں نے اُسی وقت سے مخالفت شروع کر دی مگر بھائی صاحب نے استقلال سے کام لیا اور کچھ عرصہ بعد بیعت کر لی۔ مَیں نے بھی کچھ عرصے بعد بھائی صاحب کے ذریعے کتابیں پڑھیں اور بیعت کر لی۔ احمدیت سے کچھ عرصہ پہلے یعنی احمدیت قبول کرنے سے پہلے مَیں شہر سے گھر گیا۔ اور اتفاق سے والد صاحب کے ساتھ سویا۔ خواب میں والد صاحب کو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تیرا یہ لڑکا جو تیرے ساتھ سویا ہوا ہے۔ بہت بڑا وکیل ہو گا۔ لیکن جب احمدی ہو گیا تو اُس وقت والد صاحب سے کہا کہ آپ کے خواب کی تعبیر میرا احمدی ہونا تھا۔ (تب مَیں نے والد صاحب کو کہا۔ آپ نے جوخواب میں بڑا آدمی دیکھا تھا یہ اس طرح پوری ہوئی ہے۔) کہتے ہیں کہ ابھی دو سال کی متواتر اور خطرناک بیماری سے (کچھ عرصہ بعد یہ بیمار ہو گئے اور بڑا لمبا عرصہ دو سال کے قریب بیماری چلی، اور خطرناک بیماری تھی۔ کہتے ہیں) پوری طرح صحت یاب بھی نہیں ہوا تھا کہ قادیان جانے کا شوق بلکہ جنون پیدا ہوا۔
اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی
زخم و مرہم براہِ یار تو یکساں کردی
(کہ محبت نے ایسے آثار نمایاں کئے ہیں کہ یار کی محبت میں زخم اور مرہم برابر ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ) بھائی صاحب نے اصرار کیا کہ قادیان میں خزانہ نہیں رکھا ہوا۔ (جب مَیں نے قادیان جانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہاں خزانہ نہیں ہے اس لئے اگر تم نے جانا ہی ہے تو) کم از کم میٹرک کا امتحان پاس کر کے جانا تا کہ وہاں تکلیف نہ ہو۔ والدین غیر احمدی تھے، اُن سے تو کوئی امیدنہیں تھی۔ الغرض کسی نے زادِ راہ نہیں دیا۔ نہ بھائی مانا نہ والدین سے لے سکا۔ بیماری کی وجہ سے میرا جسم بہت ہی کمزور اور ضعیف ہو رہا تھا۔ مجھ میں دو چار میل بھی چلنے کی طاقت نہ تھی۔ بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک میل چلنے کی بھی طاقت نہ تھی مگر خدا تعالیٰ نے دل میں جوش ڈالا اور پیدل سفر کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ اُس وقت میں پٹنہ میں تھا۔ چلتے وقت لوگوں نے مشورہ دیا کہ والدین سے مل کر جاؤ۔ میں نے انکار کر دیا کہ ممکن ہے والدہ کی آہ و فریاد سے میری ثباتِ قدمی جاتی رہے اور قادیان جانے کا ارادہ ترک کر دوں۔ بہر حال چلا اور چلا۔ چلتے وقت ایک کارڈ حضرت مسیح موعودؑ کو لکھ دیا کہ میرے لئے دعا کی جائے۔ میرے حالاتِ سفر یہ ہیں۔ (پیسہ پاس نہیں، کمزور صحت لیکن مَیں نے سفر کا ارادہ کر لیا۔) مَیں بہت کمزور اور نحیف ہوں اور ایک کارڈ بھائی صاحب کو لکھا کیونکہ اس وقت وہ دوسری جگہ پر تھے کہ میں جا رہا ہوں۔ اگر قادیان پہنچا تو خط لکھوں گا۔ اور اگر راستے میں مر گیا تو میری نعش کا کسی کو بھی پتہ نہ لگے گا۔ (کہتے ہیں) مَیں نے سفر کے لئے احتیاطی پہلو اختیار کر لئے تھے۔ ریلوے لائن کا نقشہ رکھ لیا تھا۔ جلدی جلدی چند درسی کتب فروخت کر کے کچھ پیسے رکھ لئے تھے۔ (کہتے ہیں) مَیں کمزور بہت تھا اور مسافت دور کی تھی۔ اس لئے پچاس ساٹھ میل تک ریل کا سفر کیا تا کہ اگر صحت کی کمزوری کی وجہ سے مَیں نے کمزوری دکھائی تو لَوٹنے کی ہمت نہ ہو۔ (کیونکہ پھر ساٹھ ستر میل کا فاصلہ ہو چکا ہو گا اور لَوٹنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ پھربجائے واپس آنے کے آگے ہی آگے چلتا رہوں گا۔ (کہتے ہیں) مَیں اس سفر میں تیس تیس میل روزانہ چلتا رہا۔ جہاں رات ہوتی ٹھہر جاتا، کبھی سٹیشن پراور کبھی گمٹیوں میں۔ پاؤں کے دونوں تلوے زخمی ہو گئے تھے۔ (یہ دعا کرتا تھا) خدایا آبرو رکھیو میرے پاؤں کے چھالوں کی۔ جب رات بسر کرنے کے لئے کسی جگہ ٹھہرتا تو شدتِ درد کی وجہ سے پاؤں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا تھا۔ صبح ہوتی نماز پڑھتا اور چلنے کے لئے قدم اُٹھاتا تو پاؤں اپنی جگہ سے ہلتے نہیں تھے۔ باہزار دشواری انہیں حرکت دیتا اور ابتدامیں بہت آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا اور چند منٹ بعد اپنی پوری رفتار میں آ جاتا۔ پاؤں جوتا پہننے کے قابل نہیں رہے تھے کیونکہ چھالوں سے پُر تھے بلکہ چمڑہ اُتر کر صرف گوشت رہ گیا تھا (لیکن قادیان جانے کا شوق تھااس لئے چلتے چلے جا رہے تھے۔ کہتے ہیں) کہ اس لئے کبھی روڑے اور کبھی ٹھیکریاں چبھ چبھ کر بدن کو لرزا دیتی تھیں۔ کبھی ریل کی پٹڑی پر چلتا اور کبھی عام شاہراہ پر اُتر آتا۔ بڑے بڑے ڈراؤنے راستوں سے گزرنا پڑا۔ ہزاروں کی تعداد میں بندروں اور سیاہ منہ والے لنگوروں سے واسطہ پڑا جن کا خوفناک منظر دل کو ہلا دیتا۔ علی گڑھ شہر سے گزرا مگر مجھے خبر نہیں کہ کیسا ہے؟ (گزر تو گیا اُس شہر سے لیکن مجھے نہیں پتہ کیسا ہے کیونکہ میرا مقصد تو صرف ایک تھا اور مَیں چلتا چلا جا رہا تھا۔) اور کالج وغیرہ کی عمارتیں کیسی ہیں؟ البتہ چلتے چلتے دائیں بازو پر کچھ فاصلے پر سفید عمارتیں نظر آئیں اور پاس سے گزرنے والے سے پوچھا کہ یہ عمارت کیسی ہے؟ اور اُس کے یہ کہنے پر کہ کالج کی عمارت ہے، آگے چل پڑا۔ دہلی شہرسے گزرا اور ایک منٹ کے لئے بھی وہاں نہ ٹھہرا کیونکہ میرا مقصود کچھ اور تھا۔ وہاں کے بزرگوں کی زیارت میرا مقصودنہ تھا۔ اس لئے مَیں ایک سیکنڈ کے لئے بھی اپنے مقصود سے باہر نہیں ہونا چاہتا تھا۔ زخمی پیروں کے ساتھ قادیان پہنچا اور مہمان خانے میں ٹھہرا۔ چند منٹ کے بعد حضرت حافظ حامد علی صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دودھ کا ایک گلاس دیا۔ میری جیب میں پیسے نہیں تھے۔ اس لئے لینے سے انکار کر دیا۔ آخر اُن کے کہنے پر کہ خرچ سے نہ ڈریں۔ آپ کو پیسے نہیں دینے پڑیں گے۔ (دودھ پی لیں)۔ دودھ پی لیا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک کہ قادیان میں سب سے پہلی غذا دودھ ملی۔ میری موجودگی میں بہت سے لوگ آئے مگر کسی کو بھی دودھ کا گلاس نہیں دیا گیا (صرف مجھے ہی دودھ کا گلاس پیش کیا گیا۔ کہتے ہیں) مَیں اسی روز سے اب تک ہر چیز کا ناواقف ہوں۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ سے ملا۔ حضورؑ حالات دریافت کرتے رہے۔ لوگ بیعت کرنے لگے تو حضورؑ نے خود ہی مجھے بھی بیعت کے لئے کہا۔ مَیں اُس وقت حضورؑ کے پاؤں دبا رہا تھا۔ یہی ایک جنون تھا جو کام آ گیا ورنہ آج صحابیوں کی فہرست میں میرا نام کس طرح آتا؟
