رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ
(الاعراف: 24)
ترجمہ: اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
یہ حضرت آدمؑ علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کو سمیٹنے کی اہم دعا ہے۔
ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد بار اس دعا کی طرف تحریک فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں
پھر ایک دعا سکھائی کہ (مندرجہ بالا دعا) پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحم کو سمیٹنے کے لئے یہ بہت اہم دعا ہے۔ بعض گناہ لا علمی میں ہو جاتے ہیں، احساس نہیں ہوتا اس لئے مستقلاً استغفار بہت ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بد اثرات سے محفوظ رکھے اور برائیاں کرنے سے بھی بچاتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے‘‘ جب کوئی سزا آتی ہے، کوئی پکڑ آتی ہے تو خدا پر شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو دیکھیں کہ خود کتنی نیکیاں کرنے والے ہیں، کس حد تک اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں۔ فرمایا کہ ’’انسان کے اپنے نفس کے ظلم ہی ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کروایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہوخواہ باطن کا ہو، اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے‘‘۔ انسان کے جسم کا ہر عضو گناہ کرتا ہے۔ تو ہر ایک سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ ’’آجکل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (الاعراف : 24 )۔ یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے۔‘‘
(بدرجلد1 نمبر9 مورخہ 26؍دسمبر1902ء صفحہ66۔ ملفوظات جلد دوم صفحہ577 جدید ایڈیشن)
پھر فرمایا کہ ’’ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا‘‘ یعنی آدم نے شیطان سے اپنے آپ کو بچایا تھا۔ ’’اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا، نہ تلوار سے … آدم اول کو فتح دعا ہی سے ہوئی تھی …… اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرتاہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی۔‘‘
(الحکم جلد7 نمبر12مورخہ31؍مارچ 1903ء صفحہ8۔ ملفوظات جلد سوم صفحہ190-191 جدید ایڈیشن)
پس جہاں یہ دعا ذاتی طور پر مانگنی چاہئے وہاں جماعتی ترقی کے لئے بھی یہ دعا بہت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آپ کو آدم کہا، اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو آدم کہا ہے۔
(خطبہ جمعہ 29؍ ستمبر 2006ء، خطباتِ مسرورجلد4 صفحہ:499)
(مرسلہ: مریم رحمٰن)