• 14 مئی, 2025

اچھی صحت دینی کاموں میں ممدو معاون ہے

روح اور جسم کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ جسم چھلکا ہے اور روح مغز۔ کسی نے لکھا ہے کہ جسم برتن ہے اور روح اس کے اندر آنے والی چیز اور کسی نے کیا لاجواب کہا کہ انسان جس گھر میں رہتا ہے اسے صاف ستھرا رکھتا ہے تا وہ صحت مند رہے۔ اس طرح روح کا گھر جسم ہے اور جسم صحت مند ہوگا تو روح بھی صحت مند ہوگی۔

ہمارے پیارے رسول حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ روح کی ترقی کے لیے جسم کی نگہداشت ضروری ہے۔ اگر انسان کا بدن تندرست ہے تو روح بھی درست ہے۔ اگر صحت خراب ہو یا ایک دن سر درد ہو تو عبادت کا بھی مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ نماز باجماعت کے حقوق ادا نہیں ہوتے۔ نوافل، نماز تہجد کے حقوق بھی ایک چاق و چوبند اور صحت مند انسان ہی ادا کر سکتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت خوش دلی سے صحت مند انسان ہی کر سکتا ہے۔ حقوق اللہ تو الگ رہے حقوق العباد بھی صحیح رنگ میں ادا نہیں ہوتے۔ عزیزو اقارب کے حقوق کی ادائیگی بھی وہی شخص احسن طریق پر ادا کر سکتا ہے جو بیمار نہ ہو۔ اگر انسان بیمار ہو، کمر درد ہو تو کیسے اپنے دوستوں اور عزیزوں سے مل جل سکتا ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ طاقتور اور تندرست مومن،خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک کمزور صحت والے بیمار مومن سے بہتر ہے۔ کیونکہ دینی فرائض کو ادا کرنے کے لیے جسمانی صحت بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ کمزور اور مریض کی کارگزاری بھی حوصلہ شکن ہوتی ہے۔ ارادے بھی کمزور۔ جذبات سرد اور مضمحل ہوتے ہیں۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کو فرمایا تھا کہ صحت مند جسم انسان کے مقصد حیات کے حصول میں ممدومعاون ہوتا ہے۔

ماہرین ابدان نے بھی اس مضمون کو سمجھا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ Is life worth Living تو جواب دیا Depends on Lever or Liver یعنی یہ تو زندہ رہنے یا جگر پر موقوف ہے۔ ہر دو معنوں میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صحت کے ساتھ ارادے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔

ایک مقولہ مشہور ہے کہ اَلْعَقُلُ السَّلِیْمُ فِی الْجِسْمِ السَّلِیْمِ کہ درست عقل صحت مند جسم کے اندر ہوتی ہے اور وہی درست فیصلے کرپاتا ہے۔ آنحضور ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو یوں نصیحت فرمائی کہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کی ناقدری کر کے بہت سے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ ایک صحت اور دوسرا فارغ رہنا۔

قرآن کریم میں حضرت طالوت کی بادشاہی کا جہاں ذکر آتا ہے وہاں یہ ذکر ملتا ہے کہ اس قوم کے لوگوں نے اس کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ ہمارے مقابل پر وجاہت اور مال کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اس کی بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ کی مثال دی۔ جس کا اس عنوان سے گہرا تعلق ہے کہ وہ علم میں،جسم میں اور قویٰ میں بہت مضبوط ہے وہ دینی کام بہت احسن رنگ میں کرسکے گا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اپنے آپ کو تندرست و توانا اور صحت مند رکھیں۔ اپنے جسموں کو تندرست رکھنے کے لیے آنحضور ﷺ کو اسوہ حسنہ جانیں اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
’’اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرو جس کے بعد تمہیں یقین ہو جائے کہ تم ہر گز بزدلی نہیں دکھاؤ گے اس کے لیے تیاری کرو مگر یہ تیاری دینی طریق کے مطابق ہونی چاہیے ایسی تیاری کرنے کے دنیا میں دو ہی طریق ہیں ایک یہ کہ جسموں کو مضبوط بنایا جائے۔ اس کی مثال نپولین، ہٹلر،چنگیز خان اور تیمور سے مل سکتی ہے اور ایک تیاری روح کی مضبوطی اور پاکیزگی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اس کی سب سے روشن اور اعلیٰ و ارفع مثال دنیا میں محمد رسول اللہ ﷺ کے مقدس وجود میں دیکھ چکی ہے۔ پس تم ہٹلر، نپولین یا چنگیز خان اور تیمور کی بجائے محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہٴ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے تیاری کرو۔ لیکن یہ نمونہ دنیوی مثالوں سے سینکڑوں اور ہزاروں گنا بالا ہے بلکہ اتنا بالا ہے کہ آج بھی فرشتے اس پر مرحبا کہہ رہے ہیں۔‘‘

اے مسیح موعود کے غلام کہلانے والو! اگر دینی کام کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی صحتوں کی طرف خصوصی توجہ دیں جس حد تک ہماری صحت ٹھیک ہوگی ہم دوسروں سے زیادہ وقت دینی کا موں میں صرف کر کے اللہ کی محبت کے زیادہ وارث بن سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو روحانی اور جسمانی صحت سے ممسوح فرمائے اور کامل صحت کے ساتھ خدمات دینیہ بجا لانے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 دسمبر 2021