اے جنوں گردتو گردم کہ چہ احساں کردی
اَللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ……تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ۔ (پھر آگے بیان کرتے ہیں کہ) خلیفۂ اوّلؓ نے زخموں کا علاج کیا اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو تعلیم کے لئے مقرر کر دیا اور بعد میں خود تعلیم دیتے رہے۔ (پیروں کے جو زخم تھے اُن کا علاج حضرت خلیفہ اولؓ نے کیا اور حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور خلیفۃ المسیح الاولؓ پھر تعلیم دیتے رہے۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ مئی 1908ء میں یہ قادیان کے ہو رہے۔) مئی 1908ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے اور بعد میں حضرت خلیفہ اولؓ کو بھی بلوایا تو حضرت خلیفہ اوّلؓ مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت میں آپ کے دائیں بازو میں کھڑا تھا۔ لاہور سے جنازے کے ساتھ قادیان آیا۔ جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باغ میں لوگوں سے بیعت لی۔ مَیں اُس وقت چارپائی پر آپ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ حضرت خلیفۂ اولؓ نے اُس وقت جو تقریر کی اور حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے رو رو کر جو معافی مانگی وہ میرے دماغ میں اب تک گونج رہا ہے۔ بیعت کے بعدنمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ پھر باغ والے مکان میں حضرت کا تابوت زیارت کے لئے رکھا گیا اور چہرے سے کپڑا اتار دیا گیا۔ لوگ مغربی دروازے سے گزر کر زیارت کرتے ہوئے مشرقی دروازے سے نکل جاتے۔
(رجسٹرز روایات صحابہ (غیرمطبوعہ) رجسٹر نمبر4 صفحہ25تا 28۔ روایت حضرت سید محمود عالم صاحبؓ)
تو یہ ان بزرگوں کے چند واقعات تھے جنہوں نے ایک تڑپ اور لگن سے آنے والے مسیح موعود کو مانا۔
سید محمود عالم صاحب ؓ کا جو واقعہ ہے یہ بھی دراصل حدیث میں جو آیا ہے ناں کہ گھسٹتے ہوئے گھٹنوں کے بل بھی چل کے جانا پڑے تو جانا، اُسی کی ایک شکل بنتی ہے۔ کس قدر تکلیف اُٹھائی ہے لیکن ایک عزم تھا جس سے وہ چلتے رہے اور آخر کار اپنی منزل مقصود تک پہنچے۔ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات کو بلند فرماتا چلا جائے اور ہمیں بھی اپنے ایمان و ایقان میں ترقی عطا فرمائے۔ اور عامۃ المسلمین کے بھی سینے کھولے کہ وہ مسیح موعود کو پہچاننے والے ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں اور یہ جو آفات آجکل ان پر ٹوٹی پڑ رہی ہیں ان سے بھی بچنے والے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔
(خطبہ جمعہ 24؍ اگست 2012ء)