ارشاد نبوی ؐ
حضرت ابو ایّوبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا گُر بتایئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز باجماعت پڑھو، زکوٰۃ دو اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حُسن سلوک کرو۔
(مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان الذی یدخلہ بہ الجنۃ)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل ختم ہو جاتے ہیں۔ مگر تین عمل ختم نہیں ہوتے۔ اوّل صدقہ جاریہ۔ دوسرے ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ تیسرے ایسی نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
(مسلم کتاب الوصیۃ باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ)
دُعاؤں میں جوش
سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’قبولیتِ دعا کیلئے ضرور ہے کہ اس میں ایک جوش ہو کیونکہ جس دعا میں جوش نہ ہو وہ صرف لفظی بڑبڑ ہے حقیقی دعا نہیں۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ دعا میں جوش پیدا ہونا ہر یک وقت انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ انسان کیلئے اشد ضرورت ہے کہ دعا کرنے کے وقت جو امُور دلی جوش کے محرک ہیں وہ اُس کے خیال میں حاضر ہوںاور یہ بات ہر ایک عاقل پر روشن ہے کہ دلی جوش پیدا کرنے والی صرف دو ہی چیزیں ہیں۔ایک خدا کو کامل اور قادر اور جامع صفاتِ کاملہ خیال کر کے اس کی رحمتوں اور کرموں کو ابتداء سے انتہاء تک اپنے وجود اور بقا کے لئے ضروری دیکھنا اور تمام فیوض کا مبدء اسی کو خیال کرنا۔دوسرے اپنے تئیں اور اپنے تمام ہم جنسوں کو عاجز اور مفلس اور خدا کی مدد کا محتاج یقین کرنا یہی دو اَمر ہیں جن سے دعاؤں میں جوش پیدا ہوتا ہے۔‘‘
(روحانی خزائن جِلدا صفحہ568تا 569حاشیہ)
مسجد تم کو مل جائے
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ کپور تھلہ کے احمدیوں اور غیر احمدیوں کا وہاں کی ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہو گیا جِس جج کے پاس یہ مقدمہ تھا اُس نے مخالفانہ روّیہ اختیار شروع کردیا۔اس پر کپور تھلہ کی جماعت نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دعا کے لیے خط لکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس کےجواب میں انہیں تحریر فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجدتم کو مل جائے گی۔ مگر دو سری طرف جج نے اپنی مخالفت بد ستور جاری رکھی اور آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا۔ مگر دوسرے دن جب وہ فیصلہ سنانے کے لیے عدالت میں جانے کی تیاری کرنے لگا تو اُس نے نوکر سے کہا۔ مجھے بوٹ پہنادو۔ نوکر نے ایک بوٹ پہنایا اور دوسرا بھی پہنا ہی رہا تھا کہ کھٹ کی آواز آئی۔ اُس نے اوپر دیکھا تو جج کا ہارٹ فیل ہو چکا تھا۔ اُس کے مرنے کے بعد دوسرے جج کو مقرر کیا گیا اور اُس نے پہلے فیصلہ کو بدل کر ہماری جماعت کے حق میں فیصلہ کر دیا جو دوستوں کے لیے ایک بہت بڑا نشان ثابت ہوا۔ اور اُن کے ایمان آسمان تک جا پہنچے‘‘۔
(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ27 تا 28)
دِلربا راحت بخش کتاب
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں:
’’میں نے دنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں مگر ایسی کتاب دنیا کی دِلربا راحت بخش، لذّت دینے والی، جس کا نتیجہ دکھ نہ ہو نہیں دیکھی۔ جس کو بار بار پڑھتے ہوئے، مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فکر کرنے سے جی نہ اُکتائے، طبیعت نہ بھر جائے اور یا بد خُو دل اکتا جائے اور اسے چھوڑ نہ دینا پڑا ہو۔ مَیں پھر تم کو یقین دلاتا ہوں کہ میری عمر، میری مطالعہ پسند طبیعت، کتابوں کا شوق اس امر کو ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر کہنے کے لئے جرأت دلاتے ہیں کہ ہر گز ہرگز کوئی کتاب ایسی موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ ایک ہی کتاب ہے۔ وہ کونسی کتاب؟
ذٰ لِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ
کیسا پیار ا نام ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو جتنی بار پڑھو جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرو اسی قدر لطف اور راحت بڑھتی جاوے گی۔ طبیعت اُکتانے کے بجائے چاہے گی اَور وقت اس پر صرف کرو۔ عمل کرنے کے لئے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان، یقین اور عرفان کی لہریں اٹھتی ہیں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ34)
مولاکریم مجھے اطلاع فرما
حضرت مولوی فضل الٰہی صاحب ؓ تحریر فرماتے ہیں:
بندہ نے حضرت مسیح موعود ؑکی صداقت کے لئے ماہ رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف کے ایام میں بہت دعائے استخارہ کی اور دعا میں یہ درخواست تھی کہ مولا کریم مجھے اطلاع فرما کہ جس حالت میں اب میں ہوں یہ درست ہے یا نہیں۔ حضر ت مسیح موعود ؑکا دعویٰ ہے وہ درست ہے؟ اس پر مجھے دکھلایا گیا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں لیکن رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے اور سورج کی روشنی بوجہ کسوف کے بہت کم ہے۔ جس سے تفہیم ہوئی کہ تمہاری موجودہ حالت کا نقشہ ہے۔ دوسرے روز بعد نماز عشاء پھر رورو کر بہت دعا کی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے خواب میں فرمایا کہ اصل دعا کا وقت جوف اللیل کے بعد کا ہوتا ہے۔ جس طرح بچہ کے رونے پر والدہ کے پستان میں دودھ آجاتا ہے اسی طرح پچھلی رات گریہ وزاری خدا کے حضور کرنے سے خدا کا رحم قریب آجاتا ہے۔ اس کے بعد بندہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی اختیار کر لی۔
(رجسٹر روایات نمبر12 صفحہ322 تا 323)
غریب کی دلجوئی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع خدام گول کمرہ میں کھانا کھا رہے تھے۔ ایک شخص درمیان میں ایسا تھا کہ اس کے کپڑے با لکل میلے اور پھٹے ہوئے تھے۔ ایک امیر اور خوش پوش نے اسے ذرا کہنی سے دبایا کہ پیچھے رہو۔ پھر کھا لینا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر پڑ گئی۔ آپ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی کہ ’’ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے اور ہر مامور کی جماعت غرباء سے ترقی کرتی رہی ہے۔ اگر کسی ذی مقدرت دوست کو کوئی غریب بُرا معلوم ہو یا اس سے نفرت آوے تو اسے چاہیے خود الگ ہو جائے‘‘
(الفضل 23 اپریل 1998)
لمبی عمر پانے کا نسخہ
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’دوسروں کے لیے دعا کرنے میں ایک عظیم الشان فائدہ یہ بھی ہے کہ عمر دراز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں اور مفید وجود ہوتے ہیں اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (ترجمہ) اور جو چیز لوگوں کو نفع دینے والی ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے (الرعد: ۱۸) اور دوسری قسم کی ہمدردیاں چونکہ محدود ہیں اس لیے خصوصیت کے ساتھ جو خیر جاری قرار دی جاسکتی ہے وہ یہی دعا کی خیر جاری ہے۔ جب کہ خیر کا نفع کثرت سے ہے تو اس آیت کا فائدہ ہم سب سے زیادہ دعا کے ساتھ اُٹھاسکتے ہیں اور یہ با لکل سچی بات ہے کہ جو دنیا میں خیر کا موجب ہوتا ہے اس کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو شر کا موجب ہوتا ہے وہ جلدی اُٹھا لیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں شیر سنگھ چڑیوں کو زندہ پکڑ کر آگ پر رکھا کرتا تھا۔ وہ دو برس کے اندر ہی مارا گیا۔پس انسان کو لازم ہے کہ وہ خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ بننے کے واسطے سو چتا رہے اور مطالعہ کرتا رہے۔ جیسے طبابت میں حیلہ کام آتا ہے۔ اس طرح نفع رسانی اور خیر میں بھی حیلہ ہی کام دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اس تاک اور فکر میں لگا رہے کہ کس راہ سے دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 353)
دلوں کی حالت پاکیزہ بناؤ
حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد
حضور انور نے فرمایا کہ پاکیزگی صرف ظاہری عبادتوں سے نہیں ہے بلکہ دلوں کی حالت پاکیزہ بنانے سے ہے اور دلوں کی پاکیزگی عبادتوں کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق ادا کرنے سے بھی ہوتی ہے۔ پس امراء کا غریبوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے ان کیلئے مالی قربانیاں دینا انہیں پاک کرنے کا باعث بنتا ہے۔
(روزنامہ الفضل 29 جنوری 2008)
(مولانا عطاءالمجیب راشد۔امام مسجد فضل لندن)